• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی فلموں کے کامیاب ہیرو، لیجنڈری ندیم سے ملاقات

پاکستان فلم انڈسٹری کے سب سے کام یاب ہیرو ندیم کی شخصیت کا سحر کئی برس گزر جانے کے باوجود بھی نہیں ٹوٹا۔ ان کی فن کارانہ زندگی کئی یاد گار اور کام یاب فلموں سے سجی ہوئی ہے۔’’وہ آیا اُس نے دیکھا اور فتح کرلیا‘‘ کی مثال ندیم پر حرف بہ حرف صادق آتی ہے۔ 19مئی 1967کو ندیم کی پہلی فلم ’’چکوری‘‘ ریلیز ہوئی، جس نے اُن کی زندگی بدل دی۔ اس کی غیر معمولی کام یابی نے کئی ریکارڈ قائم کیے۔ 

اس فلم میں بہترین اداکاری پر نگار ایوارڈ ملا۔ 1977ء کا سال ندیم کے لیے ایک یادگار سال تھا ،جب ان کی فلم آئینہ نے کراچی میں کل 401ہفتے چل کر باکس آفس پر کامیابیوں کا نیا ریکارڈ قائم کیا تھا۔ 18 مارچ 1977ء کو ریلیز ہونے والی یہ ریکارڈ توڑ فلم 14 جنوری 1982ء تک کراچی میں چلتی رہی تھی۔ یہ عرصہ 4 سال ، 9 ماہ اور 27 دن بنتا ہے۔ وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے شوبزنس کی چمکتی دمکتی دُنیا پر حکومت کرتے رہے۔ 

بہ حیثیت گلوکار، فلم ساز، ہدایت کار اور اداکار اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ بے شمار فلموں نے ڈائمنڈ جوبلی، پلاٹینم جوبلی، گولڈن جوبلی اور سلور جوبلی منائی۔ 200سے زائد فلموں میں مختلف یادگار کردار ادا کیے۔ اُن کی فلموں کو سب سے زیادہ گولڈن جوبلی منانے کا اعزاز حاصل ہوا۔ ندیم کی مشہور زمانہ فلمیں ’’اناڑی‘‘ اور ’’پہچان‘‘ بہ یک وقت سنیمائؤں میں ریلیز کی گئیں اور حُسن اتفاق دیکھیے کہ دونوں فلموں نے ڈائمنڈ جوبلی منائی۔

اداکارہ شبنم کے ساتھ ان کی جوڑی نے دُھوم مچائی۔ شبنم کے ساتھ ندیم کی مشہور فلموں میں ہم دونوں ، اناڑی، پہچان، تلاش، قربانی اور دہلیز نے ڈائمنڈ جوبلیز، جب کہ فلم آئینہ نے کراوٗن جوبلی منائی، جو پاکستان کی اس اعزاز کی اکلوتی فلم ہے۔ فلم بندش، پاکیزہ، دِل لگی نے پلاٹینم جوبلی منائی۔ پاکستانی فلموں کی زبوں حالی کے باعث اُنہوں نے ٹیلی ویژن کا رُخ کیا اور یہاں بھی اپنی فن کارانہ صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔ 

ان کے قابل ذکر ڈراما سیریلز، ٹیلی فلمز اور سوپس میں ’’حیدرآباد جنکشن‘‘، ’’یہ بھی کسی کی بیٹی ہے‘‘، ’’ہار جیت‘‘، ’’راکھ میں چنگاری‘‘، ’’فرصت‘‘، ’’وجود‘‘، ’’ایمبولینس‘‘، ’’بساط‘‘، ’’چلتے چلتے‘‘، ’’چہرے‘‘، ’’محبت کا ایک پہر‘‘، ’’ایک سفر تنہائی‘‘، ’’جیسے جانتے نہیں‘‘، ’’سلسلے چاہتوں کے‘‘، ’’ریاست‘‘، ’’سہیلی‘‘، ’’مجبوری‘‘، ’’آئینہ‘‘، ’’کتنے دُور کتنے پاس‘‘ اور ڈراما سیریل ’’سیج‘‘ شامل ہیں۔ 

