معروف ادیب رئیس صِدّیقی لکھنؤ میں مقیم ہیں دوردرشن و آکاشوانی کے سابق آئی بی ایس افسراور ساہتیہ اکادمی قومی ایوارڈ و دلی اردو اکا دمی ایوارڈ سے سر فراز پندرہ کتابوں کے مصنف، مولف، مترجم، افسانہ نگار ، شاعرو ادیبِ اطفال ہیں۔ انہوں نے ہمیں ’’بچوں کے جنگ‘‘ کے لیے اپنی خصوصی تحریر بہ عنوان، ماہِ رمضان کی معصوم یادیں بھیجا، جو نذرِ قارئین ہے۔
رمضان کے مبارک مہینے میں اکثر مجھے لکھنؤ میں گزرا ہوا اپنا بچپن یاد آنے لگتا ہے۔ آنکھوں کے سامنے یادوں کا معصوم ا ور ست رنگی کارواں گزرنے لگتا ہے۔ بچوں سے اپنے بچپن کی باتیں کرنے کا دل چاہتا ہے کیوں کہ ہر بچےکا بچپن اس کی زندگی کی پیاری پیاری باتوں سے بھرا انمول سرمایہ ہوتا ہے۔
مجھے یاد ہے جب میری عمر تقریباً نو یا دس سال کی تھی۔ شدت سے گرمی پڑ رہی تھی، رمضان کا مہینہ شروع ہوچکا تھا میں روزانہ صبح سحری میں اٹھ جاتایا یوں کہیں کہ دودھ، پھینی اور دیسی گھی میں تلے آلو کے پراٹھوں کی خوشبو مجھے اٹھا دیتی تھی، پھر ان دنوں سحری کے وقت، روز انہ اللہ کے کچھ نیک بندے اپنی ترنم ریز آواز میں جگاتے تھے۔ جاگو سونے والو۔ غفلت کی نیند سے اٹھو۔ سحری کا وقت ہو گیا ہے۔ وہ لوگ ڈفلی بجا کر عقیدت بھری آواز میں سحری کےنغمے گاتے۔ منقبت، نعت اور حمد پیش کرتے۔ گویا، اٹھا کر ہی دم لیتے۔ میں روزانہ سحری کرکے جلدی سے سونے کی کوشش کرتا لیکن امی پہلےاپنے ساتھ نماز پڑھواتیں پھر سونے کی اجازت دیتیں۔
ان دنوں روز شام کو مسجد میں افطاری پہنچانے کا عام رواج تھا۔ یہ میری ڈیوٹی تھی کہ میں روز مسجد میں افطاری لے کر جاتا تھا اور وہیں رک کر افطار کرتا اور مغرب کی نماز ادا کرکے واپس آتا تھا۔ ایک دن امی نے کہاکہ، ’’بیٹا! تم روز سحری کر تے ہو، ا فطار کرتے ہو ، نماز پڑھتے ہو، توروزہ بھی رکھ لیا کرو۔‘‘
چاہتا تو میں بھی تھا لیکن والدین کی رضامندی کی ضرورت تھی۔ بہرحال روزہ کشائی کے لیے چودھواں روزہ مقرر ہوا۔ سحری میں میری پسند کی چیزیں بنائی گیئں۔ سہ پہر سے ہی افطاری اور کھانا پکانے کا اہتمام ہونے لگا۔
رشتے داروں اور محلہ کے بہت سے لوگوں کو افطاراور رات کےکھانے کی بھی دعوت تھی ۔ میرا کچھ وقت نماز اور تلاوت قران میں گزرا۔ جوں جوں وقت گزر رہا تھا، پیاس اور بھوک، شدت اختیار کرنے لگی۔ امی یہ سب کچھ محسوس کر رہی تھیں لہذا وہ مجھے اپنے پاس بُلا تیں اور روزہ رکھنے کی فضیلت بیان کرتیں۔ مجھے یاد ہے کہ انھوں نے مجھے نصیحت کی تھی،’’ بیٹا! روزہ ہمیں احساس دلاتا ہے بھوک، پیاس کا۔ بہت سے غریب لوگ بھوکے، پیاسے ہوتے ہیں۔
