• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:حافظ عبدالاعلی درانی ۔ بریڈفورڈ
بیٹیاں انبیاء کے گھر وں میں بھی جنم لیتی رہیں ، حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹیاں ہی تھیں جن کی چال میں حیا کی گواہی رب العالمین نے قرآن مجید میں ثبت فرما دی ، اللہ تو دلوں کے سارے بھید جانتا ہے ، اس نے فرمادیا کہ وہ بیٹی حیا کی چال چلتے ہوئے اس اجنبی نوجوان ( موسیٰ علیہ السلام ) کو بلانے آئی تھی جس نے ان کی بکریوں کو بغیر جانے اور بغیر تعارف کروائے پانی پلا دیا تو سچ میں وہ باحیا اور باکردار اور صالحہ بچی تھی ۔ بیٹیاں تو حضرت لوط علیہ السلام کی بھی تھیں جو اپنی ماں کے کافرہ ہونے کے باوجود ایمان لاکر باپ کا دست و بازو بنیں، بیٹی تو امرات عمران نے بھی جنی جسے کنواری مریم کے نام سے دنیا والے جانتے ہیں اور اپنے مغربی معاشرے کی چلن کے بالکل برعکس چرچ سے تعلق رکھنے والی ساری بچیوں کو اتنا با حجاب بنایا کہ ان کے ہاتھ بھی پردے میں ہوتے ہیں، بیٹیاں تو خاتم النبیینﷺ کے گھر میں بھی پیدا ہوئی تھیں ۔بڑی لخت جگر زینب بنت رسولﷺ سب بیٹیوں سے افضل قرار پائیں کیونکہ انہوں نے دین کی خاطر ساری زندگی تکلیفوں میں بسر کردی مگر اُف تک نہ کی ۔ دوسری بیٹی رقیہ بنت رسولﷺ تھیں جو سیدنا عثمان بن عفان کی زوجہ بنیں اور پورے مکے میں سب سے معقول اور خوبصورت و سیرت جوڑے کا لقب پایا ۔ تیسری سیدہ ام کلثوم بنت رسولﷺتھیں جو بڑی بہن رقیہ بنت رسول ﷺکی وفات کے بعد سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے عقد میں آئیں جن کی وجہ سے سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو ذوالنورین کا لقب ملا ۔ چوتھی بیٹی فاطمہ بنت رسول ﷺتھیں جو زوجہ علی المرتضیٰ بنیں، حسنین کریمینؓ نوجوانان جنت کے سرداروں کی والدہ بنیں اور ہر مومنہ خاتون کو پردے میں رہنے کا سبق دے گئیں کہ میرا جنازہ بھی رات کی تاریکی میں اٹھایا جائے تاکہ غیر محرم کی نظر کفن سے ڈھکی ہوئی پاک میت پر بھی نہ پڑے ، یہ بیٹی جب روز محشر دربار خداوندی میں آئے گی تو انبیاء سمیت ساری مخلوق کو نظریں جھکانے کا حکم ہوجائے گا ،اگر بیٹی کا وجود سعید و بابرکت نہ ہوتا تو اللہ انبیاء کو بیٹیاں کیوں دیتا ،علماء مفسرین نے یہ نکتہ قرآن کی سورۃ شوریٰ کی آیت 49 سے نکالا ہے جس میں اللہ نے فرمایا۔آسمانوں اور زمین میں اللہ ہی کی بادشاہی ہے، جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے لڑکے بخشتا ہے(49) ۔ اللہ نے پہلے بیٹی کے تحفے کا ذکر فرمایا کہ جس کے پہلی بیٹی ہو وہ خوش نصیب ہوتا ہے لیکن کفار مکہ نے بیٹیوں کا وجود منحوس قرار دے رکھا تھا،بیٹے کی پیدائش پر مٹھائیاں اور بیٹی کی پیدائش پر دہائیاں دی جاتی تھیں ،سورۃ النحل کی آیت نمبر58 میں فرمایا :۔بیٹی کی پیدائش کا سن کر ان کے شملے ڈھے جاتے گردنیں جھک جاتیں اور منہ سیاہ ہوجاتے تھے ۔اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی خوشخبری دی جائے تو اس کا منہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ غمگین ہوتا ہے۔حتی کہ بعض قبیلے بچیوں کو زندہ دفن کردیتے تھے لیکن میرے نبی ﷺ نے بیٹی کے اکرام کو یوں معروف کیا کہ بیٹی آتی تو آپ ﷺکھڑے ہوکر اس کی پیشانی کا بوسہ لیتے ،بڑی شہزادی زینبؓ فوت ہوئیں تو قبر میں دیر تک کھڑے ہوکر اس شہزادی کی مغفرت اور قبر کی وسعت کے لیے دعا کرتے رہے ۔