• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:سردار عبدالرحمٰن خان،بریڈ فورڈ
دنیا کے تاریخ داں اور تجزیہ نگار یہ سوال ہر دور میں کرتے آئے ہیں اور اس کا جواب اور سبب بھی اپنی علمی اور عقلی استطاعت کے مطابق بیان کرتے رہے ہیں، یہ بنیادی حقیقت بھی تاریخ عالم سے اوجھل نہیں ہے کہ مسلمانوں میں علم اور حکمت کا تجسس بھی پیداہوا، قرآن مجید اقراء سے شروع ہوتا ہے، یہ علم و ہدایات کا ایک بحر بیکراں ہے، یہ انسانی ترقی و نشوونما کا منبع اور محور ہے، ہمارے محبوب رسول مقبول ﷺ نے علم کی اہمیت کو اپنے پیغام میں سر فہرست رکھا، مساجد کے احاطوں میں مدرسوں کی بنیاد رکھی، قرآنی آیات میں علم اور آگاہی کا بار بار ذکر ہوتا ہے، متعدد احادیث میں علم کی فضیلت بیان کی گئی ہے، ساتویں صدی میں جب صحرائے عرب میں اسلام ظہور پذیر ہوا تو وہاں جہالت، بربریت، پسماندگی، طوائف الملوکی، درندگی، خانہ جنگی، حقوق انسانی کی پامالی، قبائلی کشمکش، اخلاقی اور ذہنی گراوٹ، بت پرستی اور فحاشی کا عالم تھا، رسول اکرم ﷺ نے قرآن کی ہدایات اور اپنی خداداد بصیرت اور بصارت سے عرب معاشرے میں امن، انسانیت اور روشنی کا پیغام دیا اور پرچار کیا گیا، مختلف خدائوں کو سجدہ کرنے والے وحدانیت کی طرف مڑنے لگے، یہ کام آسان نہ تھا، ایک ہونٹ کی خاطر ایک سو سال جنگ جاری رکھنے والے ضدی اور اجڈ جاہل اور حاسد قبائلی اپنی عادات، رسومات اور جہالت ترک کرنے کو تیار نہ تھے لیکن رسول اللہ اپنے اللہ کی ہدایات کو عملی جامہ پہنانے کیلئے میدان جنگ میں اترے، برگشتہ راہ عربوں کو راہ راست پر لانے کیلئے ہمہ وقت مہم کا آغاز کیا، انتہائی نامساعد حالات میں دکھ اور مشکلات برداشت کرکے اپنے دشمنوں کو بربریت اور جہالت چھوڑ کر وحدانیت کی طرف آنے کی دعوت دی، دشمنان اسلام سے نبرد آزما ہوکر جنگوں میں فتوحات حاصل کیں، پھر ایک ایسے معاشرے کی بنیاد رکھی جس کا ٓآئین اور قانون خود اللہ تعالی کا فرمان ہے اور جس کی تشریح وتعبیر احادیث نبویﷺ ہیں، آپﷺ کے اس دنیا سے اٹھ جانے کے بعد خلفائے راشدینؓ نے ان مضبوط بنیادوں پر خلافت کے سنہری اصولوں کو مرتب اور مربوط کیا اور اسلام اور اسلامی تہذیب کو صحرائے عرب سے نکال کر سرزمین عجم تک پھیلایا، دین اسلام علم حاصل کرنے کی تاکید کرتا ہے، دنیاوی علوم یعنی سائنس اور ٹیکنالوجی حاصل کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں، آگاہی کے بغیر انسان صراط مستقیم سے بھٹک جاتا ہے، ایسے تمام علوم جو نوع انسان کے فوائد اور رہنمائی کیلئے پڑھائے اور سکھائے جاتے ہیں اسلام ان کی حوصلہ افزائی بلکہ تاکید کرتا ہے، کچھ غیر مسلم دانشور، تاریخ داں اور تجزیہ نگار اسلام کو سائنس کی ترقی، سائنس کے حصول اور سائنس کے تجربات کو اسلام سے متصادم قرار دیتے ہیں لیکن حقیقت اس کے باعکس ہے، اس میں بھی شک نہیں کہ کچھ علمائے دین نے سانس اور ٹیکنالوجی کی کچھ ایجادات اور تشریحات کو وقتاً فوقتاً ہدف تنقید بنایا ہے اور غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہیں، ایک زمانہ تھا کہ علمائے دین کے کچھ حضرات مسجدوں میں لائوڈ اسپیکر کا استعمال غیر اسلامی سمجھتے تھے لیکن اب