سائنسی اعتبار سے وائرس کی ابتدا (Origion)زمین پر موجود کسی بھی جاندار کی باقاعدہ زندگی کی ابتدا سے بھی پہلے ہوچکی تھی۔ جب کہ سائنسی و تاریخی شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ وائرس کے اثرات انسانی زندگی پر بارہ ہزار سال پہلے نیولیتھک دور (Neolithic Period) یعنی New Stone Age کے دور سے ہی شروع ہوچکے تھے یہ وہ دور تھا جب انسان پتھروں کے دور سے نکل کر ثقافتی اور ارتقائی محاذ سے برقی کی راہ پر گامزن ہورہا تھا۔ تیزی سے ہونے والی عالمگیریت یعنی Globalization اور مختلف اقسام کی ترقیاتی سرگرمیوں کے نتیجے میں وائرس کا پھیلائو بھی بڑھتا چلا گیا اور جوکہ مستقبل میں کئی بار مختلف قسم کی عالمی وبائوں کا باعث بنا۔
جن میں فلو (Flu)، چیچک (Small Pox)، زرد بخار (Yellow Fever)، ایڈز (Aids)وغیرہ شامل ہیں ۔ جوکہ دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کی موت کی وجہ بنے۔یہی نہیں بلکہ مسلسل ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں، آبادی میں مسلسل اضافے اور نقل و حمل میں اضافے کے نتیجے میں مختلف وائرسز کو پھیلنے اور انسانوں پر اثر انداز ہونے کے مواقع ملے، ان وائرسز میں ڈینگی، چکن گونیا، ریکا، ویسٹ ٹائل، جاپانی انسفیلائٹس، انفلوئنزا، کورونا وغیرہ نامی وائرس شامل ہیں۔ یہ وائرسز دراصل اپنے میزبان (Host) جاندار جنہیں سائنسی زبان میں ویکٹر (Vector) کہا جاتا ہے کہ ذریعے سے انسانوں میں منتقل ہوکر بیماری پیدا کرتے ہیں۔ ان ویکٹرز میں قابل ذکر ویکٹر ’’مچھروں، جوئیں اور ٹک (Tick)‘‘ شامل ہیں۔
وائرس کے پھیلائو کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ وائرسز نے مسلسل ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں اور ارتقائی عمل کے نتیجے میں ایسی صلاحیت پیدا کرلی، جس سے اس نے ایک میزبان جاندار سے نکل دوسرے جاندار میں بیماری پیدا کرنے کی صلاحیت حاصل کرلی۔ سائنسی اصطلاح میں اس عمل کو Cross Species Transmission کہتے ہیں۔ اور یوں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ گلوبلائزیشن (Globalization) کے نتیجے میں ہونے والی مسلسل ترقی کے نتیجے میں جہاں انسانی زندگیوں میں کئی مثبت تبدیلیاں آئیں وہیں وائرسز نے بھی شاید اپنے ارتقائی عمل کو تیز کرکے بیماری پیدا کرنے اور پھیلانے کی صلاحیت کو کئی گنا بڑھا لیا، جس کی واضح مثال حالیہ کورونا وائرس کی وباء ہے۔
واضح رہے کہ وائرس کا شمار دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے ارتقاء پذیر ہونے والی حیاتیات میں ہوتا ہے جب کہ کائنات میں موجود شاید ہی کوئی ایسا جاندار ہو جوکہ اس کے اثر سےمحفوظ ہو۔ یہاں تک کہ بیکٹیریا جیسے جرثومے بھی اس کے اثر سے محفوظ نہیں، اسی وجہ سے سائنس دانوں نے وائرسز کو تین بڑی جماعتوں میں تقسیم کیا ہے۔
