• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’آج کا نوجوان مستقبل کی طرف بڑھتا ہی نہیں اور منزل کا تعین کر لیتا ہے‘‘۔ اپنے حالات ماضی کی غلطیوں اور وسائل کو مدِ نظر رکھے بغیروہ خواب دیکھتا ہے، جس کی تعبیر ممکن نہیں اور جب وہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوتے تو وہ مایوسی کے دلدل میں گرتا چلا جاتا ہے۔ اسی لیے نوجوانوں چاہیے کہ وہ ماضی کو مدنظر رکھتے ہوئے مستقبل کا فیصلہ کریں تاکہ وہ غلطیاں جو ماضی میں سر زد ہو گئی تھیں دہرائی نہ جاسکیں لیکن آج کا نوجوان بہت جلد باز ہے وہ ماضی سے سبق نہیں سیکھتا۔ وہ منزل کا تعین کیے بغیر انجام سے بے خبرآگے بڑھتا چلاجاتا ہے۔ 

اگرچہ دیکھا جائے تو نوجوانی کا دور خوابوں کی تعمیر کا دور ہوتا ہے لیکن اس کے لیے سوچ و بے چار اور منصوبہ بندی بہت ضروری ہے۔ مقاصد کے حصول کے لیے پہلا قدم رکھنے سے پہلے اس بات کا اندازہ ہونا چاہیے کہ آپ میں صلاحیتیں کتنی ہیں، جو سوچا ہے وہ کر سکتے ہیں، راہ میں حائل مشکلات کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ 

اپنے وسائل کا بھی اندازہ ہونا چاہیے۔ ہمیشہ حقیقت پسندانہ سوچ رکھیں ، خود پر اتنا دباؤ نہ ڈالیں کہ چلنا بھی مشکل ہو جائے۔ خود پر بھروسہ اعتماد رکھیں۔ اپنی ناکامیوں سے گھبرانے کے بجائے اپنی غلطیوں کو اعتراف کریں، ناکام ہوجانے کے بعد مایوس ہوکر ہاتھ پر ہاتھ دہر کر نہ بیٹھیں بلکہ دوبارہ اپنی منزل کا تعین کریں اورسفر کی جانب گامزن ہوں۔

اپنے آپ کو چیلنج کرنا ہی بہتر اور کامیاب زندگی کی جانب لے جاتا ہے۔ جس طرح تعریف سےکارکردگی میں خاطر خواہ اضافے کا سبب بنتی ہے۔ اسی طرح مثبت تنقید سے اپنی خامیاں دور کرنے کی کوشش کریں۔ تنقید کرنے والے سے بد ظن نہ ہوں اور نہ ہی دل برداشتہ ہونے کی ضرورت ہے، بلکہ اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ آپ زیادہ توجہ سے اپنا کام کریں گے کیونکہ آپ کے سامنے ہدف موجود ہو گا۔ منزل کو پانے کے لیے جذبہ جنون کا ہونا ضروری ہے۔ یہ ایک ایسا ہتھیار ہے جو دبی ہوئی قوتوں کو جگا دیتا ہے۔

تعلیم کے حصول میں نوجوانوں میں منصوبہ بندی کا فقدان تشویش کا باعث ہے۔ یہ عمل عملی زندگی میں مستقبل کے تعین میں پریشانی کا سبب بن رہاہے۔ اصل زندگی تعلیمی دور کی شروعات سے ہوتی ہے، اسکول کی تعلیم کے دوران ہی بچوں کی ذہنی صلاحیتوں کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ ان کی دلچسپی سب سے زیادہ کون سے مضامین میں ہے اورطلبا کون سے شعبے میں جانا چاہتے ہیں، اس کے باوجود اساتذہ اور والدین کی غفلت کی وجہ سے ہر سال بے شمار طلبا تعلیم کے حصول میں اپنی منزل سے بھٹک جاتے ہیں۔ 

 بہتر یہ ہے کہ اپنی ذہنی صلاحیتوں کے ساتھ ناانصافی نہ کریں، آپ اپنی مرضی کے مطابق کوئی بھی فیصلہ کریں ۔بعض نوجوان طلبا آرٹس پڑھتے ہیں اور کچھ عرصے بعد ہی ان کو کامرس کی تعلیم اچھی لگنے لگتی ہے۔ یہ عمل منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔ بعض طلباء بی کام یا بی ایس سی کرنے کے بعد آرٹس کی طرف آجاتے ہیں اور ماسٹر آرٹس کے مضمون میں کرتے ہیں۔

