دنیا بھر کے بے شمار لوگوں کے لئے بیجنگ صرف چین کا دارالحکومت ہے۔ یہ شہر چین کی تاریخ اور ثقافتی ورثے کا مسکن بھی ہے۔ لیکن چین کے اکثر شہریوں کے نزدیک یہ شہر بے مثال اولمپکس کیلئے زیادہ مشہور ہے۔ بیجنگ دنیا کا ایسا واحد شہر ہے جس نے موسم گرما کے اولمپکس کے علاوہ موسم سرما کے اولمپکس کی بھی میزبانی کی۔ اس شہر نے اولمپک کی حقیقی روح کو برقرار رکھا اور اولمپک کے خواب کو تعبیر دی۔
برق رفتار، صاف شفاف اور تجربات سے بھرپور شہر
شوُ شِن نامی شخص پہلی بار 1997 میں 18 سال کی عمر میں بیجنگ آیا اور بیجنگ فارن اسٹڈیز یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔
اپنی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے شوُ کا کہنا تھا کہ بیجنگ سے متعلق میرا پہلا تاثر یہ تھا کہ اس شہر میں کام کے بہت سے مواقع موجود ہیں، خاص طور پر میرے جیسے مختلف زبانیں سیکھنے والے طلبا و طالبات کیلئے۔ شوُ کا مرکزی مضمون سویڈش زبان تھا۔ سن 2001کے موسم گرما میں شوُ شِن نے گریجوایشن مکمل کی اور اسی سال ہی بیجنگ نے 2008کے اولمپکس کی میزبانی کرنے کی بولی جیتی تھی۔ ملک بھر میں ہر جانب خوشی اور خوب جوش و خروش کا سماں تھا۔
2008کے اولمپکس میں 98 ممالک اور خطوں کے تقریباً 75ہزار رضاکاروں نے گیمز کے انعقاد میں مدد کی۔ شوُ نے بھی رضاکارانہ طور پر سویڈن کی ٹیم کے ساتھ بطور مترجم خدمات سرانجام دیں۔ اس دوران اس نے بہت سے کھیلوں کے مقابلے دیکھے۔ شوُ نے اپنی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ عالمی شہرت یافتہ ایتھلیٹس سے بھی ملا۔ اُس نے مرحوم کوب برینٹ کے ساتھ تصویر بھی بنوائی یہ تصویر آج بھی اس کے پاس موجود ہے۔
شوُ بیجنگ میں ہونیوالی ترقی کے بھی شاہد ہیں، جہاں ہر گزرتے دن کے ساتھ پبلک ٹرانسپورٹ نیٹ ورک میں توسیع ہوئی اور شہر صاف ستھرا بھی ہو گیا۔
بیجنگ سرمائی اولمپکس گیمز کی آمد پر شوُ نے دوسری مرتبہ بھی رضاکار کے طور پر خدمات سرانجام دینے کیلئے درخواست دی۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کیلئے یہ ناقابل یقین تھا کہ ان کا شہر چند ہی سالوں میں دو مرتبہ اولمپکس کی میزبانی کرے گا۔ دونوں بار مقابلوں میں ذمہ داری نبھانے پر شوُ خود کو خوش قسمت بھی قرار دیتے ہیں۔
سرمائی اولمپکس میں 27ہزار اور پیرا اولمپکس میں 12 ہزار رضاکار شریک ہیں اور یہ 10 لاکھ سے زائد امیدواروں میں سے منتخب ہوئے ہیں۔
رضاکار ٹیم میں بہت سے نوجوان چہروں میں شوُ نے اپنا 2008 اولمپکس کا عکس بھی دیکھا۔
