پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی، یہ سلوگن پولیس تھانوں میں اور پولیس ڈیپارٹمنٹ کے مختلف آفس کی رونق ہے اور پولیس موبائل پر بھی جلی حرفوں سے یہ لفظ کندہ ہے، لیکن خود پولیس ڈیپارٹمنٹ میں اس پر کتنا عمل کیا جا رہا ہے، اس بارے میں جو صورت حال ہے، وہ یہ ہے کہ سندھ پولیس میں کانسٹیبل کی بھرتی کے لیے جو گریڈ بنایا گیا تھا، وہ پانچواں گریڈ تھا، جب کہ ہیڈ کانسٹیبل کا ساتواں اور اس کے علاوہ اے ایس آئی کا نواں گریڈ بنایا گیا تھا ،جب کہ اس کے مقابلے میں ملک کے دیگر صوبوں میں صورت حال بالکل یکسر الگ ہے، اس سلسلے میں پنجاب ،خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں جہاں سپاہی کا گریڈ ساتواں ،ہیڈ کانسٹیبل نواں اور اے ایس آئی گیارہ گریڈ میں بھرتی کیے جاتے ہیں۔
اس سلسلے میں صورت حال یہ ہے کہ سندھ وہ صوبہ ہے، جہاں پر امن و امان کی صورت حال کے سلسلے میں تمام تر انحصار ان سپاہی۔ ہیڈ کانسٹیبل اور اے ایس آئی پر ہوتا ہے، جو اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے بھی ڈاکوؤں، منشیات فروشوں ،جرائم پیشہ اور دہشت گردوں سے فرنٹ لائن پر لڑتے ہیں اور شہادت یا تو ان کا مقدر ہوتی ہے یا وہ زندگی بھر کے لیے اپاہج ہو کر اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے بوجھ بن جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں دیکھا یہ گیا ہے کہ مبینہ طور پر سندھ پولیس میں میرٹ کو نظر انداز کرکے جو بھرتی کی جاتی رہی ہے۔
اس سلسلے میں بھی مختلف اوقات میں معزز عدالتیں بھی ریمارکس پاس کرتی رہی ہیں، لیکن اس سب سے ہٹ کر سندھ پولیس کی بھرتیاں جس گریڈ میں ہوئیں، پولیس اہل کار آج بھی برسوں گزر جانے کے بعد بھی اسی گریڈ پر صبر شکر سے کام کرنے پر مجبور ہیں، جب کہ اس بارے میں دل چسپ بات یہ ہے کہ ملک کے دیگر صوبوں میں موجود پولیس کی جانب سے یہ مطالبات کیے گئے کہ ان کے گریڈ میں اضافہ کیا جائے اور وہاں اس میں اضافہ کرکے ان کی تنخواہ اور دیگر مراعات بھی بڑھادی گئیں، سندھ پولیس میں ترقی کی رفتار کتنی تیز تر ہے۔
اس کی ایک مثال یہ سامنے آئی کہ 1990 میں 888 روپے تنخواہ پر بھرتی ہونے والے ایک پولیس کانسٹیبل کا کہنا تھا کہ انہوں نے 2003 میں اے ایس آئی کا کورس پاس کیا ، لیکن سترہ سال گزرنے کے بعد انہیں 2019 میں ترقی دی گئی اور اس وقت ان کی تنخواہ 35 ہزار روپے، جب کہ ان کا یہ کہنا تھا کہ وہ پولیس کانسٹیبل جو کہ دو ہزار سولہ میں بھرتی کیے گئے یا اس سے پہلے بھرتی ہوئے تھے، وہ بھی آج تک پانچویں گریڈ میں کام کر رہے ہیں، پولیس اہل کاروں کی جہاں تک کارکردگی کا تعلق ہے، تو اس سلسلے میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ سندھ پولیس کا مورال اور سندھ پولیس کی کارکردگی دوسرے صوبوں کے پولیس کے جوانوں سے کم نہیں ہے، بلکہ دیکھا یہ گیا ہے کہ حالیہ دنوں جو شکارپور میں اور دیگر علاقوں میں جہاں ڈاکوؤں کی سرگرمیاں عروج پر تھیں، پولیس اہل کاروں نے اپنی جان کے نذرانے پیش کیے اور شہادت کا مرتبہ حاصل کیا اور ڈاکوؤں کے ان گروہوں کو جن کے پاس جدید ترین اسلحہ تھا، کیفر کردار تک پہنچایا۔
