حالیہ دنوں میں شکارپور پولیس نے کچے کے علاقے گڑھی تیغو میں ایک بڑی کام یابی حاصل کی، ڈاکوؤں کے خلاف جاری آپریشن میں لوگوں کو اپنی نِسوانی آواز کا جادو جگا کر دوستی کے بعد ملاقات کے لیے کچے کے علاقے میں بلاکر اغوا برائے تاوان کی وارداتیں انجام دینے والا ڈاکو ہیر دین تیغانی پولیس مقابلے میں مارا گیا۔
پولیس کے مطابق مارے جانے والے ڈاکو ہیر دین تیغانی کی نسوانی اور سُریلی دلفریب آواز کی کشش لوگوں کو جال میں پھنسا کر کچے میں کھینچ لاتی تھی، نسوانی آواز میں کے جھانسے میں آکر ڈاکو سے دوستی کرنے کے بعد ملاقات کے لیے خود چل کر آنے والا شخص ڈاکوؤں کے لیے تر نوالہ ثابت ہوتے تھے، جو اپنی خاتون دوست سے ملاقات کے لیے آتے اور پھر انہیں اغوا کرلیا جاتا، جس کے بعد ڈاکو مغویوں کے ورثا سے تاوان طلب کرتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ شکارپور اور کشمور ڈاکو راج کے ساتھ اغوا برائے تاوان کی بڑی انڈسٹری بن گیا تھا ، لیکن پولیس کے بہتر اقدامات کے بعد ایک جانب ڈاکوؤں کو بھاری جانی نقصان پہنچا ہے ،تو دوسری جانب اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں بھی نمایاں کمی آئی ہے، اور مارے جانے والے نسوانی آواز کے ماہر ڈاکو ہیر دین تیغانی کے بعد اس طرح کی وارداتوں میں نمایاں کمی واقع ہوگی۔
مارا جانے والا ڈاکو نسوانی آواز نکالنے میں ماہر تھا جو کہ رانگ نمبرز پر کال کرکے خاتون کی آواز میں لوگوں سے دوستی کرتا اور پھر انہیں ملاقات کے بہانے کچے کے علاقوں میں بلاکر اغوا کراتا تھا، اس طریقہ واردات کے ذریعے ڈاکوؤں کے لیے لوگوں کو اغوا کرنا معمول کی بات تھی اور شکار خود چل کر کچے میں ڈاکوؤں کے پاس پہنچ جاتے تھے، طویل عرصے کے دوران مذکورہ ڈاکو نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر متعدد افراد کچے میں بلا کر اغوا برائے تاوان کی وارداتیں انجام دیں۔
مارے گئے ڈاکو ہیر دین تیغانی نے گزشتہ سال ایک نیوز چینل سے بات چیت کی، جو سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہوئی تھی، جس میں مارے جانے والا ڈاکو ہیر دین تیغانی کہتا ہے کہ وہ نسوانی آواز کا ماہر ہے اور کسی خاص شخص کو ٹارگٹ کرکے اغوا نہیں کرتا، بلکہ موبائل فون پر کوئی بھی رانگ نمبر ملاتا ہے اور اگر اس رانگ نمبر پر کوئی شخص دوستی کرتا ہے، تو میں پھر اس سے پیار محبت اور شادی کی باتیں کرتا ہوں، اس سے ایزی لوڈ بھی کرواتا ہوں۔
پھر میں پوچھتا ہوں کہ کون سے شہر سے ہو تو میں اس سے اس شہر کی سوغات تحفے کے طور پر منگواتا تھا، کسی کو مٹھائی، کسی کو کجھور یا کسی کو کوئی اور کھانے کی چیز یہ کہہ کر منگواتا کہ تم لے آو، ہم دونوں اکٹھے بیٹھ کر کھائیں گے، کسی کو شادی کا لالچ دیتا تھا اور اس طرح لوگوں کو جال میں پھنساتا تھا ، جب وہ کچے میں مجھ سے ملنے آتے تھے اور یوں میرا شکار بن جاتے تھے، آپریشن کمانڈر ایس ایس پی تنویر حسین تنیو نے بتایا کہ شکارپور کچے کا علاقہ گڑھی تیغو سمیت دیگر کچے کے علاقوں میں ڈاکوؤں کی بڑی تعداد موجود ہے اور یہ علاقہ سندھ میں اغوا برائے تاوان کی انڈسٹری بنا ہوا تھا۔
شکارپور اور کشمور جڑواں اضلاع ہیں، یہ دونوں اضلاع ڈاکووں کی آماج گاہ کے ساتھ اغوا برائے تاوان کی بڑی انڈسٹری بن چکے تھے، جہاں صرف سندھ نہیں، بلکہ ملک کے مختلف شہروں کے لوگ نِسوانی آواز کے جھانسے میں دوستی کے بعد ملاقات کے لیے کچے میں پہنچ جاتے تھے ۔ اس طرح کے واقعات سے نہ صرف مغوی کے خاندان والے بلکہ پولیس کے لیے مشکلات پیدا کرتے ہیں، کیوں کہ جب کوئی خود چل کر اپنی ڈاکو دوست سے ملنے پہنچ جائے اور ڈاکوؤں کے چنگل میں پھنس جائے تو، پھر پریشر پولیس پر ہوتا ہے، کیوں کہ عوام کی جان و مال کا تحفظ پولیس کی ذمے داری ہے پولیس نے اپنی حکمت عملی کے تحت مغویوں کی بازیابی کے لیے اس طرح کے متعدد آپریشن کئے جس کے دوران مغویوں کو باحفاظت بازیاب کرالیا گیا اور بڑی تعداد میں لوگوں کو جو نسوانی آواز کے جھانسے میں آکر کچے کی طرف آتے تھے، انہیں جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے کچے میں جانے سے روکا اور اغوا ہونے سے بچایا، انہیں بتایا کہ آپ جس سے ملنے جارہے ہیں، وہ کوئی خاتون نہیں، بلکہ ڈاکو ہیں ۔
انہوں نے بتایا کہ یہ بات ضرور ہے کہ ڈاکو ہیر دین تیغانی کے پولیس مقابلے میں مارے جانے سے اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں واضح کمی واقع ہوگی اور یہ ڈاکوؤں کے لیے بڑا دھچکا بھی ثابت ہوگا، ڈاکو ہیر دین تیغانی کا مارا جانا پولیس کی بڑی کام یابی ہے، میں نے شکارپور ضلع میں گزشتہ سال مئی میں ایس ایس پی کا چارج سنبھالا تھا، جس وقت ڈاکووں نے ایک بکتر بند کو نشانہ بنا کر تین پولیس اہل کاروں کو شہید متعدد کو زخمی کیا تھا، جس کے بعد میں نے شکارپور کچے کے تمام علاقوں کا از سر نو جائزہ لیا اور ڈاکوؤں کے خلاف چار مرحلوں میں آپریشن کو تقسیم کیا اور فیصلہ کیا کہ ڈاکوؤں کے خلاف سود مند ٹارگیٹڈ آپریشن کیا جائے، جس کا مقصد تھا کہ انہیں قانون کی گرفت میں لایا جائے اور ڈاکووں کو بھاری نقصان پہنچانے کے ساتھ پولیس فورس کو مکمل طور پر محفوظ رکھا جائے، کیوں کہ یہ ایسا خطرناک کچے کا علاقہ بنادیا گیا کہ جہاں پولیس افسران اور جوانوں نے اپنے فرائض کے دوران جام شہادت نوش کیا ۔
ایس ایس پی تنویر حسین تنیو نے بتایا کہ پولیس افسران اور اہلکاروں پر حملے ان کی شہادت میں ملوث ڈاکوؤں کو ٹھکانے لگانا میرا اہم مشن تھا کہ کسی طرح انہیں گرفتار کیا جائے، جس کے لیے مرحلہ وار ٹارگیٹڈ آپریشن کیا گیا، اس آپریشن کے دوران پولیس پر حملے کرنے والے بدنام ڈاکو جھنگل تیغانی اور جان محمد تیغانی سمیت متعدد ڈاکو مارے گئے۔
ہم نے شکارپور کچے کے علاقے گڑھی تیغو سمیت ضلع بھر میں ڈاکووں جرائم پیشہ عناصر منشیات فروشوں، اسمگلروں کے خلاف متعدد آپریشن کئے جس میں پولیس کو ریکارڈ کامیابیاں ملیں، 28 مئی 2021 سے 22 فروری 2022 تک شکارپور میں پولیس نے ڈاکوؤں و جرائم پیشہ عناصر کے خلاف جو آپریشن کئے، اس میں متعدد ڈاکو مارے گئے، جن میں انعام یافتہ بدنام ڈاکو بھی شامل ہیں، ان کاروائیوں میں پولیس نے جدید بھاری اسلحہ اور منشیات بھی برآمد کیں، 2 درجن سے زائد گروہوں کا خاتمہ بھی کیا گیا۔