چین کے قومی شماریات کے ادارے کے مطابق یو کے طلبہ اور تربیت یافتہ افراد ان 34کروڑ 60لاکھ چینی افراد میں سے تھے، جو بیجنگ اولمپکس 2022کی میزبانی ملنے سے پہلے 2015کی سرمائی اولمپکس کی اسپورٹس سرگرمیوں کا حصہ بن چکے تھے۔
اِن دنوں بیجنگ کی شاہراہوں سے گزرتے ہوئے انہیں 2008کے اولمپکس کے شرکاء کے خصوصی استعمال کے لیے مخصوص ٹریفک لین کی نشانیاں بھی دکھائی دیں۔ شوُ کے مطابق متعدد مقامات پر تو اب 2022 اولمپکس کیلئے خصوصی طور پر لین بنا کر کچھ نئی نشانیاں بھی قائم کی جا چکی ہیں۔
شوُ کا کہنا ہے کہ گذشتہ 14برسوں میں ہمارے ملک چین نے ٹیلی کمیونیکیشن میں انتہائی تیزی سے ترقی کی ہے۔ اسی ترقی نے ابلاغ عامہ کو بھی انتہائی آسان بنا دیا ہے۔ چین بڑے ایونٹس کے انعقاد میں بھرپور تجربے کا حامل ملک ہے اور شوُ شِن کو یقین ہے کہ اس بار رضاکاروں کی خدمات پہلے سے بھی زیادہ بہتر ہوں گی۔
عظمت سے استحکام تک
شوُ شِن جہاں سرمائی گیمز سے متعلق نئی اصطلاحات سیکھنے میں مصروف ہے وہیں لی جیولن قومی اسپیڈ اسکیٹنگ ایرینا اوول کے معائنے کا منتظر ہے۔ لی نے اس آئس ربن کی تعمیر میں بطور چیف انجینئر ذمہ داری نبھائی ہے۔
14 برس قبل 2008میں بیجنگ اولمپکس کی افتتاحی تقریب اوول میں منعقد ہوئی۔اس جگہ کو پرندوں کا گھونسلہ بھی کہا جاتا ہے۔ اوول میں ہی چینی ثقافت کو دنیا بھر کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔ یہ جگہ بیجنگ کے شمال میں واقع ہے اور نیشنل اسٹیڈیم سے تقریباً 3.5کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
لی جب 2003میں اوول اسٹیڈیم کےانجینئر بنے تو ان کی عمر 35 برس تھی۔
80 ہزار افراد کی گنجائش کا حامل، چڑیا کے گھونسلے جیسا اسٹیڈیم دنیا کے سب سے بڑے اسٹیل کے ڈھانچے پر مشتمل ہے۔
2008کے اولمپکس میں 98ممالک اور خطوں کے تقریباً 75 ہزار رضاکاروں نے گیمز کے انعقاد میں مدد کی۔ شوُ نے بھی رضاکارانہ طور پر سویڈن کی ٹیم کے ساتھ بطور مترجم خدمات سرانجام دیں۔ اس دوران اس نے بہت سے کھیلوں کے مقابلے دیکھے۔
بیجنگ کے نیشنل اسٹیڈیم کی عمارت نے چین کی تعمیراتی صنعت میں ایک نئے دور کا آغاز کیا۔ اس نے جدت اور معیار کے بہترین نشان بھی چھوڑے۔ کچھ سالوں کے دوران ہی ان معیارات میں مزید بہتری لاتے ہوئے ان کا نفاذ قومی اسپیڈ اسکیٹنگ ایرینا اوول میں بھی کیا گیا۔
اپنی ماہرانہ اور شاندار تخلیق کاری کے باعث اس اولمپکس میں 2008 کے ہی بنائے ہوئے چھ مقامات کو استعمال کیا جارہا ہے۔ اس سے اخراجات میں کمی بھی آئے گی۔ آئس ربن واحد ایسی نئی جگہ ہے جسے خصوصی طور پر 2022کے اولمپکس کے لئے ہی تیار کیا گیا۔
