حالیہ کچھ عرصے میں تعلیمی اداروں میں لڑکیوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات نے سول سوسائٹی خاص طور پر والدین کو خوف و تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ تازہ ترین واقعہ پروین رند کا ہے، جس نے پرانےاس طرح کے واقعات کی یاد تازہ کر دی ہے۔ ہمارے ہاں تعلیم کی شرح ویسے تو مردوں اور عورتوں دونوں کے لئے کم ہے لیکن لڑکیوں کے لئے یہ شرح اور بھی کم ہے۔ہمیں ڈر ہے کہ جن لڑکیوں کو تعلیم کے مواقع حاصل ہیں۔
اس طرح کے واقعات کی بدولت انہیں بھی گھر وں میں بٹھا لیا جائے گا اور ہمارا ملک ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جائے گا۔ ہم اُمید کرتے ہیں کہ حکام بالا تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسانی کے ذمہ داروں کا سراغ لگا کے انہیں کڑی سے کڑی سزا دیں گے۔ ہمیں اپنے تعلیمی اداروں میں خاص طور پر اور معاشرے میں مجموعی طور پر اپنی بیٹیوں کے لئے سازگار اور محفوظ ماحول پیدا کرنا ہے۔
پاکستان کے بانی نے کہا تھا ’’تم مجھے پڑھی لکھی مائیں دو۔ میں تمہیں پڑھی لکھی قوم دوں گا‘‘ ہمیں ڈر ہے کہ اس طرح کے واقعات ہماری قوم کو جاہلوں کے ریوڑ میں نہ تبدیل کر دیں۔ اس کے ساتھ ہی ہمیں اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں مردوں نے لڑکیوں کو جنسی بھوک مٹانے کا ذریعہ کیوں سمجھ لیا گیا ہے؟ ’’بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں‘‘ والی اخلاقیات کہاں چلی گئی۔ مرد اور عورت دونوں کے حقوق انسانی حقوق ہیں اور تعلیم اداروں میں کام کرنے والے مردوں کو عورتوں کے حقوق پامال کرنے کی اجازت ہر گز نہیں دی جا سکتی، عورتوں کی ترقی کے بغیر پاکستان کی ترقی ممکن نہیں۔
جنسی ہراسانی سے تحفظ کے قانون پر پوری طرح عمل درآمد کیا جائے۔ اس کے بارے میں آگاہی پھیلائی جائے اور ہر ادارے میں انکوائری کمیٹی بنائی جائے۔ پروین رند کے واقعے نے نوشین شاہ ،نائلہ رند اور نمرتا کماری کے واقعات کو ایک بھر سے لوگوں کے ذہنوں میں تازہ کردیا ۔ جنوری 2017 میں سندھ یونیورسٹی کے ہوسٹل میں نائلہ رند کی خود کشی کا واقعہ پیش آیا تھا۔معلوم یہ ہواتھاکہ واٹس ایپ پر ایک آدمی سے دوستی ہوجانے کے بعد اس کی بلیک میلنگ اور استحصال کے نتیجے میں اس نے خود کشی کی تھی۔
دو سال قبل نمرتا کماری کی ہلاکت کا واقعہ پیش آیاتھا اور ڈی این اے کی رپورٹ سے ثابت ہو گیا تھا کہ اس کا ریپ کیا گیا تھا۔ نمرتا بی بی آصفہ ڈینٹل کالج میں فائنل ائیر کی اسٹوڈنٹ تھی۔ سولہ دسمبر 2019ء کو وہ اپنے ہاسٹل کے کمرے میں پر اسرار حالات میں مردہ پائی گئی۔ پولیس کی تحقیق سے پہلے ہی وی سی ڈاکٹر انیلہ عطا ا لرحمٰن نے اسے خودکشی قرار دے دیا تھا۔ نومبر 2021 ءمیں چانڈکا میڈیکل کالج، لاڑکانہ کی طالبہ نوشین شاہ کی خود کشی کا واقعہ پیش آیا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہراسانی کے واقعات کیوں پیش آتے ہیں؟ اس معاشرے میں مرد طاقتور اور عورت کمزور ہے۔ عورت اسی لئے جنسی ہراسانی کا شکار ہوتی ہے کہ اکثر صورتوں میں کم با اختیار ، غیر محفوظ اور مجبور ہوتی ہے۔اکثر لڑکیوں میں خود اعتمادی کی کمی ہوتی ہے ، ویسے بھی اکثر گھروں میں انہیں خاموشی سے سب کچھ برداشت کرنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ یہ سمجھنے کے لئے کہ عورتیں جنسی ہراسانی کو کیوں برداشت کرتی ہیں ، ہمیں مندرجہ ذیل عوامل پر نگاہ رکھنی ہو گی:
