• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آٹزم ایک ایسی بیماری ہے جس میں مبتلا شخص کی قوّت گویائی متاثر ہوتی ہے اور یہ بیماری ساری عمر رہتی ہے۔ اس کی وجہ سے انسان کی ذہنی استعداد کا عمل بھی متاثر ہوتا ہے، تاہم یہ عمل مختلف افراد میں مختلف سطح پر ہوتا ہے۔ اسپیچ لینگویج پتھالوجسٹ سوسن برکووٹز کہتی ہیں، ’’آٹزم میں مبتلا 25 سے40فیصد بچوں میں غیر روایتی بات ہوتی ہے اور وہ بھی اس پر منحصر ہوتی ہے کہ آپ بچے کی بات کس قدر سنتے یا سمجھتے ہیں‘‘۔ اس کے علاوہ ، وہ بتاتی ہیں ، آٹزم زیادہ تر زبان کی خرابی ہوتی ہے اور مسئلہ یہ درپیش ہوتاہےکہ اپنی بات کیسے کہی اور سمجھائی جائے ۔بہت سے بچے کچھ زبانی مہارت رکھتے ہیں ، لیکن ان کی گفتگو کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے یہ مہارت کافی نہیں ہوتی۔ والدین ، خاص طور پر مائیں جو بنیادی نگہداشت کرنے والی ہیں ، ان کیلئے یہ بات مشکل، حوصلہ شکنی اور مایوسی کا باعث ہوسکتی ہے۔

آٹزم کے ساتھ بچے کی پرورش بہت ساری خوشیوں اوردلچسپیوں کے ساتھ ہوسکتی ہے، لیکن اس میں بہت سارے چیلنجز بھی درپیش ہیں۔ بہت سے والدین کے لیے ان چیلنجز میں سے ایک سب سے بڑا مقصد اپنے بچے کے ساتھ بات چیت کرنا سیکھنا ہے۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ آٹزم سے متاثرہ چھوٹے بچوں کی زبان اور کمیونی کیشن کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے میں ایک اہم طریقہ معاون ہوسکتا ہے،جسے Pivotal Response Treatmentیا مختصراً PRTکہتے ہیں۔

PRT کیا ہے؟

PRT آٹزم کے لیے ایک طرز عمل ہے۔ یہ تھراپی کھیل پر مبنی ہے اور اس کی ابتدا بچے کے ذریعہ کی جاتی ہے۔ تھراپی میں بچے کی دلچسپی اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ سیکھنے کے دوران اس کی حوصلہ افزائی ہوتی رہے اور یہ امکان بڑھتا رہے کہ بچہ علاج سے ہٹ کر بے ساختہ بات چیت کیلئےصلاحیتیں استعمال کرنے لگے۔ PRT میں بچے سےبات کرنے کے لیے اس کی اپنی ترغیب پر انحصار کرنا ہوتا ہےکہ وہ کیا چاہتاہے۔ 

مثال کے طور پر ، اگر لگتا ہے کہ کوئی بچہ زمین پر کسی کھلونے میں دلچسپی ظاہر کررہا ہے تو ، تھراپسٹ اس کھلونے کومنتخب کرکے اور اس کا نام استعمال کرکے بچے کو نام دہرانے کی ترغیب دے گا۔ جب بچہ ایسا کرتا ہے تو ، اس کے بدلے اس کو کھلونا کھیلنے کو دے دیا جاتاہے۔ اس مطالعے کے مقاصد حاصل کرنےکے لیے شرکاء کی پہلے 12ہفتوں تک 10گھنٹے ہفتہ وار تھراپی کی گئی۔ والدین کو ہر ہفتے ایک گھنٹہ کی تربیت ملی کہ گھر میں کس طرح تھراپی کی جاسکتی ہے۔ دوسرے 12 ہفتوں کے دوران ، بچوں کو ہفتہ وار پانچ گھنٹے کی تھراپی کروائی گئی۔