امام مسجد، موذن مسجد، واعظ مسجد لائوڈ سپیکر کا مطالبہ کرتے ہیں، آج کل لائوڈ اسپیکر، مذہبی اجتماعات، خطبات، اذانوں اور تہواروں میں علماء کثرت سے استعمال کرتے ہیں، اللہ تعالی کے کلام کی تفہیم کے لیے انسانی عقل کی وسعت کا ہونا ضروری ہے بغیر علمی وسعت کے اسلام کی روح کو سمجھنا ہر انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔ قرآن علم و حکمت کا ایک گہرا بحر ہے، انسان جتنا علم، آگاہی، تجسس اور تشریح کا عمیق اور گہرا غوطہ لگائے گا اتنے ہی گوہر نایاب پائے گا۔مغرب میں عیسائیت میں چرچ اور ریاست الگ ہیں لیکن اسلام میں ریاست کو مذہب سے الگ نہیں سمجھا جاتا لیکن عیسائیت میں بھی چرچ اور ریاست میں اختیارات کے معرکے ہوتے رہے ہیں، ایک زمانہ تھا کہ پوپ کا حکومتوں کے اختیارات پر بہت عمل دخل تھا لیکن کافی کشمکش کے بعد پوپ کو ’’پاپٹ‘‘ یعنی بے اختیار بنا دیا گیا غیر مسلمان دانشوروں کا دعویٰ ہے کہ یورپ اور عیسائی دنیا میں چونکہ سائنسی ایجادات کے خلاف مذہبی مداخلت یا فتوے صادر نہیں ہوتے، اس لیے سائنس میں زیادہ ترقی ہوئی ہے گوکہ یہ بات درست ہے کہ مغرب میں مذہب اور ریاست الگ ہیں لیکن سقراط اور ’’گیلیلیو‘‘ پر جو بیتی تھی اس پر بھی نظر رکھنی چاہیے۔ ایک اور نقطہ قابل غور ہے کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام کے ابتدائی دور میں مسلمانوں نے سائنس کے میدان میں حیران کن ایجادات کیں اور یہ سلسلہ کافی مدت تک جاری رہا لیکن پھر آہستہ آہستہ تنزلی شروع ہوگئی اور سلطنت عثمانیہ کے آخری دور میں کام بالکل رک گیا۔خلفائے راشدینؓ نے مذہبی گرمجوشی اور سرگرمی کے ساتھ دنیاوی اصلاحات اور کارجہاں بانی اور جہاں رانی میں بھی گہری دلچسپی لی، یہی وجہ تھی کہ آٹھویں صدی میں خلافت شمالی افریقہ سے اسپین تک اور عرب میں شام، عراق، ایران سے افغانستان تک پھیلی ہوئی تھی، خلافت عباسیہ میں سائنس میں بہت دلچسپی لی گئی، بغداد میں ایک ادارہ ’’بیت الحکمہ‘‘ بنایا گیا، خلیفہ ہارون الرشید نے یونانی دانشور ارسطو کا لٹریچر عربی زبان میں ترجمہ کرایا، ایک مغربی تاریخ دان ’’نیال فرگسن‘‘ اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ اس خلافت نے سب سے پہلا ہسپتال بنایا جس کا نام ’’بیمارستان‘‘ تھا، یہ ہسپتال دمشق میں خلیفہ الولید بن عبدالمالک نے707ء میں بنایا، یہ ہسپتال نہ صرف ٹھہرنے کے لیے بنایا گیا تھا بلکہ یہاں بیماریوں کا باقاعدہ علاج ہوتا تھا، فض میں859ء میں اعلیٰ تعلیم کے لیے یونیورسٹی بنائی گئی، مسلمان ریاضی دانوں نے الجبرے کی بنیاد رکھی، یہ حساب اور جیومیٹری سے الگ مضمون ہے، الجبرے کی سب سے پہلی کتاب ایک فارسی اسکالر محمد ابن موسیٰ نے820ء میں لکھی، سب سے پہلا تجرباتی سائنسدان ابو الحسن ابن ہاشم تھا، ابو الحسن نے سات جلدوں پر مشتمل بصریات (optics) پر کتابیں لکھیں، ابو الحسن نے کئی پرانی غلط فہمیوں کو بھی دور کیا، مثلاً یہ سمجھا جاتا تھا کہ ہم اس لیے چیزیں دیکھتے ہیں کہ ہماری آنکھیں روشنی پیدا کرتی ہیں، یہ خیال بالکل غلط تھا پھر ابن ہاشم نے سب سے پہلے یہ دریافت کیا کہ ستاروں کی کوئی ٹھوس جسمانی حقیقت نہیں ہوتی پھر اس نے سب سے