• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وقاص عالم انگاریہ

9 فروری 1984کو طلباء یونین کی پابندی نے جو معاشرے میں جبر و استبداد، سیاسی قیادت کے قحط سمیت دائیں بازو کی طلباء تنظیموں کے قہر کو نازل کیا اس کی داستان تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے۔ 1984 میں ضیاء الحق نے طلباء یونین پر پابندی تب لگائی جب این-ایس-ایف نے ڈاو میڈیکل کالج میں جمیعت کو شکست دے کر الیکشن جیتے۔ اس بات کا قوی امکان تھا کہ اس وقت جو طلباء الائنس بنا تھا ،وہ بھی وہ ہی حال کرتا جو این-ایس-ایف نے 1969 میں کیا تھا لیکن حالات مزید واضح ہوتے اس سے پہلے ہی طلباء یونین پر پابندی عائد کردی گئی اور جامعات سے طلباء نمائندگان کو گرفتار کر لیاگیا۔ 

اس عمل کے خلاف ۱۰۰ دن کا احتجاج بھی ہو،ا مگر طلباء یونین پر سے پابندی نہیں ہٹائی گئی۔ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور میں طلباء یونین سے پابندی ہٹا لی گئی لیکن طلباء تنظیموں میں فساد و جھگڑے کے سبب الیکشن کی تاریخ نہیں دی گئی اور بالآخر ۱۹۹۳ کو عدالت عالیہ نے یہ حکم جاری کیا اب الیکشن غیر جماعتی ہوں گے، سینڈیکٹ میں طلباء کی نمائندگی نہیں ہوگی اور یہ بھی تب ممکن ہوگا جب جامعات یونین کے لئے قوانین کا ڈھانچہ تیار نہ کردے۔ 

یونین کی پابندی کو باقاعدہ 38 سال ہو گئے اور ان سالوں میں فیسوں میں اضافہ، طلباء کے ہاسٹل پر رینجرز کی رہائش، ٹرانسپورٹ کا خاتمہ اور ایک بے ہنگم نجکاری نے پورے سماج میں شعبہ تعلیم کو دیکھنے کا زاویہ ہی تبدیل کردیا ہے۔ این-ایس-ایف کے آخری بچ گئے چند لوگوں نے کوششیں کیں کہ کسی طرح بھی اس جمود کو توڑا جائے اور سیاست کو کیمپس میں دوبارہ بحال کیا جائے۔ 

ریاستی شب و ستم کو سہتے سہتے جو کاوشیں ۲۰۰۷ سے شروع ہوئی اس کو پنپنے میں وقت ہی وقت لگا۔ وکلاء تحریک سے چند سرخوں نے این-ایس-ایف کو دوبارہ آرگنائز کرنے کی کوششیں کیں لیکن نہ تو سماج تیار تھا اور نہ حالات۔ کریک ڈاون، تشدد ا گئیں لیکن ان کی آواز اٹھانے کے لئے کوئی بھی موجود نہ تھا جبکہ جامعات نفرت اور فساد کا مرکز رہی۔

ترقی پسند خیالات کی نئی لہر2015-16 میں دوبارہ اٹھی جب مختلف گروہوں اور دھڑوں نے اپنی شمولیت پی-آر-ایس-ایف اور عوامی ورکرز پارٹی میں کی جس کے بعد یونین کی کوششیں تیز تر ہوگئیں۔ 2018 میں پہلی بار طلباء یکجہتی مارچ منعقد ہوا جو بہت محدود تھا۔ 2019 میں سوشلسٹ نظریات کی حامی تنظیموں نے قوم پرست طلباء جماعتوں سے الائنس کرتے ہوئے 1974 کی طرز پر اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی قائم کی گئی جس میں ملک بھر کی تمام ترقی پسند تنظیمیں جو نہ تو فرقہ پرست تھیں نا ہی متعصب تھیں ایک الائنس میں رہتے ہوئے اپنے آپس کے جھگڑوں کو بھلاتے ہوئے ایک بار پھر طلباء یونین کے لئے سرگرم ہوگئیں۔ 

