• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مذاہب کے درمیان مکالمہ اور اُس کے اُصول و آداب

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

یہ ایک حقیقت ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے انسان کو ایک ایسی مخلوق بنایا ہے ، جس میں عقل و فہم کی غیر معمولی صلاحیت رکھی گئی ہے ،لیکن جیسے انسان کے ظاہری رنگ و روپ ، شکل و صورت اور آواز وغیرہ میں فرق رکھا گیا ہے ، اسی طرح اس کی سوچ اورمزاج و مذاق میں بھی فرق اور تنوع پایا جاتا ہے ، جس کا دن رات مشاہدہ ہوتا رہتا ہے ، اسی کا اثر ہے کہ کسی کو مثلاً سرخ رنگ پسند ہے اور کسی کو سیاہ ، کسی کو ایک پھل پسند ہے اور کسی کو دوسرا ، یہ اختلافِ رائے جس طرح مادی چیزوں میں ہے ، اسی طرح معنوی چیزوں میں بھی ہے ، اسی اختلاف فکر و نظر اورتنوع ذوق و مزاج کی وجہ سے دنیا میں ان گنت ادیان ومذاہب موجود ہیں اور جو گروہ جس دین کو قبول کرتا ہے ، وہ اسی پر پورا ایقان رکھتا ہے ، قرآن مجید چوںکہ خود خالق کائنات کی اُتاری ہوئی کتاب ہے ، اس لئے اس میں اس حقیقت کو تسلیم کیا گیا ہے کہ اگر اﷲ کو منظور ہوتا تو ساری انسانیت ایک ہی دین پر قائم ہوتی، یہ اختلاف ِدین اگرچہ اﷲ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق نہیں ہے، لیکن اس کے پیچھے بھی اﷲ ہی کی مشیت کار فرما ہے۔(سورۂ یونس: ۹۹، ہود: ۱۱۸، نحل:۹۳)

جب خود اﷲ تعالیٰ نے انسان کو راہِ ہدایت اختیار کرنے پر مجبور نہیں کیا ، اسے ارادہ واختیار کی قوت دی ہے اور اس کی سوچ میں اختلاف رکھا ہے تو اب نوع انسانی کو ہدایت کی طرف لانے کا طریقہ یہی ہے کہ قوموں کے درمیان تبادلۂ خیال ہو، اور باہمی مذاکرہ کا راستہ اختیار کیا جائے، جو خیر اُمت کے لئے شہادت حق کا ایک پُر امن راستہ ہے ، اس پس منظر میں مذہبی مذاکرات (مذاہب کے درمیان مکالمہ) کی بڑی اہمیت ہے ۔اس سلسلے میں سب سے قابل توجہ امر یہ ہے کہ بحیثیت مسلمان مذاکرات سے ہمارے مقاصد کیا ہونے چاہئیں ؟

(۱) مذاکرات کا پہلا مقصد نفرت اور عداوت کے جذبات کو ختم کرنا یا کم کرنا ہے ، بہتر گفتگو عام طورپر رائیگاں نہیں جاتی اور اگر مخاطب آپ کی بات کو پوری طرح قبول نہ کرے اوراس کی مخالفت بالکل ختم نہ ہوجائے تو کم ضرور ہوجاتی ہے :(ترجمہ)بھلائی اور برائی برابر نہیں ہو سکتی (اس لئے برائی کا) ایسے طریقے سے جواب دیجئے جو بہت اچھا ہو تو یکایک جس شخص کے اور تمہارے درمیان دشمنی تھی، وہ ایسا ہو جائے گا جیسے کوئی جگری دوست ۔ (سورۂ فصّلت : ۳۴ )

