ڈیٹ لائن ، لندن … آصف ڈار
برطانیہ میں لاک ڈائون اور پاکستان کے ریڈلسٹ میں ہونے کے دوران واپس آنے والے برٹش پاکستانیوں کے ساتھ ’’ہاتھ‘‘ ضرور ہوا ہے، ہوٹلز میں قرنطینہ کرنے کے لئے پاکستان میں ایجنٹس کے ذریعے بکنگ کرانے والے ایجنٹس نے یقیناً خوب کمائی کی ہوگی اور یہ کمائی اس صفائی سے کی گئی ہے کہ سمجھ میں نہیں آرہا کہ ہوا کیا ہے، ان ایجنٹس کے ذریعے رعایتی نرخوں پر ہوٹل بک کرانے والے بعض برٹش پاکستانیوں نے پیسوں کی ادائیگی اس وقت کی جب انہوں نے برطانیہ فون کرکے اپنی بکنگ کنفرم کی، سب سے بڑھ کر یہ کہ انہوں نے 10 دن اور 11 راتیں ہوٹلز میں قیام بھی کیا، برطانیہ آمد پر ائرپورٹس اور ہوٹلز میں انہوں نے ادائیگی کے سارے کاغذات بھی دکھائے اگر ان کی ادائیگی نہ ہوئی ہوتی تو ہوٹلز والے انہیں کمروں میں گھسنے نہ دیتے اور ائرپورٹس والے پیسوں کے معاملات حل ہونے تک انہیں ہوٹلز کی طرف روانہ ہی نہ کرتے، ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تو پھر ہوا یہ کہ قرنطینہ کرکے گھروں میں واپس آنے اور اپنے کام کاج میں مصروف ہو جانے والے پاکستانیوں پر قرنطینہ کے ایک سے تین ماہ کے دوران محکمہ صحت اور بعض دوسرے اداروں کے خطوط بجلی بن کر گرے، ان محکموں نے نہ صرف خطوط بلکہ ٹیکسٹ پیغامات کی بمباری بھی کردی اور ان سے تقاضا کیا کہ اپنے ہوٹلز میں قیام کی رقوم ایک ماہ کے اندر ادا کردیں وگرنہ ان کے خلاف سخت کارروائی ہوگی، پریشانی کا شکار ان پاکستانیوں نے اپنے گھوڑے کمیونٹی لیڈرز، پولیس اور میڈیا تک دوڑا دیئے بعض نے پاکستانی ہائی کمیشن اور قونصلیٹ دفاتر پر بھی دستک دی مگر کچھ نہ ہوا، پریشانی وہیں کی وہیں ہے، ادائیگی کے مطالبے کی تلوار ہے کہ لٹکی ہوئی ہے بعض لوگوں نے پاکستان میں اپنے ایجنٹس سے رابطہ کرکے ان کی ٹھکائی کی مگر وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے برطانیہ میں کریڈٹ کارڈز ہولڈرز اپنے ایجنٹس کے ذریعے ادائیگی کر دی تھی، اس میں ان کا کیا قصور ہے، شنید یہ بھی ہے کہ ان ایجنٹس نے برطانیہ میں اپنے ایجنٹس کے ذریعے کریڈٹ کارڈز پر ادائیگی کرائی چونکہ کریڈٹ کارڈز پیمنٹ کچھ وقت کے بعد منسوخ کرائی جا سکتی ہے اس لئے ایسا ہی ہوا جب تک ہوٹلز والوں کو پتہ چلتا، سب کے ساتھ مبینہ فراڈ ہو چکا ہے ،اب کوئی بھی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں۔ ہائی کمیشن کو فون کرنے پر بعض متاثرین کو بتایا گیا کہ انہوں نے ایجنٹس کو پیسے کیوں دیئے، وہ براہ راست ہوٹلز کی بکنگ خود بھی تو کرا سکتے تھے، اس کا جواب یہ ہے کہ ہوٹل بک کرانے والی ویب سائٹ انتہائی پریشان کن تھی اور اس پر بکنگ ہونا ممکن نظر نہیں آتا تھا جب کہ ویب سائٹ پر دیا گیا فون نمبر لگتا ہی نہیں تھا، ایسی صورت میں لوگوں کو ایجنٹس کے پاس جانا پڑا، انہوں نے یہی سمجھا کہ لوگوں کی سہولت کے لئے ایجنٹ مقرر کئے گئے ہیں اگر انہیں معلوم ہوتا کہ ان کے ساتھ ’’یہ‘‘ ہوگا تو وہ کبھی ان ایجنٹس کے ہتھے نہ چڑھتے جن لوگوں نے پولیس کے ساتھ رابطہ کیا ان لوگوں سے پولیس کا کہنا ہے کہ وہ اس بارے میں بے بس نظر آتی ہے کیونکہ فراڈ اگر ہوا ہے تو بڑی صفائی سے ہوا ہے اور اگر یہ لیٹر بازی کوئی فراڈ ہے تو بھی برٹش پاکستانیوں کو محتاط رہنا ہوگا، دونوں صورتوں میں بدنامی پاکستان کی ہو رہی ہے، اس لئے برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اس معاملے کو برطانوی حکومت کے سامنے اٹھائے اگر اس میں پاکستانی ایجنٹس کا قصور ہے تو حکومت پاکستان ان ایجنٹس کے خلاف کارروائی کرے، سارے ایجنٹس کی تفصیلات برٹش پاکستانیوں کے پاس موجود ہیں۔