انگریزی میں جس علم کو سوشیالوجی (sociology) کہا جاتا ہے اسے اردو میں سماجیات بھی کہتے ہیں اور اس کا ایک نام اردو میں عُمرانیات بھی ہے۔ لیکن اکثر لوگوں کو اس کا تلفظ عِمرانیات کرتے سنا ہے یعنی وہ عین (ع) کے نیچے زیر بولتے ہیں ۔ یہ صحیح نہیں ہے۔ اس کا درست تلفظ عین (ع) پر پیش کے ساتھ یعنی عُمرانیات ہے۔ دراصل عربی میں عُمران (عین پر پیش )کے معنی ہیں آبادی ۔ اسی لیے عُمران سے عُمرانی( یعنی سماجی) اور عُمرانیات (یعنی سماجیات )کے لفظ بنے ہیں۔ شان الحق حقی صاحب نے بھی فرہنگِ تلفظ میں اس کا تلفظ عین پر پیش کے ساتھ عُمرانیات لکھا ہے۔
٭رَئو ُ سا ء نہیں رُؤَساء
رئوسا ء جمع ہے رئیس کی ۔فرہنگ ِ عامرہ (مرتّبہ محمد عبداللہ خان خویشگی )کے مطابق عربی میں رئیس کے معنی ہیں حاکم، سردار نیز مال دار کو بھی کہتے ہیں۔لیکن اردو والے اس کا تلفظ عام طور پر’’ رَئو ُ سا ء‘‘ یعنی رے (ر) پر زبر اور ہمزہ پر پیش کے ساتھ کرتے ہیں لیکن یہ لفظ فُعَلاء کے وزن پر ہے اور اس وزن پر جتنے بھی عربی الفاظ ہیں ان کا تلفظ بھی اسی طرح ہوگا ، مثلاً فُقَرا،اُمَرا ، وُزَرا، عُلما،اُدَبا، شُعَرا، وُکَلا وغیرہ جن میں پہلے حرف پر پیش اور دوسرے پر زبر ہے ۔
یعنی رُؤَسا میں پہلے حرف(رے) پرپیش ہوگا اور ہمزہ پر زبر پڑھا جائے گا ۔ اس طرح اس کا درست تلفظ رُؤَ سا ہوگا۔ اس کے آخر میں عربی میں تو ہمزہ لازمی ہے کیونکہ یہ فعلاء کے وزن پر ہے جس کے آخر میں ہمزہ ہے ۔ البتہ اردو والے اب اس وزن پر بنائے گئے الفاظ (مثلاً وزرا، فقرا، امرا، وکلا، شعرا، ادبا، وغیرہ) کے آخر میں ہمزہ نہ بولتے ہیں نہ لکھتے ہیں۔
٭ جل تھل ایک ہونا
جل تھل ایک ہونا کو بعض لوگ جل تھل ہونا کہتے ہیں، یعنی اس میں’’ ایک‘‘ کا لفظ نہیں بولتے۔ خاص طور پر ٹی وی والے بارش کی خبر دیتے ہوئے کہتے ہیں جل تھل ہوگیا یا جل تھل ہوگئی۔ یہ درست نہیں ہے، اس میں’’ ایک‘‘ کہنا ضروری ہے، یعنی صحیح محاورہ ’’جل تھل ایک ہونا‘‘ ہے۔ اس محاورے میں ’’جل‘‘ جلنا (یعنی آگ لگنا) والا جل نہیں ہے بلکہ یہاں ’’جَل ‘‘(جیم پر زبر) کا مطلب ہے پانی۔ اس کی ضد ہے ’’تَھل‘‘(تھ پر زبر) ۔ اور تھل کے معنی ہیں خشکی، چٹیل میدان۔ جل تھل ایک ہونا کا مطلب ہے کہ اتنی زیادہ بارش ہوئی کہ پانی اور خشکی ایک ہوگئے، یعنی ہر طرف پانی ہی پانی ہوگیا، خشکی کی جگہ بھی پانی ہوگیا۔
جل تھل ایک ہونا میں جو’’ جل‘‘ یعنی پانی ہے وہ اردو کے بعض دوسرے مرکبا ت میں بطور سابقہ استعمال ہوتا ہے ، مثلاً جل پری یعنی پانی کی پری، یہ ایک مفروضہ مخلوق ہے جس کا آدھا دھڑ مچھلی کا اور آدھا عورت کا ہوتا ہے ( لیکن یہ سب قصے کہانیوں کی باتیں ہیں)۔ اسی طرح جل ترنگ میں بھی جل کا لفظ پانی کے معنوں میں ہے ۔ دراصل پہلے موسیقی کے لیے دھاتی پیالیوں میں پانی بھر کر اس کے کنارے چھوٹی ڈنڈیوں سے بجاتے تھے جس سے ترنگ (یعنی آواز یا تان ) پیدا ہوتی تھی (ویسے ترنگ کیف و سرور اورخوشی کی لہر یا جذبے کو بھی کہتے ہیں)۔ اسی طرح ایک کیڑا جو پانی پر دوڑتا ہے جل بھونرا کہلاتاہے۔مرغابی کو جل ککڑ بھی کہتے ہیں۔پانی کے کوّے کو جل کاگ کہتے ہیں۔پانی کی بِلّی کو جل بِلائو بھی کہا جاتا ہے۔ ان سب مرکبات میں جل دراصل پانی کے معنی میں ہے۔
تو درست محاورہ ہے: جل تھل ایک ہونا یا ہوجانا۔
معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے
ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر
روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی