افتخار عارف
تیری شوریدہ مزاجی کے سبب تیرے نہیں
اے مرے شہر ترے لوگ بھی اب تیرے نہیں
امجد اسلام امجد
دل کے دریا کو کسی روز اتر جانا ہے
اتنا بے سمت نہ چل لوٹ کے گھر جانا ہے
سحر انصاری
کیا کریں رنگ بغاوت نہیں چھپنے پاتا
ہم تو خاموش بھی ہیں سر بھی جھکائے ہوئے ہیں
انور شعور
ہمیشہ ہاتھ میں رہتے ہیں پھول ان کے لیے
کسی کو بھیج کے منگوانے تھوڑی ہوتے ہیں
پیر زادہ قاسم
عجب ہنر ہے کہ دانشوری کے پیکر میں
کسی کا ذہن کسی کی زباں لیے پھریے
عباس تابش
گھر پہنچتا ہے کوئی اور ہمارے جیسا
ہم ترے شہر سے جاتے ہوئے مر جاتے ہیں
احمد نوید
سب نے رد کر دیا تو پھر میں نے
اپنے ہونے کا اعتبار کیا
اجمل سراج
مہکا جو زخم آنکھ ہماری بھی کھل گئی
پھر ہم جو کوستے ہوئے پروائی کو اٹھے
اعتزاز احسن
جاوجاو سب سے کہہ دو اپنے سر اب جھک نہیں سکتے
جاو جاو سب سے کہہ دو اپنے قدم اب رک نہیں سکتے
رحمان فارس
نکتہ چیں شوق سے تو لاکھ مرے عیب نکال
کیونکہ جب عیب نکل جائیں ہنر بچتا ہے