پہلے (Pinhole) کیمرہ بنایا جو آج تک طلبا کو علم بصارت یا علم مناظرہ پڑھانے کے لیے استعمال ہوتا ہے، ابن ہاشم کے سائنٹیفک کو جدید شکل دینے کے لیے ایک اور مسلمان ایرانی سکار نے سترھویں صدی میں کام کیا، اس کا نام کمال الدین الفارسی تھا، اس لیے اہل مغرب قرون وسطیٰ کے مسلمانوں کی اعلیٰ درجے کی دانائی، مسلم نقشہ نویسی، علم طب، فلسفہ، ریاضی، علم فلکیات، علم نجوم، علم کیمیا، علم ارضیات، علم طبیعات، علم ابدان، علم تاریخ نویسی اور دیگر کئی علمی کاوشوں کے مرہون منت ہیں اگر مغرب کے اس دعویٰ میں سچائی ہوتی کہ اسلام سائنس سے متصادم ہے تو پھر مسلمان سائنسدان، دانشور اور اسکالرز اتنی بڑی ایجادات کے موجد کیسے ہوتے، عیسائی پادریوں نے بھی سائنس دانوں کی دریافتوں کو چیلنج کیا ہے اور مذہبی فتوے صادر کیے ہیں، عیسائی (Tenet) عقیدہ کے مطابق چرچ اور ریاست کو الگ ہونا چاہیے یعنی ان کا دائرہ اختیار الگ ہے، میتھو (22-21) کا فرمان ہے کہ ’’جو سیزر (Caesar) کی چیزیں ہیں وہ سیزر کو ادا کرو اور جو خدا کی ہیں وہ خدا کو ادا کرو، یہ تقسیم قرآن حکیم کی تعلیم اور احکامات سے بالکل مختلف ہے اگر مذہب کو ریاست سے بالکل لاتعلق کردیا جائے تو پھر ’’رہ جاتی ہے چنگیزی‘‘ جہاں بانی اور جہاں رانی دونوں میں مذہبی اخلاقیات، مذہبی روح اور احکامات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے بعد میں یورپین ممالک نے بلا روک ٹوک سائنس کے میدان میں ترقی شروع کردی، اسلامی دنیا میں مذہب کے تمام امور پر اجارہ داری غالب رہی، سولہویں صدی میں یورپین سائنٹیفک دریافتوں میں بڑی تیزی اور سرعت سے ترقی ہونے لگی جو اٹھار ہویں صدی تک جاری رہی، مسلمانوں کی سائنٹیفک ترقی اس دور میں رک گئی، اس رکاوٹ کی وجہ کچھ غیر مسلم مورخین کے علاوہ کچھ مسلم مورخین بھی یہ بیان کرتے ہیں کہ گیارہویں صدی کے اواخر سے اسلامک علما نے یہ مسئلہ کھڑا کردیا کہ یونانی فلسفے کا پڑھانا یا دوسری علمی اور عقلی توضیحات و تشریحات دین اسلام سے متصادم ہیں مثلاً ایسی پیشگوئی کر ناکہ حالات کی روشنی میں آئندہ کیا ہونے والا ہے مذہبی بے حرمتی میں شامل تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی چیز کو اپنی منشائے خدا وندی کے ذریعے کسی وقت بھی تبدیل کرسکتا ہے، ابو حمید الفرابی نے فلاسفروں کے بارے میں لکھی گئی اپنی کتاب میں کہا۔ ’’یہ عجیب بات ہوگی اگر کوئی شخص اپنا دین ترک کیے بغیر اس بیرونی سائنس میں مستغرق ہوجائے اور اس طرح اپنی پاکیزگی کے دامن کو چھوڑ دے‘‘۔نیال فرگسن کے مطابق مذہبی مولویوں کے زیر اثر مسلمانوں نے قدیم فلسفے کا مطالعہ مختصر کردیا، کتابیں جلا دی گئیں، آزاد خیال افراد کو تنگ کرکے ان کو آزار پہنچایا گیا خصوصاً مدرسے دینی تعلیم کا مرکز بن گئے، اس وقت یورپین یونیورسٹیاں تعلیم کے میدان میں توسیع کررہی تھیں، مسلمان ممالک میں پرنٹنگ پریس کی مخالفت کی جارہی تھی، مسلمانوں نے روشنی، جدیدیت، علمی تجسس، عقلی کاوش اور سائنٹیفک ایجادات کا آغاز کرکے دوسری اقوام کو ترقی کا راستہ دکھاکر پھر پیچھے کی طرف قدم کیوں اٹھائے جس کی وجہ سے وہ یورپ کے ’’بیمار‘‘ کہلائے؟۔( جاری ہے) 
یورپ سے سے مزید