روز آشنائی … تنویرزمان خان، لندن گزشتہ روز محترمہ عاصمہ جہانگیر کی چوتھی برسی تھی۔ عاصمہ بہت یاد آئیں جب تک کسی سوسائٹی میں عاصمہ جیسے کردار موجود رہتے ہیں لگتا ہے وہ سوسائٹی ابھی مردہ نہیں ہوئی۔ عاصمہ ان چند بچے کھچے کرداروں میں سے ایسا بلندپائے کا کردار تھی جس کی موجودگی طاقت اور زندگی کا احساس دلاتی تھی۔ آج بھی لوگ کہتے ہیں کہ اگر عاصمہ زندہ ہوتی تو وہ جس طرح تاریخ توڑنے مروڑنے والوں کو بے نقاب کررہی تھی آج عوام بہت بیدار ہوچکے ہوتے۔ یہ 1980 کی دہائی کے ابتدائی برسوں کی بات ہےجب جنرل ضیاءنے حدود آرڈیننس کے نام پر ظلم کا نیا دور شروع کیا۔ حدود کے مقدمات کے اندر زنابالجبر کے کیسوں میں عورت پر لازم تھا کہ وہ اپنے پر ہونے والے ظلم کے چار گواہ ضرور پیش کرے۔ اب کون سی عورت ریپ میں ساتھ چار گواہان موجود رکھے ورنہ اس کی بات پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ دوسری طرف پولیس کے پاس حدود آرڈیننس کا ایسا ہتھیار ہاتھ لگ گیا۔ جو بھی حدود سے متعلق رپورٹ درج کرانے آتا تو پولیس کہتی کہ اگر عام سول عدالت میں مقدمہ رکھنا ہے تو اتنے پیسے دو ورنہ تمہارا مقدمہ مارشل لا کورٹ میں یا شرعی عدالت میں بھیج دیا جائے گا۔ لوگ سمجھتے تھے کہ یہ مارشل لا اور شرعی عدالتیں انصاف نہیں کرتیں۔ اس لئے لوگ سول عدالت میں اپنا کیس رکھنے کیلئے پولیس کو منہ مانگی رقم دیتے۔ عاصمہ جہانگیر نے اس زمانے میں جنرل ضیا کے حدود آرڈیننس پر قانونی بحث شروع کی اورحدود آرڈیننس پر شاندار کتاب بھی لکھی جس میں یہ ثابت کیا کہ جنرل ضیاء کا حدود آرڈیننس انصاف پرمبنی نہیں انتقام اور عبرت کیلئے استعمال کیا جارہا ہے۔ عاصمہ نے اپنی کتاب حدود آرڈیننس میں اس بات پر یہ بحث کی کہ ایسا کوئی قانون جو اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کے چارٹر سے متصادم ہووہ انسان دوست نہیں ہوسکتا۔ عاصمہ نے چائلڈ لیبر کے خاتمے کیلئے بہت آواز اٹھائی۔ عاصمہ کسی احتجاجی مظاہرے میں آجاتی تو پولیس انتظامیہ پریشان ہوجاتی کہ اب عاصمہ کو کیسے روکا جائے۔ وہ ان کے سامنے انتہا کی نڈر بن جاتی۔ عاصمہ کی متحرک زندگی کی چار دہائیاں عورتوں بچوں اور اقلیتوں کے حقوق کی جنگ سے عبارت ہیں۔ پاکستان میں ہیومن رائٹس کی جدوجہدکو عاصمہ نے منظم شکل دی جس کی وجہ سے اسٹیٹس کو کے حامی اس کے شدید خلاف تھے۔ عورت کے کردار پر کیچڑ اچھالنے جیسے اوچھے ہتھکنڈے آزمائےگئے تاکہ عاصمہ کی آواز کو خاموش کیا جاسکے۔ لیکن عاصمہ نے ان کے خلاف خاموشی تو دور کی بات اپنے دلائل اور بے باکی کو مزید نمایاں کیا۔ قانون شہادت کیخلاف 1983 میں عاصمہ نے پنجاب وومن لائرزایسوسی ایشن کے پلیٹ فارم سے خوب آواز بلند کی جس کے تحت عورت کی گواہی کو مرد کے مقابلے میں نصف گواہی قرار دیا گیا۔ اس کے خلاف احتجاج کے نتیجے میں عاصمہ جہانگیر اور دیگر درجنوں افرادکوقید کردیا گیا۔ 1987میں عاصمہ جہانگیر نے کچھ دیگر نامور شخصیتوں کے ہمراہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان HRCPکی بنیاد رکھی۔ دراصل عاصمہ کی اپنی سیاست میں شمولیت کی جڑیں اس کی نوجوانی میں جب 60 کی دہائی میںعاصمہ کے والد نہ صرف ایوب آمریت کے شدید ناقد تھے اور اس میں تنقید کی پاداش میں بارہا گرفتار بھی ہوئے اور عاصمہ اور ان کی بہن حنا جیلانی ان کی رہائی کیلئے آواز احتجاج بلند کیاکرتی تھیں۔ عاصمہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی صدر ہونے کے علاوہ ایران میں حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں پر رپورٹ بنانے کیلئے اقوام متحدہ کی جانب سے نامزدکی گئی تھیں۔ عاصمہ کو ڈاکٹریٹ کی تین ممالک سے اعزازی ڈگریاں دی گئیں جن میں کینیڈا،امریکہ اور سوئٹزرلینڈ کی یونیورسٹیاں شامل ہیں۔2005 میں جب عاصمہ نے مخلوط میراتھون کا آغاز کیا تو ان پر نہ صرف سرکاری احکام کی جانب سے آنسو گیس وغیرہ پھینکی گئی بلکہ ان کے حلیفوں نے (جن میں بیشتراصلاحی گروپس ہی تھے) کی مدد سے عورتوں کو بے دردی سے زود و کوب کیاگیا۔ آج جبکہ عاصمہ ہمارے درمیان موجود نہیں ہے تو جس شدت سے آج کے حالات پاکستان میںعاصمہ کی کمی محسوس کررہے ہیں جو پہلے کبھی نہ تھی میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ ’’بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدۂ ور پیدا‘‘۔