بیٹی کی تربیت پر ماں باپ کے لیے جنت کا وعدہ کیا، میانوالی کے محلہ نور پور میں ایک باپ نے کفار مکہ کا طرز عمل اپنایا، ان کی روایت درندگی کی یاد تازہ کردی، اپنی پہلی اولاد بیٹے کی جگہ پیدا ہونے والی سات دن کی بیٹی جنت کو گولیاں مار کر قتل کردیا ۔اس بندوق کا ٹریگر تو اس ظالم نے دبایا لیکن اس کے اندر وہ گولیاں ہم سب نے، ہمارے معاشرے نے مل کر لوڈ کی تھیں - ایک گولی اس خاندان نے ڈالی تھی جہاں بیٹے کی پیدائش پر مٹھائی اور بیٹی کی پیدائش پر دہائی دی جاتی ہے ، دوسری گولی ان دادا دادی نانا نانی نے ڈالی جو نواسے یا پوتے کی پیدائش پر دیتے تھے "تحفے کی رقم" اور نواسی یا پوتی کو دیکھ کر کہتے تھے۔ ’’ بس جو اللہ کا حکم‘‘، تیسری گولی ان والدین نے ڈالی جو بس اس لئے بیٹے کی دوسری شادی کروانے کے حامی رہے کہ پہلی بیوی سے بس بیٹیاں پیدا ہوتی تھیں ، چوتھی گولی اس جوڑے نے ڈالی ہے جو تین چار بیٹیوں کے پیدا ہونے کے بعد صرف اس ڈر سے مزید بچے پیدا نہیں کرتا کہ کہیں پھر سے بیٹی نہ ہوجائے، پانچویں گولی اس حکیم نے لوڈ کی جو نرینہ اولاد کی دوائی بنا بنا کر معاشرے کو یہ بتاتا رہا کہ اصل اولاد تو نرینہ ہی ہوتی ہے اور اس کی کوئی دوائی بھی ہوتی ہے اور اس بابے اور جوگی نے ڈالی جو بیٹی کی پیدائش سے بچنے اور بیٹے کی پیدائش کروانے کے تعویز اور دھاگے بانٹتا رہا، چھٹی گولی خاندان کے اس سربراہ نے بھی ڈالی جس کی نظر میں نسل اور وراثت تب تک لاوارث رہتی ہے جب تک اس گھر میں بیٹا پیدا نہیں ہوتا اور ساتویں گولی اس معاشرے نے ڈالی تھی جس نے اپنے غلط رسم و رواج کو سروں پر لاد کر بیٹیوں کی پرورش اور شادی بیاہ کو اس حد تک امتحان اور آزمائش بنا ڈالا کہ اس کا بار لوگ بیٹیوں کے پیدا ہوتے ہی اپنے کندھوں پر محسوس کرنے لگتے ہیں، الغرض اس قتل میں مجرم ایک ہے ، کفار مکہ کی روایت زندہ کرنے والا ایک ہی ہے لیکن اقدام قتل ہمارا ہندوانہ سوچ کا حامل وہ معاشرہ جس کے باعث بیٹیوں کی پیدائش ماں باپ کے لیے آزمائش بنا دی جاتی ہے ، اس معصوم کو قبر میں اس ظالم باپ نے پہنچا دیا یکن اس کی کھدائی میں ہمارا ہندوانہ معاشرہ بھی شامل ہے، اب وہ ساری زندگی جیل میں سڑے گا ہر روز مرے گا ۔ ملامت سے اس کی زندگی جہنم بنے گی اور آخرکار وہ پھانسی کے پھندے پر جھول جائے گا کہ کفار مکہ کی روایت کو زندہ کرنے والوں کا یہی مقدر ہے ۔ آئیے اس سفاک قاتل کو لعنت ملامت کرنے کے ساتھ ساتھ خود کو بھی ضمیر کی عدالت میں پیش کریں تاکہ آئندہ 7 دن کی کسی بیٹی کا ’’عقیقہ‘‘ ہو ’’جنازہ‘‘ نہیں ،اسے جنت میں قتل کرکے پہنچایا نہیں جائے گا بلکہ اس کی وجہ سے یہ دنیا جنت بنائی جائے گی ، ویسے بھی اس سنگ دل جیسا تو کوئی ہزاروں میں ہوگا عموماً تو بیٹیاں پیاری ہوتی ہیں جتنے بیٹے اتنے زیادہ جھگڑے ، جیسے حضرت یعقوب علیہ السلام کے 12 بیٹے تھے لیکن وہ خاندان ساری عمر بے سکون رہا۔ حضرت نوحؑ کا بیٹا کفر کے باعث ڈوب کر وجہ عبرت بنا ۔ یہ احساس اب مشرقی روایت کا حصہ بنتا جا رہا ہے اگر میانوالی کے اس سنگ دل قاتل کو عبرتناک سزا سر عام دی جائے تو بہت عبرت ہوگی کہ کفار مکہ کی روایت پھر زندہ نہ ہوسکے ۔
یورپ سے سے مزید