پاکستان ہاکی کے مایہ ناز کھلاڑی عبد الوحید خان المعروف وحید بھائی کے انتقال سے پاکستان ہاکی ایک ایسی شخصیت سے محروم ہوگئی جو کھلاڑی کے ساتھ ساتھ اپنی ملنساری کی وجہ سے زیادہ شہرت رکھتے تھے، ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے اپنے ماضی کے کامیاب ہیروز سے ملکی ہاکی کو ترقی دینے کے لئے کبھی مدد نہیں لی، وحید خان جیسی شخصیت نے کبھی اپنے مفاد کو اہمیت نہیں دی، وہ ہمیشہ پاکستان ہاکی کے لئے فکر مند دکھائی دئیے، انہیں ایک ایمان دار اور مخلص کھلاڑی جیسی شہرت حاصل تھی۔
اپنے زمانے میں دنیا کے نامور سنیٹر فاروڈ کا اعزاز پایا، 13 نومبر 1934 رائے پور بھارت میں پیدا ہوئےعبدالوحید خان آزادی کے بعد 1949ء میں اپنے والدین کے ساتھ پاکستان منتقل ہو گئے تھے اور کراچی کی پی آئی بی کالونی میں آباد ہوئے۔ شروع میں وہ فٹ بال کھیلتے تھے،انہوں نے 1954ء میں جرمنی کے خلاف سیریز کے لیے سینٹر فارورڈ کے طور پر قومی کلر دیا گیا اور 1956 کے ملبورن اولمپکس کے لیے نامزد کئے گئے 33 ممکنہ کھلاڑیوں میں شامل تھے لیکن فائنل ٹیم میں جگہ نہ بنا سکے۔
تاہم وحید کو روم اولمپکس کے لیے منتخب کیا گیا جہاں پاکستان نے اپنا پہلا طلائی تمغہ جیتا، فائنل میں روایتی حریف بھارت کے 28 سالہ تسلط کا خاتمہ نصیر بندا نے جیتنے والے گول کے ساتھ کیا۔اولمپین عبدالوحید خان نے اپنے کیریئر کے دوران 1960 روم اولمپکس میں پاکستان کی نمائندگی کرکےگولڈ میڈل ، 1962 جکارتہ میں منعقد ہونے والی ایشین گیمز میں گولڈ میڈل اور 1966 میں بنکاک میں منعقد ہونے والی ایشین گیمز میں سلور میڈل جیتنے کے ساتھ ساتھ کئی اعزازت اپنے نام کئے اور پاکستان کا سبز ہلالی پرچم اقوام عالم میں بلند کیا۔
1962کے ایشین گیمز میں انہوں نے17گول بنایا جو 42سال تک قائم رہا ہے،انہوں نے ہاکی پر کتاب بھی لکھی،عبدالوحید خان کو 1978ء میں ریٹائرڈ کرنل اے آئی ایس دارا نے پاکستان ہاکی ٹیم کا منیجر اور کیمپ کمانڈنٹ مقرر کیا تھا جب گورنر پنجاب صادق حسین قریشی پاکستان ہاکی فیڈریشن (پی ایچ ایف) کے سربراہ تھے، وہ پاکستان ہاکی ٹیم کے کپتان، کوچ ،منیجر اور پی ایچ ایف کے چیف سلیکٹر بھی رہے، انکی ٹیم سے بطور آفیشل وابستگی کے دوران پاکستان نے 1978کا ورلڈ کپ،چیمپئینز ٹرافی، ایشیا کپ، ایشین گیمز، قائد اعظم انٹر نیشنل ٹور نامنٹ جیتا،1978میں ، ہوم گراؤنڈ پر پہلی پاک بھارت ہاکی سیریز میں بھی پاکستان کو فتح ملی۔
ان کی حکمت عملی غضب کی ہوتی تھی، ارجنٹائن میں 1978کے ورلڈ کپ کے دوران ارجنٹائن کے ایک آفیشل نے ان سے ملاقات کر کے اپنی ٹیم کے لئے حکمت عملی بنائی اور ارجنٹائن ورلڈ کپ فٹبال جیت گیا،وحید خان نے 1957ء میں کسٹمز پریونٹیو میں شمولیت اختیار کی، کئی سال اپنے محکمے کے لیے بھی کھیلے اور 1994ء میں اسسٹنٹ کلکٹر کے طور پر ریٹائر ہوئے، پاکستان ہاکی حکام کی جانب سے نولفٹ اور قومی ٹیم کی مایوس کن کار کردگی سے وحید بھائی اس قدر مایوس ہوگئے تھے کہ انہوں نے ہاکی کے بجائے ٹینس کھیلنا شروع کردی۔
اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے پی آئی اے کے سابق چیئرمین ناصر جعفر کے خاندان کی ملکیت والے ماڈرن کلب میں بطور ایڈمنسٹریٹر شمولیت اختیار کی اور اپنی موت تک 25 سال سے زائد عرصے تک وہاں خدمات انجام دیں، حکومت کی جانب سے ان کی شاندار خدمات کے اعتراف میں تمغہ امتیاز سے نوازا گیا۔ مگر دکھ اور افسوس اس بات کا ہے کہ ان جیسے عظیم کھلاڑی سے پاکستان ہاکی کو ترقی دینے کے لئے کوئی خدمات نہیں لی گئی اور نہ ہی انہیں کبھی پاکستان ہاکی کے تھنک ٹینک میں شامل کیا گیا۔