• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عصر حاضر میں نج کاری ”امپیریل کنٹرول“ کے تحت کی جاتی ہے۔ اسے یوں بھی دیکھا جائے کہ بین الاقوامی بینک اور اسٹاک مارکیٹیں اس عمل سے فائدے حاصل کرتی ہیں جن کا حتمی مقصد یہ ہوتا ہے کہ آلودگی اور بڑھتی ہوئی آبادی کے کرپشن زدہ بے ہنگم انتظامی شہروں میں ہر قسم کی کرنسی کی یلغار سے ”کسبینو“ معیشت کو تقویت دی جائے۔ اس سے عالمی سرمائے کی گلوبلائزیشن میں جان پڑ جاتی ہے اور منجمد پڑے ہوئے کھربوں ڈالر متحرک ہو کر غریب دنیا کو صارف کی منڈی بنا کر قرضوں میں جکڑ دیتے ہیں۔ نج کاری کے پروگرام کو ترتیب دے کر ”امپیریل فنڈ“ وصول کرنے والے مشیر ، ملکی حکومتیں مع ایجنسیوں کے یہ کام سر انجام دیتی ہیں۔ قیمتوں کا تعین کرنے کے علاوہ یہ بااثر افراد کو متوجہ بھی کرتی ہیں جو ”پروکسی“ بھی ہو سکتا ہے۔ نج کاری کا دائرہ عمل یا احاطہ کار، فریم ورک کا تعین معاشی طاقتوں کی ایما پر عالمی مالیاتی ادارے کرتے ہیں۔ چنانچہ عوام کی کمائی ہوئی ٹیکسوں کی آمدنی اور ان سے بناتے ہوئے قومی اثاثوں کی منتقلی عالمی سرمائے کو ہوجاتی ہے جس کی واپسی ممکن نہیں بقول ملائیشیا کے رہنما مہاتیر محمد کے ”نج کاری اندرونی قدر میں نہ تو اضافہ کرتی ہے نہ ہی روزگار کو بڑھاتی ہے بلکہ گھٹاتی ہے“۔ اس سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ نج کاری کے عمل سے مقامی سرمایہ کاری میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا نہ ہی پیداواری قوتیں پیدا ہوتی ہیں جس سے عوام کو فائدہ ہو۔ ”امپیریل قوتوں“ کے مراکز میں نج کاری کی حکمت عملی اس طرح طے کی جاتی ہے کہ ارتکاز دولت ہو تاکہ عالمی سرمائے کے بہاؤ میں کوئی رکاوٹ یا سرحد حائل نہ ہوسکے۔ نج کاری کے یہ معنیٰ نہیں ہیں کہ صرف کسی ادارے کو ”ٹیک اوور“ کرنا ہے بلکہ ایسے پیداواری اسٹرکچر کو ختم کرنا جو عالمی مسلط کردہ سامراجی کنٹرول یا عالمی سرمائے کے لئے چیلنج ہو۔ اس لئے ان طاقتوں کو اس امر سے کوئی غرض یا دلچسپی نہیں کہ پرانا اسٹرکچر قائم رہے یا نہیں۔ ایک مرتبہ نج کاری ہو جائے تو ازخود ہی اس کا پھل عالمی ساہوکار کھائیں گے۔ اس عمل میں سوشلزم اور نیشنلزم کے خوف کو بھی ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، کنٹرولڈ جمہوریت یا ملٹری حکومتوں سے عمداً یہ کام پارلیمینٹ کے بغیر ہی کرایا جاتا ہے اس لئے اس قسم کی جمہوریت عوام کے لئے بے معنی ہوجاتی ہے۔ اس سارے تناظر میں اجتماعی جدوجہد ، سماجی انصاف کا حصول اور تبدیلی کا عمل ابہام کا شکار ہو کر دم توڑدیتا ہے اور نتیجے میں قومی ریاست کا تشخص عالمی تجارتی تنظیم کے تابع ہوجاتا ہے۔ نج کاری کے جو منطقی نتائج سامنے آرہے ہیں اور معاشیات کی مبادیات کے سائنسی تجربوں کے باوصف مذکورہ عوامل سے انکار ممکن نہیں، اسی پس منظر میں پی آئی اے کی نج کاری کے حوالے سے جو پیشرفت ہوئی اور اس سے پہلے جن شعبوں کی نج کاری ہو چکی ہے اس کے اثرات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ پی آئی اے نے متحدہ عرب امارات کی ایئر ایمرت اور اتحاد ایئر لائن بنائی اور آج وہ کہاں پہنچ چکی ہیں۔ 