قدرت نے انسان کو زبان عطا کی، گفتار کی قوت بخشی، مافی الضمیر ادا کرنے کی توانائی مرحمت فرمائی اور گویائی کی صلاحیت ودیعت کی اور مزید کرم کیا کہ حرف کو محفوظ رکھنے کیلئے امانت لوح وقلم تفویض کردی اور اس طرح حرف کے اعجاز نے سوچ، فکر، خیال اور تصور کو اظہار کا روپ دے کر مجسم کردیا اور پھر اسی حرف نے تاریخ لکھی بھی اور بنائی بھی اور صاحب دانش کہنے پر مجبور ہوگئے کہ قلم، تلوار سے زیادہ طاقتور ہے۔ الفاظ کے اسی اعجاز نے کتاب کو جنم دیا۔ کتاب جو ایک انسان کی سوچ، فکر اور بصیرت کا آئینہ ہوتی ہے۔
یہ حرف کا اور لفظ کا ہی اعجاز تھا کہ وحی الہیٰ کا آغاز ’’اقراء‘‘ سے ہوا اور جب تک مسلمانوں نے لفظ سے رشتہ وابستہ رکھا، لفظ انہیں اعزاز اور وقار عطا کرتے رہے اور لفظ سے اور کتاب سے مسلمانوں کی محبت اور وابستگی ہی کا یہ نتیجہ ہے کہ آج یورپ میں انہی کی فکر کے چراغ جل رہے ہیں۔ علم سے اور لفظ سے یورپ کی وابستگی ہی نے اسے دنیا میں معزز اور سرخرو کیا۔ تکنیکی ترقی کے باوجود آج بھی یورپ خصوصاً برطانیہ کا لفظ سے رشتہ استوار ہے اور کمپیوٹر کی حکومت کے باوجود برطانوی اب بھی کتابوں سے محبت کرتے ہیں۔ ایک جائزے کے مطابق برطانیہ میں مطالعہ ایک سماجی سرگرمی ہے جو زندگی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
اس جائزے میں 50؍ہزار سے زیادہ افراد نے حصہ لیا اور یہ بات سامنے آئی کہ ملک کے 92؍فیصد افراد اپنے دوستوں سے کتابوں کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ 97؍فیصد افراد کتاب کے مطالعے کیلئے دوسروں کا مشورہ قبول کرلیتے ہیں۔ 87؍فیصد لوگ دوسروں کو خوشی سے کتاب مستعار دے دیتے ہیں۔ 96؍فیصد افراد تحفے میں کتابیں پیش کرتے ہیں۔ 95؍فیصد افراد کتابیں لینا پسند کرتے ہیں۔ جائزے کے مطابق 69؍فیصد افراد کتاب شروع سے آخر تک پڑھتے ہیں۔ مغرب میں تصنیف و تالیف ذوق مطالعے کی وجہ سے ایک صنعت کی حیثیت اختیار کرگئی ہے۔
اگر کسی کی کوئی ایک کتاب عوامی مقبولیت حاصل کرلے تو اسے پوری زندگی معاش اور اقتصادیات کے چکر سے آزاد ہوجاتی ہے۔ وہ چاہے تو اپنے وقت کا ہر لمحہ، ہر پل لکھے ہوئے حرف سے محبت کرتا ہوا گزار سکتا ہے۔ مشرق جو کبھی علم کا گہوارہ تھا اور جس سے یورپ نے صدیوں ’’فکر‘‘ کی خوشہ چینی کی، اب کتاب کی محبت سے بتدریج محروم ہورہا ہے۔ صاحب ثروت افراد صرف ظاہر داری کیلئے اپنے گھروں میں کتابیں جمع کرتے ہیں۔ اکثر اپنے احباب اور ملنے والوں پر اپنی علمیت کا رعب ڈالنے کیلئے بڑے خوبصورت اور وسیع کتب خانے تعمیر کرتے ہیں لیکن عام لوگ دال، روٹی کے چکر میں مطالعے سے دور ہوجاتے ہیں اور اکثر افراد اگر مطالعہ کرتے بھی ہیں تو وہ بھی صرف روزانہ اخبار کی سرخیوں یا محکمہ جاتی خبرناموں تک محدود ہوتا ہے۔
اب وہ زمانہ ختم ہورہا ہے جب کتاب کو انسان کا سب سے اچھا دوست سمجھا جاتا تھا۔ مشرق بعید میں تو علم اور سائنس کے نام پر اب بھی کتاب کو کسی حد تک اعتبار حاصل ہے لیکن جنوبی ایشیا میں کتاب کا مطالعہ تو محدود سے محدود تر ہورہا ہے، اور کتاب بھی حفاظت سے محرروم ہوتی جارہی ہے۔ چند سال قبل اردو کے معروف ادیب، افسانہ نگار او براڈ کاسٹر رصا علی عابدی نے کتب خانے کے نام سے ایک کتاب لکھی تھی جس میں برصغیر میں کتب خانوں کی زبوں حالی اور کتابوں کی بے وقعتی کا حال بڑی تفصیل سے قلمبند کیا تھا۔ اس تحریر کو پڑھ کر یہ اندازہ ہوا کہ اقبال نے برسوں پہلے یورپ آکر مشرقی کتابوں کو یورپ میں موجود پا کر شکوہ کیا تھا؎
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آباء کی
تبھی دیکھیں اگر یورپ میں دل ہوتا ہے …
آج اگر علامہ اقبال مشرق میں کتابوں کی زبوں حالی دیکھتے تو اپنے شکوے سے دستبردار ہوجاتے اور یورپ کو اس بات کی داد دیتے کہ مشرق سے یہ خزانہ لا کر یورپ نے کم ازکم اسے محفوظ تو کررکھا ہے جبکہ مشرق میں اسے دیمک چاٹ چکی ہے۔ صدیوں تک مسلمانوں نے کتاب سے محبت کا حق ادا کیا۔ ایک روایت کے مطابق ہلاکو خان نے جب بغداد کو تباہ کیا اور کتابوں کو دجلہ برد کیا گیا تو مہینوں دریا کا پانی کتابوں کی روشنائی سے کالا رہا۔
نتیجہ یہ ہے کہ ہلاکو خان کا نام ملکوں کا استحصال کرنے اور غارت گری کی مثال پیش کرنے والوں میں سرفہرست ہے جبکہ بغداد کے ارباب اقتدار کی لکھی ہوئی، لکھوائی ہوئی اور جمع کی ہوئی کتابوں سے یورپ میں آج بھی چراغاں ہورہا ہے اور کوئی علم ایسا نہ ہوگا جس کے ذیل میں عربوں کی تخلیقات زیرمطالعہ نہ آتی ہوں۔ حرف کی، لفظ کی، کتاب کی طاقت کا یہ ایک ادنیٰ سا کرشمہ ہے۔ جس قوم نے حرف کی طاقت کا ادراک حاصل کرلیا، وہ دنیا میں سرخرو اور باوقار ہوئی۔ کاش! ہمیں کتاب سے رشتہ استوار کرنے کا فن آجائے تاکہ دنیا حسین سے حسین تر ہوجائے۔
معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے
ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہےآپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر
روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی