سندھ میں اچانک ایک مرتبہ پھر جرائم کی وارداتوں میں تیزی سے اضافہ دیکھا جارہا ہے ڈکیتی لوٹ مار اغوا برائے تاوان قتل چوری ہائی وے کرائم کون کون سے جرائم کی بات کریں موبائل فون موٹر سائیکل چوری یا چھینے جانے کی وارداتوں سے لے کر کڑوروں روپے کی ڈکیتیاں بھی خبروں کی زینت بن رہی ہیں، اس وقت سکھر رینج کے تینوں اضلاع سکھر ، گھوٹکی اور خیرپور امن و امان کے حوالے سے متاثر دکھائی دیتے ہیں، اگرچہ ڈاکو راج کے خاتمے کے لئے شکارپور اور کشمور اضلاع کی پولیس نے تاریخی کامیابیاں حاصل کیں۔
سینیئر آپریشنل کمانڈر ڈی آئی جی مظہر نواز شیخ کی سربراہی میں ایس ایس پی کشمور امجد احمد شیخ اور ایس ایس پی شکارپور تنویر حسین تنیو نے متعدد تاریخی کامیابیاں حاصل کیں، سکھر میں ایس ایس پی عرفان علی سموں نے بھی اس مشترکہ آپریشن میں قابل تعریف خدمات انجام دیں لیکن گھوٹکی میں پولیس کو ڈاکووں کے ہاتھوں بھاری نقصان اٹھانا پڑا ۔پولیس کے جوان شہید اور زخمی ہوئے۔
سکھر رینج میں پولیس ڈاکووں کے خلاف آپریشن میں خاص طور پر گھوٹکی میں کوئی خاطر خواہ نتائج حاصل نہ کرسکا اور مسلسل جرائم کی وارداتوں میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، جس کے باعث شہریوں میں تشویش کی لہر پائی جاتی ہے، چوری اور ڈکیتی کی وارداتوں کا سلسلہ تیزی سے شروع ہوگیا ہے۔ چند روز قبل ڈکیتی کی ایک بڑی واردات ہوئی، ڈاکووں نے سائیٹ ایریا میں ایک آفس پر یلغار کردی اور ایک نجی سیکیورٹی کمپنی کے دفتر میں گھس کر گارڈز سے اسلحہ چھین کر گارڈ اور ملازمین کو یرغمال بنا کر کیش وین کے تالے توڑ کر ساڑے 5 کڑور روپے سے زائد رقم لوٹ کر فرار ہوگئے۔
اطلاع ملتے ہی ڈی آئی جی طارق عباس قریشی اور ایس ایس پی سکھر سنگھار ملک موقع پر پہنچ گئے جائے وقوعہ کا معائنہ کیا جس کے بعد تمام پہلووں سے واردات کا جائزہ لینے اور معلومات حاصل کرنے کے بعد ملوث ملزمان کی گرفتاری کے لئے ٹیمیں تشکیل دی گئیں، ابھی پولیس اس واردات کے محرکات جاننے کی کوششوں میں مصروف تھی کہ تماچانی تھانے کی حدود میں دو بھائیوں کے درمیان زمینی تکرار اور درختوں کی کٹائی پر ہونے والے خونی تصادم میں ایک خاتون سمیت 6 افراد جاںبحق ہوگئے، جس کے باعث علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا۔
پولیس کی بھاری نفری متاثرہ علاقے میں پہنچ گئی مرنے والوں کی لاشیں اور زخمیوں کو پولیس موبائل اور ایمبولینس میں سول اسپتال لایا گیا، صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے اسپتال میں بھی پولیس ہائی الرٹ ک دی گئی ، پولیس کے مطابق تصادم شیخ برادری کے دوسگے بھائیوں میں زمین کی تکرار کے باعث ہوا پولیس مذید تفتیش کررہی ہے۔
اس سے قبل صالح پٹ میں چوروں نے دکانوں کے تالے توڑ کر ایک کڑور روپے مالیت کی مختلف اقسام کی کھاد چینی کی بوریاں اور دیگر سامان چوری کرلیا، ایک اور واردات میں ڈاکو بیراج روڈ سے ایک شخص سے 40 لاکھ روپے سے زائد نقدی لوٹ کر فرار ہوگئے جبکہ روزانہ کی بنیاد پر گاڑیاں جن میں خاص طور پر موٹر سائیکلیں چوری کی جارہی ہیں جتنی تیزی سے وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے اس پر پولیس کے بعض حلقوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔
سکھر میں ہونے والی ڈکیتی کی بڑی واردات 5 کڑور سے زائد کی تھی ۔ 13 فروری کو صبح 5 بجکر 57 منٹ پر مجھے کال آئی اور بتایا گیا کہ 8 نامعلوم ملزمان دیوار پھلانگ کر اندر آئے اور ملازمین کو ہتھیاروں کے زور پر قابو کیا اور آفیس میں کھڑی گاڑی کا گیٹ توڑ کر رقم اور ہتھیار لوٹ کر دوسرے دروازے سے فرار ہوگئے۔
ایک اور واردات میں کچھ روز قبل سکھر کی تحصیل صالح پٹ کے علاقے میں ایک کڑور روپے سے زائد مالیت کا سامان چور چند روز میں دوکانوں کے تالے توڑ کر لے اڑے، یہاں کے تاجروں نے ایس ایس پی سکھر سنگھار ملک سے ملاقات کی چوری کی بڑھتی ہوئی وارداتوں پر تشویش کا اظہار کیا۔