بیجنگ 2022گیمز میں سرسبز، صاف اور کم سے کم کاربن کھیلوں کی فراہمی کا وعدہ کیا گیا ہے۔ لی اور ان کے ساتھیوں کو اسٹیل کے کم استعمال کی وجہ سے مسلسل مسائل کا سامنا رہا جن کا انہیں حل نکالنا پڑا۔ آئس ربن ایشیاء میں سب سے زیادہ برف سے بنا اسٹیڈیم یا میدان ہے، جس کی برف کی سطح کا رقبہ 12ہزار مربع میٹر ہے۔ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو مزید کم کرنے کی کوشش میں کاربن ڈائی آکسائیڈ ریفریجریٹ کو برف بنانے کے لئے متعارف کرایا گیا تھا۔ یہ سب سے زیادہ ماحول دوست قدرتی ریفریجریٹ ہے۔
لی کی طرح ان کے ایک تہائی ساتھیوں نے بھی موسم گرما اور سرما دونوں گیمز کیلئے تعمیرات میں خدمات سرانجام دی ہیں۔
لی کے مطابق موجودہ زمانے میں اولمپکس گیمز کیلئے اسٹیڈیمز کسی بھی قوم کی طاقت کو ظاہر کرتے ہیں۔ چڑیا کے گھونسلہ نمااسٹیڈیم اوول کی خوبصورتی اور عظمت سے پہلے ہی زائرین یا سیاح متاثر تھے۔ اب آئس ربن بھی چین کی ترقی اور استحکام کی شاندار عکاسی کرتا ہے اور یہ بھی لوگوں کو حیران کئے بغیر نہیں چھوڑے گا۔ فخریہ مسکراہٹ کے ساتھ لی نے کہا کہ ان کے لئے بہت بڑا اعزاز ہے کہ دونوں کی تعمیر میں وہ شامل رہے۔
خواب کا آغاز
رواں ہفتے جب اولمپکس کا آغاز ہو گا تو اسکیٹر یو یونگ جن بدقسمتی سے آئس ربن کے مقابلے کیلئے میدان میں نہیں اتر سکیں گے۔ ورلڈ کپ گولڈ میڈلسٹ نے 2001میں شارٹ ٹریک اسکیٹنگ کا آغاز کیا۔ یہ وہی سال تھا جب بیجنگ نے 2008کے موسم گرما کے کھیلوں کی میزبانی حاصل کی تھی۔
یو کہتے ہیں ’’مجھے اس وقت کے لوگوں کی خوشی، جوش و خروش اور تقریبات اچھی طرح یاد ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ ’’اتھلیٹس کیلئے اولمپکس سب سے اہم مرحلہ اور ان مقابلوں کیلئے میدان میں اترنا ہر کھلاڑی کیلئے ایک خواب ہوتا ہے ’’۔
کئی سالوں تک یو نے 2008 کے اولمپکس کی بھرپور تیاریوں کا بہت قریب سے مشاہدہ کیا۔ ان کے طویل انتظار کے بعد موسم گرما کی وہ شاندار رات آئی۔ اُس دن آسمان بڑے اسپورٹس گالا کے افتتاح کیلئے رنگ برنگی روشنیوں سے جگمگا اٹھا تھا۔ 2008 کے اولمپکس نے عام لوگوں کے اندر کھیلوں کے جذبے کو مزید ابھارا۔
اگلے ہی سال 2009 میں یویونگ جن کو قومی شارٹ ٹریک اسکیٹنگ ٹیم کیلئے منتخب کیا گیا۔ وہ 2010- 2011کے سیزن میں کیوبیک ورلڈ کپ میں ایک ہزار میٹر کی دوڑ کے ایونٹ میں رنر اپ بھی رہے۔ 2011-2012کے شنگھائی اور ناگویا ورلڈ کپ میں وہ ساتھیوں کے ساتھ 5 ہزار میٹر کی ریس میں طلائی تمغے جیتنے میں کامیاب رہے۔
