بات چیت: نداسکینہ صدیقی
ڈراموں کی دنیا میں کچھ اداکار اپنی شخصیت کی وجہ سے الگ پہچان بناتے ہیں، بعض اپنی اداکاری کی وجہ سے اور بعض اپنی خوبصورتی کے سبب شہرت حاصل کرتے ہیں۔ لیکن کچھ نے اپنی خوبصورتی کی بجائے اداکاری سے لوگوں کے دلوں میں گھرکیا۔ انہیں میں ایک نام پاکستان کے تاریخی شہر لاہور میں پہلی سانس لینے والی اداکارہ’’نینا بلیک ‘‘ کا ہے۔
شوق تھا اسپورٹس کا، اسکول کے زمانے سے ہر کھیل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتیں، ایچ ای سی کی پلیئر بھی رہیں۔ چھ سال کی عمر میں پہلی مرتبہ تھیٹر سے اداکاری کا آغاز کیا، کئی سال تھیٹر کرنے کے بعد اتفاقاً ڈرامے کی دنیا میں قدم رکھا اور ابتدا ہی میں مشہور ڈرامے ’’دل نہ اُمید تو نہیں، کابلی پلاؤ ، قر ض ِجان ‘‘ اور ویب سیریز ’’مسز اینڈ مسٹر شمیم ‘‘ میں اداکاری کے جوہر دکھا ئے۔ بعدازاں شوبز میں ہی اپنا کیرئیر بنانے کا فیصلہ کیا۔
حالاں کہ بقول نینا بلیک کے، رنگ گورا نہ ہونے کے باعث کئی مشکلا ت کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن اس کے باوجود ہمت نہیں ہاری اور اداکاری کا سفر جاری رکھا ہوا ہے، مگر اسپورٹس کا شوق اب بھی اپنی جگہ ہے۔ گزشتہ دنوں ہم نے ’’نینا بلیک ‘‘ سے ان کے گھر پر ملاقات کی۔ ڈرامہ انڈسٹری میں ان کے سفر کے بارے، مستقبل میں مزید کام کے حوالے سے گفتگو ہوئی، ان کی تفصیل نذر قارئین ہے۔
س: سب سے پہلے اپنی تعلیم او ر فیملی کے متعلق کچھ بتائیں ؟
ج: میرا تعلق پاکستان کے تاریخی شہر لاہور سے ہے۔ ہم چار بہن، بھائی ہیں۔ تین سال قبل میرے والد کا انتقال ہوا ہے۔ بڑی بہن اسلام آباد میں بہ حیثیت اینکر پرسن جاب کرتی ہیں۔ ابو کا تعلق بھی صحافت سے تھا۔ امی اور چھوٹی بہن لاہور میں ہی رہتی ہیں۔ کام کی وجہ سے میں کراچی میں مقیم ہوں۔ لاہور سےمیں نے فرانز ک سائیکلوجی میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں فرانزک سائیکلوجی کا مستقبل اتنا روشن نہیں ہے، جابز ملنا مشکل ہوتا ہے۔ لیکن میں نے کیرئیر اور تعلیم کے حوالے سے پورا پلا ن بنایا ہوا تھا کہ مجھے آگے کس طر ح چیزوں کو لے کر چلنا ہے۔ کس موڑ پر اپنے آپ کو آگے بڑھانا ہے۔ اسکول کے زمانے سے ہی اسپورٹس میں میری دلچسپی بہت زیادہ رہی ہے۔
مختلف گیمز میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھی۔ گریجویشن تک تعلیم اسپورٹس کوٹے پر ہی حاصل کی ،کیوں کہ میں ایچ ای سی کی پلئیر تھی لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا اور اچانک سے میں نے ڈرامہ انڈسٹری میں قدم رکھا اور اب اسی میں اپنا کیرئیر بنا رہی ہوں۔ چھ سال کی عمر میں پہلی مرتبہ لاہور میں تھیٹر کیا۔ اپنے آپ کو کسی کردار میں ڈھال کر اسٹیج پر پر فارم کرنا مجھے بہت اچھا لگا۔
