• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹکٹ

مشہور افسانہ نگار راجندر سنگھ بیدی ریل میں سفر کر رہے تھے۔ دورانِ سفر ٹکٹ چیکر نے ان سے ٹکٹ مانگا تو بیدی صاحب نے اپنی جیبیں ٹٹولیں مگر ٹکٹ کا پتا نہیں تھا ۔

ٹکٹ چیکر بیدی صاحب کو پہچانتا تھا ۔ کہنے لگا " مجھے آپ پر بھروسہ ہے ، آپ نے یقیناً ٹکٹ خریدا ہوگا ۔"

بیدی صاحب پریشانی سے بولے " بھائی ! بات آپ کے بھروسے کی نہیں ، مسئلہ تو سفر کا ہے ۔ اگر ٹکٹ نہ ملا تو یہ کس طرح معلوم ہوگا کہ مجھے اُترنا کہاں ہے ۔ ؟ "

کشتِ زعفران

پنڈت برج موہن دِتاتر یہ کیفی دہلوی ایک بار لکھنو گئے تو ان کی اعزاز میں محفل شعر و سخن سجی۔ حامد علی خان بیرسٹر ایٹ لاء جو شعر و سخن کا اچھا ذوق رکھتے تھے۔ محفل میں موجود تھے، ان سے غزل یا نظم کی فرمائش کی گئی تو انہوں نے کیفی دہلوی کے کان کے پاس منھ لے جا کر یہ ’’شعر کہا:

اکتہر، بہتر، تہتر، چوہتر

پچھتر، چھہتر، ستتر، اٹھتر

اس مذاق پر کیفی دہلوی نے خوش دلی سے داد دی۔ آخر میں جب کیفی صاحب سے کلام سنانے کی فرمائش کی گئی تو انہوں نے بیرسٹر حامد علی خان کے کان کے پاس اپنا منہ لے جا کر کہا:

اکیاسی، بیاسی، تراسی، چوراسی

پچاسی، چھیاسی، ستاسی، اٹھاسی

اس پر ساری محفلِ سخن کشتِ زعفران بن گئی اور یہ لطیفہ زندہ رہ گیا۔

……٭٭……٭٭……

ایک بار داغ دہلوی اجمیر گئے۔ جب وہاں سے رخصت ہونے لگے تو اُن کے شاگرد نواب عبداللہ خان مطلب نے کہا:

’’استاد! آپ جارہے ہیں، جاتے ہوئے اپنی کوئی نشانی تو دیتے جایئے۔‘‘

یہ سُن کر داغ نے بلا تامل کہا:

’’داغ کیا کم ہے نشانی کا، یہی یاد رہے‘‘

…٭…٭…

ایک دن داغ دہلوی نماز پڑھ رہے تھے کہ اُن کا شاگرد آیا۔ استاد کو نماز پڑھتے دیکھا تو واپس چلا گیا، جب داغ دہلوی نماز سے فارغ ہوئے تو نوکر نے کہا فلاں صاحب آئے تھے۔ داغ نے نوکر سے کہا، دوڑ کر بلا لائو۔ جب وہ صاحب آئے تو داغ نے کہا، آپ آکر چلے گئے؟ شاگرد نے کہا، آپ نماز پڑھ رہے تھے۔ داغ کہنے لگے، جناب ہم نماز پڑھ رہے تھے، لاحول تو نہیں پڑھ رہے تھے، جو آپ بھاگ گئے۔

…٭…٭…

داغ کی ایک ملازمہ تھی۔ کوئی بیس برس کی۔ ایک دفعہ داغ نے اپنے آدمی کے ذریعے اسے بلوایا، اُس نے کہا کہ ان سے کہہ دے میری بلا بھی نہیں آتی۔ ملازم نے یہی جملہ داغ سے آکر دہرایا۔ داغ لطف اندوزی کی خاطر بار بار اس سے دریافت کرتے تھے کہ اُس نے کیا کہا اور وہ اسی جملہ کو دہراتا جاتا تھا۔ اسی کیفیت میں اُنہوں نے نواب عزیز یار جنگ سے (جو موجود تھے) کہا کہ لکھو۔

یہ کیا کہا کہ میری بلا بھی نہ آئے گی

کیا تم نہ آئو گے تو قضا بھی نہ آئے گی

معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے

ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔

ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہےآپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:

رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر

روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی