فلم ساز و ہدایت کار بابو ایم صادق ہندوستان سینما کے ایک معروف نام تھے، جنہوں نے نمستے، جیون، سنیاسی، رتن، مینا، ڈاک بنگلہ، کاجل جیسی یادگار اور کام یاب فلموں کی ڈائریکشن دیں، جب کہ بہ طور فلم ساز و ہدایت کار انہوں نے سبق اور مسافر خانہ نامی فلمیں بنائیں۔ گرودت کی فلم ’’چودھویں کا چاند‘‘ کی ڈائریکشن نے ان کے نام کو ہر عام وخاص میں بے حد مقبول بنا دیا، تو اس فلم کی کام یابی کے بعد انہوں نے ’’سلمیٰ‘‘ کے نام سے لکھنؤکی تہذیب اور معاشرے کے پس منظر پر ایک فلم بنانے کا منصوبہ بنایا۔ گرودت کی اچانک خودکشی کے بعد یہ فلم اپنے ابتدائی مراحل سے آگے نہ بڑھ سکی تو وہ اسکرپٹ لےکر پاکستان آگئے۔
یہ 1970ء کا بات ہے۔ بنیادی طور پر وہ اندرون شہر لاہور کے رہنے والے تھے۔ مارچ 1910ء میں وہ لاہور بھاٹی گیٹ میں پیدا ہوئے تھے۔ پاکستان میں انہوں نے 1970ء میں اپنی فلم ’’سلمیٰ ‘‘ کا آغاز کیا، جسے بعد میں ’’بہارو پھول برسائو‘‘ کا نام دیا گیا۔ اداکارہ رانی نے اس فلم میں سلمیٰ کا رول کیا۔ ان کے مدمقابل وحید مراد نے نواب زادہ پرویز اختر کا کردارادا کیا ، جو فلم کے ہیرو تھے۔
بھاٹی گیٹ لاہور کے رہنے والے ایک پنجابی زبان بولنے والے ہدایت کار نے بھارت میں ’’چودھویں کا چاند‘‘ اور پاکستان میں ’’بہارو پھول برسائو‘‘ جیسی لکھنؤی کلچرل فلمیں بناکر سب کو حیران کر دیا۔ بابو ایم صادق ذرا ہکلا کر بولتے تھے۔ اس فلم کی تکمیل کے دوران 3؍اکتوبر 1971ء کو وہ وفات پاگئے۔ ان کے انتقال کے بعد ہدایت کار حسن طارق نے ان کے اس خواب کو شرمندہ تعبیر کیا، لیکن انہوں نے بہ طور ہدایت کار ٹائٹل پر بابو ایم صادق کا ہی نام دیا۔
فلم میں کام کرنے والے اداکار اور ان کے کردار!!
٭ رانی: لکھنؤی گھرانے کی مہذب، تعلیم یافتہ مشرقی لڑکی’’سلمیٰ‘‘ جو ایک شاعرہ بھی تھیں۔ سلمیٰ کا تعلق لکھنؤ کے قصبے گنج آباد کے ایک معروف گھرانے سے تھا۔ خان بہادر ارشاد علی کی دختر نیک اختر جب نواب پرویز اختر کی حویلی میں ہونے والے جشن میں شرکت کرتی ہے، تو وہاں ہونے والی محفل قوالی میں جب اپنی آواز کا سحر بکھرتی ہے، تو ہر طرف واہ واہ کی آوازیں آتی ہیں۔ نواب پرویز اس پردہ نشین کے دیوانے ہو جاتے ہیں۔٭ وحید مراد: ایک جدی پشتی نواب خاندان کے چشم و چراغ جو شاعری سے شغف فرماتے تھے۔