دنیا کے اکثر ممالک میں مردوں اور عوتوں کے باہمی تعلقات میں تشدد کا عنصر بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔
دفاتر اور دیگر اداروں میں تشدد اور ہراسانی کی ایک وجہ مردوں کی عورتوں کے لئے نفرت بھی ہے کہ اب اقتصادی شعبے میں عورتیں مردوں کی جگہ لے رہی ہیں۔جنسی امتیاز کا تعلق جنسی ہراسانی سے جڑا ہوا ہے۔ ہراساں کر کے مرد عورت کو اس کے کم تر مقام کا احساس دلا رہا ہوتا ہے۔
جنسی ہراسانی کی وبا دنیا بھر کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پھیلی ہوئی ہے۔افراد، گروہوں اور اداروں پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ غیر یقینی حالات کار ، درجہ بند تنظیمیں، صنفی بنیاد پر ہونے والے تشدد کو معمول کی بات سمجھنا اور زہریلی اکیڈمک مردانگی،خاموشی کا کلچر اور فعال قیادت کا فقدان،سب مل کے جنسی ہراسانی کے لئے راہ ہموار کرتے ہیں۔
ڈیجیٹل انقلاب اور سوشل میڈیا کے آنے کے بعد تعلیمی اداروں میں سائبر ہراسمنٹ بھی شروع ہوگئی ہے۔ پاکستان میں سندھ کی نائیلہ رند اسی وجہ سے خود کشی کرنے پر مجبور ہوئی۔ پاکستان میں سائبر کرائم کے خلاف قانون بن چکا ہے اور ایف آئی اے کے پاس سائبر ہراسمنٹ کی شکایت درج کرائی جاسکتی ہے لیکن دیگر قوانین کی طرح اس پر بھی عمل درآمد کی شرح بہت کم ہے۔جب 2010 ءمیں جنسی ہراسانی کے خلاف قانون بنا تو اس کے ساتھ ایک ضابطہ ء اخلاق بھی بنایا گیا تھا۔ہر ادارے کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس ضابطہء اخلاق کو کسی ایسی جگہ لگائے جہاں سب لوگ اسے پڑھ سکیں۔
جنسی ہراسانی کے لئے پاکستان کے ضابطہ ء فوجداری کے سیکشن 509 میں بھی ترمیم کی گئی۔ اب جو کوئی ،کسی خاتون کی توہین کرے ،کوئی لفظ ادا کرے،کوئی آواز یا معنی خیز حرکت کرے،یا کسی شے کی نمائش کرے ،جس کا مقصد اس خاتون کو پریشان کرنا ہو۔
جنسی نوعیت کے تحریری ، زبانی یا جسمانی روئیے کا اظہار کرے، جس کا مقصد دوسرے شخص کو تکلیف پہنچانا یا ہراساں کرنا یا معاندانہ ماحول پیدا کرنا ہو تو اس کے لئے تین سال کی سزا یا پانچ لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔ یہ سیکشن عام جگہوں یعنی مارکیٹ، پارک ، ٹرانسپورٹ پر بھی لاگو ہو گا۔
گیارہ بارہ سال بعد وزارت انسانی حقوق نے کام کی جگہ پر ہراسانی سے تحفظ کے قانون میں ترمیم کی ہے۔ کام کی جگہ اور ہراسانی کی تعریف کو وسیع کیا گیا ہے۔ عورت اور مرد کی جگہ شخص کا لفظ استعمال کیا جائے گا۔اور دیگر ترامیم اور اضافہ کیا گیا ہے۔ امید ہے کہ نئے اور پرانے قوانین پر پوری طرح عملدرآمد کیا جائے گا۔
یہ ایک عالمی اور سماجی مسئلہ بھی ہے۔ اس کے لئے سماجی رویوں کو بدلنا بھی ضروری ہے،ورنہ کارکردگی متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ جان جانے کا اندیشہ بھی رہتا ہے۔ہر ادارے کے لئے یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ جنسی ہراسانی کو روکنا اس کی اولین ترجیح ہے۔ حال ہی میں چلنے والی مہم ME TOO اور ہراسانی کے بے شمار کیسز کا ایک مثبت نتیجہ یہ نکل سکتا ہے کہ اداروں میں کام کرنے والوں کو ان رویوں کے بارے میں بتایا جائے جنہیں اداروں میں کسی طور برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اداروں اور تنظیموں کو اپنی ہراسانی پالیسی کا باقاعدگی سے جائزہ لیتے رہنا چاہیے۔صرف ادارے میں شمولیت اورسالانہ پروگراموں میں ہی نہیں بلکہ سال بھر چھوٹی چھوٹی میٹنگز میں اس پالیسی کے بارے میں بتاتے رہنا چاہیے۔