پاکستان ٹیلی ویژن سے ’’میرے ندیم‘‘ کے نام سے ایک پروگرام کی میزبانی بھی کی۔ سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر درجنوں ایوارڈز دیے گئے۔ تقریباً 20مرتبہ نگار ایوارڈ حاصل کرچکے ہیں۔1990-91 میں صدر پاکستان غلام اسحق خان نے پرائیڈ آف پرفارمینس سے بھی نوازا۔ گزشتہ دنوں پاکستان فلم انڈسٹری کے لیجنڈ اداکار ندیم (نذیر بیگ) سے ملاقات کے لیے ان کی موجودہ رہائش گاہ بحریہ ٹاؤن کراچی پہنچے۔ دوران سفر ندیم کی سپر ہٹ فلمیں یاد آنے لگیں۔ 

ایک سے بڑھ کر ایک شاہکار موویز اور ان کے مقبول گیت سماعتوں میں رس گھولنے لگے۔ جیسے ہی ہم بحریہ ٹاؤن پہنچے، اس موقع پر ندیم کے سب سے فعال مداح ارشد چوہدری نے ہمارا استقبال کیا۔ 83برس کے ندیم کو دیکھ کر احساس ہوا کہ وہ آج بھی توانا اور تُندرست ہیں۔ نہایت سلیقے اور دھیمے لہجے میں گفتگو کر کے سامنے والے کا دِل جیت لیتے ہیں۔ اُن سے نجی اور فن کارانہ زندگی پر خصوصی بات چیت کی گئی، جس کی تفصیل پیش کی جارہی ہے۔

جنگ: سب سے پہلے یہ بتائیں، کل کے کراچی اور آج کے کراچی میں کیا فرق ہے؟

ندیم: ہم نے جو کراچی دیکھا ہے، وہ بہت خُوب صورت تھا، اس زمانے میں کراچی کی سڑکیں صاف ستھری ہوا کرتی تھیں، رات میں سڑکوں کو دھویا جاتا تھا،اب تو ایسا لگتا ہے کہ سڑکیں غائب ہوگئی ہیں۔ کراچی کا بہت بُرا حال ہوگیا ہے، اس لیے اتنی دُور آ کر رہنے لگا ہُوں۔ چاہنے والے میرے لیے سرمایہ ہیں۔ میں ان کی دل و جان سے قدر کرتا ہُوں۔‘‘

جنگ: آپ کی شبنم کے ساتھ جوڑی بہت مقبول اور کام یاب رہی، اس کی کیا خاص وجہ تھی؟

ندیم: شبنم کے ساتھ کئی فلموں میں کام کیا، میں نے سب سے زیادہ شبنم کے ساتھ فلموں میں کام کیا۔ اس کے علاوہ دیبا، بابرہ شریف اور کویتا کے ساتھ بھی فلمیں کیں، جب میں نے فلموں میں کام شروع کیا، تو اُس وقت شبنم نے فلم انڈسٹری کو چھوڑ رکھا تھا،جب وہ واپس فلموں کی جانب آئیں، تو میرے ساتھ انہیں بے حد پسند کیا گیا۔ پھر تو ہر دوسری فلم میں ندیم اور شبنم کو کاسٹ کیا جانے لگا۔‘‘

جنگ: فلم انڈسٹری کی موجودہ صورتِ حال دیکھ کر کیسا محسوس کرتے ہیں؟

ندیم: افسوس اور دُکھ ہوتا ہے۔ ماضی میں حکومتوں نے اس جانب بالکل توجہ نہیں دی، میں کہہ کہہ کر تھک گیا کہ کوئی سرکاری سطح پر اکیڈمی بنادیں، مگر کسی نے نہیں سنی۔ ہمارے زمانے میں ٹیم ورک ہوتا تھا، شاندار موسیقار، قابل ہدایت کار، کہانی کار، گلوکار تھے، یہ سب بہترین ٹیم کا نتیجہ تھا، یہی وجہ تھی کہ اس دَور میں سپر ہٹ فلمیں بنا کرتی تھیں۔

جنگ: اپنے ابتدائی حالات زندگی کے متعلق کچھ بتائیں اور بچپن کی کچھ یادیں بھی شیئر کریں؟

ندیم: 19 جولائی 1941 کو بھارتی شہر مدراس کے علاقے وجے واڈا میں پیدا ہوا۔ میرے والد مرزا محمود بیگ بھارت میں ایک معروف آئل کمپنی میں ملازمت کرتے تھے۔ 60کی دہائی میں ہم ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔ زندگی میں ماں کی کمی رہی۔4,3 سال کا تھا، جب والدہ کا انتقال ہوگیا تھا۔ دادی نے مجھے ماں کا پیار دیا۔ والد نے بچوں کی خاطر دوسری شادی نہیں کی۔ میں نے زندگی سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ 

کچھ ملنا اور کچھ نہیں ملنا ہی زندگی کا نام ہے۔ اگر سب کچھ مل جائے، تو زندگی میں چارم ختم ہوجاتا ہے۔ ناظم آباد گورنمنٹ اسکول کراچی سے ساتویں جماعت تک پڑھا، سندھ مدرسۃ الاسلام سے میٹرک اور اسلامیہ کالج سے گریجویشن کیا۔ کالج میں میرے ساتھ طلعت حسین بھی پڑھتے تھے۔ طلعت کو اداکاری کا جنون کی حد تک شوق تھا، جب کہ مجھے بچپن ہی سے کرکٹ اور گلوکاری کا شوق تھا۔ اسکول اور کالج کی ہم نصابی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا۔ 

قائداعظم ٹرافی کے چند میچوں میں بھی حصہ لیا۔ کم عمری میں ایئرفورس جوائن کرنا چاہتا تھا، مگر سماعت میں خرابی کی وجہ سے نہیں ہوا۔ پھر ڈاکٹر بننا چاہا۔ سائنس میں داخلہ لیا۔ پہلے دن کلاس اٹینڈ کی تو سمجھ گیا کہ یہ میرے بس کی بات نہیں ہے۔ اس دوران والد کاروباری مصروفیات کے باعث ڈھاکا، (سابق مشرقی پاکستان) چلے گئے اور میں بھی اُن کے ساتھ گیا، وہاں میں نے ایک ادارے میں ملازمت بھی کی۔ ڈھاکا میں، ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے اُردو اور بنگلہ زبان میں گانے بھی گائے، وہیں میری ملاقات نامور ڈائریکٹر کیپٹن احتشام سے ہوئی اور یُوں میں فلم ’’چکوری‘‘ کا ہیرو بن گیا۔

جنگ: فلم ’’چکوری‘‘ میں تو آپ کو بہ حیثیت گلوکار منتخب کیا گیا تھا، پھر اس فلم کے ہیرو کس طرح بنے؟

ندیم: ڈھاکا میں جب میری ملاقات کیپٹن احتشام اور روبن گھوش سے ہوئی تو میں نے احتشام صاحب سے درخواست کی کہ مجھے اپنی فلموں میں گانے کا موقع دیں۔ میری اس درخواست کو اُنہوں نے خوش دلی سے منظور کرلیا۔ اُن دنوں احتشام صاحب نے فلم ’’چکوری‘‘ شروع کی تھی، جس کے میوزک ڈائریکٹر روبن گھوش تھے۔ مجھے ان دونوں نے ایک گانے کے لیے بُلوایا، جس کے بول مجھے آج تک یاد ہیں۔ ’’کہاں ہو تم کو ڈھونڈ رہی ہیں‘‘۔ 

چکوری کے ہیرو اداکار عظیم تھے، مگر فلم کی شوٹنگ شروع ہونے سے قبل نہ جانے کیا مسائل پیدا ہوئے کہ انہوں نے فلم میں کام کرنے سے انکار کردیا۔ ایک دن احتشام صاحب نے مجھے بلایا اور کہا کہ تم اداکاری کرنا پسند کروگے؟۔ میں نے صاف منع کردیا، کیوں کہ مجھے تو گلوکاری کا شوق تھا، مگر انہوں نے اصرار کیا کہ میں تم میں ایک اچھے اداکار کی صلاحیتیں دیکھ رہا ہوں۔ میں نے اُن کے اصرار پر ہامی بھرلی۔