ایک اور بات جو خاصی توجہ طلب بھی ہے کہ بہت سے نوجوان کالج میں داخلہ تو لیتے ہیں لیکن زیادہ وقت اپنے دوسرے کا موں مثلاً سیل مینی، درزی کا کام، مکینک کا کام اور دوسری ملازمت کرتے ہیں ان کا تعلیم کا حصول محض کاغذی ڈگری کا حصول ہوتا ہے کہ شاید ڈگری مل جانے کے بعد انہیں کہیں اچھی ملازمت مل جائے گی۔ ان میں زیادہ تر کا تعلق سرکاری کالجوں سے ہوتا ہے۔ اس کی وجہ مفت تعلیم ہے۔ اس کے برعکس امیر گھرانوں سے تعلق رکھنے والے نوجوان پرائیویٹ تعلیمی اداوں میں زیر تعلیم ہوتے ہیں۔

 یہاں بات امیر اور غریب کی نہیں بلکہ محنت اور لگن کی ہے۔ دنیا کی بہت سی شخصیات بہت غریب تھے لیکن اپنی لگن حوصلوں اور مسلسل جدوجہد کے ذریعے اپنے ملک کا نام روشن کیا۔ احساس کمتری نوجوانوں کو پسپا کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے تو ضروری ہے کہ اس سے اجتناب برتیں، اگر ملک و قوم کا نام روشن کرنا ہے اور اپنی زندگی خوشگوار گزارنی ہے تو اپنی تعلیم پر بھر پور توجہ دیں اور اپنی قابلیت کے بل بوتے پر ملکی اور غیر ملکی اسکالرز شپ حاصل کریں۔

ہمارے معاشرے کے بے شمار نوجوانوں کا یہی المیہ ہے کہ بغیر سوچے سمجھے عملی زندگی میں قدم رکھ دیتے ہیں۔ اگر حقیقی مرضی سے مکمل تحقیق و اطمینان کر لینے کے بعد کوئی شعبہ اختیار کیا گیا ہو تو تمام تر مشکلات کے باوجود طلبہ اس میں جمے رہتے ہیں۔ اس کی عام مثال چارٹرڈ اکائونٹینس (سی اے) اور اے سی سی اے کورسز میں ہر سال ہزاروں کی تعداد میں طلبہ و طالبات سی اے پاس لوگوں کی پرکشش تنخواہیں دیکھ کر یا دیگر دوستوں کو دیکھ کر داخلے لیتے ہیں اور صرف ایک سال کے اندر اندر اس سے ’’توبہ‘‘ کر لیتے ہیں۔ 

لہٰذا ہر طالب علم کو اپنی شخصیت، صلاحیت، خواہش ، ذہنی استعداد، مالی وسائل اور اپنی عملی ضروریات کو دیکھ کر اپنے لیے شعبے کا انتخاب کرنا چاہیے۔ چونکہ معاشرے کے ہر فرد کی ضروریات اور مسائل مختلف ہوتے ہیں، چنانچہ ہو سکتا ہے کہ ایک شعبہ ایک طالب علم کے لئے بہترین ہو لیکن دوسرے طالب علم کے لئے وہ درست نہ ہو۔ 

اس لیے ہر نوجوان کو اپنی معاشی حیثیت اور گھریلو مسائل کو مدنظر رکھ کر خود فیصلہ کرنا چاہیے کہ اس کے لئے کون سا تعلیم شعبہ بہترین ہے۔ کوئی بھی طالب علم نالائق نہیں ہوتا لیکن غلط شعبہ کا انتخاب کرنے والے عموماً ذہنی پریشانی میں مبتلا رہتے ہیں، جس کی وجہ سے مایوسی، ڈپریشن، نیند کی کمی جیسی بیماریاں بڑھ رہی ہیں۔ بعض اوقات مایوس اور ڈپریشن کی وجہ سے نوجوان خود کشی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

ہمارے اکثر تعلیمی اداروں میں تعلیم تو دی جاتی ہے لیکن سرکاری یا نجی طور پر ایسا کوئی انتظام و اہتمام نہیں ہے کہ نوجوانوں کو کیریئر کے انتخاب کے سلسلے میں صحیح اور بروقت رہنمائی فراہم کی جا سکے جبکہ کیریئر کونسلنگ کے ذریعے نوجوان اپنے اندر چھپی ہوئی قابلیت اور صلاحیتوں کے بارے میں آگاہی اور ان معلومات کی روشنی میں اپنے مستقبل کی اچھی منصوبہ بندی کر سکتے ہیں۔ 

