• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

منیبہ حامد

پرانے وقتوں کی بات ہے کہ یمن میں طے نامی ایک قبیلہ آباد تھا، اس قبیلے کے سردار کا نام حاتم طائی تھا۔ حاتم طائی اپنی سخاوت اور خدمت خلق کی وجہ سے بہت مشہور تھا، اس کی سخاوت کے چرچے دور دور تک پھیلے ہوئے تھے۔ ہر ضرورت مند مدد کے لیے حاتم کے ہی پاس جاتا یہ دیکھ کر بادشاہ حسد کا شکار ہوگیا اور حاتم طائی کو ختم کرنے کا پروگرام بنایا اور اپنی فوج کے ساتھ حاتم کے علاقے پر حملہ کردیا۔

اسے یہ جان کر بہت دکھ ہوا ،وہ نہیں چاہتا تھا کہ بے گناہ لوگ مارے جائیں، اس لیے اس نے اپنا شہر چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور پہاڑوں میں جا کر چھپ گیا۔ بادشاہ اپنی فوج کے ساتھ جب شہر میں داخل ہوا تو کسی نے اس کی فوج کا مقابلہ نہ کیا، کیوں کہ حاتم طائی شہر چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ بادشاہ نے حاتم کا تمام مال و اسباب لوٹ لیا۔ اس کے ساتھ ہی بادشاہ نے یہ اعلان کرادیا کہ جو شخص حاتم کوڈھونڈ کر لائے گا، اس کو بہت بڑا انعام دیا جائے گا۔

حاتم نے پہاڑ کی ایک کھوہ میں پناہ لے رکھی تھی، ایک روز اسی کھوکے قریب ایک بوڑھا لکڑہارا اور اس کی بیوی لکڑیاں کاٹ رہے تھے، وہ بہت غریب تھے۔لکڑ ہارے کی بیوی حسرت سے بولی۔ ’’کاش حاتم طائی ہمارے ہاتھ لگ جاتا تو ہم اسے بادشاہ کے حوالے کرکے انعام پالیتے اور آرام کی زندگی بسر کرتے۔‘‘

لکڑہارا بولا،’’فضول بات مت سوچو، ہماری ایسی قسمت کہاں کہ حاتم ہمارے ہاتھ لگ جائے اور ہم انعام حاصل کرکے آرام سے زندگی بسر کرسکیں۔ حاتم طائی کھو کے اندر بیٹھا یہ باتیں سن رہا تھا۔ اُس نے سوچا کہ، اس بے سروسامانی کی حالت میں، میں ان کے کام آسکتا ہوں،چناں چہ وہ کھو سے باہر آیا اور بوڑھے میاں بیوی سے بولا، ’’میں ہی حاتم ہوں، مجھے بادشاہ کے پاس لے چلو اور اس کے حوالے کرکے انعام حاصل کرلو، جلدی کرو، اگر کسی اور نے مجھے دیکھ لیا تو پھر تم ہاتھ ملتے رہ جاؤ گے۔‘‘

حاتم کی باتیں سن کر لکڑہارا بولا،’’ بے شک ہم غریب ہیں، مگر اتنے ظالم نہیں کہ تمہیں بادشاہ کے حوالے کرکے انعام حاصل کریں‘‘

حاتم نے کہا،’’ ارے بھائی، یہ ظلم نہیں، تم مجھے زبردستی پکڑ کر تو نہیں لے جارہے ہو، میں تو اپنی خوشی سے تمہارے ساتھ جانے کو تیا رہوں، تم مجھے نیکی اور خدمت کا موقع دو گے‘‘۔

حاتم نے ان کو آمادہ کرنے کی بہت کوشش کی، لیکن لکڑہارا کسی صورت نہ مانا۔ لکڑہارا اور حاتم اس بحث میں مصروف تھے کہ کچھ اور لوگ حاتم کو تلاش کرتے ہوئے ادھر آنکلے، انہوں نے حاتم کو پہچان لیا اور اسے پکڑ کر بادشاہ کے پاس لے گئے، بوڑھا اور اس کی بیوی بھی ان لوگوں کے پیچھے چل پڑے، بادشاہ کے دربار میں پہنچ کر ہر شخص یہ دعویٰ کررہا تھا کہ حاتم کو اس نے پکڑا ہے، وہی انعام کا مستحق ہے، بہت سارے دعویداروں کی وجہ سے بادشاہ کے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا ۔

آخر بادشاہ نے حاتم سے کہا, ’’ تم ہی بتاؤ کہ تمہیں پکڑ کر لانے والا کون ہے، تاکہ اسے انعام کی رقم دی جائے۔‘‘

حاتم بولا، ’’حضور والا، سچ تو یہ ہے کہ مجھے پکڑنے والا بوڑھا لکڑہارا ہے، جو چپ چاپ پیچھے کھڑا یہ تماشا دیکھ رہا ہے، باقی لوگ انعام کے لالچ میں جھوٹ بول رہے ہیں۔

لکڑا ہارا بولا، ’’حضور والا، سچ تو یہ ہے کہ میں بھی حاتم کو پکڑ کر نہیں لایا، بلکہ یہ خود آیا ہے، پھر لکڑہارے نے بادشاہ سلامت کو ساری بات بتائی۔

بادشاہ کو جب حقیقت معلوم ہوئی تو اس نے حاتم سے کہا،’’میں تمہاری شہرت سے تمہارا دشمن بن گیا تھا، مجھے افسوس ہے، تم واقعی عظیم انسان ہو، جو ہر حال میں دوسروں کی مدد اور خدمت کے لیے تیار رہتے ہو، میں تم سے اپنے کیے کی معافی مانگتا ہوں۔‘‘

اس کے بعد بادشاہ نے لکڑہارے کو انعام دیا اور حاتم کا سارا علاقہ اسے واپس کرنے کا اعلان کیا۔