ایک وہ جماعت جو صرف جانوروں میں بیماری پیدا کرنے والے وائرس کہلاتے ہیں اور انہیں Animal Virus کہتے ہیں جب کہ وہ وائرس جوکہ پودوں میں بیماری پیدا کرتے ہیں۔ وہ Plant Virus کہلاتے ہیں۔ جب کہ بیکٹیریا میں انفیکشن پیدا کرنے والے وائرس کو بیکٹیریریو فیج (Bacteiophage) کہا جاتا ہے۔ اور یہ یوں سمجھنا آسان ہے کہ وائرس دراصل Host Specific ہوئے ہیں یعنی کہ خاص وائرس کا میزبان بھی خاص ہی ہوتا ہے۔ گویا زمین پر موجود ہر ایک جاندار پر کوئی نہ کوئی خاص وائرس اثرانداز ہوسکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سائنس دانوں کا یہ ماننا ہے کہ وائرس اپنی تعداد کے لحاظ سے بھی تمام جانداروں پر سبقت رکھتے ہیں۔ اسی طرح یہ وائرسز اپنی ساخت، حجم اور جینیاتی مادّے کی نوعیت کے لحاظ سے بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ چنانچہ سائنس دانوں نے وائرسز کو ان کی خصوصیات کی بنیاد پر بھی مختلف درجہ بندیوں میں ترتیب دیا ہے۔ ان میں سے ایک اہم درجہ بندی وائرس میں موجود اس کے جینیاتی مادّے کی کیمیائی مرکب کی بنیاد پر کی گئی ہے۔
مثلاً وہ وائرس جن کا جینیاتی مادّہ ڈی این اے(DNA )پر مشتمل ہوتا ہے ان کو ڈی این اے وائرس کہتے ہیں جب کہ وہ وائرس جن کا جینیاتی مادّہ (Ribonucleic Acid) RNA پر مشتمل ہو ان وائرسز کو آر این اے وائرس کہا جاتا ہے۔ تحقیقات سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ وہ وائرس جن کا جنیوم RNAپر مشتمل ہوتا ہے۔ دوران نشوونما ان کے جینیاتی مادّے میں تیزی سے تبدیلیاں جنہیں Autation یا Variation کہتے ہیں عمل پذیر ہوتی ہیں اور یوں ایسے وائرس زیادہ تیزی سے ارتقاء پذیر ہوتے ہیں۔ اور اس ارتقاء کے نتیجے میں نہ صرف یہ وائرس اپنے اندر ایک سے زیادہ قسم کے جانداروں میں بیماری پھیلانے کی صلاحیت یعنی اپنے میزبان ہدف کی تعداد بڑھاتے ہیں۔
بلکہ بیماری پیدا کرنے کی شدت میں اضافہ اور خود کو اپنے خلاف استعمال ہونے والی دوائوں کے اثر سے بچانے کی صلاحیت پیدا کرلیتے ہیں۔وائرس میں ہونے والی ارتقائی جینیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں پھیلنے والی عالمی وباء کی ایک بہت اہم اور بڑی مثال مختلف ادوار میں فلو (Flu) پھیلانے والے وائرس ہیں۔ جن میں انفلوئنزا وائرس (Influenza Virus)، سارس کووی (SARS-COV)، مرس کووی (MERS-COV) اور سارس کووی ٹو (SARS-COV2) نامی وائرس شامل ہیں۔ یہ وہ قابل ذکر وائرس ہیں۔ جنہوں نے نہ صرف ماضی میں بلکہ حال میں بھی انسانی صحت اور زندگیوں پر انتہائی گہرے اثرات مرتب کئے ہیں ، جس کی وجہ سے لاکھوں جانیں اب تک لقمہ اجل بن چکی ہیں۔
انفلوئنزا وائرس اور ویرینٹ
اس کاتعلق آرتھو مکسوویریڈی (Orthomyxoviride) نامی فیملی سے ہے۔ اس وائرس کا جینیاتی مادّہ RNAکے آٹھ (8) ٹکڑوں پر مشتمل ہوتا ہے جوکہ اس وائرس کی کئی قسم کی پروٹین بناتا ہے۔ وائرس ان پروٹین کو اپنی ساختی اور دیگر خلیاتی سر گرمیوںمیں استعمال کرتا ہے۔ انفلوئنزا وائرس کی ساختی پروٹین میں سے دو پروٹینز جنہیں ہیم ایگلوٹینن "HA" (Hemagglutinin) اور نیورامینی ڈیز "NA" (Neuraminidase) کہا جاتا ہے ۔وائرس کی سطح پر کانٹوں کی مانند موجود ہوتی ہیں۔
یہ پروٹین وائرس کو اپنے میزبان سیل کے اندر داخل ہونے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ ان پروٹین کا کردار میزبان خلیہ میں بیماری کی شدت پیدا کرنے میں بھی اہم ہوتا ہے۔انفلوئنزا وائرس کی چند خصوصیات کی بنیاد پر چار جماعتوں میں درجہ بندی کی گئی ہے۔ یعنی انفلوئنزا وائرس A، B، C اور Dجب کہ ان چار اقسام کے انفلوئنزا وائرس میں انفلوئنزا وائرسA سب سے خطرناک ثابت ہوا ہے۔ اور کئی بار ہونے والی فلو (flu) کی عالمی وبا یعنی pandemic یا Epidemic کی وجہ بھی بن چکا ہے۔
درحقیقت انفلوئنزا وائرس انسانوں کے علاوہ پرندوں (Aves) اور خنزیروں (Swine/ pigs) کو بھی متاثر کرتا ہے، اس لئے یہ عین ممکن ہے کہ مسلسل بڑھتی ہوئی انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے انسانوں اور جانوروں کے انفلوئنزا وائرسA کے آپس کے ملاپ سے ان وائرس کی جین کے اندر کوئی نئی ترتیب عمل میں آئی ہو، جس سے وائرس کی نئی ذیلی قسم (Subtupe) وجود میں آتی ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہوتا ہے کہ یہ نئی ذیلی قسم انسانوں کے لئے زیادہ خطرناک ثابت ہو ۔ سائنسی اصطلاح میں اس عمل کو جین ری اسوٹمنٹ Gene Reassortment کہا جاتا ہے۔
جبکہ انفلوئنزا وائرس میں موجود اس کا 8ٹکڑوں پر مشتمل انوکھا (RNA) جینیاتی مادّہ Genetic Reassortmentکے عمل کو اور آسان بنادیتا ہے۔ جبکہ اس وائرس کی دو ساختی جین جنہیں HA اور NAکہا جاتا ہے معمولی تبدیلیوں کے ساتھ خود اپنی ہی کئی اقسام کی پروٹین بنالیتی ہے۔ اور یوں ان تبدیلویں کی وجہ سے پیدا ہونے والے انفلوئنزا وائرس کے نئے ویرینٹ (Variant) جنم لیتے ہیں جنہیں HA اور NAکی اصطلاح کو استعمال کرتے ہوئے مختلف اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ جیسے کہ انفلوئنزا وائرس اے H1N1، H2N2، H3N2، H3N8وغیرہ وغیرہ۔ انفلوئنزا وائرس کے یہ ویرنیٹ مختلف ادوار میں فلو (Flu)کی وباء کا باعث بنے ہیں۔
اگر ہم انفلوئنزا وائرس کی تاریخ پر مختصر نظر ڈالیںتو اس کی وجہ سے ہونے والے عالمی وباء کا درست تخمینہ لگانا بہت مشکل ہے۔ مورخین کے مطابق دنیا میں انفلوئنزا وائرس کی وجہ سے ہونے والی پہلی وباء 1510ء میں واقع ہوئی۔جب کہ یہی انفلوئنزا وائرس اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کرکے 1889ء سے لے کر 1893ء تک رشین فلونامی (Russian Flu) نامی عالمی وباء کی وجہ بنا ۔یہ وائرس صرف 4ماہ کے اندر پوری دنیا میں پھیل چکا تھا جو کہ تقریباً 10لاکھ لوگوں کی موت کی وجہ بنا۔ اس وائرس کو انفلوئنزا وائرسA، H3N8 کا نام دیا گیا۔25سال بعد انفلوئنزا وائرس کی قسم H1N1نے 1918ء سے 1919ء کے دورانیے میں پوری دنیا کو اپنے انفیکشن کی لپیٹ میں لے لیا۔
اس عالمی وباء کو ہسپانوی فلور (Spanish Flu) کا نام دیا گیا۔ وائرس کی اس وباء نے تقریباً ایک سال کے عرصے میں 50لاکھ لوگوں کو موت کی نیند سلا دیا۔ انفلوئنزا وائرس کی H1N1 قسم دراصل پرندوں کے انفلوئنزا وائرس میں جینیاتی تبدیلی کے نتیجے میں وجود میں آئی اور جس نے پرندوں کے ساتھ ساتھ انسانوں کو بھی اپنا نیا ہدف بنالیا۔1957ء سے 1959ء کے دوران ایک بار پھر انفلوئنزا وائرس کے نئے ویرنیٹ H2N2 نے کثیر تعداد میں انسانوں میں فلو پھیلایا اور اس بار بھی لاکھوں لوگ جان سے گئے۔
