میں اس گئے دَور میں بھی اک با کمال انساں کو دیکھتا ہوں
ذرا نظر سے کہو کہ ٹھہرے ظفر علی خاں کو دیکھتا ہوں
ظفر علی خاں ہماری تحریک حریت کا نشان آخر
فرنگیوں کا حریف اوّل۔ مجاہدوں کی سنان آخر
یہ ماجرائے جہاد ملّی کہ حرف تمّت کا منتظر ہے
یہ ایک سمٹا ہوا اُجالا ہے اور رحلت کا منتظر ہے
شورش کاشمیری نے یہ خراج تحسین بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان کی زندگی کے آخری ایّام میںپیش کیا تھا۔ یہ تحریک آزادی کے ایک نوجوان مجاہد کا تحریک حریّت کے ایک بزرگ مجاہد کے حضور نذرانۂ عقیدت تھا۔ اُردو کے ایک تازہ دم شاعر صحافی، ایڈیٹر اور خطیب کا ایک معمر شاعر، صحافی، ایڈیٹر اور خطیب بے بدل کو اظہار خلوص۔ ان چند اشعار میں مولانا ظفر علی خان کی پوری جدو جہد شعلہ بیانی۔ عملی جہاد کا احاطہ ہورہا ہے۔
شورش تو ‘اس عہد کو گئے دور‘ کہہ کر افسوس کررہے ہیں۔ اب تو بہت ہی گیا گزرا دَور ہے۔
آج جب ایک طرف میڈیا کو نئے ٹیکنیکل آفاق میسر آرہے ہیں۔ دوسری طرف نئی پابندیوں کے لیے قوانین وضع کیے جارہے ہیں۔ جب مادر پدر آزادی کے مظاہرے بھی ہورہے ہیں۔ جعلی خبریں، جعلی آڈیوز، جعلی وڈیوز بھی پھیلائی جارہی ہیں تو مجھے اُردو صحافت کے سنہری ایّام یاد آرہے ہیں۔ مولانا محمد علی جوہر، مولانا ابوالکلام آزاد، پھر مولانا ظفر علی خان، مولانا حسرت موہانی، حمید نظامی، میر خلیل الرحمٰن، شورش کاشمیری، عثمان فارقلیط، مرتضیٰ میکش، وقار انبالوی، نعیم صدیقی، فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، مولانا چراغ حسن حسرت، مولانا غلام رسول مہر، ابراہیم جلیس، سردار علی صابری۔ کیا دن تھے کہ اخبارات قوم کی رہنمائی کیا کرتے تھے اور رہنمائوں کو بھی راہ دکھاتے تھے۔ بڑے بڑے قائدین بھی صبح ناشتے پر اخبار کے منتظر رہتے تھے۔ اپنی صبح کا آغاز وہ اخباروں کے اداریے پڑھ کر کرتے تھے۔حرف مطبوعہ کو اہمیت دی جاتی ہے۔ اداریے اپنی جگہ، چھوٹے چھوٹے شذروں پر بھی کارروائیاں ہوتی تھیں۔دو روز بعد مولانا ظفر علی خان کی برسی ہے۔ وہ 27نومبر 1956 کو اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ ایک عہد آنکھوں کے سامنے گزر رہا ہے۔ ہم راجپورے سے ہجرت کرکے ہیر سیال کے شہر جھنگ میں تھے۔ والد محترم حکیم صوفی شیر محمد کا ربط شعر و ادب سے بھی تھا اور سیاست سے بھی۔ گھر پر روزنامہ زمیندار، روزنامہ آزاد، روزنامہ امروز لاہور سے دوپہر کے وقت پہنچتے تھے۔ دہلی سے روزنامہ الجمعیت ڈاک سے آتا تھا۔ ہفت روزہ چٹان، ہفت روزہ خدام الدین بھی باقاعدگی سے ملتے تھے۔ قیام پاکستان سے پہلے کے اخبارات کی باتیں تو ابّا جی کرتے تھے۔ ان میں لاہور سے روزنامہ ’ پرتاپ‘ میں مہاشے جی اور زمیندار میں مولانا ظفر علی خان کے نثری اور شعری مجادلے ان دنوں کی خاص بات تھی۔ دہلی میں ’پرتاپ‘ کے دفتر جانا ہوا تو مہاشے جی کے پوتے انیل نریندرا سے ملاقات ہوئی۔ اب پرتاپ وہ نکال رہے ہیں۔اس اخبار کو اب 102 سال ہورہے ہیں۔ باقاعدگی سے شائع ہورہا ہے۔ لاہور کے ان اخباری معرکوں کی یادیں تازہ ہوئیں۔