وضع قطع اور شاہ خرچیوں نے ان کی جاگیر کا ایک بہت بڑا حصہ سود خور مہاجنوں کے پاس گروی رکھ دی تھیں۔ ان کے خاندانی منشی اور مشیر میر صاحب نواب زادے کی عادات اور فضول خرچی کو بڑی خاموشی سے دیکھ رہے تھے۔ میر صاحب ان کے بزرگ بھی تھے۔ اپنی حویلی میں جب پردہ نشین سلمیٰ کی ایک جھلک دیکھی، تو بس جان سے چلے گئے اور میر صاحب کو ان کے گھروالوں سے مانگنے کے لیے بھیجا۔٭ اسلم پرویز: نواب فخر الدین کا سازشی کردار ، جو رشتے میں نواب پرویز اختر کا ماموں زاد تھا۔
پورے لکھنؤ میں وہ اپنے لچھنوں سے مشہور تھے، لوگ انہیں فخرو کے نام سے جانتے تھے۔ نواب پرویز اختر کی جاگیر پر قبضہ کرنے کے لیے وہ طرح طرح کی سازشیں کرتا ہے۔٭سنگیتا: سلمیٰ کی ہم جماعت ہم جولی زینت کے مختصر کردار میں نظرآئیں ۔٭صاعقہ: نسرین نامی ایک شوخ و چنچل لڑکی جس کا بھائی پہلوان تھا اور پورے علاقے میں مشہور تھا۔ نسرین اپنے پڑوسی حکیم زادہ مرزا کو پسند آگئی، جو ایک مسخری طبیعت کا مالک تھا۔٭منور ظریف: لکھنؤ کے معروف حکیم شمس الملک مرزا محمود بیگ کا فرزند ارجمند جوسارا دن اپنے مطب پر بیٹھ کر مریضوں کو کم اور اپنی پڑوسن نسرین کو زیادہ دیکھتا رہتا تھا۔
نواب پرویز اختر کا خاص دوست، جو ہر موقع پر اس کے ساتھ ہوتا تھا۔٭عباس نوشہ: میر صاحب کا یادگار کردار، عباس نوشہ کے فنی کیریئر میں یہ کردار بڑی اہمیت کا حامل رہا، وہ فلم چوری میں اپنی عمدہ کردار نگاری کرتے نظر آئے۔ نواب اختر پرویز کے سرپرست جو جائیداد کے سارے معاملات دیکھتے ہیں، لیکن بزرگ کی حیثیت سے وہ ان کے ساتھ رہتے ہیں۔٭الیاس کاشمیری: شبو پہلوان، صاعقہ کے بھائی کا کردار جان دار کردار، جو ایک پہلوان کی صورت میں نظرآئے۔٭رخسانہ: لکھنؤ کے بازار حسن کی طوائف نزاکت بائی جو نواب فخرو کی محبوبہ تھی۔٭ریکھا: سینئر اداکارہ جوایک مکار ملازمہ کے طور پر پرویز اختر کے یہاں کام کرتی ہے۔ بوا کا کردار، حویلی کی ساری خبریں نواب فخرو کو فراہم کرتی ہے۔دیگر اداکاروں میں چنگیزی، کھٹانہ، رفیق ٹیگو، حیدرا ٹیگلو، مسرت خان، نذیر٭٭٭ کمال ایرانی، ناز بیگم، امداد حسین اور داور کے نام شامل تھے۔
فلم کی مختصر کہانی !!جدی پشتی نواب اختر پرویز کی فضول اور شاہ خرچیاں سارے لکھنؤ میں مشہور تھیں۔ اپنے شوق اور نام کی خاطر اپنی جائیداد کا ایک بڑا حصہ وہ سود خور مہاجنوں کے پاس گروی رکھ چکے تھے۔ ان کے منشی اور سرپرست میر صاحب انہیں بہت سمجھاتے، مگر نواب صاحب خرچ کرنے سے باز نہ آتے۔ یہاں تک کہ وہ دیوالیہ ہوگئے۔ ان کے ماموں زادہ بھائی نواب فخرو (اسلم پرویز) نے سود خور مہاجنوں کو ان کے خلاف خوب بھڑکایا کہ وہ ان سے اپنے قرض اور سودکی وصولی کرے۔ میر صاحب اپنے نواب کی صورت حال سے خاصے پریشان تھے۔