کراچی میں اسی ضمن میں سب سے بڑا الائنس ترتیب دیا گیا جس میں 13 تنظیمیں شامل تھیں جو کہ ترقی پسند اور عوام دوست تھیں۔ انہوں نے مل کر طلباء یکجہتی مارچ کا دوبارہ انعقاد کیا۔ جب یہ طلباء تنظیمیں اپنی موبیلائزیشن میں لگی تھیں تب ہی لاہور سے "سرفروشی کی تمنا" پر نعرے بازی کرتے طلباء کی سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے 55 شہروں میں یہ مارچ منعقد کیا گیا۔ کراچی میں سب سے بڑا مارچ ہوا۔

29 نومبر2019 کو 35 سال بعد صدر کی گلیوں نے شہید حسن ناصر، نظیر عباسی کی جدوجہد پر نعرے سنے، ایشیاء سرخ کی صدائیں ایک بار پھر کراچی کے اولڈ سٹی ایریا میں گونجیں جو کبھی ترقی پسند نظریات کا گڑھ تھا۔

طلباء یونین کی بندش سے جو جمود معاشرے میں پیدا ہوا، اس نے ملکی سیاست کو بانجھ کرکے رکھ دیا۔ 1988 سے 2018 کے الیکشن تک ہمارے پاس محض تین چہرے یا خاندان چھائے ہوئے نظر آئے جبکہ 22 کروڑ کی آبادی میں جہاں گلی گلی میں سیاسی شعور بلوغت سے پہلے ہی بچوں میں پنپ جاتا ہے کوئی بھی متبادل بیانیہ پروان نہیں چڑھ سکا۔ 

جامعات میں مذہبی انتہا پسندی بڑھتی رہی اور دیکھتے دیکھتے مشال خان کا واقعہ اور ہجوم کے ذریعے زندگی اور موت کے فیصلے عام ہوگئے۔ وہ معاشرہ جہاں پر مختلف نظریات کا ہونا خوبصورتی تھی اب ایک مطلق العنانییت کے سائے تلے پنپنے لگے۔

یہ فقرہ عام ہوگیا کہ طلباء متشدد ہیں، طلباء متعصب ہیں لیکن یہ بات نہیں کی جاتی کہ یونین کے نہ ہونے سے طالبات پر ہراسانی کے واقعات، جنسی زیادتیوں کے بعد ان کا قتل، فیسوں میں اضافہ، پانی مانگنے اور نجکاری کے خلاف نکلنے پر غداری کے مقدمات سمیت انتظامیہ گردی کس حد تک بڑھ چکی ہے۔ ان تمام مطالبات کے ساتھ طلباء یکجہتی مارچ کیا گیا تھا، جس نے بالآخر سندھ حکومت کو مجبور کیا کہ وہ طلباء یونین کے بل پر چپ توڑ دیں۔

2019 میں سب سے پہلی میٹنگ کراچی کے منتظم مرتضی وہاب نے کی جہاں پر میں نے ان کے سامنے تمام الائنس میں موجود تنظیموں کا مقدمہ رکھا اور اس میٹنگ کے بعد جنوری 2020 میں اسٹیرنگ کمیٹی نے تمام طلباء تنظیموں کو ایک گرینڈ میٹنگ میں مدعو کیا ،جہاں پر سندھ حکومت کے یونین کے ڈرافٹ پر آراء اور تنقیدی جائزہ لیا گیا۔ اس بل میں بہت نقائص تھے،جن کو اجتماعی طور پر طلباء تنظیموں نے چیلنج کیا۔ 

