حید علی کی داستان کو پہلی بار سینما کے اسکرین پر دکھانے کا خیال فلم ساز مصنف اور ہدایت کار ریاض شاہد کو آیا۔ ’’زرقا‘‘ کی تاریخی کام یابی کے بعد انہوں نے اس فلم کے اسکرپٹ کو لکھنا شروع کردیا۔’’حیدرعلی‘‘ کے تاریخی کردار کے لیے ان کے ذہن میں صرف ایک ہی اداکار محمد علی کا نام تھا۔ ریاض شاہد اپنی بیماری کی وجہ سے اس فلم کو فلمانے سے پہلے ہی انتقال کرگئے تھے۔
ان کے اس خواب کو تعبیر دینے کے لیے فلم ساز غنضفر علی اور ہدایت کار مسعود پرویز آگے بڑھے اورایک ایسی اعلیٰ معیار کی تاریخی فلم بنائی ، جسے دنیا کی اعلیٰ ترین فلموں میں شامل کیا جاتا تھا۔ یہ اپنے دورکی ایک بڑے بجٹ کی فلم تھی۔ منگل 5 ستمبر عیدالفطر 1976ء کو یہ فلم کراچی کے بمبینوسمیت پورے ملک میں نمائش پذیر ہوئی۔ سپرہٹ میوزک، دِل کش اور خُوب صورت اسکرین پلے مضبوط اور مؤثر کہانی، بے مثال اور لاجواب مکالموں، فن کاروں کی اعلیٰ کارکردگی کی بناء پر یہ فلم عید کی فلموں میں کام یاب رہی۔ ہدایت کار مسعود پرویز، فوٹو گرافر مسعود الرحمن، ایڈیٹر علی، موسیقار خواجہ خورشید انور ان تمام لوگوں کی اعلیٰ کارکردگی سے واقعی ایک تاریخ ساز فلم نے وجود لیا۔
فلم کی کہانی۔ ایک عام سپاہی شیخ فتح کے بیٹے حیدر علی، پیدا ہوئے تو والد کی شہادت ہوگئی۔ اپنی والدہ کے زیر سایہ تربیت پاکر جب وہ جوان ہوا، تو اپنی ماں کے حکم پر میسور کے راجہ کی فوج میں شامل ہو گیا۔ یہ وہ دور تھا، جب اورنگزیب عالمگیر کی وفات کے بعد مغلیہ سلطنت صرف دہلی تک محدود رہ گئی تھی۔ پیشوا کے پوتا، نظام دکن اور والی ارکاٹ ایسٹ انڈیا کمپنی کا ساتھ دے رہے تھے۔
اسی دوران حیدرعلی اپنی بہادری اور ذہانت سے میسور کی فوج کا سپہ سالار بن گیا اور کھانڈے رام جو پہلے میسور کی راج دھانی کا سہنا پتی تھا۔ میسور کی متعصب مہارانی سے مل گیا۔ ریاست کے وزیراعظم کندراج ایک شیردل اور شریف انسان تھے، وہ دربار میں حیدر علی کی شجاعت اور بہادری کا سب سے بڑا قدردان تھا۔ راجہ کندراج کی اکلوتی بیٹی راج کماری بھی حیدر علی کی شخصیت سے بے حد متاثر تھی اور وہ اپنے من کا اُسے دیوتا سمجھ کر پوجا کرتی تھی۔ حیدر علی ہر ظالم کے لیے موت تھا ۔ وہ اپنے ساتھی یاسین خان اور بیٹے ٹیپو کے ساتھ مختلف محاذوں پر دشمنوں سے برسرپیکار تھا۔
راجہ میسورکے مرنے کے بعد میسور کا تخت حیدر علی کے تصرف میں آگیا، لیکن وہ تخت پر بیٹھنے کے بہ جائے گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ کر ہاتھ میں تلوار لیے جنوبی ہندوستان کے کونے کونے میں دُکھی اور مظلوم انسانیت کو ظالموں کے ظلم سے آزاد کرواتا رہا۔ انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنے کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھتے ہوئے آگے بڑھتا رہا۔ اور پھر ایک اور اسی ہزار مربع میل پر پھیلی ہوئی سلطنت خداداد کی بنیاد رکھی، جب وہ مجاہد 1780ء میں فوت ہوا، تو ان کے جوان سال بیٹے فتح محمد المعروف ٹیپو سلطان نے سلطنت کی باگ ڈور سنبھالی اور آزادی کی وہ جنگ جو اس کے باپ نے شروع کی تھی، اسے جاری رکھا۔
