• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سانحہ مری، ایسی انکوائری کمیٹی بنائی جسے قانونی پشت پناہی نہیں

اسلام آباد (انصار عباسی) سانحۂ مری کی تحقیقات کیلئے پنجاب ٹریبونل آف انکوائریز کے تحت کوئی کمیشن قائم کرنے کی بجائے صوبائی حکومت نے انتظامی کمیٹی تشکیل دی ہے جسے کوئی قانونی سہارا حاصل نہیں اور یہ صرف فیکٹ فائنڈنگ (حقائق تلاش کرنے والی) کمیٹی ہے۔ 

سرکاری ذرائع کو صوبائی حکومت کی جانب سے انکوائری کمیٹی یا کمیشن بنانے کی بجائے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنانے کے اس فیصلے میں سنگین خامی نظر آ رہی ہے۔ 

بتایا گیا ہے کہ چونکہ انکوائری کمیٹی پنجاب ٹریبونل آف انکوائری کے قانون کی بجائے انتظامی آرڈر کے تحت تشکیل دی گئی ہے لہٰذا اس کی قانونی حیثیت نہیں ہوگی اور قانوناً اس کے پاس شواہد اکٹھا کرنے، گواہوں کو طلب کرنے، ریکارڈ کا جائزہ لینے وغیرہ کا اختیار نہیں ہوگا۔ 

کمیٹی کے شرائطِ کار میں اسے وفاقی حکام کے ساتھ رابطوں کی اجازت تو دی گئی ہے لیکن یہ واضح نہیں کیا گیا کہ قانونی جواز کے بغیر صوبائی حکام کس طرح وفاقی حکام کو طلب کر پائیں گے۔ 

خدشہ ہے کہ ایسی انکوائری کمیٹی کو چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ تاہم، پنجاب حکومت کے ایک سینئر ذریعے نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ یہ بنیادی طور پر ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی ہے جو مری کے سانحے کے حوالے سے اپنی ابتدائی رپورٹ پیش کرے گی جس کی بنیاد پر حکومت ڈسپلن اور ایفیشنی رولز کے تحت کارروائی کا آغاز کرے گی۔ 

ترجمان نے مزید کہا کہ کمیٹی کی جانب سے جن افراد کو قصور وار قرار دیا جائے گا ان کیخلاف مقدمہ درج کیا جائے گا۔ تاہم، حکومت میں اہم ترین عہدوں پر کام کا تجربہ رکھنے والے ایک سینئر ذریعے نے بتایا کہ چونکہ 22؍ اموات ہوئی ہیں اسلئے حکومت کو پنجاب ٹریبونل آف انکوائریز کے تحت ایک کمیشن تشکیل دینا چاہئے تھا۔

قانوناً تشکیل دیا جانے والا یہ کمیشن عموماً اس وقت قائم کیا جاتا ہے جب انسانی جانوں یا جائیداد املاک کا کوئی بڑا نقصان ہوا ہو جس کی تحقیقات مقصود ہوں۔ کہا جاتا ہے کہ انتظامی کمیٹی کو قانونی حمایت حاصل نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو طلب کرکے گواہوں کو بیان ریکارڈ کر سکے۔ 

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس قانون کے تحت یہ کمیٹی لوگوں کو طلب کرکے اُن سے بیان حاصل کرے گی؟ 

اگر کمیٹی کے روبرو کسی نے جھوٹ بولا تو کیا ہوگا؟ کیا ہوگا کہ جب کوئی شخص کوئی ریکارڈ پیش کرنے سے انکار کر دے یا شواہد پیش کرنے سے انکار کر دے یا کمیٹی کے روبرو پیش ہونے سے انکار کر دے؟

کہا جاتا ہے کہ سرکاری ادارے کے ہر کام کو قانون کی پشت پناہی حاصل ہونا چاہئے۔ ذریعے نے سوال کیا کہ جس کمیٹی کے قیام کا اعلان پنجاب حکومت نے کیا ہے اس کی قانونی حیثیت کیا ہے؟ 

انہوں نے مزید کہا کہ شہریوں کی زندگی اور املاک سے متعلق معاملات کو ایسے ڈیل نہیں کیا جا سکتا۔ جب اس طرح سے جانی نقصان ہوتا ہے اور بد انتظامی یا غفلت کے الزامات سامنے آتے ہیں تو باقاعدہ قانون کے تحت انکوائری کرانا قانونی ذمہ داری ہے۔ 

ذریعے نے واضح کیا کہ حکومت کے پاس قانونی آپشنز دستیاب ہیں لیکن اس کے باوجود اس نے انتظامی انکوائری کرانے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ دستیاب آپشنز میں ۱) پنجاب ٹریبونل آف انکوائریز آرڈیننس 1969ء کے تحت باقاعدہ ٹریبونل آف انکوائری تشکیل دینا ۔ 

یہ ٹریبونل انتظامی افسران یا سیشن جج یا پھر ہائی کورٹ کے جج پر مشتمل ہو سکتا ہے، ۲) پنجاب محتسب کے تحت انکوائری کرانا کیونکہ یہ مبینہ طور پر بد انتظامی کا معاملہ ہے، ۳) چونکہ اس معاملے میں اموات ہوئی ہیں اسلئے سی آر پی سی کے تحت انکوائری کرانا بھی قانونی ذمہ داری ہے جو پوری نہیں کی گئی اور یہ اقدام جوڈیشل میجسٹریٹ کے ذریعے ہونا چاہئے۔ 

ذریعے نے افسوس کا اظہار کیا کہ محض انتظامی آرڈر جاری کیا گیا ہے جیسے یہ کسی گمشدہ فائل کا معاملہ ہو۔ سانحہ مری ایک سنجیدہ معاملہ ہے جس کیلئے ضروری ہے کہ اعلیٰ سطح کی تحقیقات کرائی جائے جو لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی اور مری کے سرکاری عہدیداروں کے کردار کی تحقیقات کرے، شرائطِ کار اس انداز سے مرتب کیے گئے ہیں جن میں صرف راولپنڈی انتظامیہ اور پولیس کے کردار پر توجہ مرکوز رکھی گئی ہے۔

کمیٹی کے پاس یہ مینڈیٹ نہیں کہ وہ گورننس کے معاملات پر بحث کر سکے جو لاہور سے جڑے ہیں یا پھر موجودہ وزیراعلیٰ آفس کے کام کاج کا سابقہ وزیراعلیٰ آفس کے کام کاج سے تقابل کرکے دیکھ سکے کہ پہلے کس پرسکون انداز سے موسم سرما میں مری میں حکام مستعدی کے ساتھ کام کرتے تھے۔ 

شرائط کار میں یہ بات بھی شامل نہیں کہ مری میں انتظامیہ کو فنڈنگ کے کیا مسائل درپیش ہیں یا انتظامی سطح پر مسلسل کون سی تبدیلیاں کی جاتی رہی ہیں یا اور ان کے ممکنہ اثرات کیا ہیں جن کی وجہ سے گورننس کو سنگین دھچکا لگا ہے۔

اہم خبریں سے مزید