کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے ن لیگ کے سینئر رہنما احسن اقبال نے کہا ہے کہ تبدیلی کو ووٹ دینے والے کانوں کو ہاتھ لگاچکے،سابق وزیرخزانہ حفیظ پاشا نے کہا کہ 2019-20ء کے آخری تین چار مہینوں میں کورونا کی وجہ سے معاشی حالات بہت خراب ہوگئے تھے، حکومت اور اسٹیٹ بینک کے فائناسنگ پیکجز سے سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا اور شرح نمو میں بہتری آئی، آئی جی پولیس خیبرپختونخوا معظم جاہ انصاری نے کہا کہ کالعدم ٹی ٹی پی کی طرح داعش خراسان بھی خطرہ ہے، داعش خراسان اتنی زیادہ آرگنائز نہیں ہے اس کے مختلف گروپس ہیں، داعش خراسان کا کوئی ایک ایسا لیڈر نہیں جسے انگیج کیا جاسکے،ن لیگ کے سینئر رہنما احسن اقبال نے کہا کہ حکومت کے لئے سب سے بڑا چیلنج ان کی اپنی نااہلی ہے،حکومت اس وقت اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے،حکومت کو رائے عامہ کی شدید بغاوت کا سامنا ہے، تبدیلی کو ووٹ دینے والے کانوں کو ہاتھ لگاچکے ہیں، پی ٹی آئی کے عوامی نمائندوں پر عوامی دباؤ بڑھتا جارہا ہے،پی ٹی آئی میں بڑی تعداد اس ڈوبتے ہوئے جہاز سے چھلانگ لگانا چاہتی ہے۔ احسن اقبال کا کہنا تھا کہ ہماری ساری جدوجہد یہی ہے کہ سر پر ہاتھ رکھوانے کا سلسلہ ختم ہونا چاہئے، اس ملک کو آئین اور عوام کی منشاء کے مطابق چلنا چاہئے، پاکستان کو شدید سیکیورٹی چیلنجز کا سامنا ہے، قومی اداروں کو سیاسی طور پر متنازع نہیں ہونا چاہئے، حکومت نے عوام پر 350ارب روپے کے ٹیکسوں کا بوجھ ڈالا ہے، منی بجٹ کے مکمل اثرات آئندہ پانچ سے چھ مہینے میں عام آدمی تک پہنچیں گے، عمران خان ساڑھے تین سا ل سے کہتے آرہے ہیں کہ اگلے تین ماہ اچھے ہوں گے،ہر آنے والے تین ماہ پچھلے تین ماہ سے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ احسن اقبال نے کہا کہ ٹیلیفون کالز ختم اور ٹیلی مواصلاتی رابطہ منقطع ہوجائے تو حکومت ریت کے قلعہ کی طرح منہدم ہوجائے گی، اپوزیشن اپنی سیاسی حکمت عملی پر کامیابی سے آگے بڑھ رہی ہے، ضمنی انتخابات میں حکومت کو پے در پے شکستیں ہوئی ہیں، رائے عامہ کے تمام سرویز میں حکومت کا گراف نیچے ن لیگ کا گراف اوپر جارہا ہے، پچیس جنوری کو پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں عدم اعتماد، لانگ مارچ کے حوالے سے لائحہ عمل طے کیا جائے گا، اب اس حکومت کو گھر بھیج کر ہی دم لیں گے۔ احسن اقبال کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں کسی ایڈونچر کی گنجائش نہیں ہے، اس وقت جس نے بھی ایڈونچر کیا وہ بھی اسی دلدل میں پھنس جائے گا، پاکستان کو مسائل سے نکالنے کیلئے جامع حکومت اور قومی یکجہتی کو فروغ دیا جائے، ضروری نہیں کہ اپوزیشن اور حکومت ایک جگہ اکٹھے ہوجائیں، ایسی حکومت ہونی چاہئے جو تمام سیاسی جماعتوں، اداروں اور اسٹیک ہولڈرز کو ساتھ لے کر چل سکے، ہم بھی چاہتے ہیں حکومت مدت پوری کرے لیکن یہ معاشی حالات جس نہج پر لے جارہے ہیں اگلی حکومت اس سے نمٹ نہیں سکے گی۔ احسن اقبال نے کہا کہ پارلیمنٹ میں تمام اپوزیشن جماعتیں ہمیشہ رابطے میں رہی ہیں، ایاز صادق نے آصف زرداری کے حوالے سے جو بات کی تفصیل وہی بتاسکتے ہیں، کوئی بھی باقی ایک سال کیلئے حکومت کا ملبہ اپنے گلے ڈال کر اپنی سیاسی قبر نہیں کھودے گا، اگلی حکومت کیلئے پانچ سال کا ٹائم فریم ہونا چاہئے اس کے بغیر کوئی اصلاح نہیں ہوسکتی، کوئی ادارہ، سیاسی جماعت یا حکومتی حلیف اس حکومت کی غیرمقبولیت کا ملبہ برداشت نہیں کرسکتے، ملک کو بحرانوں سے نکالنا ہے تو مسلم لیگ ن کے سوا کوئی آپشن نہیں بچا ہے، ن لیگ کے پاس ہی وہ معاشی ٹیم، تجربہ اور روڈمیپ ہے جو ملک کو بحرانوں سے نکال سکتا ہے۔ سابق وزیرخزانہ حفیظ پاشا نے کہا کہ 2019-20ء کے آخری تین چار مہینوں میں کورونا کی وجہ سے معاشی حالات بہت خراب ہوگئے تھے، حکومت اور اسٹیٹ بینک کے فائناسنگ پیکجز سے سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا اور شرح نمو میں بہتری آئی، معاشی ترقی میں ریکوری ساڑھے تین فیصد ہے 5.4فیصد پورا نہیں ہے، پچھلے سال تجارتی حالات میں بہتری کی وجہ کورونا کی وجہ سے قیمتوں میں بے تحاشا کمی تھی، تیل کی قیمت 40ڈالرز فی بیرل تک چلی گئی تھی جو اس وقت 90ڈالر فی بیرل پہنچ گئی ہے، اس سال چونکہ عالمی سطح پر قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوگیا ہے جس کی وجہ سے پانچ ماہ میں تجارتی خسارہ 7ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے، زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ بڑھتا جارہا ہے، آئی ایم ایف پروگرام کے باوجود روپے کی قدر مستحکم نہیں ہوئی تو افراط زر کی رفتار بڑھتی رہے گی، حکومت کو کسی بھی طرح تجارتی خسارے میں کمی لانا ہوگی، امید تھی کہ اومیکرون کے پھیلاؤ کے بعد عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں گرجائیں گی لیکن حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے، منی بجٹ کے نتیجے میں اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافہ شروع ہوگیا ہے، پٹرول ، بجلی اور گیس کے نرخوں میں بھی اضافہ کیا جارہا ہے، خدشہ ہے کہ افراط زر پندرہ فیصد تک نہ پہنچ جائے۔ آئی جی پولیس خیبرپختونخوا معظم جاہ انصاری نے کہا کہ کالعدم ٹی ٹی پی کی طرح داعش خراسان بھی خطرہ ہے، داعش خراسان اتنی زیادہ آرگنائز نہیں ہے اس کے مختلف گروپس ہیں، داعش خراسان کا کوئی ایک ایسا لیڈر نہیں جسے انگیج کیا جاسکے، مختلف مقامات پر مختلف لوگ داعش خراسان سے اپنی وابستگی کا اظہار کرتے ہیں، ان لوگوں کو شاید نظریاتی طور پر پتا ہی نہیں کہ وہ کیا بات کررہے ہیں، پشاور میں ماضی قریب میں کئی ایسے واقعات ہوئے جس میں داعش خراسان کے لوگ ملوث تھے۔