اس وباء کو ایشین فلو (Asian Flu)کا نام دیا گیا۔ یہ H2N2 قسم دراصل انسانوں کے انفلوئنزا وائرس H1N1میں پرندوں کے تین نئے جینیاتی ٹکڑوں کے ملاپ یعنی Genetic Reassortmentکے نتیجے میں وجود میں آیا۔ یہ تین نئی تبدیلیاں NA، HA اور PBAنامی جین کی وجہ سے ہوئیں۔1968ء سے 1970ء کے عرصے میں ایک بار پھر انفلوئنزا وائرس کی ایک نئی قسم H3N2ہانگ کانگ فلو نامی وباء کی وجہ بنا، جس میں 20لاکھ لوگ موت کی نیند سو گئے۔ H3N2 نامی ویرنیٹ دراصل انفلوئنزا وائرس کے H2N2 قسم (Variant) کے وائرس میں پرندوں کے انفلوئنزا وائرس کے دو جین HAاور PBAکی Genetic Reassortment سے وجود میں آئے جب کہ اس بار NA جین میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 1881ء سے لے کر 1970ء تک ہونے والی عالمی فلو وباء (Flu Pandemic/ Epidemic) کی وجہ وہ انفلوئنزا وائرس بنے پرندوں اور انسانوں کے فلو وائرس کی Genetic Reassortment سے وجود میں آئے تھے۔
جب کہ 2009ء اور 2010ء میں پھیلنے والے سوائن فلو (Swine Flu) نامی وباء کی وجہ انفلوئنزا وائرس کی ذیلی قسم H1N1تھی ،مگر اس بار یہ وباء انسانوں کی انفلوئنزا وائرس کی قسم H3N2میں پرندوں کی انفلوئنزا وائرس کی جین PB2 اور امریکن اور یوریشین سوائن فلو کے H1 اور N1جین کی ٹرپل Genetic Reassortment کے نتیجے میں وجود میں آئی۔ فلو کی وباء کا سلسلہ صرف انفلوئنزا وائرس اور اس کے ویرینٹ تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ اس میدان میں کورونا نامی وائرس نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
کورونا وائرس اور ویرینٹ
کورونا وائرس کا تعلق وائرس کی فیملی Corona Viridae سے ہے ،اس کی ظاہری شکل الیکٹران مائیکرو اسکوپ کے نیچے تاج جیسی ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے اسے کورونا یعنی Crown Like وائرس کہا جاتا ہے۔ یہ تاج نما شکل دراصل اس کی سطح پر موجود Spikeنامی پروٹین کی موجودگی وجہ سے ہوتی ہے۔ کورونا وائرس کو مزید 4اقسام یعنی Generaمیں تقسیم کیا جاتا ہے جن میں الفا (Alpha)، بیٹا (Beta)، گاما (Gama) اور ڈیلٹا (Delta) کورونا وائرس شامل ہیں۔
کورونا وائرس کا جینیاتی مادّہ بھی RNAپر مشتمل ہوتا ہے۔ کورونا جانوروں اور انسانوں دونوں کو متاثر کرسکتا ہے۔ اس وائرس کا جنیوم بھی کئی طرح کی ساختی اور غیرساختی پروٹین بناتی ہیں۔ جوکہ وائرس کی ساخت بنانے سے لے کر اس کی اپنی میزبان خلیہ کے اندر نشوونما کرنے اور بیماری پھیلانے کے عمل میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔کورونا وائرس کا جنیوم 4طرح کی ساختی پروٹین بناتا ہے، جس میں Spike(s)، Envelop(E)، Membrane(M) اور Nucleocapsid(N) شامل ہیں۔ اس ساختی پروٹین میں اسپائیک (Spike) نامی پروٹین جوکہ وائرس کی بیرونی سطح پر تاج کی طرح لگی ہوئی ہوتی ہیں۔
