• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ختم الرسولﷺ کے سفر معراج کی حکمتیں

تحریر :حافظ محمد عبدالاعلیٰ درانی،بریڈفورڈ
امام ابن قیم ؒفرماتے ہیں کہ صحیح قول کے مطابق رسول اقدسﷺ کو جسم مبارک سمیت براق پر سوار کرکے حضرت جبریل علیہ السلام کی معیت میں خانہ کعبہ سے بیت المقدس تک سیر کرائی گئی ، آپ ﷺوہاں اترے اور انبیاء کو دو رکعت نماز پڑھائی اور براق کو مسجد کے دروازے کے حلقے سے باندھ دیا تھا(اس دیوار کو حائط البراق کہاجاتاہے جو آج بھی مسجد اقصیٰ میں موجود ہے)اس کے بعد اسی رات آپﷺ کو بیت المقدس سے آسمان دنیا تک پہنچا دیا گیا، جبریل علیہ السلام نے دروازہ کھلوایا ،وہاں آپﷺ کی ملاقات حضرت آدم علیہ السلام سے، دوسرے آسمان پر حضرت یحیؑ اور حضرت عیسیٰؑ سے ، تیسرے آسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام ، چوتھے پر حضرت ادریس ؑ،پانچویں پر حضرت ہارونؑ سے چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اورساتویں آسمان پر آپﷺ کی ملاقات حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوئی، ان سب نے آپ ﷺ کو مرحبا کہا پھر سدرۃ المنتہیٰ لے جایا گیا پھر آپﷺ کیلئے بیت المعمور کو ظاہر کیا گیا پھر اللہ عزوجل کے دربار میں پیش کیا گیا اس قدر زیادہ قرب نصیب ہوا کہ دوکمانوں کے قریب فاصلہ رہ گیا پھر اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی جو فرمانی تھی، دن رات میں سفر معراج کے دوران بہت سی چیزیں دکھائی گئیں، اس بار بھی آپﷺ کا سینہ مبارک شق کیا گیا تھا تاکہ انوارِ الٰہی کا تحمل کرسکیں ،سفر معراج پر جاتے ہوئے آپ کے سامنے دو پیالے پیش کیے گئے ایک شراب کا اور ایک دودھ کا ، آپ نے دودھ کاپیالہ اٹھالیا، آپﷺ سے کہاگیا کہ آپﷺ نے فطرت کا راستہ اختیار کیا ہے اگر خدانخواستہ دوسرا پیالہ اٹھالیتے تو آپﷺ کی امت راہ راست سے بھٹک جاتی ، آپﷺ کو جنت میں چار نہریں دکھائی گئیں ، دو ظاہری اور دو باطنی،ظاہری نہریں نیل و فرات تھیں ، آپﷺ نے جہنم کے داروغہ کو دیکھا جس کانام مالک ہے ، وہ ہنستا نہ تھا اور نہ ہی اس کے چہرے پر خوشی یا بشاشت تھی ، آپﷺ نے معراج کی رات دجال کو اس کی اصل صورت میں دیکھااس کے بال ایسے ہیں جیسے کسی درخت کی گھنی شاخیں اور وہ ایک آنکھ سے کانا تھا، آپﷺ نے حضرت عیسیٰ،حضرت موسیٰ اورحضرت ابراہیم علیہم السلام کو بھی دیکھا، حضرت عیسیٰ کا وصف آپ ﷺنے اس طرح بیان فرمایا کہ وہ سفید رنگ گھنگھریالے بال اورتیز نگاہ والے ہیں اور حضرت موسیٰ گندمی رنگ کے اور مضبوط اور قوی آدمی ہیں اور حضرت ابراہیم تو بالکل ہو بہو مجھ جیسے ہی تھے، جبرائیل نے کہا ان پر سلام کہو تو میں نے سلام کہا،ابراہیم علیہ السلام نے میری امت کوسلام بھی بھیجااورپیغام بھی کہ ارض جنت بڑی زرخیز ہے جو بوؤگے کئی گنا کاٹوگے، آپﷺ نے یتیموں کا مال ظلماً کھانے والوں کو دیکھا، ان کے ہونٹ اونٹ کے ہونٹوں کی طرح تھے اور وہ اپنے منہ میں پتھر