اداکار محمد علی نے اپنے فلمی کیریئر میں بے شمار یادگار اور تاریخی کردار ادا کیے۔ اس فلم میں انہوں نے حیدر علی کے تاریخی کردار کو کچھ اس انداز سے ادا کیا کہ کردار اپنے تمام حسن اور جرأتوں کے ساتھ تاریخ اور ان سے کھل کر سینما کے اسکرین پر محمد علی کی شکل میں لوگوں کے ذہنوں پر ایسا چھاگیا، جیسے ہم حقیقی حیدر علی کو اس کی شکل و صورت میں دیکھ رہے ہوں۔ وہ بے حد پسند کیے گئے اورکام یاب رہے۔ فلم کی ہیروئن کے کردار میں اپنے وقت کی سپراسٹار اداکارہ ممتاز نظر آئیں،انہوں نے اس فلم میں راج کماری شکتیلہ کا کردار نہایت خوب صورتی سے اداکیا ۔ حیدر علی کی محبت میں وہ اپنا دھرم چھوڑ کر مسلمان ہو جاتی ہے۔
اس فلم میں ان کا کیاہوا ایک خاص درباری رقص بہت ہی اعلیٰ معیار کا تھا، جسے ماسٹر صدیق نے کاریوگراف کیا تھا۔ ممتاز نے اس رقص کو نہایت عمدگی سے کرکے خوب داد پائی ۔اداکارہ امبر نے اس فلم میں حیدر علی کی بیوی کا کردار ادا کیا۔ اداکارہ نیئر سلطانہ نے اس فلم میں ایک بہت ہی مختلف کردار نبھایا۔ وہ رادھا نامی ایک ہندو متعصب خاتون کا تھا، جو میسور کی مہاراجہ کی بیٹی اور راج کمار ی شکتیلہ کی ماں کا تھا۔
یہ ایک منفی کردار تھا، جو نیئر سلطانہ کے مزاج اور ٹائپ سے مختلف تھا۔ وہ اس کردار میں بے حد پسند کی گئیں۔ اداکارہ صبیحہ خانم نے حیدر علی کی والدہ کاکردار بہت ہی شان سے اداکیا ۔ فلم کے ہر منظر میں وہ اپنی خُوب صورت اور ناقابل فراموش کردار نگاری کرتے ہوئے نظر آئیں۔ اداکار ادیب نے سہناپتی کھانڈے رام جو میسور کا ایک سازشی کردار تھا۔ اس کردار میں وہ بے حد پسند کیے گئے ۔
اداکار علائو الدین نے ریاست میسور کے وفادار اور بہادر وزیراعظم نندراج کے کردار کو بڑی عمدگی سے نبھایا۔ اداکار چنگیزی نے پالی ہل سردار کا مختصر کردار اداکیا۔ اداکار شہباز نے حیدر علی کے چھوٹے بھائی کارول کیا۔ اداکار شجاعت ہاشمی نے انگریز فرنگی کاکردار کیا۔ اداکار محبوب عالم بہ طور مہمان اداکار حیدر علی کے والد کاکردار کیا۔ اداکار آغا طالش نے اس فلم میں ایک انصاف پسند اور رحم دل راجہ کا کردار کیا۔
موسیقی اور نغمات:۔اس تاریخی فلم کے موسیقار خواجہ خورشید انور تھے، جنہوں نے اس فلم کے تمام نغمات گلوکارہ مہ ناز کی آواز میں ریکارڈ کروائے۔ انہوں نے ایسی دل کش اور مسحور کن دُھنیں بنائیں، جو آج بھی روزاوّل کی طرح سے اپنی صحت مندی اور تازگی کا تاثر لیے ہوئے سماعتوں میں رس گھولتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔
نغمہ نگار قتیل شفائی نے خواجہ خورشید انور کی موسیقی پر اپنے لازوال نغمات لکھے، جس کی میلوڈی آج بھی سدا بہار ہے۔ ہدایت کار مسعود پرویز کا پاکستان کی فلمی تاریخ میں ایک ایسا نام، جنہوں نے ہمیشہ اعلیٰ اور منفرد فلمیں بنائیں۔ اس فلم میں انہوں نے تمام شعبہ جات سے محنت اور توجہ سے کام لیا، جس کے نتیجے میں ایک بے مثال اور عمدہ اعلیٰ معیار کی بین الاقوامی فلم حیدر علی کا وجود عمل میں آیا۔