1951ء میں اورینٹ ایئر لائن جب قومی ایئر لائن پی آئی اے میں منتقل ہوئی تو چند سالوں ہی میں اس کی بہترین گورننس اور اعلیٰ پروفیشنلز نے اسے دنیا کی بہترین پروفیشنلز کی صف میں لاکھڑا کیا۔ 1975ء تک قومی ایئر لائن کی ساکھ دنیا تسلیم کرتی تھی۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ زوال کی طرف بڑھنے لگی۔ سرمایہ دارانہ نظام میں کسی کارپوریٹ ادارے میں تین ”ایم “ بہت ضروری ہوتے ہیں۔ ”مین“ ”منی“ اور میٹریل۔ اسے ایک مثال سے واضح کیا جاتا ہے۔ انجینئرنگ کے شعبے میں پی آئی اے میں انٹرسائنس کا امیدوار لیا جاتا ہے اسے آٹھ، دس سال تک بین الاقوامی سطح کی تربیت دی جاتی تھی۔ ایوی ایشن کی پیچیدہ باریکیوں کو سمجھنا پڑتا ہے تب جاکر ایئرکرافٹ انجینئر کے عہدے پر کوئی فائز ہوتا ہے اس کے پرنسپل انجینئر اور پھر چیف انجینئر کے عہدے تک پہنچنا پڑتا ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کی نظر اس بہترین قومی اثاثے پر تھی اسے زوال پذیر بنانے کی حکمت عملی ”امپیریل قوتوں“ نے تیار کرلی تھی۔ 1995ء کے سال میں قرضدار ملک پاکستان کو عالمی بینک نے گولڈن شیک ہینڈ کے لئے رقم دی چنانچہ سالہا سال کے تیار کئے گئے بہترین تیکنیکی ماہرین ، انجینئرز اور پائلٹس کو مذکورہ اسکیم کے تحت نکال باہر کیا یہ قومی ایئر لائن کے اثاثے تھے۔
ان ماہرین کی طلب ساری دنیا میں تھی سب سے پہلے قطر ایئر لائن نے ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا جن کو پی آئی اے نے بڑی محنت سے تیار کیا تھا اور مزید یہ اثاثے دوسروں کو تیار کرتے۔ بعد ازاں دنیا بھر کی ایئر لائنوں نے ان بہترین افراد کی خدمات حاصل کر لیں۔ پی آئی اے کا سربراہ عمواً ایئرفورس سے لیا جاتا تھا چاہے اسے مارکیٹنگ اور سیلز کا تجربہ ہو یا نہ ہو۔ البتہ ایئرمارشل نور خان اور ایئر مارشل اصغر خان نے گڈ گورننس کے ذریعے پی آئی اے کو تیزی سے زوال پذیر نہیں ہونے دیا تاہم سہگل ایک ایسے سربراہ تھے جن کی فنانشل اِن پٹ بہت اچھی تھی انہوں نے پی آئی اے کو بڑی خوبصورتی سے چلایا۔ جب 1995/96ء میں ماہرین کو نکال باہر کیا پھر پروفیشنلز کی جگہ اقربا پروری نے لی اور احمقوں کو بھرتی کرنا شروع ہوگیا جو منیجمنٹ گورننس میں کورے تھے۔ طیاروں کی دیکھ بھال اور فنانشل منیجمنٹ بحران کا شکار ہوگئی۔ امریکہ کسی طرح دفاعی اہمیت کی اس قومی ایئر لائن میں داخل ہونا چاہتا تھا۔ وہ اس کے لئے ”سیبر“ (SABER) ریزولیشن سسٹم لے کر آگیا حالانکہ قومی ایئر لائن نے KLM سے اپنا ریزولیشن سسٹم خرید لیا تھا۔ کچھ عرصے بعد اسے اپ ڈیٹ کرنا تھا اس بہانے امریکی مذکورہ کمپنی ”سیبر“ کو پی آئی اے میں داخل ہونے کا موقع مل گیا حالانکہ پرانے پروفیشنلز اس سسٹم کو کامیابی سے چلا رہے تھے۔ اس کا تعلق خاص طور پر شناخت وغیرہ کے ریکارڈ سے تھا اور وہ پاکستانی ریزولیشن سسٹم میں محفوظ ہوجاتا تھا اگر سائنس دان باہر جاتے تھے یا کسی خاص سفر کے لئے روانہ ہوتے تھے تو اس کی خبر کسی اور کو نہیں ہوتی تھی اب یہ کام ”سیبر“ کو دے دیا گیا جو دفاعی لحاظ سے نہایت خطرناک تھا۔ اس کمپنی نے اس کے لئے PNR بنانے کے لئے ایک یونٹ پر ساڑھے 3 ڈالر وصول کئے جبکہ یہ کام 57 سینٹ میں ہوسکتا تھا۔ ریزولیشن سسٹم کا ہیڈ کوارٹر اسٹیلانٹا اور علاقائی ممبئی میں ہے۔ ان کے پاس ہمارا ریکارڈ ”سیبر“ کے ذریعے موجود ہے۔ انجینئرنگ کے شعبے میں زبردست دفاعی اہمیت کے کام ہوتے تھے جن کو بند کرنا پڑا۔ نالائق اور نااہل لوگوں کی اعلیٰ سطح پر بھرتی سے فنانشل گورننس بگڑ گئی۔ اوپن اسکائی پالیسی میں سول ایوی ایشن نے روٹس کی تقسیم میں قومی ایئر لائن کو مزید لاچار کردیا۔ ان تمام خرابیوں کے ساتھ سیاسی اثر ورسوخ ، امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور تیل کی قیمتوں کے اضافے سے قومی ایئرلائن کی حالت مزید ابتر ہوگئی۔ عام طور پر سارا نزلہ نچلے ملازمین پر گرتا ہے اوپر کی سطح پر نااہلی اور اقربا پروری ہوتی ہے اسے نظرانداز کردیا جاتا ہے جو حلقے یہ کہتے ہیں کہ ایک جہاز پر120افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان میں700 افراد ہیں۔ وہ غلطی پر ہیں۔ باہر کی فضائی کمپنیوں میں آٹومائزیشن بہت زیادہ ہے وہاں کے ملازمین کو زبردست سہولتیں اور تنخواہیں میسر ہیں۔ پاکستان میں نچلے عملے کی زندگی بیرونی فضائی کمپنیوں کے مقابلے میں غلامی جیسی ہے۔ مختصر یہ ہے کہ اس کے فوری حل کے لئے پرانے پروفیشنلز کی ایک کونسل بنائی جائے جن کا تعلق آپریشن ، انجینئرنگ ، مارکیٹنگ ایئرپورٹ سروس اور ایڈمنسٹریشن سے ہو۔ 1995ء کے پروفیشنلز کم معاوضے پر راضی ہو جائیں جو پی آئی اے کو اپنے پاؤں پر کھڑا کر سکتے ہیں۔ پی ٹی سی ایل سرکاری شعبے میں تھا تمام تر خرابیوں کے باوجود 28 سے 30 ارب روپے کا سالانہ منافع دے رہی تھی۔ جس معاہدے کے تحت اسے فروخت کیا گیا وہ عمل پذیر نہ ہوا اور اب تک خریدنے والا منافع میں سے قسطیں ادا کر رہا ہے۔ اب غور کیجئے کہ امریکی ریاست کیلی فورنیا نے پہلی مرتبہ اپنے بجلی گھروں کی نج کاری کی کچھ ہی عرصے میں کیلی فورنیا کی حالت پاکستان جیسی ہوگئی چنانچہ حکومت نے اپنا ”جان وین“ ہوائی اڈا پانچ ارب ڈالر میں فروخت کرکے بجلی گھر واپس سرکاری شعبے میں لے لئے۔ اگر حکومت بھاری صنعتوں کو نہیں چلاسکتی تو اسے حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں۔
1990ء کے عشرے میں جن نفع بخش اداروں اور اسٹیل ملوں کی نج کاری کی گئی آج 95فیصد بند پڑی ہیں ان میں پائپ ملز کراچی ، میٹروپولیٹن اسٹیل کارپوریشن کراچی، کوالٹی اسٹیل ورکس کراچی ، پاکستان سوئچ گیئر لمیٹڈ لاہور، ٹیکسٹائل مشینری اور پائنیر اسٹیل قابل ذکر ہیں۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ ان کی نج کاری اونے پونے داموں میں کی گئی حالانکہ ان سے اچھا خاصا حکومتوں کو ریونیو مل رہا تھا یہ سب یونٹس 14کروڑ روپے میں فروخت ہوئے۔ ایک عرصہ پہلے تک پائنیر مل کے علاوہ سب بند پڑی ہیں۔ نج کاری کے خلاف مزاحمت ہر محب وطن پاکستانی کو کرنی ہوگی ورنہ انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
تازہ ترین