• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گھر والوں، دوستوں یا رشتے داروں سے بے تکلفی میں کی جانے والی غیر منظم گفتگو میں جہاں وقت گزرنے کا پتہ نہیں چلتا وہاں یہ خوشی اور جذباتی لگاؤ کا باعث بھی بنتی ہے۔ گپ شپ کرنے سے ایک سماجی تعلق قائم ہوتا ہے، جس کے ذریعے لوگ ایک دوسرے کی مدد بھی کرتے ہیں۔ گپ شپ کے دوران ماضی، حال یا مستقبل کے حوالے سے باتیں ہوتی ہیں۔ 

مثلاً ماضی کی مشترکہ یادیں، کوئی واقعہ ، حال میں رونما ہونے والے واقعات، حالات حاضرہ یا مستقبل کے حوالے سے گفت و شنید وغیرہ۔ گپ شپ عموماً ان لوگوں سے ہی کی جاتی ہے جن سے آپ کا دل و دماغ ملتا ہو۔ اگر آپ کسی سے بات کرنے میں آرام دہ محسوس نہیں کرتے تو لاکھ کوشش کے باوجود بھی آپ اُس سے کسی بھی موضوع پر گپ شپ نہیں کرپائیں گے۔

ایک میگزین ’’سوشل سائیکلوجیکل اینڈ پرسنالٹی سائنس ‘‘ میں شائع شدہ ایک مطالعے سے یہ بات سامنے آئی کہ ایک عام انسان 24 گھنٹے میں 52منٹ گپ شپ کرتا ہے۔ ان میں یہ باتیں نہیں ہوتیں کہ ،’’ کیا تم نے سنا؟ یا پھر پتہ ہے میرے ساتھ پچھلے ہفتے کیا ہوا؟ ‘‘ بلکہ ان کی گفتگو کا محور ان کے قریب یا ارد گرد رہنے والے دوسرے لوگ اور ان سے متعلق باتیں ہوتی ہیں۔ جن لوگوں کے متعلق وہ گپ شپ کرتے ہیں عموماً وہ افراد وہاں موجود نہیں ہوتے۔ 

جیسے آپ یہ گپ شپ کرسکتے ہیں کہ آئندہ ہفتے آپ کے کزن کی شادی ہے تو خاندان میں کیا کیا ہلّا گلّا ہوسکتا ہے؟ کون کون اور کہاں کہاں سے مہمان شادی میں شرکت کیلئے آرہے ہیں؟ کون کیا پہنے گا؟ آپ نے کیا تیاریاں کر رکھی ہیں؟ وغیرہ وغیرہ یا پھر آ پ کے دوست نے نئی ملازمت شرو ع کی ہےتو پچھلی ملازمت میں کیا مسئلے مسائل درپیش تھے؟ یا نئی ملازمت میں اس کو کیا کیا چیلنجز درپیش ہیں یا وہ کونسے نئے مسائل کا سامنا کررہا ہے؟ یا آپ کا بچہ اسکول میں کیسی کارکردگی کا مظاہرہ کررہا ہے یا اس نے ٹیبلو میں کیسا پرفارم کیا وغیرہ وغیرہ ۔

اس نئی اسٹڈی کے مطابق آپ ایک دن میں درج بالا بیان کردہ نوعیت کی جو 52منٹ کی گپ شپ کرتے ہیں ، وہ نقصان دہ نہیں ہوتی، تاہم بعض اوقات بورنگ ہوسکتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آخر ہم ایک گھنٹہ بلا وجہ کی گپ شپ کو کیوں دیتے ہیں؟ اس کا جوا ب ڈیوک یونیورسٹی کے نفسیات اور نیورو سائنس کے پی ایچ ڈی پروفیسرمارک لیری یوں دیتے ہیں، ’’گپ شپ کرنا انسان کی بنیادی جبلتوں میں سے ایک ہے،کیونکہ ہماری زندگیاں گروہوں میں بٹی ہوئی ہیں۔ 

ہم نہ صرف گروپ میں رہتے ہیں بلکہ ہم زندہ رہنے کے لیے اپنے گروپ پر انحصار بھی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جس قد ر ممکن ہو ہم لوگوں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں، اور یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ دوسرے لوگ کیا کررہے ہیں، کون کس سے دوستی کررہا ہے، کسی چیز کے بارے میں دوسرے لوگوں کے خیالات کیا ہیں ، کون قوانین کی دھجیاں اڑا رہاہے ، وغیرہ وغیرہ۔ گپ شپ اگر مثبت ہو اور اس کا مقصد کسی کی ٹوہ لینا یا منفی باتیں کرنا نہ ہو تو اس کے درج ذیل فائدے حاصل ہوسکتے ہیں۔

اسٹریس میں کمی

اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے ایک مطالعے کے مطابق، گپ شپ سے انزائٹی اور اسٹریس میں کمی آتی ہے۔ ایک تحقیق سے ریسرچرز نے پتہ چلا یا کہ وہ شرکاء جو بہت زیادہ اسٹریس میں مبتلا تھے، ان کے دل کی دھڑکن میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ جب انہیں کھل کر گپ شپ کرنے کو کہا گیا تو ان کے اسٹریس میں کمی آئی اور دل کی حالت بہتر ہو تی چلی گئی۔

تعاون میں بہتری

اسٹینفورڈ یونیورسٹی میں کی گئی ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ جب ایک گروپ کے لوگ دوسرے گروپ کے لوگوں سے سیکھتے ہیں تو وہ ان معلومات کو دوسرے لوگوں کے ساتھ اشتراک یا تعاون بہتر کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ وہ لوگ جو دوسروں سے بات نہیں کرتے اور اپنے کام میں  مصروف رہتے ہیں، انہیں گروپ والے بھی تنہائی کا شکار رہنے دیتے ہیں، اس طرح ایسے شخص کی دوسروں کے بارے میں معلومات ادھوری رہ جاتی ہیں اور اس کی ترقی کے امکانات محدود ہونے لگتے ہیں۔ گروپ جب مل کر معلومات بانٹ کر کا م کرتاہےتو بہتر نتائج حاصل ہوتے ہیں۔

ذاتی شخصیت میں بہتری

تمام گپ شپ منفی نہیں ہوتی اور نہ ہی ان کو ہمیشہ منفی ہونا چاہیے۔ ہالینڈ میں موجود یونیورسٹی گرونینگن میں کی گئی ایک تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ دوسروں کے بارے میں اچھی کہانیاں سننے سے آپ کو ترغیب ملتی ہے اور آپ اپنی شخصیت کو اسی کے مطابق بہتر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر آپ کسی کے بارے میں کوئی منفی بات یا منفی کہانی سنتے ہیں تو کوشش کریں گے ویسا نہ کریں،جیسا اس شخص نے کیا تھا۔ 

ایک اور تحقیق کے مطابق جب بھی گپ شپ ہورہی ہو تو لوگ لاشعور ی طور پر اس میں کوئی چٹپٹی یا منفی بات یا برے تجربات کو سننے کے متلاشی ہوتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ آئندہ ہونے والی گپ شپ میں ایسا کچھ نہ کہیں یا نہ کریں ،جیسا کہ کسی کے ساتھ ہوچکا ہے۔

تازہ ترین