آہستہ آہستہ تھیٹر کا سلسلہ آگے بڑھتا رہا۔ ڈرامے میں آنے کا اتفاق ایسے ہوا کہ ایک دفعہ ہم لوگ ایک تھیٹر کی ریہرسل کررہے تھے، اس کے جو گیٹ اپ (Get up) آرٹسٹ تھے، ان کے پاس ایک کال آئی کہ کسی ڈرامے کی ایک لڑکی آخری وقت میں چلی گئی ہے، کوئی لڑکی ہے جو یہ کردار کرلے۔ انہوں نے مجھے سے پوچھا کہ اسکرین پر کام کرو گی، ایک کردار ہے وہ کرنا ہے، میں نے فوری حامی بھرلی اور ان کی بتائی ہوئی جگہ پر چلی گئی۔
ڈرامے کی ٹیم نے مجھے دو اسکرپٹ دئیے اور ان کی ریکاڈنگ کرائی، مزید تاریخیں بتائیں کہ آپ ان تاریخوں پر آجائے گا۔ میں جب وہاں سے واپس آئی تو تھیٹر کے ساتھیوں نے مجھے سے پوچھا تم کہاں گئی تھیں جب میں نے ان کو بتا یا تو وہ حیران رہ گئے، انہوں نے ہی مجھے بتایا کہ تم ڈائریکٹر ’’کاشف نثار ‘‘ کے پاس گئی تھیں۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ مجھے اتنے بڑے ڈائریکٹر کے پاس بھیجا گیا ہے۔ ان کے ساتھ کام کرنا فن کاروں کا خواب ہوتا ہے۔
بعدازاں کاشف نثار نے مجھے ویب سیریز ’’ مسز اینڈ مسٹر شمیم ‘‘ میں میڈ کا کردار آفر کیا، پھر ڈرامہ سیریل ’’دل نہ اُمید تو نہیں ‘‘ میں کاسٹ کیا۔ اس کے بعد ’’کابلی پلاؤ ‘‘میں کیا۔ آہستہ آہستہ مزید ڈراموں کی پیش کش ہوتی رہی ۔حال ہی میں ’’قر ض ِجان ‘‘ ختم ہوا ہے۔ کئی ڈرامے کرنے کے بعد مجھے یہ احساس ہو گیا تھا کہ اب مجھے ڈرامہ انڈسٹری میں ہی اپنا کیرئیر بنانا ہے، آہستہ آہستہ یہ سفر آگے بڑھ رہا ہے۔
یہاں میں ایک بات بتانا چاہوں گی میں کوئی بھی کام اُس وقت تک نہیں کرسکتی جب تک میرا دل نہ چاہے۔ میں کوئی بھی کام زبردستی نہیں کرسکتی۔ میری اس عادت سے میرے گھر والے بھی پریشان ہوتے ہیں، جس کام کو کرنے میں مجھے مزہ نہیں آتا، اس کو چھوڑنے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگاتی۔ میں کوئی بھی کام کسی کے کہنے پر نہیں کرسکتی ،جو بھی کرتی ہوں اپنی مرضی اور موڈ سے کرتی ہوں۔
س: کیا ڈراموں میں کام کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ؟
ج: تھوڑا نہیں بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، کیوں کہ مجھ میں مین رول (ہیروئین کا کردار ) کرنے والی خصوصیات نہیں ہیں۔ رنگ بھی گورا نہیں ہے، گڈلُکنگ نہیں ہوں۔ گورا رنگ، اچھی شکل وصورت اور اسمارٹ ہونا۔
یہ سب مین رول کی خصوصیات سمجھی جاتی ہیں۔ لیکن صرف ہیئروئن کا کردار کرنے کے لیے میں خود کو بدلنا نہیں چاہتی۔ میں جیسی ہوں ویسی ہی اسکرین پر نظر آنا چاہتی ہوں۔
کسی کی ڈیمانڈ پر میں خو د کو کبھی بدلنا نہیں چاہوں گی، حالاں کہ میں یہ جانتی ہو ں کہ گلیمر اسکرین کی ڈیمانڈ ہے اور عوام دیکھنا بھی یہی چاہتے ہیں۔میرا اس بات پر یقین ہے کہ جب آپ اپنی پہچان بنالیتے ہیں تو عوام آپ کو اسی طرح دیکھنے کے عادی ہو جاتے ہیں اور پھر وہی پہچان آپ کو ترقی کی راہ پر لے کرجاتی ہے۔ کئی ڈراموں میں کام کرنے کے باوجود مجھے ا ن مشکلات کا سامنا ابھی بھی کرنا پڑتا ہے۔
س: آپ کے خیال میں اداکاری کیا ہے ؟
ج: کوئی بھی چیز پڑھ کر اس کو اپنانا، خود کو اس کے مطابق ڈھالنےکا نام اداکاری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ کو اپنا ان پٹ بھی دینا پڑتا ہے تب ہی کچھ پر فارم کرتے ہیں۔ میں ایک اکیڈمی میں بہ طور ایکٹنگ ٹیچر پڑھتی بھی ہوں۔
میں اپنے اسٹو ڈنٹس کو بھی یہی کہتی ہوں کہ چند لائنز یاد کرکے پرفارم کرنا اداکاری نہیں ہے، بلکہ اس کو سمجھ کر اپنے آپ کو اس کے مطابق ڈھالنا پڑتا ہے، بظاہر یہ کام بہت آسان لگتا ہے لیکن ہے نہیں۔
س: اداکارہ بننے کے بعد زندگی میں کیا تبدیلیاں محسوس کرتی ہیں ؟
ج: میری شخصیت میں کافی تبدیلیاں آئیں۔ اسپورٹس کھیلنے کی وجہ سے میرا اسٹائل ٹائم بوائے کی طرح تھا، لڑکیوں کی طرح چلنا بھی مجھے نہیں آتا تھا۔ میرا جو پہلا ڈرامہ تھا اس کو کرنے سے پہلے میں نے لڑکیوں کی طرح چلنے کی باقاعدہ پریکٹس کی تھی۔ فینسی کپڑے کس طرح پہنے جاتے ہیں یہ سب میں نے شوبزکی دنیا میں آکر ہی سیکھا ہے۔
س: اگر اداکارہ نہ ہوتیں تو کس شعبے میں اپنا کیرئیر بناتیں ؟
ج: بیرون ملک جاکر فرانزک سائیکولوجی میں اپنا کیر ئیر بناتی۔ ویسے تو میری خواہش اسپورٹس کی دنیا میں صلاحیتوں کے جوہر دکھانے کی تھی لیکن پاکستان میں رہ کر صرف اسپورٹس کے ذریعے مستقبل بہتر کرنا مشکل ہے۔
س: اب تک آپ نے جتنے بھی ڈرامے کیے ،ان میں سب سے مشکل کردار کون سا تھا ؟جس کو نبھانے میں کا فی محنت کرنی پڑی ؟
ج: اب تک توان میں کوئی بھی کردار مشکل نہیں لگا، البتہ اسٹیج پر کچھ کردار ایسے کیے ہیں جو بہت مشکل تھے، ان کو کرنا میرے لیے ایک چیلنج تھا۔ ڈرامہ اور تھیٹر دو الگ الگ میڈیم ہیں اور دونوں کی اداکاری میں بھی فرق ہوتا ہے۔
اگر دونوں کا موازنہ کیا جائے تو تھیٹر کرنا زیادہ مشکل ہے لیکن مجھے زیادہ مزہ تھیٹر میں آتا ہے۔ سامعین کے سامنے پر فارم کرنے کا الگ ہی مزہ ہے۔ اگر دونوں میڈیم کو سمجھ لیا جائے تو کام کرنا آسان ہوجاتا ہے۔
س: آپ کے خیال میں کس کردار سے شہرت ملی ؟
ج: دو کرداروں سے مجھے پہچان ملی ہے۔ ایک کابلی پلاؤ کے کردار سے اور دوسرا قر ض ِجان میں وکیل کے کردار سے۔
س: کسی بھی اداکار کو کام یاب بنانے میں اداکاری زیادہ اہمیت رکھتی ہے یا اسکرین پر اچھا نظر آنا ؟
ج: یہ اس دو ر کا بہت بڑا تصادم ہے، ایک وقت تھا جب کوئی بھی ادا کار یا اداکارہ مین رول کرتاسکتا تھا لیکن پھر وقت نے کروٹ لی اور لوگوں کی ترجیحات بدل گئیں۔ صلاحیت سے زیادہ خوبصورتی کو اہمیت دینے لگے۔ عوام صرف انہیں ہی اسکرین پر دیکھنا چاہتے ہیں جوخوبصورت اور حسین نظر آتے ہیں، ان کی اداکاری کوئی معنی نہیں رکھتی۔
مجبوراً پروڈکشن ہاؤسز اسکرین پر وہی دکھارہے ہیں جو لوگ دیکھنا چاہتے ہیں، جب کہ ہماری انڈسٹری میں ایسی بہت سی اداکارائیں ہیں جنہوں نے خوبصورتی سے نہیں بلکہ بہترین اداکاری سے نام کمایا، اپنی پہچان بنائی، مگر افسوس کے ساتھ یہ بات کہنی پڑتی ہے کہ یہ چیزیں کیرئیر میں مشکلات کا باعث بنتی ہیں، اس وجہ سے مشکلا ت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میرا یہ ماننا ہے کہ عوام کے دلوں میں آپ کی خوبصورتی نہیں ،کام جگہ بناتا ہے۔ شکل آج یاد ہوگی کل بھول جائیں گے لیکن آپ کا کام لوگ یاد رکھیں گے۔
س: تو کردار میں سب سے زیادہ اہمیت کس چیز کو دیتی ہیں ؟
ج: سب سے پہلے یہ دیکھتی ہوں کہ اس کردار میں اداکاری کا مارجن کتنا ہے۔ مجھے اس سے فرق نہیں پڑتا کہ وہ مین رول ہے یا سائیڈ۔ میری ترجیح ہمیشہ وہی کردار ہیں اور رہیں گے جن میں ایکٹ کرنے کا مارجن زیادہ ہو خواہ کردار چھوٹا ہی کیوں نہ ہو۔ کابلی پلاؤ اور قرض ِجان میں میرا سائیڈرول تھا لیکن اس میں کام کرنے کا مارجن بہت تھا۔ عام کردار کرنے میں مزہ نہیں آتا۔
س: اپنے کردار کو بہتر بنانے کے لیے کن عوامل پر زیادہ توجہ دیتی ہیں؟
ج: میری کوشش ہوتی ہے کہ کردار کو بہتر بنانے کے لیے وہ عنصر شامل کروں جو اس کو مزید دل چسپ بنا دیں۔ ڈائریکٹر سے اس کردار کے حوالے سے گفت وشنید کرتی ہوں، تاکہ یہ سمجھ سکوں کہ وہ کردار کو کس طر ح کروانا چاہتے ہیں۔ جب تک آپ کردار کو ڈسکس نہیں کریں گے، اُس وقت تک اپنے کردار کو بہتر طرح سے پر فارم نہیں کرسکتے۔
میں ہر چیز پر توجہ دیتی ہوں، ڈریسنگ، ڈائیلاگز اور لفظوں کی ادائیگی پر۔ میرے گھر میں بچپن سے اردو پر توجہ دی گئی ہے، اس لیے میری اردو اچھی ہے۔ لیکن میں پھر بھی اس کو مزید بہتر کرنے کے لیے محنت کرتی ہوں۔
مجھے جب بھی کوئی چیز سیکھنے کا موقع ملتا ہے، میں سیکھتی ہوں اور سیکھنے کا یہ عمل ہمیشہ جاری رکھنا چاہتی ہوں۔ کچھ کردار ایسے ہوتے ہیں جن میں میک اپ کی یا جیولری کی ضرورت نہیں ہوتی تو میں منع کردیتی ہوں ۔میں ہمیشہ کہتی ہوں کردار میں جس چیز کی ضرورت ہے اس کو ویسا ہی دکھانا چاہیے۔
س: کرداروں کی آپس میں اچھی کیمسٹری ہونا، کیا ڈرامے کو مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے ؟
ج: کیمسٹری اچھی ہونا بہت معنی رکھتا ہے، چاہے تھیٹر ہو، ڈرامہ ہو یا فلم۔ اگر اداکار اور اداکارہ کا آپس میں ٹکڑاؤ ہو تو اسکرین پر وہ باؤنڈنگ نظر نہیں آتی۔چاہے آپ بہت اچھا بھی پرفارم کررہے ہیں لیکن اس میں وہ بات نہیں آئے گی۔ اچھی کیمسٹری خود بولتی ہے۔
س: قرض ِجان میں یمنیٰ زیدی کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ کیسا رہا ؟
ج: یمنیٰ کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ ہمیشہ ہی اچھا رہا ہے، یہ میرا ان کے ساتھ تیسرا پروجیکٹ تھا۔ ہم دونوں کی بہت اچھی باؤنڈنگ ہے۔ میں کسی بھی سینئر اداکار کے ساتھ کام کرنے سے گھبراتی نہیں ہوں، البتہ ان سے سیکھتی ضرور ہوں۔
س: اپنے کام کو تنقیدی نظر سے دیکھتی ہیں ؟
ج: مجھے ٹی وی دیکھنے کا شوق نہیں ہے، صرف اپنے کام کو نہیں بلکہ کسی کے کام کو بھی نہیں دیکھتی۔
س: عوام آپ کو مستقبل میں کن ڈراموں میں دیکھے گے؟
ج: ایک پائپ لائن میں ہے لیکن اس کانام ابھی نہیں لے سکتی۔
س: اگر فلم میں کام کرنے کی آفر ہوئی تو کریں گی ؟
ج: اگر کوئی اچھا رول آفر ہوا، جس میں ایکٹنگ کا مارجن بھی ہو تو ضرور کروں گی۔