یہ پروٹین وائرس کے اپنے میزبان جاندار کے اندر داخل ہونے اور نفیکشن پھیلانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔الفا کورونا وائرس زیادہ تر عام نزلہ، زکام اور سانس کی بیماریوں کا سبب بنتے ہیں جسے موسمی فلو بھی کہا جاسکتا ہے۔ جب کہ وہ وائرس جن کا تعلق بیٹا کورونا وائرس کی قسم سے ہے انسانوں میں شدید قسم کا نمونیا پیدا کرسکتے ہیں۔
جنہیں سارس کوو) SARs COV) SARs COV2 MERS-COV جو کہ حالیہ کووڈ 19 نامی عالمی وبا ءکی وجہ بنا ہوا ہے ۔سارس کوو وائرس کے فلو کی ابتدا 2003ء میں چین کے ایک صوبہ گوانگ ڈونگ سے ہوئی جب کہ سائنسی شواہد سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ یہ وائرس ابتدائی طور پر صرف چمگادڑوں میں فلو کا انفیکشن پھیلاتا تھا۔ یعنی چمگادڑ ہی دراصل اس وائرس کے اصل میزبان تھے۔
جب کہ جینیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے یہ وائرس چمگادڑوں سے مونگ (Palm civets) نامی جانور میں درمیانی میزبان (Intermediate) سے انسانوں میں منتقل ہوا۔ گویا اس وائرس میں ایسی تبدیلیاں ہوئیں، جس سے اس نے چمگادڑوں کے ساتھ ساتھ انسانوں کو بھی اپنا ہدف بنالیا۔SARS-COV وائرس کی ابتدائی Emergence کے 10سال بعد MERS-COV نامی وائرس سعودی عرب کے شہر جدہ میں پہلی بار رونما ہوئے۔ اور اس بار بھی MERS-COV کی ابتدا ممکنہ طور پر چمگادڑوں سے اونٹوں اور پھر انسانوں میں ہوئی یعنی وائرس کے اندر ہونے والی مثبت جینیاتی تبدیلیوں نے اس وائرس کو چمگادڑ سے اونٹوں اور پھر انسانوں کو اپنا ہدف بنانے میں مدد کی۔ گوکہ اس وائرس نے انسانوں میں بہت زیادہ تباہی نہیں پھیلائی ،مگر وائرس میں ہونے والی مسلسل ارتقائی جینیاتی تبدیلیوں نے ایک بار پھر 2019ء میں کورونا وائرس کی عالمی وباء COVID-19 کو جنم دیا،جس کے اثرات سے اب تک دنیا باہر نہیں نکل سکی۔
سارس -کوو 2SARS-Cov2
دسمبر2019ءیں چین کے شہر وہان میں اچانک سے شدید قسم کانمونیا پھیل جانے پر سائنسدانوں نے جب تحقیقات شروع کی تواس تیزی سے پھیلنے والے نمونیا کی وجہ ایک نئی قسم کا کورونا وائرس جسےSARS-COV2 کانام دیاگیا تھا ،اس کی وجہ بنا۔SARS-COV2وائرس کا جینیاتی مادّہ تقریباً82 فی صدSARS-COVاور18 MERS-COVوائرس کے جینز پر مشتمل ہوتا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ دوسرے وائرس کی طرحSARS-COV2وائرس بھی اصل میں چمکادڑوں میں فلو پھیلانے والا وائرس تھا۔
مطلب اس کے میزبان چمکادڑ تھے اور جو کہ ارتقائی جینیاتی تبدیلی کے عمل سے گزرتے ہوئے پینگولن یعنی درمیانی میزبان جانوراور پھر انسانوں میں منتقل ہوگئے۔ گویا SARS-COV2بھی دراصل Cross Species Transmission کے نتیجے میں جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوئے۔ اس عمل کوViral Zoonosisبھی کہا جاتا ہے۔ اس وائرس کا جینیاتی مادّہ بھی RNAپر ہی مشتمل ہوتا ہے جیسا کہ شروع میں بتایا گیا کہ وہ وائرس جن کا جینیاتی مادّہRNAپر مشتمل ہوتا ہے۔ ان میں ارتقائی عمل دیگر دوسرے وائرس کے مقابلے میں کافی تیز ہوتا ہے، کیوں کہ RNAوائرس میں دوران نشونما جینیاتی تبدیلی جسے Mutation کہا جاتا ہے۔