جب ہر طرف دکھائی دے رہا تھا کہ سب کچھ درست سمت میں جا رہا ہےتو یو مختلف چوٹوں کا شکار ہو گئے۔ وہ 2014 میں سوچی اولمپکس کا حصہ نہ بن سکے اور ریٹائرڈ ہو گئے۔ لیکن ان کا اولمپک کا خواب مرا نہیں۔
یو نے بیرون ملک دو سال تربیت حاصل کی۔ انہوں نے سرمائی گیمز کو فروغ دینے کیلئے چین کے جنوب مغربی صوبے یون نان کا رخ کیا۔ صوبائی سطح پر شارٹ ٹریک اسکیٹنگ ٹیم بنائی۔ بیجنگ واپسی پر 2018 میں یو کو قومی ٹیم کا اسسٹنٹ کوچ مقرر کردیا گیا۔
2020 میں وہ بیجنگ کے منگ چی یوآن کہلانے والے ضلع یانگ چنگ کے اسکیٹنگ کلب کا حصہ بنے، منگ چی یوآن کے معنی خواب کے آغاز کے ہیں ۔ یو یونگ جن نے کلب میں مقامی پرائمری اور مڈل اسکول کے طلبا کے ساتھ ساتھ اسکولوں کی ٹیموں کو تربیت دی۔
2020 میں وہ بیجنگ کے منگ چی یوآن کہلانے والے ضلع یانگ چنگ کے اسکیٹنگ کلب کا حصہ بنے، منگ چی یوآن کے معنی خواب کے آغاز کے ہیں ۔ یو نے کلب میں مقامی پرائمری اور مڈل اسکول کے طلبا کے ساتھ ساتھ اسکولوں کی ٹیموں کو تربیت دی۔
انہوں نے کھیلوں سے متعلق اپنے خوابوں کو پورا کرنے والے 16 نئے سیکھنے والے کھلاڑیوں کی بھی خصوصی تربیت کی۔ یہ بالکل ویسے ہی خواب تھے جیسے یو ایک زمانے میں خود دیکھا کرتا تھا۔
یو نے اپنی یادوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’’ان کے دور میں اکثر شارٹ ٹریک اسکیٹرز شمالی چین سے تعلق رکھتے تھے۔ اس علاقے میں سرمائی کھیل بہت مقبول تھے۔ مگر اس کھیل کو سیکھنے والے چین کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھتے تھے، ان میں یون نان اور سچوآن جیسے گرم جنوب مغربی صوبے کے اتھلیٹس بھی شامل تھے‘‘۔
چین کے قومی شماریات کے ادارے کے مطابق یو کے طلبہ اور تربیت یافتہ افراد ان 34کروڑ 60لاکھ چینی افراد میں سے تھے، جو بیجنگ اولمپکس 2022کی میزبانی ملنے سے پہلے 2015 کی سرمائی اولمپکس کی اسپورٹس سرگرمیوں کا حصہ بن چکے تھے۔
چین میں اب 654معیاری آئس رینکس ہیں۔ یہ 2015کے مقابلے میں 317 فیصد زائد ہیں۔ ان ڈور اور آؤٹ ڈور اسکی ریزارٹس کی تعداد 803تک پہنچ چکی ہے اور یہ 2015 میں 568 تھی۔ یو پرامید ہیں کہ چین کا ضلع یانگ چنگ شارٹ ٹریک اسکیٹنگ کا مرکز بنے گا۔
وہ پرعزم ہیں کہ تربیت یافتہ شاگرد اولمپکس میں حصہ لے کر ان کے بچپن کے خوابوں کو پورا کریں گے۔ یو سرمائی اولمپکس میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو حصہ لیتے دیکھنا چاہتے ہیں اور ان کی دعا ہے کہ "موسم سرما کے کھیل ان کے خواب کا آغاز ہوں"۔(شِنہوا)