نوجوانوں کی اسکول کی تعلیم کے دوران اسکول انتظامیہ پر گہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ طالب علم کی تعلیم قابلیت اور ذہنی صلاحیتوں کا جائزہ لیں اور والدین اور طالب علم کی بھر پور رہنمائی کریں تاکہ کالج کی تعلیم کے لئے صحیح سمت کا تعین ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ وقت کی بھی قدر کرنا چاہیے۔ گزرا ہوا وقت دوبارہ لوٹ کر نہیں آتا۔ ڈیل کارنیگی ایک معروف انگریزی مصنف اپنی ایک کتاب میں لکھتے ہیں ’’کامیاب آدمی کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے نصب العین کو ہمیشہ مقدم رکھے کیونکہ سنگ میل کے بغیر سفر گمراہ کن ہو سکتا ہے اور ہمیں ہماری منزل سے بھٹکا سکتاہے…‘‘۔

انہوں نے مزید لکھا کہ ’’کام کرنے کا وقت ابھی ہے، اور یہی لمحہ ہے جو آپ کی کامیابی کی ڈور کا سرا پکڑ سکتا ہے، لہٰذا ابھی اٹھیں اور اپنے کام آغاز کریں۔‘‘ مطلب یہ ہے کہ نوجوانوں کو تخیلاتی زندگی گزارنے کی بجائے عملی زندگی گزارنی چاہیے اور اپنے کام کو پس پشت ڈالنے یا اس سے نظریں چرانے کی کوشش ہرگز نہیں کرنی چاہیے۔ ورنہ انسان کامیابی اور ترقی کرنے کی راہ سے بھٹک سکتا ہے۔ 

ہمارا سرمایہ نوجوان ہیں لیکن آج ان کی صلاحیتوں کو صحیح طور پر استعمال نہیں کیا جا رہا ہے اور نہ ہی صحیح سمت میں ان کی رہنمائی کی جا رہی ہے بس ہمارے نوجوانوں میں اندھی تقلید اور روایتی بھیڑ چال ہے جو جاری ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی سرپرستی میں اسکولز، کالجز اور یونیورسٹیز کی سطح پر باقاعدہ کیریئر کونسلر تعینات کیے جائیں۔ 

جو نسلِ نو کے ذہنی رجحان، صلاحیتوں اور دلچسپیوں کا مشاہدہ و تجزیہ کرنے کے بعد انہیں موزوں پیشے اختیار کرنے کے لئے مناسب مشورے دے سکیں۔ ہم اپنے نوجوانوں کی تعلیمی، عملی، فکری و نظریاتی تربیت کیے بغیر دینا میں پاکستان کے بارے میں غلط اور منفی پروپیگنڈے کو ختم اور ملک کا مثبت اور روشن چہرہ پیش کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔

نوجوانو! اب وقت آگیا ہے کہ آپ اپنے زندگی کے فیصلے خود کریں… اپنی تعلیم پر بھر پور توجہ دیں۔ اپنی مرضی کے مطابق اپنا شعبہ منتخب کریں اور کامیاب انسان بن کر ملک کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کریں۔ محنت جستجو جدوجہد کو اپنا نصب العین بنا لیں۔ کیریئر بنانے کے لئے اپنی زندگی میں توازن قائم کریں۔ اپنی زندگی سے مادیت پسندی کو نکال دیں اور مقصدیت پسندی کے تحت زندگی گزار نا سیکھیں۔

متوجہ ہوں!

قارئین کرام آپ نے صفحۂ ’’نوجوان‘‘ پڑھا، آپ کو کیسا لگا؟ ہمیں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔ اگر آپ بھی نوجوانوں سے متعلق موضاعات پر لکھنا چاہتے ہیں، تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریریں ہمیں ضرور بھیجیں۔ ہم نوک پلک درست کر کے شائع کریں گے۔ اس ہفتے نوجوانوں کے حوالے سے منعقدہ تقریبات کا احوال اور خبر نامہ کے حوالے سے ایک نیا سلسلہ شروع کررہے ہیں، آپ بھی اس کا حصّہ بن سکتے ہیں اپنے ادارے میں ہونے والی تقریبات کا مختصر احوال بمعہ تصاویر کے ہمیں ارسال کریں اور پھر صفحہ نوجوان پر ملاحظہ کریں۔

ہمارا پتا ہے:

انچارج صفحہ ’’نوجوان‘‘ روزنامہ جنگ، میگزین سیکشن،اخبار منزل، آئی آئی چندریگر روڈ کراچی

اخبار منزل،آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