یہ آیت واضح کرتی ہے کہ دعوت کا جہاں یہ فائدہ ہے کہ مخاطب کو ہدایت نصیب ہوتی ہے ، وہیں اس کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ مخالفت کے جذبات ختم ہوجاتے یا کم ہوجاتے ہیں ، صحابہؓ نے جب رسول اﷲﷺ کی ایماء پر حبشہ ہجرت فرمائی اور ایسے حالات پیش آئے کہ صحابہ ؓکا نجاشی اور ان کے اعوان و انصار کے ساتھ مذاکرہ ہوا تو یہی گفتگو نجاشی کے اطمینان کا ، مسلمانوں کے ساتھ بہتر سلوک اور بالآخر ایمان لانے کا سبب بنا ۔ 

آپ ﷺنے جب مدینہ ہجرت فرمائی تو وہاں کے یہودیوں اور مشرکین کے ساتھ مذاکرہ فرمایا ، جس کے نتیجے میں’’ میثاقِ مدینہ‘‘ پر اہل مدینہ کے تمام فریقوں کے دستخط ہوئے اورمسلمانوں کو پُر امن زندگی گزارنے کا موقع ملا ، یہود اورمنافقین اگرچہ خفیہ طورپر سازشیں کرتے رہے ، لیکن غزوۂ احزاب تک انہوں نے کھل کر مسلمانوں کے خلاف محاذ آرائی نہیں کی ، اسی لئے رسول اﷲﷺ نے عرب میں موجود مشرک ، یہود اور عیسائی قبائل سے گفتگو کی ، اس گفتگو کے ذریعے صلح کا راستہ ہموار ہوا اور پُر امن ماحول میں اسلام کی دعوت کو فروغ دینے کا موقع ملا ۔

(۲) مذاکرات کا دوسرا مقصد مخاطب کی غلط فہمی کو دور کرنا ہے ، کیوںکہ اگر دل میں شکوک وشبہات کے کانٹے چبھ رہے ہوں ، دلوں میں غلط فہمیاں اور بدگمانیاں ہوں تو کیسے تعلقات خوش گوار ہو سکتے ہیں اور تعارف اسلام کے لئے میدان فراہم ہو سکتا ہے؟ انبیاءؑ کی اپنی اقوام سے جو گفتگو ہوتی رہی ہے ، اگر اس کا جائزہ لیا جائے تو بہت سی گفتگو کا مقصود مخاطب کی غلط فہمی کو دور کرنا ہوتا تھا ، انبیاءؑ مثبت انداز میں پورے تحمل اور بردباری کے ساتھ ان کا جواب دیتے اور ان کی غلطی کو دلائل سے واضح کرتے تھے۔

یہودی کہتے تھے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام یہودی تھے اور عیسائیوں کا دعویٰ تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام عیسائی تھے ، قرآن نے وضاحت کی کہ حضرت ابرہیم ؑنہ یہودی تھے ،نہ عیسائی، بلکہ وہ دین حنیف پر قائم تھے ، کیوںکہ یہودیت اور عیسائیت کا آغاز ہی حضرت ابراہیم ؑکی کئی نسلوں کے بعد ہوا ، عیسائی کہتے تھے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اﷲ کے بیٹے ہیں، کیوںکہ کسی باپ کے بغیر ان کی پیدائش ہوئی ہے ، قرآن نے حضرت آدم علیہ السلام کی مثال دی کہ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش تو ماں باپ دونوں کے بغیر ہوئی ، اگر یہ خدا کے بیٹے ہونے کی دلیل ہوتو انہیں بھی خدا کا بیٹا ماننا پڑے گا ۔ (سورۂ آل عمران: ۵۹)

عیسائی علماء نے رسول اﷲ ﷺ سے کہا کہ قرآن نے حضرت مریم ؑکا بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو قرار دیا ہے ، حالاںکہ حضرت ہارونؑ ان سے مدتوں پہلے پیدا ہوئے اور وہ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے رفیق تھے ، آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ دوسرے ہارون ہیں اور لوگوں میں یہ رواج تھا کہ وہ گزشتہ انبیاء ؑ کے نام پر اپنے بچوں کے نام رکھا کرتے تھے۔