تاجروں نے بتایا کہ چور دکانوں کے تالے توڑ کر مختلف اقسام کی کھاد، چینی کی 400 سے زائد بوریاں اور دیگر سامان چند روز میں چوری کرچکے ہیں پولیس نے کوئی کاروائی نہیں کی ، وفد نے بتایا کہ ایس ایچ او صالح پٹ کو اطلاع دی گئی ہے کہ چند روز میں مختلف دکانوں سے چوروں نے ایک کڑور روپے سے زائد مالیت کی چوری کی ہے ،جس سے تاجروں میں تشویش پائی جاتی ہے ایس ایس پی سکھر نے ایس ایچ او صالح پٹ کو احکامات دئیے کہ سات روز میں مسروقہ سامان برآمد کرایا جائے اور چوروں کے خلاف کاروائی عمل میں لائی جائے۔
حالیہ سکھر کے ایس ایس پی سنگھار ملک کے لئے سکھر ضلع میں قیام امن کو یقینی بنانا اور جو وارداتیں ہوئی ہیں ان کا سراغ لگا کر ملوث ملزمان کی گرفتاری مسروقہ رقم و سامان کی برآمدگی کسی چیلنج سے کم نہیں ہے ،جس کے لئے وہ اپنی حکمت عملی کے تحت ہرممکن اقدامات کررہے ہیں، سکھر میں ان کی یہ پہلی پوسٹنگ ہے اور آنے کے ساتھ ہی چند روز میں پے در پے وارداتوں نے ان کے لئے مشکلات پیدا کیں ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کس طرح اس صورتحال سے نمٹتے ہیں؟
اس وقت سکھر ضلع ہی نہیں رینج کے تینوں اضلاع بد امنی کی لپیٹ میں ہیں، اور حکومت کی اس جانب کوئی خاص توجہ دکھائی نہیں دیتی، دوسری جانب آگر بات کی جائے سندھ حکومت کی جانب سے اعلان کردہ کچے میں ڈاکو راج کے خاتمے کے لئے آپریشن کی تو اس میں حکومت سنجیدہ دکھائی نہیں دیتی شکارپور اور کشمور میں پولیس نامسائد حالات میں ڈاکووں کے خلاف کامیاب ٹارگیٹڈ آپریشن میں مصروف ہے لیکن وزیر اعلی سندھ اور آئی جی کی جانب سے جو اعلانات اور وعدے کئے گئے۔
ان پر تاحال عمل درآمد نہیں کیا جاسکا، اگر بات کی جائے سکھر اور گھوٹکی اضلاع کی ان دونوں اضلاع میں سینئیر تجربہ کار پولیس افسران کی تعیناتی کی اشد ضرورت ہے ، خاص طور پر سکھر اور گھوٹکی میں اگر صورتحال دیکھی جائے تو یہاں کچے کا علاقہ شاہ بیلو ، نیشنل ہائی وے اور موٹر وے موجود ہے یہ اضلاع کشمور سے راجن پور اور گھوٹکی سے رحیم یار خان تک کچے اور دریائی راستوں سے آپس میں منسلک ہیں جبکہ کشمور کا علاقہ بلوچستان سے بھی ملا ہوا ہے۔
ان چاروں اضلاع میں ڈاکووں کی ایک بڑی تعداد پائی جاتی ہے جس طرح لاڑکانہ رینج کا سیٹ اپ مئی 2021 میں تبدیل کیا گیا اور ڈی آئی جی مظہر نواز شیخ ، ایس ایس پی تنویر حسین تنیو کو تعینات کیا گیا تو ان کے ساتھ پہلے سے تعینات ایس ایس پی کشمور امجد احمد شیخ پر مشتمل ایسی مشترکہ ٹیم بنی جس نے ٹارگیٹڈ آپریشن کئے اور ڈاکووں کی محفوظ پناہ گاہوں کو مسمار اور نذر آتش کردیاتھا، اس آپریشن میں25 سے زائد ڈاکو مارے گئے جن میں متعدد بدنام زمانہ انعام یافتہ ڈاکو شامل ہیں۔
یہ ڈاکو علاقے میں دہشت کی علامت بنے ہوئے تھے، جہاں پولیس جا نہیں سکتی تھی وہاں آج پولیس کی مستقل چوکیاں قائم ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیر اعلی سندھ اور آئی جی پولیس مشترکہ طور پر پولیس افسران کو ضلع یا رینج کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے تعیناتیوں کو یقینی بنائیں تو امن و امان کی صورتحال میں بہت جلد بہتری لائی جاسکتی ہے اور جس طرح لاڑکانہ رینج میں پولیس کے مضبوط نیٹ ورک نے کچے میں پولیس کی رٹ کو کئی دہائیوں بعد بحال کیا ہے۔
اگر اس حوالے سے ان دونوں اضلاع سے انٹر لنک سکھر گھوٹکی اضلاع اور رینج کے لئے کوئی ٹھوس حکمت عملی کے تحت اقدامات اور پولیس افسران کی تعیناتی نہ کی گئی تو کہیں کچے میں پولیس کی جو رٹ شکارپور کشمور اور سکھر میں قائم ہے وہ کمزور نہ پڑ جائے۔ سندھ اور کچے کے خطرناک علاقوں پر مشتمل ان چاروں اضلاع میں پولیس کا ایک مضبوط نیٹ ورک جو اس وقت صرف لاڑکانہ رینج میں ہے وہ سکھر رینج میں بھی قائم کیاجائے۔
امن و امان کی فضا بحال رکھنے اور جرائم کے خاتمے کے لئے جو تجاویز ہیں انہیں اجاگر کیا جائے باقی پولیس کی افسران کی تقرریاں اور تبادلے آئی جی پولیس اور وزرات داخلہ کاکام ہے۔ وہ بہترجانتے ہیں کہ قیام امن کو برقرار رکھنے کے لئے کیا کرنا ہوگا۔