یہ زیادہ تیزی سے ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ انسانوں میں اپنے پھیلاؤ کے دوران اس وائرس کے جینیاتی مادّے میں ہزاروں قسم کی چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں جنہیں سائنسی زبان میں Mutationکہتے ہیں رونما ہوتی چلی گئیں اور ان تبدیلیوں میں سے کچھ تبدیلیاں ایسی تھی جنہوں نےSARS-COV2 وائرس کو پہلے سے زیادہ طاقتور بناد،جس سے اس وائرس میں نہ صرف انسانوں میں مزید تیزی سے پھیلنے ،بیماری کی شدت میں اضافہ کرنے اور خود کو انسانوں کے مدافعتی نظام سے بچا کراپنی نشونما میں اضافہ کرنے جیسی صلاحیتوں میں اضافہ ہوا۔
سائنسدانوں نے2019ءسےلے کر اب تک پھیلنے والےSARS-COV2وائرس کے جینیاتی مادّے کے مسلسل مطالعے کے دوران وائرس میں ہونے والی مختلف جینیاتی تبدیلیوں کا انسانوں پر اثر دیکھنے کے بعد وائرس کے ان ویرینٹ کو مختلف نام دئیے۔جب کہ صحت کی عالمی تنظیم WHO نے SARS-COV2 وائرس کےویرینٹ کو آسان لاطینی ناموں میں تبدیل کردیا۔ اور پھر سائنسدانوں نے مزید آسانی کے لئے ان تیزی سے اُبھرتے ہوئے نئے اور زیادہ خطرناک ویرینٹ کودوجماعتوں میں تقسیم کردیا۔ جنہیں Variant of concern(VOCs) اور VOIs(variation of interest ) کہتے ہیں ۔
VOCمیںSARS-COV2کے ویرینٹ شامل کئے گئے ہیں، جن کی انسانوں میں نہ صرف خود کو تیزی سے پھیلانےکی صلاحیت میں اضافہ ہوا بلکہ بیماری کی شدت میں اضافہ ،بیمار کی علامات میں تبدیلی مثلاً نئی قسم کی علامات کا ظاہر ہونا، صحت وسماجی اقدامات تشخیص موجودہ علاج یا ویکسین کی تاثیر میں کمی ہونا شامل ہے۔ نیز یہ کہ وائرس کا پھیلاؤپوری دنیا میں ہوچکا ہے۔WHOنے وائرس کے ویرینٹ کی جینیاتی مطالعے اور ان کی خصوصیات یا نئی صلاحیتوں کی جانچ کے بعد SARS-COV2 وائرس کے5ویرینٹ کوVOCکی فہرست میں شامل کیا ہے۔ جن کے نام درج ذیل ہیں۔
الفا ویرنیٹ(Alpha Variant) جس کا سائنسی نامB.1.1.7ہے۔ اس ویرینٹ کا آغاز دسمبر 2020میں برطانیہ سے ہوا۔ الفا ویرینٹ کے جینوم کے مطالعے کے دوران اس وائرس کے جنیوم میں17تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا گیا جن میں سے آٹھ تبدیلیاں اس وائرس کے جنیوم کے اس حصے میں تھیں جو کہ وائرس کی اسپائیک روٹین بناتی ہیں۔ جب کہ اسپائیکپروٹین ہی وہ پروٹین ہے جو کہ وائرس کو اپنے میزبان خلیہ سے چپکنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ جو کہ انفیکشن پھیلانے کا سب سے پہلا اور انتہائی اہم مرحلہ ہے۔
بیٹاویرینٹ (Beta Variant)کا سائنسی نامB.1.351 اس ویرینٹ کا آغازدسمبر2020میں ساؤتھ افریقا سے ہوا۔ اس وائرس کے جینیاتی مطالعے کے دوران سائنسدانوں نے وائرس کی اسپائیکپروٹین میں9مقامات پر تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا ۔ ان تبدیلیوں نے اس ویرینٹ کی اپنے میزبان سے چپکنے کی صلاحیت کوبڑھادیا۔
