اسلام آباد (مہتاب حیدر) کرنٹ اکائونٹ خسارے میں اضافے نے متعلقہ اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اٹھادیئے۔ معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر خاقان نجیب کا کہنا ہے کہ اکنامک پیش گوئیوں کی صلاحیت میں بہتری کی اشد ضرورت ہے۔ کرنٹ اکائونٹ خسارے میں اضافے نے متعلقہ وزارتوں اور اسٹیٹ بینک کی میکرو اکنامک ماڈلنگ / پیش گوئی کی صلاحیت پر سوالات اٹھادیئے ہیں۔
اسٹیٹ بینک اور متعلقہ وزارتوں کی تمام پیش گوئیاں بڑے فرق سے غلط ثابت ہوچکی ہیں اور رواں مالی سال کی ابتدائی ششماہی میں کرنٹ اکائونٹ خسارہ 9.1ارب ڈالرز تک پہنچ چکا ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ معیشت مکمل تباہی کے دہانے پر ہے کیوں کہ کرنٹ اکائونٹ خسارہ 18ارب ڈالرز تک پہنچا ہوا تھا۔
جب کہ کرنٹ اکائونٹ خسارے کی موجودہ رفتار برقرار رہی تو 30جون، 2022تک یہ 16 سے 18 ارب ڈالرز تک پہنچ سکتا ہے۔ اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ وہ وجوہات تلاش کی جائیں جو وزارت خزانہ، وزارت منصوبہ بندی اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے میکرواکنامک ماڈلنگ اور پیش گوئی کی عدم صلاحیت کا سبب بنیں۔
اس میں کچھ اتار چڑھائو کا امکان تو رہنا لیکن کسی نے بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ یہ بالکل ہی غلط ثابت ہوگی۔ قومی اقتصادی کونسل (نیک) کے تخمینے کے مطابق، مالی سال 2021-22میں کرنٹ اکائونٹ خسارہ جی ڈی پی کا منفی 0.7 فیصد رہے گا جو کہ 2.27 ارب ڈالرز کے برابر ہے۔
نیک اور پارلیمنٹ سے منظور شدہ سالانہ منصوبہ برائے 2021-22 میں کہا گیا ہے کہ درآمدات میں 9.5 فیصد، ترسیلات میں 10 فیصد اور برآمدات میں 6.5 فیصد اضافے کا امکان ہے۔ تاہم، سرکاری سرمایہ کاری کی مدد سے وسیع پیمانے پر پھیلی بےروزگاری کو روکنے میں مدد ملے گی۔
اسٹیٹ بینک نے کرنٹ اکائونٹ خسارے کا تخمینہ 7 سے 9 ارب ڈالرز کے درمیان لگایا تھا۔ جب کہ رواں مالی سال کے ابتدائی 6 ماہ میں ہی یہ 9.1 ارب ڈالرز سے تجاوز کرچکا ہے۔ معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر خاقان نجیب کا کہنا ہے کہ اقتصادی اشاریوں کی پیش گوئی سے معیشت میں اعتماد اور یقینی صورت حال پیدا ہوتی ہے اور ان کے فیصلے زیادہ موثر ہوتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کرنٹ اکائونٹ خسارہ ابتدائی تخمینے سے بہت زیادہ ہوچکا ہے۔
ڈاکٹر خاقان نجیب کا کہنا تھا کہ پاکستان جیسے ممالک کے لیے کرنٹ اکائونٹ خسارہ ایک اہم عنصر ہے، جہاں غیرملکی مبادلہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ یہ میکرو استحکام میں کلیدی حیثیت کا حامل ہے۔ جب کہ پاکستان کی اضافی درآمدات میں کمی کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے کیوں کہ مجموعی طورپر اشیاء اور خدمات کی درآمدات 7.55 ارب ڈالرز تک پہنچ چکی ہے، جو کہ دسمبر، 2020 میں 5.79 ارب ڈالرز تھی۔ اس طرح اس میں سال بہ سال طور پر 30.5فیصد اضافہ ہوا ہے۔
ڈاکٹر خاقان کا کہنا تھا کہ ہم نے دس سال میں یہ سیکھا ہے کہ پاکستان میں درآمدات کی طلب میں وسیع آمدنی کی لچک ہے۔ جس کے نتیجے میں تجارتی خسارہ بڑھتا ہے جو کرنٹ اکائونٹ خسارے کا سبب بنتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ حکام کو میکرو اکنامک پیش گوئیوں کی صلاحیت میں بہتری کی اشد ضرورت ہے اور شواہد کی بنیاد پر پالیسی سازی کی کوششیں کرنی چاہیئے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ صلاحیت میں اضافے اور وسیع ڈیٹا ٹیکنالوجی کا اطلاق کرکے میکرواکنامک پیش گوئیاں بہتر کی جاسکتی ہیں، جس کی مدد سے حکومت مکمل معلومات، جامع عمل، اختصار اور معلومات کی جامع منصوبہ بندی کرسکتی ہے۔