جیسے شق نمبر 2 کے سب سیکشن (ا) میں جو تعریف تعلیمی ادارے کی کی گئی تھی اس پر "ٹیکنیکل" ادارے پورا نہیں اتررہے تھے جسے شامل کرنے کی استدعا کی گئی۔ اسی طرح شق 2 کے سب سیکشن (c) پر یہ اعتراض تھا کہ "تعصبانہ" لفظ کی وضاحت کی جائے جس کی وجہ سے کسی بھی شاگرد کو جامعہ سے فارغ کیا جاسکتا تھا اسی لئے اس شق کو بل سے حذف کیا جائے۔ اسی طرح خواتین کی یونین میں نمائندگی کو یقینی بنانے کے لئے بل میں ترمیم ہو، ہڑتال کرنے سمیت کسی بھی سیاسی عمل کی ممانعت کو بل سے نکالا جائے کیوں کہ وہی یونین کی اصل روح ہے۔

اس میٹنگ کے دو سال بعد طلباء یونین کا بل اسٹیرنگ کمیٹی سے منظور ہوکر گورنر کی منظوری کا منتظر ہے۔ لیکن یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ قانونی طور پر کبھی بھی طلبا یونین پر پابندی نہیں رہی بلکہ پابندی کا اطلاق سپریم کورٹ کے فیصلے 1993 کی بنیاد پر ہے جس میں عدالت عالیہ نے طلبا کو سیاست میں حصہ نہ لینے کا حکم دیتے ہوئے تعلیمی اداروں کو ایک مہینہ میں ایک جامع کوڈ آف کنڈکٹ بنانے کا حکم دیا تھا جو کہ آج تک عملی جامہ نہیں پہن سکا۔ 

جس طرح ماضی میں طلبا کے تشدد کے باعث یونین کے انتخابات نہ ہوسکے اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ اب بھی وہ حالات دوبارہ پیدا کیے جاسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ ابہام بھی موجود ہے کہ موجودہ بل میں طلبا یونین کے اختیارات کو بہت ہی محدود کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس پر طلبا تنظیموں کو تشویش ہے۔

ان 38سالوں میں بہت کچھ تبدیل ہوگیا ہے جس کی وجہ سے آنے والی طلبا قیادت کے وژن کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔ 1984سے اب تک نہ ہی ایشیا سرخ ہوا نہ ہی سبز، نہ تو سویت یونین رہا نہ چین میں سوشلزم، اور نہ ہی افغانستان کا جہاد باقی رہا۔ رہی تو بس نجکاری، مذہبی و لسانی انتہا پسندی، قتل و غارت گری، طلبا ءکی جبری گمشدگیاں، مسلح اداروں کا تعلیمی اداروں میں عمل دخل یا اس کے نتیجے میں سیاست بیزاری، طبقاتی نظام تعلیم اور آزادی اظہار رائے کی باقیات۔ نہ تو تنظیم کاری ماضی کی طرح موجود ہے نہ نظریاتی کارکنان ہیں۔

سوشل میڈیا کے انقلاب نے جہاں پر معلومات کو سہل کردیا ہے وہیں پر انتشار، جھوٹ اور نفرت انگیزی میں بھی اضافہ ہوا ہے جس نے نہ صرف تعلیمی اداروں میں نفرت کی دکانوں کو چمکایا ہوا ہے بلکہ سماج میں ہر سیاسی عمل میں اس نفرت کا بڑا حصہ داری ہے۔

یونین کے عدم موجودگی نے افغان جہاد کے بعد بڑھتی ہوئی انتہاپسند سوچ کو جامعات میں جتنا بڑھا دیا ہے وہ ۸۴ میں شاید نہیں تھی۔ ریاست، سماج، خواتین کے حقوق سمیت تمام خیالات اور تناظر تبدیل ہوچکے ہیں اب طلباء سیاست یا تو شخصیات کے گرد گھوم رہی ہے، یا لسانیت یا فرقوں میں بٹ چکی ہے۔ 