(۳) مذاکرات کا سب سے بنیادی مقصداسلام کا تعارف اور اللہ کی طرف بلانا ہے ، اس اُمت کو اسی لئے خیر اُمت کا مقام دیا گیا ہے کہ وہ لوگوں کو معروف کی طرف بلاتی اور منکر سے روکتی ہے۔(سورۂ آل عمران:۱۱۰)’’ ناس ‘‘ کا لفظ قرآن مجید میں زیادہ تر مشرکین کے لئے استعمال ہوا ہے ۔

’’ معروف ‘‘ کا سب سے اعلیٰ درجہ ایمان ہے ۔’’ منکر ‘‘ میں سب سے سخت درجہ کفر و شرک ہے ۔اس طرح گویا اس آیت میں مسلمانوں کو غیر مسلموں پر دعوتِ ایمان پیش کرنے کی ترغیب دی گئی ہے ، اسی لئے اس آیت میں اہل کتاب کے ایمان لانے کی طرف خاص طورسے اشارہ کیا گیا ہے ، قرآن مجید میں انبیاء ؑکی اپنی قوم کے ساتھ مذاکرات کے جو واقعات آئے ہیں یا رسول اﷲ ﷺ کے اپنے مخاطبین کے ساتھ گفتگو کی جو تفصیل آئی ہے ، ان سب کی بنیاد دعوتِ ایمان ہے ، اس لئے مذاکرات کا بنیادی مقصد دعوت الیٰ اﷲ ہے، پس یوں تو مذاکرات کے بہت سے فوائد ہیں، لیکن یہ بنیادی مقاصد ہیں، جو نہایت اہم ہیں اور جن کو مذاکرات کے ذریعے بہتر طور پر حاصل کیا جا سکتا ہے۔

غرض کہ مذاکرات کا ایک فائدہ غلط فہمیوں کا ازالہ ہے اور اس کے لئے یہ بہت مؤثر ذریعہ ہے۔ بائبل میں بھی اور قرآن مجید میں بھی انبیاءؑ کے واقعات اور اپنی قوموں کے ساتھ تبادلۂ خیال کو دیکھا جائے تو وہ مذاکرات کے بہترین نمونے ہیں۔ رسولِ اقدس ﷺکے اپنی قوم سے خطاب اور سوال وجواب کے مضامین کو دیکھا جاسکتا ہے ، اسی طرح رسول اﷲ ﷺ کی طرف سے دعوت کی بہترین مثال اہل کتاب کو دی گئی ، دعوت ہے ۔ (سورۂ آل عمران : ۶۴-۶۸)

سلف صالحین نے بھی اپنے اپنے زمانے میں مختلف اہل مذہب سے مذاکرات کا سلسلہ قائم فرمایا اور کوئی شبہ نہیں کہ اس کے بہت اچھے اثرات مرتب ہوئے، ان واقعات کو اکثر مناظرہ کے عنوان سے مختلف کتابوں میں نقل کیا گیا ہے ، اسی میں وہ مشہور واقعہ ہے جس میں امام ابوحنیفہؒ نے ملحدین کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے وجود پر مباحثہ کیا تھا اور خلیفہ ہارون رشید نے اپنے ایک نصرانی طبیب سے مناظرہ کیا تھا ، یا خلیفہ مامون نے کلثوم بن عمر و عتابی اور ابن فروہ نصرانی کے درمیان مباحثہ کرایا تھا ۔مذاکرات کی کامیابی میں بڑا دخل مذاکرہ کرنے والے کے اخلاق اور طرز گفتگو کا ہوتا ہے ۔