پولیس ترجمان کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پولیس کی جانب سے ضلع کے کچے سمیت مختلف علاقوں میں ڈاکووں اور جرائم پیشہ عناصر کی گرفتاری کے لیے 283 چھاپے مارے گئے، اس دوران پولیس اور ڈاکوؤں کے درمیان 82 مقابلے ہوئے، ان مقابلوں میں 3 انعام یافتہ ڈاکووں سمیت 24ڈاکو مارے گئے، پولیس نے مختلف کاروائیوں میں 404 ڈاکوؤں کو گرفتار کیا، جن میں 6 زخمی حالت میں گرفتار ہوئے، 1477 اشتہاری و روپوش ملزمان کو گرفتار کیا گیا، مغویوں کی بازیابی کے لیے کام یاب آپریشن کئے گئے اور ڈاکووں کے چنگل سے 43 افراد کو باحفاظت بازیاب کرایا گیا، 59 ایسے افراد جو کہ ڈاکوؤں کے چنگل میں پھنسنے کے لئے جارہے تھے، انہیں بچایا گیا۔
ملزمان کے قبضے سےبڑی تعداد میں جدید اسلحہ برآمد کیا گیا، جس میں 22 کلاشن کوف، 3 رائفل، 87 پستول، ایک ماؤزر، 80 شارٹ گن، 85 موبائل فونز برآمد کئے گئے. 639 کلو گرام چرس، 3 کلو گرام ہیروئین، 1137 کلو گرام گٹکا، 10 بوتلیں شراب ، 4300 لیٹر ایرانی تیل، 250 گرام اجینو موتو ودیگر سامان شامل ہے، جرائم کی وارداتیں انجام دینے والے 22 مختلف گروہوں کا بھی خاتمہ کیا گیا، جب کہ سماجی برائیوں کے خلاف بھی کارروائیاں کی گئیں اور جوا کے اڈوں پر چھاپے مارکر داؤ پر لگی ہوئی 2 لاکھ روپے سے زائد کی رقم بھی قبضے میں لی گئی ہے ، پولیس اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لاتے ہوئے کچے کے جنگلات میں آپریشن میں مصروف ہے کیونکہ شکارپور کچے کے علاقے خاص طور پر جو گڑھی تیغو کا کچہ ہے وہاں ڈاکووں کے ٹھکانے نیچے ہونے کی وجہ سے محفوظ تھے اور جب بھی پولیس جاتی تو بند پر چڑھتے ہی ڈاکو پولیس پر حملے کرتے تھے۔
متعدد علاقے نو گو ایریا بنا رکھے تھے جو بڑی حد تک ختم کردئیے گئے ہیں اس وقت بھی ڈاکووں کے چاروں اطراف پولیس اپنے مورچوں میں موجود ہے ہم نے مختلف مقامات پر ٹاور نما پولیس کی اونچی چوکیاں قائم کی ہیں جہاں پولیس جدید اسلحے اور دوربینوں و دیگر آلات کے ساتھ ڈاکووں پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
آپریشن کمانڈر ایس ایس پی کا کہنا ہے کہ میں آج بھی کہتا ہوں کہ ڈاکو ہتھیار پھینک کر پولیس کے سامنے پیش ہوں ان کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہوگی اور وہ جیل جائیں اپنے مقدمات کا سامنا کریں اور بری ہوکر ایک اچھا شہری بن کر رہیں اپنے بچوں کو تعلیم دلوایں انہیں افسر بنائیں جس طرح یہ لوگ کچے میں روپوشی کے عالم میں رہہ رہے ہیں اس سے صرف ایک ڈاکو نہیں اس کا پورا گھر متاثر ہوتا ہے، آپ کے بچوں کا کیا قصور ہے، انہیں تعلیم دیں، اچھا پڑھا لکھا شہری بنائیں، تاکہ معاشرے سے ڈاکو کلچر کا مکمل خاتمہ ہو اور کچے کے جو جنگلات آج لوگوں کے لیے خوف و خطرے کی علامت بنے ہوئے ہیں۔
وہ جنگلات پکنک پوائنٹس بنیں، جہاں سندھ نہیں پورے ملک سے سیاح گھومنے آئیں، اس طرز عمل سے ان علاقوں میں خوش حالی آئے گی، میں یہ چاہتا ہوں اور میری کوشش ہے، اگر ڈاکو سرنڈر نہیں کریں تو دوسرا راستہ کوئی نہیں ہوگا کہ ہم انہیں قانون کی گرفت میں لائیں۔