تاہم جہاں تک پولیس کے گریڈ کا تعلق ہے تو یہ بحث اپنی جگہ موجود ہے، لیکن اس کے علاوہ پولیس اہل کاروں کو جو اس وقت مسائل درپیش ہے، ان میں سب سے زیادہ ان کے لیے رہائش کے مسائل ہیں، اس لیے کہ جو پولیس اہل کار غیر شادی شدہ بھرتی ہوئے تھے ، آج ان کی شادیاں اور ان کے بچوں کی وجہ سے انہیں رہائش کے مسائل درپیش ہے، لیکن اس سلسلے میں ذرائع کا کہنا ہے کہ برسوں قبل جو پولیس لائن بنائی گئی تھی اور وہاں پر پولیس کے لیے جو رہائشی انتظامات کیے گئے تھے، وہ انتہائی محدود ہیں اور اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پانچویں گریڈ کا ایک کانسٹیبل اگر کرائے کے مکان میں رہتا ہے، تو دس سے بارہ ہزار پندرہ ہزار روپے دے کر اور بچوں کی تعلیم کے اخراجات کے بعد اس کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ وہ اپنا مہینہ تنخواہ میں پورا کرسکے اور آخری تاریخوں میں بقول ایک پولیس کانسٹیبل کے اکثر یہ ہوتا ہے کہ تنخواہ کے پیسے ختم ہوجاتے ہیں اور مہینے کے کچھ دن باقی رہتے ہیں اور جس کے بعد ان کا کہنا تھا کہ وہ راشن کی دکان سے ادھار لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور اکثر راشن نہ ملنے پر فاقہ کشی کی نوبت آجاتی ہے ۔ پولیس اہل کاروں کی مجبوریوں کی داستان یہیں پر ختم نہیں ہوتی، بلکہ اس سلسلے میں جہاں تک ان سے ڈیوٹی کا تعلق ہے، تو دیکھا یہ گیا ہے کہ اکثر پولیس اہل کار جو کہ پانچویں ساتویں اور نویں گریڈ سے تعلق رکھتے ہیں ، نفری کی کمی کے باعث اکثر دن رات ڈیوٹی دینے پر مجبور ہوتے ہیں۔
اس سلسلہ میں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ضلع شہید بینظیر آباد جو کہ پاکستان بھر میں گرمی کی شدت میں ٹاپ کرتا ہے اور یہاں پر درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے، لیکن صورت حال یہ ہے کہ یہاں پر ٹریفک پولیس جو کہ چوراہوں پر متعین ہوتی ہے، وہ اہل کار 10 سے 12 گھنٹے چلچلاتی دھوپ میں ڈیوٹی سر انجام دیتے ہیں اور کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ پولیس کانسٹیبل ڈیوٹی کے درمیان گرمی کی شدت سے بے ہوش ہو کر گرپڑا اور پھر اسے اسپتال پہنچایا گیا، جہاں اس کی جان بچائی گئیں، جب کہ پولیس اہل کاروں کی ڈیوٹی کا تعلق ہے تو یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اکثر پولیس اہلکار بڑے صاحب یا افسران یا سیاسی جماعتوں کے قائدین یا وزرا اور وزیراعلیٰ کے ساتھ جس طرح سفر کرتے ہیں۔
اس سلسلے میں ایک پولیس اہل کار کا کہنا تھا کہ جب وہ ڈبل کیبن گاڑی کے پیچھے، جب کہ صاحب ائرکنڈیشن کے مزے لے رہے ہوتے ہیں اور وہ چلچلاتی دھوپ اور گرم لو میں جب گاڑی 140 اور 120 فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑ رہی ہوتی ہے اور اس وقت وہ پیچھے سیٹوں پر بیٹھے خود کو اور اپنے اسلحہ کو سنبھال رہے ہوتے ہیں اور گھنٹوں کا یہ سفر جاری رہتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب صاحب کے اترنے سے پہلے انہیں چھلانگ لگا کر اترنا پڑتا ہے اور اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ کئی مرتبہ وہ اس دوران زخمی بھی ہوئے، کیوں وہ جب گاڑی سے چھلانگ لگاتے ہیں، تو خود کا بھی ہوش نہیں ہوتا۔
اس سلسلے میں ایک پولیس اہل کار کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمیں وی آئی پی بی ڈیوٹی میں سڑک پر کھڑے کر دیے جاتے ہیں اور جہاں پر نہ سایہ ہوتا ہے نہ کھانا پانی اور اس طرح جب وی آئی پی گھنٹوں کے بعد وہاں سے گزرتے ہیں تو اس کے بعد بھی انہیں یہ حکم ملتا ہے کہ ابھی یہیں موجود رہیں ، شاید وی آئی پی دوبارہ یہاں سے گزرے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ موجودہ آئی جی مشتاق احمد مہر اس سلسلے میں کوئی قدم اٹھائیں اور برسوں سے التواء میں پڑے اپنے محکمے کے نچلی سطع کے اہل کاروں کے جائز مطالبات پورا کریں، جس کے لیے یہ پولیس اہل کار مستحق ہیں ۔