ماہرین کے مطابق ، بچوں کو گفتگو سکھانے والی اس قسم کی تھراپی بہت اہمیت رکھتی ہے کیونکہ ’’جب بالغ افراد تھراپی کے اہداف مقرر کرتے ہیں اور بچے کو کھیل کھیل میں ہدایات دیتے ہیں تو بچہ مطالبات سے بچنے کے لیے مزاحمت کرسکتا ہے یا اختلافی رویے کا مظاہرہ کرسکتا ہے‘‘۔ ماہرین وضاحت کرتے ہیں کہ تھراپی میں بچے کی دلچسپی کو استعمال کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنانا ہوتا ہے کہ سیکھنے کے دوران بچے کی مسلسل حوصلہ افزائی ہوتی رہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ’’جب بچے اپنی پسند کی چیزوں کے بارے میں بات چیت کرنا سیکھتے ہیں تو ان مہارتوں کا علاج کے سیاق و سباق سے ہٹ کر بے ساختہ استعمال کرنے کا امکان ہوتا ہے‘‘۔

بچوں میں آٹزم کی بیماری کی تشخیص اور اس کے علاج میں مہارت رکھنے والی نیورو ڈویلپمنٹل پیڈیاٹریشن ڈاکٹر لیزا شلمین کہتی ہیں،’’ والدین اور آٹزم والےبچے کے مابین باہمی تبادلے کا فقدان تعلقات پر خاص اثر ڈال سکتا ہے، خاص طور پر ایسے حالات میں جب بچے کی بات چیت کرنے کی صلاحیت انتہائی محدودہو‘‘۔ اس کے علاوہ ایک نئی تحقیق اور آٹزم اسپیکٹرم ڈس آرڈر (ASD) کے ساتھ بچوں کی زبان کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے میں مدد دینے کے لیے بہترین ثابت ہوسکتی ہے۔

اسٹینفورڈ یونیورسٹی میں نفسیات اور طرز عمل سائنس کے کلینکل ایسوسی ایٹ پروفیسر گریس گینگوکس کی سربراہی میں ہونے والے اس مطالعے میں 2 سے 5 سال کی عمر کے 48 بچوں کو دیکھا گیا۔ ان سبھی میں آٹزم کی تشخیص ہوئی تھی اور وہ زبان کے استعمال میں تاخیر کا شکارتھے۔

ان بچوں کو دو گروہوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ آدھے کوپویٹل رسپانس ٹریٹمنٹ (PRT) کےتحت رکھا گیا۔ باقی مطالعے کے آغاز سے پہلے جو بھی علاج حاصل کررہے تھے، اسی کےساتھ انہیں رکھا گیا۔ مطالعہ کے اختتام تک ، PRT گروپ میں شامل بچے مطالعے کےدوسرے شریک بچوں سے زیادہ بول رہے تھے۔ وہ جو الفاظ استعمال کر رہے تھے دوسروں کو بھی سمجھ میں آرہے تھے۔ ڈاکٹر شیلمن کا مزید کہنا ہے کہPRTکے تحت بچوںکاجس قدر جلد علاج کروایا جائے، اسی قدر ا س کے بہت بہتر نتائج نکلیں گے کیونکہ چھوٹے بچوں میں دماغی طور پر ڈھلنے کی صلاحیت تیز ہوتی ہے۔ اسی لیے وہ متفق ہیں کہ آٹزم کے شکار نوجوان بچوں کی کمیونی کیشن کی مہارت کو بہتر بنانے میں مدد کرنے کا بہترین طریقہ PRT ہوسکتا ہے۔

ڈاکٹر شیلمن ایک مثال دیتی ہیں کہ ایک ایسا بچہ جو تربوز سے محبت کرتا ہے، اگر اسے تربوز کی پیش کش کی جائے تو وہ اپنی کوشش اور مہارت کو فطری طور پر زیادہ شدت سے سامنے لائے گا، لیکن اسے اگر آپ انگور پیش کریںگے تو اس کیلئے یہ ترغیبی نہیں ہوگا۔ اسی لیے بچے کی حوصلہ افزائی اور ترغیب کیلئے اسے وہ چیزیں دی جائیں یا ایسی باتیں کی جائیں ،جن میں وہ دلچسپی رکھتاہے۔ اگر یہ بات آٹزم والے بچوں کے والدین کو سمجھ میں آجائے تو وہ اپنے بچے کی گفتگو کی نشوونما کو بہتر بنانے میں مدد کرنے کیلئے بہت کچھ کرسکتے ہیں۔

صحت سے مزید