1991 میں سوویت یونین کا خاتمہ ہواجس کے نتیجے میں کئی ممالک نے جنم لیا، جن میں روس اور یوکرین نمایاں ہیں۔ اس وقت دنیا کا خیال تھا کہ یہ مغربی جمہوریت کی فتح ہے ، مجموعی طور پر کمیونزم کے نظریے کی حتمی اور آخری شکست ہے، لیکن پچھلے دس سال نے یہ ثابت کیا کہ یہ محض خام خیالی تھی۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد روس نے عوام کی خواہشات کے مطابق ایک طاقتور اور خوشحال مشرقی یورپ کے وژن پر تیزی سے عمل درآمد جاری رکھا۔ یوکرین نے سوویت بلاک سے آزادی کے بعد مغرب سے راہ و رسم بڑھانا شروع کر دیے۔ نیٹو ممالک نے مشرق کی طرف اپنی توسیع جاری رکھی ،لٹویا، رومانیہ اور پولینڈ کی شمولیت نے روس اور نیٹو میں کشیدگی کو جنم دیا جواب شدید تنازعے کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔اس تنازعہ کے تین فریق روس، امریکہ اور یورپی یونین ہیں، لیکن اس تنازعہ سے سب سے زیادہ متاثر یوکرین کے عوام ہو رہے ہیں۔
2014میں، جب یوکرین نے یورپی یونین کے ساتھ ایک اہم ترین تجارتی معاہدے پر دستخط کرنے کی کوشش کی تو ماسکو کی طرف سے اس کی شدید مخالفت کی گئی،شدید دبائو کے نتیجے میں اس کا کریملن کے ساتھ معاہدہ طے پا گیا۔ پورے کیف میں زبردست مظاہرے پھوٹ پڑے جس کے نتیجے میں اس وقت کے وزیر اعظم کو ملک چھوڑنا پڑاجس کے بعد چند ہفتوں کے اندر یورپ کے ساتھ معاہدہ طے پا گیا۔ یوکرین کے لوگ ایک ایسی جمہوریت چاہتے تھے جو مغربی یورپ کی ترقی اور معاشی بہبود کا نقشِ دوم ہو۔ اسی سال روس نے اپنے ٹینکوں اور فوجیوں کو یوکرین کے جنوبی علاقے کریمیا میں منتقل کر کے جوابی کارروائی کی اور اسے نوآبادیاتی انداز میں قبضے میں لے لیا۔ یورپیوں نے پابندیوں اور امن مذاکرات دونوں طرح سے معاملہ سلجھانے کی کوشش کی لیکن نتیجہ ندارد۔ ولادیمیر پوٹن مذاکرات کے موڈ میں نہیں تھے، کریمیا اب تک روسی کنٹرول میں ہے۔
دوسری طرف، کیف نے مغرب کی طرف جھکائو کے اپنے وژن کو برقرار رکھا۔ جب 2020 میں یوکرین کے نیٹو فوجی اتحاد میں باضابطہ طور پر شامل ہونے کے لیے معاہدہ آخری مراحل میں تھا تو روس نے 100,000 سے زیادہ فوجیوں کو بھاری اسلحے کے ساتھ یوکرین کے ساتھ سرحد پر تعینات کرکے اپنا ردِ عمل ظاہر کر دیا۔ اب ایک خودمختار ملک پر حجم میں کئی گنا بڑے ملک کے حملے نے پوری دنیا کو خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ یہ جنگ علاقائی اور بین الاقوامی استحکام میں انتشار کا باعث بن سکتی ہے۔
یورپی اقوام اور امریکیوں کی طرف سے ظاہر کیا جانے والا ردِعمل روس پر پابندیوں، اقتصادی تنہائی اور سفارتی سرزنش پر منتج ہو سکتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ماسکو ان پابندیوں کے لیے پہلے سے تیارہے، اس نے مغرب کے ردِعمل اور اس کے نتائج سے نمٹنے کے لیے پہلے ہی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔امریکہ اور نیٹو کا سخت ردِ عمل ،بین الاقوامی دباؤ ،شدید جھڑپوں کو جنم دے سکتا ہے۔ اقتصادی پابندیاں یا روسیوں کو مغربی مالیاتی نظام سے باہر کرنے سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوں گے، کم از کم فوری طور پرتو بالکل بھی نہیں۔ پیوٹن کے مطابق علاقائی سلامتی کا دفاع، اس بات پر منحصر ہے کہ نیٹو یوکرین کی اس لڑائی میں حصہ دار نہ بنے، اور کبھی یوکرین کے اندر مغربی یا امریکی فوجی اڈے قائم کرنے کی حماقت نہ کرے ورنہ نتائج انتہائی بھیانک ہو سکتے ہیں۔ پیوٹن ایک ایسا شخص ہے جس نے ہمیشہ سیاست میں سخت مؤقف اختیار کیا ہے۔کوئی معاملہ ایسا نہیں جس میں اس نے کمزوری یا نرمی دکھائی ہو۔ دنیا بھر کے ماہرین کو یقین ہے کہ بات چیت اور گفت و شنید کی کوششو ں کے باوجود یہ جنگ خطرناک موڑ پر پہنچ سکتی ہے۔
یوکرین میں بحران اور جنگ پوری دنیا کو متاثر کرے گی۔ پوری دنیا میں توانائی کی سپلائی متاثر ہوگی جس سے ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔ تمام براعظموں میں کھپت کئی گنا بڑھ جائے گی۔ ایندھن کی قیمتوں اور افراطِ زر کے ساتھ نبرد آزما قومیں اس عدم توازن سے شدید متاثر ہوں گی۔ خاص طور پر پاکستان کو ایک بڑے درآمدی بل سے سخت نقصان پہنچے گا، جو معیشت کومزید غیر مستحکم کرے گا اور روزمرہ استعمال کی اشیاء کی قیمتوں کو عوام کی پہنچ سے مزید دور کر دے گا۔اگر خدانخواستہ یہ جنگ طول پکڑتی ہے تو ایندھن کی کھپت اور امپورٹ بل میں کمی کے لیے ٹرانسپورٹیشن میں کمی، اسکولوں اور دفاتر کی اکثریت کو آن لائن آپریشنز پر منتقل کرنے جیسے انتہائی اقدامات حکومت کی مجبوری بن جائیں گے۔ تیل اور ایندھن پیدا کرنے والے اہم ممالک کوسپلائی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے پیداوار میں کئی گنا اضافہ کرنا پڑے گا، جس سے انہیں بین الاقوامی سفارت کاری اور طاقتور ممالک کے ساتھ سودے بازی میں کافی اہمیت حاصل ہوجائے گی۔ یہ بحران تمام ترقی پذیر ممالک کا امتحان ثابت ہو گا، خاص طور پر وہ جو ادائیگیوں کے توازن کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
دیگراہم چیلنجز بھی درپیش ہوں گے، کیونکہ روس اور یوکرین یورپ کو خوراک کا 30 فیصد فراہم کرتے ہیں۔ اس سے خوراک کی بین الاقوامی قیمتوں میں شدید عدم استحکام آئے گا، جس سے پورا یورپ متاثر ہو گا۔ یورپی سرحدوں پر روسی فوجیوں کی موجودگی سے یورپی فوجی بجٹ نئی بلندیوں کو چھوئے گا، جس سے فلاحی اور اقتصادی سرگرمیاں عدم توجہی کا شکار ہوجائیں گی۔ یوکرین کا بحران پوری دنیا کا فلیش پوائنٹ بن چکا ہے۔ ماضی کے ایک ڈراؤنے خواب کی طرح، جہاں چھوٹے ممالک کے عوام عالمی طاقتوں کی بے پناہ فوجی طاقت کے خلاف کھڑے کیے گئے تھے۔ ایسا لگتا ہے، جنگ بنی نوع انسان کے لیے ایک مستقل عذاب کی صورت اختیار کر چکی ہے، جنگ کبھی نہیں ٹلتی اور اس کا سایہ بعد میں آنے والی نسلوں کے سروں پر بھی منڈلاتا رہتا ہے۔ یہ بات سچ ہے کہ کدورتیں بظاہر نظر نہیں آتیں لیکن یہ دلوں میں پنپتی رہتی ہیں۔
(مضمون نگار جناح رفیع فاؤنڈیشن کے چیئرمین ہیں)