آزادی کی جنگ اور تحریک پاکستان۔ سڑکوں جلسہ گاہوں کے ساتھ اخبارات کے صفحات پر بھی لڑی گئی تھی۔ زمیندار کے صفحۂ اوّل پر مولانا ظفر علی خان کی نظمیں شائع ہوکر تحریک پاکستان کے متوالوں میں ایک نئی روح پھونک دیتی تھیں۔ اُردو صحافت کا یہ وہ دَور ہے جب شعر و ادب سے تعلق رکھنے والے، حرف کی حرمت سے با خبر اہل قلم اخبارات سے وابستہ ہوتے تھے۔ زبان کو فروغ ملتا تھا۔ مولانا ظفر علی خان کی یہ تازہ ترین نظم آج کی Exclusive Story سے زیادہ مقبول ہوتی تھی۔ قائد اعظم نے 1936 میں ارشاد فرمایا تھا کہ مجھے ظفر علی خان جیسے ہونہار لوگ مل جائیں تو مسلمانوں کو دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔یہ وہ دَور ہے جب اخبار کے مدیر صرف اخبار کی تدوین، ترتیب، تزئین تک محدود نہیں رہتے تھے۔ تحریک آزادی میں اور دوسری تحریکوں میں عملاً حصّہ بھی لیتے تھے اور شام کو ان ساری سرگرمیوں کو اخبار کے صفحات پر بکھیر دیتے تھے۔ ایک طرف ہندوستان کی انگریزوں سے آزادی کی تحریکیں چل رہی تھیں۔ دوسری طرف عالمی نقشے پر نئے ملک ابھر رہے تھے۔ سامراج کو جگہ جگہ چیلنج کیا جارہا تھا۔ کمیونسٹ تحریک بھی اپنے قدم جمارہی تھی۔ زمیندار نے اس زمانے میں نہ صرف ہندوستان بھر میںنمائندے مقرر کیے تھے۔ دوسرے ملکوں سے بھی حقائق کی ترسیل کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ جنگ طرابلس خاص طور پر ہندوستان کے مسلمانوں میں تشویش کا باعث رہی۔ تاریخ گواہی دیتی ہے کہ جنگ طرابلس کی خبروں نے روزنامہ زمیندار کو بہت مقبول کیا۔
اس زمانے کے انگریز سامراج کے قانون کے مطابق ریاست کے خلاف خبروں کی اشاعت پر زر ضمانت ضبط کرنے کے احکامات جاری ہوتے تھے۔ زمیندار میں اس کا اعلان ہوتا تو بہت سے عقیدت مند نقد رقم لے کر زمیندار کے دفتر پہنچ جاتے کہ رقم جمع کروادیں۔ اخبار کی اشاعت میں تعطل نہیں ہونا چاہئے۔ 10 دسمبر 1930 کو زمیندار کے شہید نمبر، اسلام نمبر اور کشمیر نمبر کی ضبطی پر ان کی نظم کے کچھ اشعار ملاحظہ کریں۔
دل ضبط جگر ضبط زباں ضبط فغاں ضبط
سب ساز عیاں ضبط ہے سب سوز نہاں ضبط
روکیں گے وہ کیوں کر مرے مضموں کی روانی
تنکے سے بھی ہوتا ہے کہیں سیل رواں ضبط
وہ ضبط کریں میری دوات اور قلم تو
ہوجائیں گے خود ان کے تفنگ اور سناں ضبط
آج کے صحافیوں، شاعروں اور سیاسی کارکنوں کو اپنے قلم اور زبان کو رواں رکھنے، اظہار کے نئے نئے انداز جاننے کے لیے مولانا ظفر علی خان کی شاعری، نثر، مضامین پڑھنے کی زحمت کرنی چاہئے کہ ان میں تحریک آزادی، تحریک پاکستان، انگریز سامراج کی مزاحمت کے انتہائی مشکل مراحل کی تفصیلات سے بھی آشنائی ہوگی۔ اُردو اخبارات کس طرح تنوع اور تزئین کی طرف گئے۔ پہلے صرف مضمون کا غلبہ رہتا تھا۔ پھر شہ سرخیاں اور دوسری سرخیاں کیسے وجود میں آئیں۔ لاہور میں قائم مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ نے اس دَور کے بکھرے ہوئے موتیوں کو یکجا کرنے کی کوششیں شروع کی ہوئی ہیں۔ زمیندار کی گم شدہ فائلیں بھی تلاش کی جارہی ہیں۔ ان کی نایاب اور کم یاب شعری نثری تخلیقات کو دوبارہ شائع کیا جارہا ہے۔ آج کے مختلف حساس اور اہم موضوعات پر لیکچروں کا اہتمام بھی کیا جارہا ہے۔
آج کے دَور میں جب بے سمتی عروج پر ہے۔ خیالات میں افراتفری برپا ہے۔ ایسے میں ان ہستیوں کی یاد ان کے افکار سے اکتساب فیض معاشرے کو ایک سمت دے سکتا ہے۔ مولانا ظفر علی خان سچے عاشق رسولؐ تھے۔ ان کی نعت تو ہم نے اسکول کے نصاب میں پڑھی جو اب تک ذہن میں محفوظ ہے۔
وہ شمع اُجالا جس نے کیا چالیس برس تک غاروں میں
اک روز جھلکنے والی تھی سب دنیا کے درباروں میں