۱- اس میں ایک بنیادی چیز وہ ہے جسے قرآن مجید نے ’’ قول حسن ‘‘ (بہتر بول) سے تعبیر کیا ہے ، چنانچہ ارشاد ہے :’’وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْناً‘‘ ۔ ( البقرۃ : ۸۳)حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کو جب اﷲ تعالیٰ نے فرعون کو دعوت دینے کے لئے بھیجا تو ہدایت دی گئی کہ فرعون سے نرم گفتگو کی جائے :(سورۂ طٰہ:۴۴)اُصولِ دعوت کے بارے میں بتاتے ہوئے اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :(اے رسولﷺ!) آپ اپنے پروردگار کے راستے کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ذریعے بلائیے، اور ان سے بہتر طریقے پر بحث کیجئے۔ (سورۃ النحل : ۱۲۵) ایک اور موقع پر کہا گیا کہ اہل کتاب کے ساتھ تمہاری گفتگو صرف اور صرف بہتر طریقے پر ہو : اہل کتاب سے ایسے طریقے سے بحث کیا کرو، جو سب سے بہتر ہو، ہاں اُن میں سے جو زیادتی کرے (تو ان کو اسی کے مطابق جواب دے سکتے ہو) (سورۃ العنکبوت : ۴۶)نرمی کا اظہار نہ صرف الفاظ سے ہو ، بلکہ آواز سے بھی ہوکہ تیز آواز میں مخالف سے بات نہ کی جائے :اللہ بری بات کے زور سے کہنے کو پسند نہیں فرماتا، سوائے اس شخص کے جس پر ظلم ہوا ہو۔ (سورۃ النساء : ۴۸)

۲- دوسرا ضروری وصف یہ ہے کہ فریق مخالف کے ساتھ عام سلوک کے اعتبار سے بھی خوش اخلاقی سے پیش آیا جائے ، رسول اللہ ﷺ کی سیرت اس سلسلے میں ہمارے لئے بہترین نمونہ ہے ، اسی لئے انبیاءؑ اپنے مخاطب کفار و مشرکین کو ’’ یا قومی ‘‘ (اے میری قوم) کہہ کر خطاب کرتے تھے ، جس میں اپنائیت ومحبت کا اظہار ہے ، رسول اﷲ ﷺنے مختلف بادشاہوں اور رؤساء کو دعوتی خطوط لکھے تو اس میں بھی ان کے درجہ و مقام اور حیثیت عرفی کی پوری پوری رعایت تھی ، ابوجہل کو اسلام کی دعوت پیش کی تو اسے ’’ابوالحکم ‘‘کے لفظ سے مخاطب کیا ، جو اس کے لئے سب سے محبوب نام تھا اور جس سے اس کی عزت اورلیاقت کا اظہار ہوتا تھا ، عدی بن حاتم آئے تو ان کو دولت خانہ پر لے گئے اور توقیر کے ساتھ بٹھایا ، ہرقل کے نام لکھے گئے خط میں اسے ’’ عظیم الروم ‘‘ کے لفظ سے مخاطب فرمایا۔

۳- مذاکرہ کے مؤثر ہونے کے لئے ایک اہم ضرورت یہ ہے کہ فریق مخالف کے ساتھ عدل کا رویہ اختیار کیا جائے اور اس میں جو خوبیاں ہوں ، ان کے اعتراف میں بخل سے کام نہ لیا جائے ، اﷲ تعالیٰ نے ہر شخص میں اور ہر گروہ میں خیر کے پہلو بھی رکھے ہیں ، اگر ان خوبیوں کا تذکرہ کیا جائے تو اس سے فریق مخالف کے اندر قبول کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ، چنانچہ قرآن مجید نے صاف صاف کہا ہے :کسی قوم کی دشمنی تم کو ناانصافی پر آمادہ نہ کرے،انصاف کرو،یہی تقویٰ سے قریب تر (طریقہ ) ہے۔(سورۃ المائدہ : ۸)