نواب اختر کے دادا کی وصیت کے مطابق ضلع گنج فیض گنج میں چھ گائوں جن کی مالیت 20لاکھ تھی، نواب اختر کی امیدیں اُسی سے وابستہ تھیں، تاکہ مہاجنوں کی قرقی سے بچا جائے ، مگر جب میر صاحب نے انہیں دادا کی وصیت کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ وہ گائوں ان کے نام اُسی صورت میں ہو سکتے ہیں، جب آپ شادی کرلیں اور پھر شادی کے بعد ایک سال میں آپ کے یہاں پہلی اولاد لڑکا ہو، چاہے تو یہ گائوں آ پ کے نام ہو سکتے ہیں۔ یہ باتیں نواب فخرو سے سُن لیتا ہے۔ نواب اختر اپنی حویلی میں جَشن مناتے ہیں، جس میں قوالی کا مقابلہ ہوتا ہے۔
اس قوالی میں جہاں نواب کے خاص دوست مرزا اور لکھنؤ کی معروف طوائف نزاکت بائی حصہ لیتے ہیں، وہاں لکھنؤ کی باذوق حسین شاعرہ سلمیٰ اپنی سہیلی زینت کے ساتھ شامل ہوتی ہیں۔ نواب پرویز اختر سلمیٰ کو دیکھنے ان کے دیوانہ ہو جاتے ہیں اورمیر صاحب کے ہاتھوں شادی کا پیغام بھیجتے ہیں۔ دونوں کی شادی ہو جاتی ہے ۔ سلمیٰ نواب اختر کی فضول خرچیوں پر اسے بہت سمجھاتی ہیں۔ میر صاحب جب جائیداد کاراز ایک اور سلمیٰ کو بتاتے ہیں کہ اگر پانچ سال تک نواب اختر کے یہاں لڑکا نہ پیدا ہوا تو یہ ساری جائیداد وصیت کے مطابق نواب فخرو کے نام ہو جائے گی۔
نواب فخرو کی ملازمہ ’’بووا‘‘ یہ ساری باتیں فخرو کو بتا دیتی ہے ، نواب فخرو جعلی پیر بن کر سلمیٰ کو کہتا ہے تو بانجھ ہے ۔ سلمیٰ یہ سُن کر بے حد پریشان ہوجاتی ہے اور نواب پرویز اختر کو دوسری شادی کرنے کا کہتی ہے، تاکہ ان کی جائیداد انہیں مل جائے، مگر نواب اختر نہیں مانتا، پھر ایک روز سلمیٰ بڑی خاموشی سے نواب اختر پرویز کی حویلی، جو اس کا گھر تھا، ایک گلشن تھا، اسے خدا حافظ کہہ کر اپنی سہیلیوں کے ساتھ کشتی کی سواری پر دریا جاتی ہے اور دریا میں کُود جاتی ہے۔
سلمیٰ کے بارے میں یہ خبر نواب اختر پرویز کو غمگین کر دیتی ہے، وہ ہر طرح سے سلمیٰ کی تلاش میں جاتا ہے، مگر اُس کا کوئی سراغ نہیں ملتا، جب حویلی واپس آتا ہے، تو سوکھی ڈالی ہری دیکھ کر اختر بہت خوش ہوتا ہے اور میر صاحب کو بتاتا ہے ۔ ڈالی ہری ہونے کا اچھا شگون ہوتا ہے۔ روایت کے مطابق حویلی کی بہو زندہ اور اُمید سے ہے۔ یہ خبر نواب فخرو کو پریشان کر دیتی ہے۔ مرزا حکیم اپنی پڑوسن نسرین کے عشق میں اس کے بھائی شبو پہلوان سے کشتی کا مقابلہ کرتا ہے مرزا اس کشتی میں پہلوان کو چقمہ دے کرشکست دے دیتا ہے اور پہلوان اپنی بہن کی شادی اس کے ساتھ کرنے پر رضا مند ہو جاتا ہے۔
سلمیٰ کو نہر کے کنارے جنگلی قبیلے کا سردار چنگیزی بچا کر اپنی بیٹی بنا لیتا ہے اور شہزادی کا نام دیتا ہے۔ سلمیٰ اپنی یادداشت بُھول چکی تھی۔ چاندنی رات میں چاند کے سامنے کھڑی ہو کر اپنے بارے میں پوچھتی ہے، ایک روز جنگل میں نواب اختر اس کی تلاش میں ہوتا ہے، تو اسے ایک بچہ ملتاہے، جس کی ہتھیلی پر کالا تِل، جو نواب اختر کے خاندان کی پہچان ہوتا ہے وہ دیکھ کر اُسے یقین آتا ہے کہ یہ بچہ اُسی کا ہے، وہ بچے سے پیار کرنے لگتا ہے، تو سلمیٰ جوشہزادی بن چکی تھی، وہ اپنے بچے کو لے جاتی ہے۔
نواب اختر اُسے پکارتا رہتا ہے، سلمیٰ سلمیٰ!! مگر وہ ایک اجنبی کی طرح چلی جاتی ہے۔ قبیلہ کا سردار چنگیزی، اختر کو ساری کہانی سُناتا ہے کہ سلمیٰ اُسے نہر کے کنارے ملی اور جب ہوش آیا تو وہ اپنی یادداشت بُھول چکی تھی۔ اختر ایک روز اُسے پُرانی باتیں یاد دلاتا ہے، تو وہاں نواب فخرو اپنے غنڈوں کے ساتھ اختر کو گھیر لیتا ہے اور اُسے رسیوں سے باندھ کر مارنے لگتا ہے، تو شہزادی اپنا خنجر پھینکتی ہے، نواب فخرو کے آدمی شہزادی کا پیچھا کرتے ہیں۔ مرزا حکیم شبو پہلوان اور اس کے ساتھی وہاں پہنچ کر نواب فخرو کے آدمیوں کا خُوب مقابلہ کرتے ہیں۔ میر صاحب پولیس لاتے ہیں۔ نواب فخرو گرفتار ہو جاتے ہیں۔ شہزادی کو سب یاد آجاتا ہے۔ سلمیٰ اورنواب اختر اور ان کا بچہ حویلی آتے ہیں۔ سب خوش ہوتے ہیں۔
نغمات اور موسیقی : فلم ’’بہارو پھول برسائو‘‘ اپنے دور کی ایک سدا بہار میوزیکل فلم تھی، جس کے نغمات آج بھی سپرہٹ ہیں موسیقار ناشاد نے اس فلم کے نغمات میں بہت اعلیٰ کام کیا، جوواقعی قابل ِ تحسین ہے۔
نغمات کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے۔
1۔ اے محبت تیرا جواب نہیں۔ 2۔ اے پردہ نشین گر آج کہیں اک اور نظارہ ہو جائے3۔ یہ گھر میرا گلشن ہے گلشن کا خدا حافظ 4۔ میرے دل کی ہے آواز کے بچھڑا 5۔ میری جان 6۔ چندا رے چندا اب توہی ۔ یہ یادگار سپر ہٹ فلم 1972ء کو کراچی کے پلازہ سینما پر ریلیز ہوئی تھی۔
کراچی کے ساتھ پُورے پاکستان میں اس فلم نے شان دار کام یابی حاصل کی۔ 9؍ستمبر1983ء کو ایک بار پھر یہ کلاسیکل فلم کراچی کے پلازہ سینما میں دوبارہ ریلیز ہو کر بڑی کام یاب رہی۔ اس بار یہ فلم شیرا فلمز لاہور نے کراچی میں اسے ریلیز کی۔ اس فلم کی آمدنی اور کام یابی نے ایک نئے تقسیم کار ادارے شیرا فلمزکی بنیاد رکھ، جس کے اونر حاجی شیرا ہیں۔ موجودہ دور میں ادارہ آج بھی فلمی سرگرمیاں انجام دے رہا ہے۔ حاجی شیرا ایک ملنسار اور جانی پہچانی شخصیت ہیں۔