ایک صاحب نے بڑھاپے میں کھلاڑی بننے کے شوق میں سخت ورزش شروع کردی۔ ایک دوست کہنے لگے کہ ان صاحب کو اس عمر میں یہ کیا شوق ’’چُرایا ‘‘ہے؟ہم نے عرض کی کہ یہاں ’’چُرایا ‘‘کا نہیں ’’چَرّایا ‘‘کا محل ہے۔
چُرانا (یعنی چے پر پیش کے ساتھ)تو چوری کرنا کے معنوں میں ہے لیکن چَرّانا (یعنی چے پر زبر اور رے پر تشدید) کا مطلب ہے زخم کے خشک ہونے کے بعد اس میں ہلکی ہلکی چبھن یا خارش ہونا، زخم کی سوکھی ہوئی کھال یا کھرنڈ کا تڑخنا یا پھٹنا۔ عام طور پر زخم پر کھرنڈ جم جائے تو کھجانے کو بہت دل چاہتا ہے ۔ اسی سے چَرّانا کا لفظ مجازی معنوں میں آگیا اور اسے خواہش اٹھنا یا دل چاہنا کے معنوں میں استعمال کیا جانے لگا۔
اردو میں’’ شوق چَرّانا ‘‘محاورہ ہے یعنی اچانک دل میں کوئی ولولہ اٹھنا (جیسے کھجلی اٹھتی ہے)، دل و دماغ پر کسی خیال کا چھاجانا،خواہ مخواہ کوئی کام کرنے کا دل میں جذبہ پیدا ہونا۔ایک اور لفظ بھی ان معنوں میں آتا ہے اور وہ ہے چَرپَرانا(چے پر زبر، پے پر زبر)، لفظی معنی ہیں: مرچیں لگنا، جلن محسوس کرنا ، تیزی محسوس کرنا ، زخم کا خشک ہوکر تڑخنااورمرادی معنی ہیں کسی بات کا اشتیاق پیدا ہونا ۔
ایک اور لفظ چَرانا ہے( یعنی چے پر زبر کے ساتھ لیکن رے پر تشدید کے بغیر) ۔ اس کا مطلب ہے جانور کو گھاس کھلانا۔ تو یاد رکھیے کہ چَرانا، چُرانا اور چَرّانا تینوں الگ الگ مفہوم کے حامل ہیں۔ گویا یوں کہنا چاہیے کہ فلاں صاحب کو اس عمر میں کیا شوق چَرّایا ہے ؟ اردو لغت بورڈ کی لغت اورفرہنگ ِ تلفظ سے ان معنوں کی تصدیق ہوتی ہے۔
٭…مُسَوَّدَہ اور مُبَیَّضَہ
مسودہ عربی لفظ ہے۔اردو میں بھی مستعمل ہے اور کسی کتاب یا مضمون وغیرہ کی لکھی ہوئی صورت کومُسَوَّدَہ (میم پر پیش، سین پر زبر، واو پر زبر تشدید کے ساتھ اور دال پر بھی زبر)کہتے ہیں، مثلاً میری کتاب کا مسودہ ، رسالے کے مضامین کے مسودے ۔ کسی غیر مطبوعہ تحریر کو بھی مسودہ کہتے ہیں۔ لیکن یہ نام کیسے پڑا ؟
عربی میں ایک لفظ ہے اَسوَد(الف پر زبر ،سین ساکن اورواو پر زبریعنی اَس ، وَد)۔ اس کا مطلب ہے کالا، سیاہ۔اسٹین گاس کے مطابق اسود کے ایک معنی زیادہ کالا یا سب سے کالا بھی ہیں۔حجر ِ اسود کا مطلب ہے کالا پتھراور یہ وہ سیاہ پتھر ہے جو خانہ ٔکعبہ کی دیوار میں نصب ہے۔
اسود کا مادہ عربی میں س۔و۔د ہے۔اسی سے ’’مُسَوَّد‘‘ کا لفظ بنا ہے اور مسود کے معنی ہیں کالا کیا گیا ، سیاہ کیا گیا۔اس کی تانیث ہے مُسَوَّدہ‘‘(لیکن اردو میں لفظ مسودہ کے لیے مذکر کا صیغہ استعمال ہوتا ہے اور اردو میں اس کی جمع یعنی مسودات کا لفظ بھی مذکر کے طور پر آتا ہے )۔ چونکہ سیاہ روشنائی سے لکھنے سے کاغذ کالا ہوجاتا ہے شاید اس لیے اس کا نام مسودہ پڑ گیا ہوگا اور پھر یہ’’ لکھا ہوا‘‘ کے مفہوم میں آگیا اور پھر لکھی ہوئی صورت کو مسودہ کہنے لگے۔
اسٹین گاس کے مطابق مسودہ کا مطلب ہے جسے کالا کیا گیا ہو، کوئی کالی شے، کوئی لکھی ہوئی چیز، یادداشت کی کتاب۔کسی تحریر کی ابتدائی شکل جو صاف یا حتمی نہ ہو (جسے انگریزی میں رَف rough یا ڈرافٹ draft کہتے ہیں) اس کے لیے بھی مسودہ کا لفظ آتا ہے۔ اس کی ضد ہے مُبیَّضَہ (میم پر پیش، ی پر تشدید زبر کے ساتھ اور ضاد پر زبر)اور مبیضہ کے معنی ہیں صاف کی ہوئی تحریر، کسی عبارت یا مضمون یا کتاب وغیرہ کی حتمی یا آخری شکل۔
بعض لوگ اردو میں مسودہ کو ذرا مختلف تلفظ سے ادا کرتے ہیں اور وہ اسے مُ سَ و وَدَہ کی بجاے مَسوَدہ (مَس وَدَہ) بولتے ہیں۔کچھ عرصے قبل کراچی آرٹس کونسل کی عالمی اردو کانفرنس میں انتظار حسین صاحب کسی کام سے جانے لگے تو انھوں نے راقم کو کچھ دیر کے لیے اپنا بستہ تھما یا ۔ میں نے ازراہِ تفنن کہا انتظار صاحب اس میںآپ کے مسودے ہوں گے، اگر میں لے کر فرار ہوجائوں تو؟ انھوں نے اطمینان سے جواب دیا اس میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے جسے آپ لے کر فرار ہونا چاہیں۔
پروفیسر شمیم حنفی صاحب ساتھ ہی کھڑے تھے ، کہنے لگے آپ نے تو خیر اس کا تلفظ درست ادا کیا یعنی مُسوَّدہ لیکن ہندوستان میں اسے کئی لوگ اب مَسَودہ(واو ِ لین) بولنے لگے ہیں اور یہ خاصا عام ہوتا جارہا ہے۔ہم نے عرض کی کہ اب پاکستان میں بعض لوگ اسے مَس وَدہ بولنے لگے ہیںاور بعض لغات میں بھی یہ تلفظ لکھا ہے( حقی صاحب نے بھی فرہنگ ِ تلفظ میں اس کے دونوں تلفط درج کیے ہیں )۔ بہرحال مسودہ کے لفظی معنی ہیں کالا کیا گیا ،مراد ہے لکھا گیایا لکھا ہوا۔