یہ سڑکیں یہ گلی کوچے یہ عمارات
زندہ و تابندہ تھے
انگریزوں کے سہارے
صادقین کے ہاتھوں رنگین چھت
ماند پڑ گئی ہے فیریر ہال کی
نیپئر روڈ کے شوروغل میں
بلبل ہزار داستان خموش ہے
منقش بالکونی سے کوئی جھانک کے دیکھتا بھی نہیں
گھنگھرو بجتے ہیں نہ طبلے کی تھاپ پڑتی ہے
دیارام جیٹھامل کے خوابوں پر
قبضے جم گئے ہیں
ڈنشا جی کے بت کو کباڑی لے گئے
گھوڑوں کو پانی پلانے والے تلاؤ
خشک رہ گئے
اب یہاں کوئی
جام جمشید نسروانجی نہیں
سینما ریستوران بار ہے نہ نائٹ کلب
شہر کا کوئی دوست یار سانجھی نہیں
زرد عمارات کی بھاشا کوئی سمجھتا نہیں
طیب بھائی کھانڈ والی بلڈنگ میں
ایک پھیکی سی شام رہتی ہے
اپنے ماضی کا نوحہ کہتی ہے
ایک دھڑکتی زندگی تھی جو گزر گئ
مائی کولاچی تیری مانگ اجڑ گئی