• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرزا غالب 

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا

اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا

ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا

کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا

کبھی تو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا

کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیر نیم کش کو

یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا

یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح

کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا

رگ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا

جسے غم سمجھ رہے ہو یہ اگر شرار ہوتا

غم اگرچہ جاں گسل ہے پہ کہاں بچیں کہ دل ہے

غم عشق گر نہ ہوتا غم روزگار ہوتا

کہوں کس سے میں کہ کیا ہے شب غم بری بلا ہے

مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا

ہوئے مر کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا

نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا

اسے کون دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا

جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دو چار ہوتا

یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالبؔ

تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا

کوئی اُمید بر نہیں آتی

 کوئی اُمید بر نہیں آتی

کوئی صورت نظر نہیں آتی

موت کا ایک دن معین ہے

نیند کیوں رات بھر نہیں آتی

آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی

اب کسی بات پر نہیں آتی

جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد

پر طبیعت ادھر نہیں آتی

ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں

ورنہ کیا بات کر نہیں آتی

کیوں نہ چیخوں کہ یاد کرتے ہیں

میری آواز گر نہیں آتی

داغ دل گر نظر نہیں آتا

بو بھی اے چارہ گر نہیں آتی

ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی

کچھ ہماری خبر نہیں آتی

مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی

موت آتی ہے پر نہیں آتی

کعبہ کس منہ سے جاوگے غالبؔ

شرم تم کو مگر نہیں آتی

آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہوتے تک

آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہوتے تک

کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہوتے تک

دام ہر موج میں ہے حلقۂ صد کام نہنگ

دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہوتے تک

عاشقی صبر طلب اور تمنا بیتاب

دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہوتے تک

تا قیامت شب فرقت میں گزر جائے گی عمر

سات دن ہم پہ بھی بھاری ہیں سحر ہوتے تک

ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن

خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہوتے تک

پرتو خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم

میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہوتے تک

یک نظر بیش نہیں فرصت ہستی غافل

گرمیٔ بزم ہے اک رقص شرر ہوتے تک

غم ہستی کا اسدؔ کس سے ہو جز مرگ علاج

شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہوتے تک 

معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے

ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔

ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔

تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ اس ہفتے قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہےآپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:

رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر

روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی