ڈراما سیریل ’’پاداش‘‘ میں وہ ہماری والدہ بنی تھیں، اس کے بعد سے ہم دونوں میں ماں اور بیٹی جیسا پیار تھا۔ انتہائی شفیق اور محبت کرنے والی عائشہ خان سے ہماری ملاقات کم ہی ہوتی تھی۔ تاہم فون پر اکثر رابطہ ہو جاتا تھا۔ مصروف زندگی میں رشتہ نبھانا مشکل کام ہے، مگر عائشہ خان کی عظمت کو سلام ہے جن کی شفقت میں کبھی کمی نہیں آئی۔ کچھ عرصہ قبل ان کا فون نہیں لگ رہا تھا اور رابطہ نہیں ہو رہا تھا، تو ہم پریشان ہو گئے اور گلشن اقبال میں واقع اُن کے فلیٹ پہنچ گئے۔
پیاری ماں جیسی عائشہ خان جنہیں ہم برسوں سے جانتے تھے۔ آج یہ وہ عائشہ خان نہیں لگ رہی تھیں۔ کمزور اور ناتواں، چلنے میں دشواری کا سامنا، مگر کمال کی بات ہے کہ چہرہ پہ مسکراہٹ، آواز میں شہد جیسی مٹھاس، ہاتھوں میں دو کنگن اور انگوٹھیاں، بال تَرشے ہوئے، مگر ذرا بکھرے ہوئے۔ ایک لاٹھی اُن کے پاس تھی، جس کے سہارے وہ بہ مشکل چند قدم چل پاتی تھیں۔ انسان کے لیے سب سے تکلیف دہ چیز زندگی میں تنہائی ہے۔ عائشہ خان بھی زندگی کے اس مشکل امتحان سے گزریں۔
عائشہ خان ہم سے باتیں کرتی رہیں، اپنے پرانے ڈراموں کے متعلق، زندگی کی سچائیوں کے متعلق، ساتھی فن کاروں کے متعلق اُن کا حافظہ کمال تھا۔ ہر بات نہایت تفصیل کے ساتھ انہیں یاد تھی۔ ہمیں یاد ہے ایک مرتبہ پی ٹی وی پر عید شو ہو رہا تھا، ہم چاہتے تھے کہ ہلکے رنگ کا لباس پہنیں، مگر عائشہ خان کا خیال تھا کہ ہمیں شوخ رنگ پہننا چاہیے، وہ کہنے لگیں کہ بیٹا یہی عمر ہے، جو لال پیلا رنگ پہننا ہے، پہن ڈالو، کیا ہماری عمر کو پہنچ کر پہنو گی؟۔ پاداش ڈرامے میں ہمارا کردار سموسے والے کی بیٹی کا تھا، جو اونچے محلوں کے خواب دیکھتی ہے۔
اس ڈرامے میں عائشہ خان، انور سولنگی زینت یاسمین، شبیر جان، عبداللہ کادوانی، عائشہ عالم، محمود اختر اور دیگر بہت سے آرٹسٹ تھے۔ حمید کاشمیری کا یہ سیریل پہلے ایک ناول کی شکل میں اخبار جہاں میں شائع ہو چکا تھا۔ ہم پاداش ڈرامے کے حوالے سے عائشہ خان سے تادیر باتیں کرتے رہے، ہم نے انہیں یاد دلایا کہ وہ ہمارے لیے طارق روڈ سے سبز رنگ کا ایک دوپٹہ خرید کے لائی تھیں۔
عائشہ خان کی چھوٹی بہن خالدہ ریاست ان دنوں شدید علیل تھیں اور اسپتال میں داخل تھیں۔ کسی کو اُن سے ملنے کی اجازت نہیں تھی۔ پاداش میں زینت یاسمین، امیر کبیر خاتون کا رول کر رہی تھیں اور عائشہ خان غریب سموسے والے کی بیوی کا۔
یہ کردار انہوں نے خود منتخب کیا تھا۔ سیریل ختم ہوگیا، مگر ہمیں عائشہ خان سے ہمیشہ کے لیے جوڑ گیا۔ عید شو، ایوارڈ شو، لائیو شو اور دیگر پروگراموں میں ہماری اُن سے ملاقات ہو جاتی تھی، پھر ایک طویل عرصہ ہوگیا ان کو دیکھے، بس فون پر ہی بات ہو جاتی۔ پہلے وہ ڈراموں کی ریکارڈنگ میں مصروف ہوتی تھیں پھر آہستہ آہستہ خانہ نشین ہو گئیں۔
انہوں نے ہم سے کہا کہ انسان کے پاس بینک بیلنس ہونا چاہیے، پیسا بڑی طاقت ہے۔ عائشہ خان باتیں کرتی جا رہی تھیں، ہم بس ان کو غور سے دیکھتے رہے کہ شاید ان سے ہماری یہ آخری ملاقات ہو۔ دوسری منزل پہ ان کا فلیٹ تھا اور ان کے لیے سیڑھیاں اترتا چڑھنا یا کہیں آنا جانا ناممکن تھا۔
وہ بار بار اصرار کرتی رہیں کہ کچن میں جا کے دیکھ لو، خود کھانا نکال کے کھا لو۔ ان کے خلوص اور برتاؤ نے ہمیں آبدیدہ کر دیا۔ جب ہم ان سے رخصت ہوئے تو خوش تھے کہ ان سے مل آئے، لیکن ساتھ ہی یہ اُداسی بھی تھی کہ وہ اب کتنی کمزور اور اکیلی ہو گئی ہیں۔ اس ملاقات کا تاثر کئی ہفتوں ہم پر طاری رہا۔
ہمیں ان کی وہ بات یاد آتی کہ میں تنہا فلیٹ میں رہتی ہوں، مروں گی تو کسی کو پتہ نہیں چلے گا۔ ہائے کیا کریں، اُن کی کہی بات سچ ہو گئی۔ وہ واقعی اس دُنیا سے چلی گئیں اور ہفتہ بھر کسی کو خبر نہ ہوئی۔ جب فلیٹ سے تعفن اُٹھا تو اہل محلہ نے پولیس کو اطلاع دی۔ وہ ساری باتیں جو عائشہ خان نے ہم سے کی تھیں ، ہمارے ذہن میں گونجنے لگیں۔
ایک محبت کرنے والی خاتون، سیلف میڈ بااعتماد خاتون، جنہوں نے ہمیشہ دوسروں سے اچھا رویہ رکھا، ایک بڑی فن کارہ، جس نے ٹیلی ویژن کے کئی کام یاب ڈراموں میں کام کیا، زندگی کی جنگ اکیلے لڑی اور پھر خاموشی سے چلی گئیں۔
افشاں، پاداش، مہندی، بساطِ دل، آنچ، یہ جہاں، بدلتے موسم، بندھن اور دوسرے بے شمار ڈراموں میں اداکاری کے جوہر دکھانے والی عائشہ خان اب اس دُنیا میں نہیں رہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