گاما ویرینٹ(Gama Variant)سائنسی ناP.1ہے۔ اس کا آغاز برازیل سے ہوا جب کے اس کےاسپائیک روٹین میں دس طرح کی تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا گیا، جس نے اس کو پھیلنے میں مزید تیز رفتار بنادیا۔ڈیلٹا ویرینٹ(Delta Variant)کا سائنسی نامB.1.6.172ہے، یہ ویرینٹ انڈیا سے اُبھرا اور تیزی سے پوری دنیا میں پھیل گیا ۔اس وائرس کیSPIkEپروٹین میں بھی دس طرح کی تبدیلیاں نظر آئیں۔اومی کرون ویرنیٹ(Omicron Variant) کا سائنسی نامB.1.1.529 ہے۔ یہ ویرینٹ۔نومبر2021میں پہلی بار ساؤتھ افریقامیں رپورٹ ہوا اور اب یہ پوری دنیا میں انتہائی تیزی سے پھیلنے والاSARS-Cov2کا ویرینٹ بن گیا ہے۔
اس وائرس کے جینوم میں30سےزیادہ (Mutation)تبدیلیوں کا مشاہدہ وائرس کی اسپائیک پروٹین میں کیا گیا۔ ان تبدیلیوں کے نتیجے میں یہ وائرس ڈیلٹا ویرینٹ کے مقابلے میں13گنا زیادہ تیزی سے پھیلنے والا وائرس بن گیا۔VOIsجسے variant of interestبھی کہتے ہیں۔SARS-COV2وائرس کے فی الحال دوویرینٹ اس جماعت میں شامل کئے گئے ہیں۔ VOTsمیں ایسے ویرنیٹ شامل کئے جاتے ہیں جن میں جینیاتی تبدیلی کی وجہ سے ایسی خصوصیات پیدا ہوجاتی ہیں، جس سے وہ وائرس نہ صرف زیادہ تیزی سے پھیلنے لگتا ہے بلکہ جس کی وجہ سے بیماری کی شدت ،تشخیص اور علاج میں مشکلات ویکسین اور مدافعتی نظام کے اثرات میں کمی آنے لگے اور وائرس ایک بڑے علاقے میں پھیل رہا ہو۔
فی الحالSARs COV2وائرس کے دوویرینٹ اس میں شامل کئے گئے ہیں۔
1۔ لمبڈا(Lambda)ویرینٹ، جس کا سائنسی نام C.37 ہے یہ وائرس جون2021میں پیرو نامی شہر سے اُبھرا۔
2۔میو(MU)سائنسی نامیB.1.621, یہ وائرس اگست 2021سے امریکا کے شہر کو لمبا سے پھیلانا شروع ہوا۔
وائرس کے ان ویرینٹ میں بھی زیادہ تر تبدیلیاں اس کے اسپائیک نامی پروٹین ہی میں پائی گئی، جس نے اس وائرس کی بیماری پھیلانے کی شدت اور دیگر خصوصیات میں اضافہ کردیا۔ SARs-COV2وائرس کے ان ویرینٹ کے علاوہ کئی اور ایسی ویرینٹ بھی ہیں۔ جنہیںWHOنے اپنی تحقیق میں شامل کیا ہے۔واضح رہے کہSARs-COV2وائرس کے یہ ویرینٹ جن کو ان کی جینیاتی تبدیلی کے مطالعے اور نتیجتاً ہونے والی صلاحیتوں میں اضافے کے باعث خاص طور سے مشاہدے میں رکھا گیا ہے ،مگر کیوں کہ ان جینیاتی تبدیلیوں جن سے وائرس کے اندر بیماری پھیلانے کی طاقت میں اضافہ نہ ہوا ہو یا شاید وائرس کی طاقت میں کمی واقع ہوگئی ہو،ان وائرسز کا مطالعہ مزید نہیں کیا گیا۔
آخر میں یہ کہنا درست ہوگا کہ مسلسل ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیاں بڑھتی ہوئی انسانی آبادی اور ان کی سرگرمیوں نے وائرس کے ارتقا اور نتیجتاً ہونے والے پھیلاؤکی رفتار کو بہت زیادہ تیز کردیا ہے اور ضرورت اس بات کی ہےکہ عالمی سطح پرZoonosisیعنی جانوروں سے انسانوں میں پھیلنے والی بیماریوں سے ممکنہ طور پر بچنے کے لئے اسے ادارے تشکیل دئیے جائیں جو کہ نہ صرف ماحولیاتی تبدیلیوں کے جانوروں پر اثرات اور ان میں ہونے والی بیماریوں خصوصاً وائرس سے ہونے والی بیماریوں کی جانچ کرسکیں اور ان وائرس کے انسانوں میں پھیلنے کے امکانات کو مدنظر رکھتے ہوئے اسی کی روک تھام کے لئے مناسب حکمت عملی تیار کی جائے، جس میں ویکسین کی تیاری بھی شامل ہے،تا کہ آنے والی وباءسے بچائو ممکن ہو ۔