کے انگارے ٹھونس رہے تھے جو دوسری جانب ان کی پیٹھ سے نکل رہے تھے ، آپﷺ نے سود خوروں کو بھی دیکھاان کے پیٹ اتنے بڑے بڑے تھے کہ وہ اپنی جگہ سے ادھر ادھر نہیں ہوسکتے تھے اور جب آل فرعون کو آگ پر پیش کرنے کیلئے لے جایا جاتا تو ان کے پاس سے گزرتے وقت انہیں روندتے ہوئے جاتے تھے،آپﷺ نے زناکاروں کو بھی دیکھا ، ان کے سامنے تازہ اور فربہ گوشت تھا اور اسی کے ساتھ سڑا ہوا چھیچھڑا بھی تھا، یہ لوگ تازہ اور فربہ گوشت چھوڑ کر سڑا ہوا چھیچھڑا کھا رہے ہیں، آپﷺ نے ان زناکار عورتوں کو بھی دیکھا جو اپنے شوہروں پر دوسروں کی اولاد داخل کردیتی ہیں،ان کے سینوں میں بڑے بڑے نیزے کانٹے چبھا کر انہیں آسمان و زمین کے درمیان لٹکا دیا گیا ہے، معراج سے واپسی اور رد عمل۔ آپﷺکو معراج بمع جسد مبارک، مکمل ہوش و حواس اور جیتے جاگتے کروائی گئی جو لوگ معراج کوروحانی یاخواب کاعمل کہتے ہیں وہ دراصل معجزات کو نہیں مانتے تمام اہل سنت کا یہی عقیدہ ہے کہ معراج جسمانی تھا، امام ابن قیمؒ فرماتے ہیں کہ اگلی صبح جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم نے لوگوں کوان بڑی بڑی نشانیوں کی خبر دی جو حق تعالیٰ نے آپﷺ کو دکھلائی تھیں تو قوم کی تکذیب اور اذیت و ضرررسانی میں اور شدت آگئی،انہوں نے آپﷺ سے سوال کیا کہ بیت المقدس کی کیفیت بیان کریں، اس پر اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کیلئے بیت المقدس کو ظاہر فرمادیا اور وہ آپﷺ کی نگاہوں کے سامنے آگیا چنانچہ آپﷺ نے قوم کو اس کی نشانیاں بتانا شروع کردیں اور ان سے کسی بات کی تردید نہ بن پڑی لیکن اس سب کے باوجود ان کی نفرت میں اضافہ ہی ہوا اور ان ظالموں نے کفر کرتے ہوئے کچھ بھی ماننے سے انکار کردیا(زاد المعاد) واپسی پر آپﷺ نے اہل مکہ کا ایک قافلہ بھی دیکھا جن کاایک اونٹ گم ہوگیاتھا، ان کا پانی بھی پیا جو ایک ڈھکے ہوئے برتن میں رکھا تھا، اس وقت قافلہ محو آرام تھا پھر آپﷺ نے اسی طرح برتن ڈھانک دیا اور یہ بات اگلی صبح آپﷺ کے دعویٰ کی صداقت کی ایک دلیل بھی ثابت ہوئی (ابن ہشام) حضرت ابن عباسؓ بیان فرماتے ہیں کہ جب معراج سے واپسی پر آپﷺ نے یہ خبرعام لوگوں کو سنائی،بیت المقدس کے نشان بتائے ان کے قافلے کی خبر دی تو بعض وہ لوگ جو آپﷺ کے بارے میں نبی ہونے کا یقین کرچکے تھے انہوں نے کہا ہم ایسی باتوں میں انہیں سچا نہیں مان سکتے اور اسلام قبول کرنے سے بھاگ گئے پھر یہ سب لوگ جنگ بدر میں ابوجہل کے ہمراہ قتل ہوگئے تھے ( نسائی) ابن ہشام کے مطابق حضرت ابوبکر ؓ کو اسی موقع پر صدیق کا لقب ملا کیونکہ آپﷺ نے اس واقعہ کی تصدیق کی جب کہ اور لوگوں نے تکذیب کی تھی ۔والذی جاء بالصدق وصدق بہ اولئٰک ھم المتقون۔سورۃ الزمر کی اس آیت میں سیدنا صدیق اکبرؓ کاہی بیان ہے، آپﷺ ساری امت میں افضل تھے ،اسی لئے وہ غار اور مزار میں آپﷺ کے ساتھ ہی ہیں، یہ اتنا بڑااعزاز ہے کہ ساری دنیا قربان کی جاسکتی ہے ۔
یورپ سے سے مزید