ہمیں ان کی مدد کرنی چاہیے۔ کھانے پینے کی چیزیں انہیں مہیا کرنی چاہیے، پھر کہتیں کہ جائو تھوڑی دیر آرام کرلو ۔ میں کمرے میں جاتا ، پلنگ پرلیٹتا، کروٹیں بدلتا، اٹھ جاتا، کچھ پڑھتا، لیکن آرام کہاں؟ پھر باہر آجاتا۔ امی مسکراتیں اور اپنے پاس بٹھا کر پھر ماہِ رمضان کی اہمیت بتاتیں،’’ بیٹا! یہ مہینہ ہماری تربیت کرتا ہے کہ ہم اپنی بھوک، پیاس، غصہ، لالچ، غیبت ،وقت کی بربادی اور تمام برائیوں پر کیسے قابو پا ئیں، تاکہ ہم آئندہ آنے والوں دنوں میں ایک اچھے انسان کی طرح اپنے گھر، اپنے سماج اور اپنے ملک کا بھلا کر سکیں۔‘‘
شام کے چھ بج گئےتو مجھے تیار ہونے کے لئے کہا گیا۔ پہننے کے لئے مجھے نیا جوڑا دیا گیا، جو میری خالہ میرے لیے لے کر آئیں تھیں۔ سفید چوڑی دار پاجامہ، لکھنوی چکن کا سفیدکرتا اور چکن کی جالی دار خوبصورت ٹوپی اور تین عدد رنگ برنگے رومال، گرمی کے لحاظ سے سوتی کپڑے کی سفید شیروانی پہنائی گئی۔
امی نے عطر لگایا، پھوپی جان نے پھولوں کا ہار پہنایا۔ مجھے بالکل کسی دولہے راجہ کی طرح خوب تیار کیا گیا۔ رشتے داروں میں کچھ پھل، تو کچھ لوگ سوکھا میوہ اور دیگر کھانے کی چیز یں بڑی سی تھال میں سجا کر ، سنہرے اور روپہلے گوٹے لگے کنارے والی سرخ ریشمی خوان سے ڈھک کر لائے تھے ۔اِسی کے ساتھ مبارکباد اور دعائیں دینے کا سلسلہ بھی جاری تھا۔
والد صاحب نےبہت پیار سے مجھے اپنے سینے سے لگاکر بہت دعائیں دیں۔تقریباً ساڑھے چھ بجے ہم سب دسترخوان پر بیٹھ گئے۔ افطاری میں کھجور ہر قسم کا شربت اور انواؤ اقسام کی نعمتیں دستر خوان کی زینت بنی ہوئی تھیںاور انہیں دیکھ دیکھ کر میرے منہ میں پانی آرہا تھا۔ ابو جان نے میری حالت ِ غیر کو بغور دیکھ کر کہا کہ، ’’بیٹا،! یہ وقت اپنے نفس،اپنی بھوک پیاس اور اپنے اوپر قابو پانے کا ہوتاہے۔ اس وقت اللہ سے دعاء کرو کہ وہ ہمارا روزہ قبول فرمائے اور ہمیں توفیق دے کہ ہم پورے مہینے روزہ رکھ سکیں‘‘۔پھر سب مل کردعا کرنے لگے کہ اتنے میں ایک گولہ داغا،جو کہ افطار کا وقت ہو نے کا اشارہ تھا اور پھر مسجد سے اذا ن کی آواز آئی۔
میں نے سب سے پہلے کھجور سے روزہ کھولا اور شربت پیا۔پیاس اور بھوک کو تھوڑی راحت ملی۔ پھر جلدی جلدی بیسن میں تلے پیاز کے پکوڑے کھانے لگا۔امی نے اشارہ کیا کہ ، آرام سے کھاؤں۔
افطاری کے بعد ، گھر پر ہی نماز باجماعت پڑھی گئی، کیونکہ خاندان اور محلہ کے بہت سے افراد میری روزہ کشائی میں شریک ہوئے تھے۔ کچھ دیر دینی باتیں ہوئیں۔ پھر دستر خوان پر کھانا لگا دیا گیا۔ کھانے میں بھی مزے مزے کے پکوان تھے۔
پہلے میں مسجد کے امام صاحب کو کھانا دے کر آیا۔ پھر میں نے اپنا من پسند یخنی پلاؤ اور سفید زردہ کھایا۔ اس کے بعد میں نے باقی پورے روزے رکھے۔پھر یہ سلسلہ چلتا رہا۔ آج مجھے اپنا پہلا روزہ اور اُس دن کے سارے مناظر یاد آرہے ہیں۔