اُنہوں نے پہلے مجھے ’’چکوری‘‘ میں بہ حیثیت وِلن کاسٹ کیا، اس کردار کی مناسبت سے میں نے مونچھیں بھی رکھ لی تھیں، تاکہ وِلن لگ سکوں، پھر اچانک ایک دن مجھے بتایا گیا کہ میں فلم میں ہیرو ہُوں۔ ہیرو کا کردار ادا کرنے کے لیے مونچھیں صاف کرانی پڑی۔ میں نے احتشام صاحب سے کہا کہ میں نے اس سے پہلے اداکاری نہیں کی ہے، لہٰذا آپ اچھی طرح سوچ سمجھ لیں۔

جنگ: پہلی فلم کی ریلیز کے موقع پر آپ کے کیا جذبات تھے؟

ندیم: جب فلم ریلیز ہوئی تھی، تو میں دوسری فلم ’’چھوٹے صاحب‘‘ کی شوٹنگ میں مصروف تھا، مجھے بالکل یقین نہیں تھا کہ ’’چکوری‘‘ اتنی بڑی کام یابی حاصل کرے گی۔ آپ میری بات کا یقین کریں کہ جب ’’چکوری‘‘ کے مکمل پرنٹ دکھانے کے لیے ایک بڑی دعوت کا اہتمام کیا گیا، جس میں اہم شخصیات نے شرکت کی، میں اس تقریب میں خوف کے مارے سب سے پیچھے بیٹھا یہ سوچ رہا تھا کہ ’’چکوری‘‘ کے پرنٹ دیکھ کر لوگ میرے بارے میں کیا سوچیں گے، لہٰذا میں شرم کے مارے اُٹھا اور اپنے کمرے میں جا کر سوگیا۔

خیر فلم ریلیز ہوئی، لوگوں نے پسند کی اور میں یہی سمجھتا رہا کہ لوگ میرا دل رکھنے کے لیے فلم کی جھوٹی تعریف کر رہے ہیں، پھر آہستہ آہستہ مجھے یقین کرنا پڑا کہ واقعی لوگ سچ بول رہے تھے۔ پہلی فلم کی غیر معمولی کام یابی میرے لیے ایک چیلنج تھا، یہ بات بالکل صحیح ہے کہ کام یابی حاصل کرنا آسان ہے، مگر اسے برقرار رکھنا مشکل ہے۔

جنگ: پاکستان میں شوبز سے وابستہ لوگوں کی کتنی قدر کی جاتی ہے؟

ندیم: اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ میرا جتنا طویل فنی سفر ہے، وہ بہت اچھا رہا، مجھے محبت کرنے والے لوگوں کا ساتھ ملا۔ آج تک جتنا بھی کام کیا عزت کے ساتھ کیا اور تاحال کررہا ہوں۔ حیرت ہوتی ہے کہ لوگ مجھے کئی برسوں سے پسند کررہے ہیں۔

ہمارے ملک میں وہ مقام کسی بھی فن کار کو نہیں ملا، جس کا وہ حق دار ہوتا ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ جب تک لوگوں کے خیالات نہیں بدلیں گے ،ان کے ذہنوں میں وسعت نہیں آئے گی، ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ لوگوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ قوموں کی پہچان کلچرل سے ہوتی ہے، ایگری کلچر سے نہیں اور کلچر خریدا نہیں جاسکتا۔

جنگ: پنجابی فلم بھی پروڈیوس کی، اس کا خیال کیسے آیا؟

ندیم: میں نے اپنے پورے فلمی کیرئیر میں دو فلمیں پروڈیوس کی ہیں، پہلی فلم 1974 میں’’مٹی کے پُتلے‘‘، جب کہ دوسری فلم 1988 میں ’’مکھڑا‘‘ بنائی۔ ’’مٹی کے پُتلے‘‘ قابل ذکر کام یابی حاصل نہ کرسکی، لیکن اس فلم کو سوویت یونین نے لینن پرائز سے نوازا۔ 

پنجابی فلم بنانے کا خیال میرے ذہن میں اس وقت آیا، جب اُردو فلمیں بننا تقریباً بند ہوگئی تھیں اور پنجابی فلموں کا طوطی بول رہا تھا، لہٰذا میں نے سوچا کیوں نہ میں ایک پنجابی فلم پروڈیوس کروں۔ ’’مُکھڑا‘‘ ایک ہلکی پھلکی رومانوی اور مزاح سے بھرپور فلم تھی، جسے شائقین نے پسندیدگی کی سند سے نوازا۔

جنگ: ٹیلی ویژن اور فلم میں کام کرنے میں کیا فرق محسوس کیا؟

ندیم: دونوں کے مزاج میں فرق ہے، جو تاثر اور طاقت فلم میں ہے، وہ ٹیلی ویژن میں نہیں ہے۔ ٹیلی ویژن کا اداکار فلم میں کام کرنے کی خواہش رکھتا تھا۔ ٹیلی ویژن پر مشکل یہ ہے کہ وہاں کمرشل کے بغیر کام نہیں چل سکتا۔ پروگرام یا ڈرامے کے دوران کمرشل دکھانے سے سارا تاثر ٹوٹ جاتا ہے اور پھر 15 اقساط کا انتظار کون کرے گا؟۔ 

آپ کو حیرت ہوگی میں نے اب تک اپنی کوئی ڈراما سیریل نہیں دیکھی۔ فلم کا میڈیم دل و دماغ پر اثر کرتا ہے۔ اس کا امپیکٹ بہت ہوتا ہے۔ فلم اور ٹیلی ویژن میں اتنا ہی فرق ہے، جتنا کسی فوٹو گرافر کی بنائی ہوئی تصویر میں اور کسی مصور کے فن پارے میں ہوتا ہے۔

جنگ: محمد علی اور وحید مراد کے ساتھ کیسے تعلقات رہے؟

ندیم: وحید مُراد سے میری دوستی فلموں میں آنے سے بہت پہلے سے تھی۔ وہ میرے ہم عمر تھے اور میں اُن سے بہت پیار کرتا تھا۔ ہم فن کار اسٹار کہلاتے، مگر وحید مُراد سُپر اسٹار تھے۔ اُن کے ہیئر اسٹائل کو بے شمار لوگ نقل کرتے تھے، جب کہ علی بھائی سے محبت کا ایک رشتہ تھا۔ 

وہ میرے بڑے بھائی کی طرح تھے۔ فلم ’’بازی‘‘ میں پہلی بار اُن کا سامنا کرتے ہوئے مجھے گھبراہٹ محسوس ہوئی۔ اُس زمانے میں محمد علی انڈسٹری کا ایک بڑا نام تھا۔ وہ میرے مقابلے میں سینئر اداکار بھی تھے، لیکن یہ اُن کی بڑائی تھی کہ انہوں نے میرا حوصلہ بڑھایا۔ یہ فلم لوگوں نے بہت پسند کی۔

جنگ: آپ نے ابتدا میں بلیک اینڈ وائٹ فلموں میں کام کیا اور پھر رنگین فلموں کا دور شروع ہوا، ان دونوں میں کیا فرق محسوس کیا؟

ندیم: بلیک اینڈ وائٹ فلموں کا دور بہت یادگار تھا، اُس کا اپنا ہی مزا ہوتا تھا۔ جب رنگین فلمیں بننا شروع ہوئیں، تو ہر چیز کا خیال رکھنا پڑتا تھا۔ لباس کیسا ہونا چاہیے، ماحول کیسا ہونا چاہیے۔

جنگ: کیا وجوہ ہیں کہ آپ نے صرف ایک بھارتی فلم میں کام کیا؟

ندیم: فلم ’’دُوردیس‘‘ کے بعد مختلف بھارتی پروڈیوسرز اور ڈائریکٹرز کی جانب سے فلموں میں کام کرنے کی پیش کش ہوئیں، مگر میں نے انکار کردیا۔ کچھ فلموں کا موضوع متنازع ہونے کی وجہ سے اور کچھ میری مصروفیت آڑے آجاتی تھی۔

جنگ: شادی کب ہوئی؟

ندیم: فلموں میں آنے کے ایک سال بعد ڈھاکا میں میری شادی فرزانہ کے ساتھ ہوئی۔ قدرت کی مہربانی سے دو بیٹے ہیں۔ ایک بیٹا مرزا فرحان بیگ دوسرا بیٹا مرزا فیصل بیگ ہے۔ میں نے ٹیلی ویژن کے ایک ڈرامے میں اپنے بیٹے کے زیر ہدایت کام بھی کیا ہے۔

جنگ: سیاست سے کس حد تک دل چسپی ہے؟

ندیم: چند چہروں کو حکم رانی کرتے دیکھ رہا ہوں، ایسے حالات میں سیاست میرے بس کا روگ نہیں۔ مجھ میں سیاسی جراثیم نہیں ہیں۔

جنگ: مطالعے کا شوق ہے؟

ندیم: شاعری شوق سے پڑھتا ہوں۔ فیض، فراز، غالب اور میر میرے پسندیدہ شاعر ہیں۔

جنگ: آپ کی اپنی پسندیدہ فلمیں کون سی ہیں؟

ندیم: ’’قربانی‘‘، ’’لازوال‘‘ ،’’دہلیز‘‘ ،’’چکوری‘‘، ’’دل لگی‘‘ ان فلموں میں مجھے اپنا کام اچھا لگا۔

جنگ: اسکول و کالج کے زمانے کی کچھ شرارتیں تو یاد ہوں گی؟

ندیم: اُس زمانے میں ہر دوسری لڑکی پسند آجاتی تھی۔ کلاس ختم ہونے کے بعد ہم سب لڑکے اکٹھے ہوتے تھے اور پھر جب لڑکیاں ہمارے قریب سے گزرتی تھیں، تو ہم کہتے تھے کہ’’یار تیری والی آگئی‘‘ کوئی کہتا ’’میری والی آرہی ہے‘‘۔ زندگی میں یک طرفہ عشق تو بہت کیے۔ فلموں میں آنے کے بعد فوراً ہی میری شادی ہوگئی تھی، اسی وجہ سے میرے اسکینڈلز نہیں بنے۔ میں خود بھی خواتین سے دُور رہتا تھا۔

جنگ: بے پناہ شہرت نے دِماغ تو خراب نہیں کیا…؟

ندیم: شہرت تو ہر ایک کو اچھی لگتی ہے، مجھے دُنیا بھر میں بے پناہ شہرت ملی، بے شمار لوگوں کی محبت اور دعائیں ملیں۔ کبھی کبھی دل یہ چاہتا ہے کہ شہرت نہ ہوتی تو اچھا ہوتا۔ میں بھی عام لوگوں کی طرح گھومتا پھرتا، کھاتا، پیتا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ شہرت نے میرا دماغ خراب نہیں کیا۔ میں نے غرور اور تکبر کو اپنے پاس بھٹکنے نہیں دیا۔ 

میں دیکھتا ہوں آج کل کے نئے فن کار تھوڑی سی شہرت ملتے ہی رویہ بدل لیتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ انسان کو ہمیشہ انکساری سے پیش آنا چاہیے۔ مداحوں کی محبت اور دعائیں میرا قیمتی سرمایہ ہیں۔ ماؤں نے میری محبت میں اپنے بچوں کے نام ندیم رکھ لیے۔

جنگ: سُنا ہے دلیپ کمار مرحوم سے آپ کا بہت پیار تھا، اس کی کیا وجہ تھی؟

ندیم: میں نے بچپن میں دلیپ کمار کی کئی فلمیں دیکھی تھیں۔ بعد ازاں جب میں فلموں کی جانب آیا تو میری پرفارمینس میں ان کے کام کی جھلک دکھائی دی۔ یہ حقیقت ہے کہ انسان جو دیکھتا ہے، اس سے انسپائر ہوتا ہے۔ میں نے دلیپ صاحب سے اثر تو لیا، مگر ان کی نقل نہیں کی، میں نے اپنے الگ کام سے شناخت بنائی۔

فن و فنکار سے مزید
انٹرٹینمنٹ سے مزید