اسلام آباد (عمر چیمہ) وزیراعظم کے دو ساتھیوں نے امریکا میں متعین پاکستان کے سبکدوش ہونے والے سفیر اسد مجید خان کو ڈی بریف کیا تھا، اس سے قبل انہوں نے امریکا کے اسسٹنٹ وزیر خارجہ برائے جنوبی و وسط ایشیا ڈونلڈ لوُ کے ساتھ اپنی ملاقات کے حوالے سے ایک مفصل سفارتی مراسلہ تحریر کیا تھا۔
معاملات سے آگاہ ایک ذریعے کا کہنا تھا کہ ایک وزیر اور ایک مشیر کو یہ ذمہ داری دی گئی تھی کہ زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کریں اور ان میں سے کسی کو بھی سفارت کاری کا تجربہ نہیں تھا۔
پیشہ ورانہ لحاظ سے دیکھا جائے تو دونوں شخصیات وکیل ہیں۔ یہ واضح نہیں کہ دونوں نے اس معاملے کو سیاست کی نذر کرنے سے قبل یا کسی اور وجہ کی بنیاد پر اس کی قانونی پیچیدگیوں کا جائزہ لیا تھا یا نہیں۔ لیکن دونوں شخصیات اس وجہ کو بنیاد بنا کر تحریک عدم اعتماد کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے میں پیش پیش تھے کہ اس میں غیر ملکی سازش شامل تھی۔
ذریعے کا کہنا تھا کہ دونوں شخصیات نے سفیر کو سیدھے سیدھے سوالات بھیجے اور ان کا جواب ہاں یا نہ میں طلب کیا، اس کے بعد انہوں نے اپنا جائزہ تیار کیا۔ تاہم، سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ اُس بات سے متفق نہیں جو تاثر عمران خان اور اُن کے ساتھی پیش کر رہے ہیں کہ حکومت کا تختہ الٹنے کے پیچھے امریکی سازش ہے۔
رائٹرز نیوز ایجنسی کے مطابق، ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے وزیراعظم کو بتا دیا تھا کہ اُن کا تجزیہ اُس تجزیے سے مختلف ہے جس پر وہ پہنچے ہیں۔
امکان ہے کہ جیسے ہی موجودہ بحران کی دھند چھٹے گی تو حقائق جاننے کیلئے کوئی کمیٹی تشکیل دی جائے گی جو اس پوری صورتحال سے حقائق تلاش کرے گی کیونکہ سفارتی مراسلے کے حوالے سے غیر ضروری تشہیر اور اس سے سامنے آنے والی باتوں کا پاک امریکا تعلقات پر برا اثر پڑے گا کیونکہ یہ تعلقات پہلے ہی جو بائیڈن کے امریکی صدر منتخب ہونے کے بعد سے خراب ہونا شروع ہوئے تھے۔
عمران خان کے سابق صدر ٹرمپ کے ساتھ اچھے تعلقات تھے اور اس کا اظہار اُن کے گزشتہ دورہ امریکا کو دیکھ کر بھی ہوتا ہے کہ جب دورے کے بعد وہ واپس آئے تھے تو پاکستان میں جشن کا سماں تھا۔
یہی وجہ رہی ہوگی کہ بعد میں نئی امریکی انتظامیہ نے پاکستان کے ساتھ سرد مہری کا مظاہرہ شروع کیا اور جو بائیڈن نے صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے عمران خان کو فون نہیں کیا۔
اس صورتحال کا قریب سے جائزہ لینے والے کہتے ہیں کہ تعلقات میں بگاڑ کی وجہ پی ٹی آئی قیادت کی جانب سے ٹرمپ کی کھل کر حمایت تھی۔ ان لوگوں نے ٹرمپ کیلئے فنڈز تک جمع کیے اور اس بات کو بائیڈن انتظامیہ نے اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا۔
نہ صرف فنڈز جمع کیے گئے بلکہ ٹرمپ کو بھی آگاہ کیا اور امید ظاہر کی کہ وہی جیتیں گے۔ بائیڈن کی کامیابی کے بعد ان اقدامات نے نقصان پہنچایا۔
جس وقت عمران خان امریکا میں ٹرمپ کے ساتھ امیدیں وابستہ کیے ہوئے تھے، اس وقت برطانیہ میں وزیراعظم بورس جانسن کے ساتھ بھی توقعات وابستہ کی گئیں کہ برطانیہ انہیں پرانا دوست سمجھتا ہے، اس کی ایک وجہ عمران خان کے اپنے سابق سالے زیک گولڈ سمتھ کے ساتھ تعلقات بھی ہیں جو برطانوی حکومت میں عالمی ماحولیات کے وزیر ہیں۔
اسلئے یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں تھی کہ جب بورس جانسن نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں عمران خان کے بلین ٹری سونامی کا حوالہ دیا۔ تاہم، جانسن کے ساتھ تعلقات میں اس وقت گرمجوشی باقی نہ رہی جب برطانیہ نے پی ٹی آئی حکومت کی نواز شریف کو واپس بھیجنے کی درخواست پر تعاون نہیں کیا۔