قرآن مجید میں ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں اہل کتاب کی ناشائستہ باتوں پر نقد کیا گیا ہے ، وہیں ان میں جو خوبیاں پائی جاتی تھیں ، یا ان کے کسی گروہ میں اگر کوئی خوبی موجود تھی تو اس کا بھی بہتر طورپر ذکر فرمایا گیا ہے ، جیسے :اہل کتاب میں سے بعض وہ ہیں کہ اگر تم ان کے پاس مال کا ایک ڈھیر بھی امانت رکھ دو تو وہ تمہیں ادا کر دیں گے، بعض ایسے ہیں کہ اگر ان کے پاس ایک دینار بھی رکھو تو واپس نہ کریں گے، سوائے اس کے کہ ان کے سر پر کھڑے رہو، یہ اس لئے کہ وہ لوگ کہتے ہیں کہ غیر اہل کتاب کے مال کے سلسلے میں ہم پر کوئی گناہ نہیں اور وہ جانتے بوجھتے اللہ پر جھوٹ گھڑ رہے ہیں۔ (سورۂ آل عمران : ۷۵)

۴- مذاکرہ کے لئے ایک نہایت ہی اہم وصف صبر اور بردباری کا بھی ہے ، جب کسی اختلافی مسئلے پر گفتگو ہوتی ہے تو بعض باتیں طبیعت کے خلاف بھی کہی جاتی ہیں ، اور ایسی بھی باتیں ہوتی ہیں ، جن سے انسان کی اَنا کو ٹھیس پہنچتی ہے ، بظاہر اس کا وقار مجروح ہوتا ہے ، مذاکرہ کرنے والے کا کمال یہ ہے کہ وہ ایسی باتوں سے متاثر نہ ہو اور صبر کا دامن اس کے ہاتھوں سے چھوٹنے نہ پائے،وہ کانٹوں کا جواب پھول سے اور نفرت کا جواب محبت سے دے ، قرآن مجید میں بار بار اس کی تاکید کی گئی ہے۔ (سورۃ الاعراف : ۱۹۹)اپنے مخاطب کے مقابلےمیں حلم و بردباری اور عفو و صبر کی بہترین مثال وہ مکالمات ہیں جو انبیاء ؑاور ان کی اقوام کے درمیان پیش آئے ہیں اور قرآن نے ان کا تفصیل سے ذکر کیا ہے ۔

۵- مذاکرہ کار کے لئے ایک اہم ضرورت یہ ہے کہ وہ اپنے مخاطب کی زبان سے واقف ہو ، اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ انبیائےکرام ؑنے اپنی اپنی اقوام کو انھیں کی زبان میں مخاطب کیا ہے۔

ایک اہم سوال یہ ہے کہ مذہبی مذاکرات(مذاہب کے درمیان مکالمہ) کے مضامین کیا ہونے چاہئیں ؟ — اس سلسلے میں قرآن مجید سے ہمیں جو رہنمائی ملتی ہے ، وہ یہ ہے کہ پہلے ان اُمور کی دعوت دی جائے اور ان باتوں سے گفتگو کا آغاز کیا جائے ، جو دونوں کے درمیان مشترک ہوں، جسے قرآن مجید نے ’’ کلمۂ سواء‘‘ سے تعبیر کیا ہے ۔(سورۂ آل عمران: ۶۴)’’ کلمہ سواء ‘‘ جس کی طرف تمام انبیاءؑ نے دعوت دی ہے ،وہ بنیادی طورپر توحید ورسالت اورآخرت ہے ، خاص کر تمام آسمانی کتابیں ان عقائد پر متفق ہیں ، اس لئے مکالمے کا بنیادی مضمون یہی ہونا چاہئے اور اس بات کو ضرور ملحوظ رکھنا چاہئے کہ اسلام گفتگو کے آغاز کے لئے اور دعوتِ اسلام کو آسان بنانے کے لئے اس بات کا تو قائل ہے کہ کلمہ سواء اور مشترک عقائد سے آغاز کیا جائے ، لیکن وہ وحدت دین کا قائل ہے کہ دین ہمیشہ سے ایک ہی رہا ہے ۔(سورۂ شوریٰ: ۱۳) اور یہ بھی واضح فرما دیا گیا کہ اﷲ کے یہاں اس دین کے علاوہ کوئی اور دین قابل قبول نہیں۔(سورۂ آل عمران:۸۵)