اس صورتحال میں ترقی پسند نظریات کو پنپنے میں ہوسکتا ہے وقت لگے لیکن سیاست کا عمل جامعات میں ہونا ناگزیر بن چکا ہے۔ اب نظریات پر تبادلہ خیال کی ضرورت پہلے سے زیادہ ہوچکی ہے۔ طلباء یونین کی بحالی ایک تاریخی فیصلہ ہوگا لیکن اس عمل سے سماج میں توازن بنانے کے لئے مزید کئی دہایاں لگیں گی لیکن کبھی نہ کبھی حقیقی جمہوری روایات کی صبح ہم دیکھیں گے۔

طلباء یونین کی بحالی ایک تاریخی فیصلہ ہوگا

38 سال قبل تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین پر پابندی ضیا دور کا سیاہ ترین اقدام تھا ،جس کا نتیجہ اس قوم نے پچھلے کئی سالوں میں بھگتا ہے۔ طلبہ یونین پر پابندی کے نتیجے میں اس قوم کو پچھلے تیس سالوں میں مناسب قیادت میسر نہیں آسکی۔ طلبہ یونین تعلیمی اداروں میں طلبہ کو مثبت سرگرمیوں کی طرف راغب کرتی تھیں اور 38 سال قبل تک طلبہ یونین کی موجودگی کی وجہ سے قوم کو ایک بہتر سیاسی قیادت ملتی رہی لیکن بعد میں آنے والے چونکہ ایسی کسی تربیت سے محروم تھے، اس لیے انہوں نے ملک و قوم کو لوٹنا ہی بس اپنا نصب العین رکھا۔ 1978 میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی تحریک میں طلبہ یونین نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ 

طلبہ رہنما بھی صحافیوں کے ساتھ گرفتاریاں دینے والوں میں شامل تھے، انہوں نے ملک میں آزادی صحافت اور آزادی اظہار رائے کی لڑائی پی ایف یو جے کے ساتھ مل کر لڑی ۔ سندھ اسمبلی سے طلبہ یونین کے بحالی کے بل پاس ہونا ایک مستحسن اقدام ہے۔ کراچی یونین آف جرنلسٹس سندھ اسملبی نے وفاقی حکومت سے بھی مطالبہ ہے کہ وہ سندھ حکومت کی پیروی کرتے ہوئے اپنے وعدے پر عملدرآمد کرے اور پورے ملک میں طلبہ یونین بحال کی جائیں۔

ان کی بحالی سے تعلیمی اداروں میں مثبت سرگرمیوں کا آغاز ہوگا ۔ طلبہ کو اپنے لیے بہترین قیادت کے چناؤ کا موقع ملے گا اور پھر یہی قیادت آئندہ ملک کی باگ دوڑسنبھالنے کے قابل ہوگی۔ طلبہ یونین کے پلیٹ فارم سے ہونے والی طلبہ سیاست کے نتیجے میں ہی طلبہ کو حق و سچ اور آزادی اظہار کی لڑائی لڑنے کا موقع ملے گا ، ماضی کی طرح یہی طلبہ آگے چل کر ملک کی طاقت بنیں گے۔

متوجہ ہوں!

قارئین کرام آپ نے صفحۂ ’’نوجوان‘‘ پڑھا، آپ کو کیسا لگا؟ہمیں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔اگر آپ بھی نوجوانوں سے متعلق موضاعات پر لکھناچاہتے ہیں، تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریریں ہمیں ضرور بھیجیں۔ ہم نوک پلک درست کر کے شائع کریں گے۔

اس ہفتے نوجوانوں کے حوالے سےمنعقدہ تقریبات کا احوال اور خبر نامہ کے حوالے سے ایک نیا سلسلہ شروع کررہے ہیں، آپ بھی اس کا حصّہ بن سکتے ہیں اپنے ادارے میں ہونے والی تقریبات کا مختصر احوال بمعہ تصاویر کے ہمیں ارسال کریں اور پھر صفحہ نوجوان پر ملاحظہ کریں۔

ہمارا پتا ہے:

انچارج صفحہ ’’نوجوان‘‘ روزنامہ جنگ، میگزین سیکشن،اخبار منزل، آئی آئی چندریگر روڈ کراچی

اخبار منزل،آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