• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یوکرائن کا شہر ’’ماریوپل‘‘ کیا اپنی بقا کی آخری جنگ لڑ رہا ہے

اس وقت یوکرائن کا شہر ماریو پل اپنی بقا کی غالباً آخری جنگ لڑ رہا ہے۔ اس شہر کا محاصرہ روسی افواج نے کئی ہفتوں سے کر رکھا تھا اور توقع کے برعکس اس پر آسانی سے قبضہ نہ کرسکے۔ اب ماریو پل کے آخری محافظ اپنی جان کی بازی کھیلنے کے لیے تیار ہیں۔ گو کہ یوکرائن کے صدر نے خبردار کیا ہے کہ روس اس شہر کے آخری محافظوں کو ہلاک نہ کرے لیکن اس کے ساتھ کیا ہوتا ہے یہ ابھی دیکھنا باقی ہے۔ ماریو پل جسے ماریو پول بھی لکھا جاتا ہے بحر آزوف کے شمال میں واقع ہے جس پر روسی افواج کا قبضہ تو تقریباً مکمل ہوچکا ہے۔ یوکرائن کے مشرق میں واقع دانستک کے علاقے میں ماریو پل دوسرا بڑا شہر ہے جس کی آبادی تقریباً پانچ لاکھ ہے۔

چھوٹا ہونے کے باوجود اس شہر کی اہمیت یوکرائن کے لیے خاص ہے۔ ایک تو یہ صنعتی شہر ہے دوسرے یہ غذائی اجناس کی تجارت میں بھی اپنا اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔ اس شہر میں اسٹیل کے دو بڑے کارخانے ہیں۔ ایک تو ایلچ اسٹیل اور لوہے کا کارخانہ اور دوسرے آزوف استال یعنی آزوف اسٹیل کارخانہ۔ 1948سے 1989تک اس شہر کا نام ژدانوف تھا۔ یاد رہے آندرے ژدانوف سوویت کمیونسٹ پارٹی کے بڑے رہنما تھے جو ماریو پل میں پیدا ہوئے تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران ژدانوف کو اسٹالن کا قریب ترین ساتھی سمجھا جاتا تھا۔

1940 کے عشرے میں آند رے ژدانوف سوویت یونین میں کمیونسٹ پروپیگنڈے کے سربراہ تھے ساتھ ہی وہ دس سال سوویت کمیونسٹ پارٹی کے سیکنڈ سیکرٹری بھی رہے جب وہ 1948 میں صرف باون برس کی عمر میں فوت ہوئے تو ماریو پل شہر کا نام بدل کر ان کے نام پر ژدانوف رکھ دیا گیا تھا لیکن جن گورباچوف کے دور میں پُرانے ناموں کی بحالی شروع ہوئی تو ماریو پل کو اس کا نام واپس مل گیا۔

جب 2014 میں روس نے یوکرائن کے علاقوں پر قبضہ کرنا شروع کیا تو یوکرائن کے مشرقی علاقوں جنگ یا خانہ جنگی جیسی صورت حال پیدا ہوگئی۔ یوکرائن کا مشرقی علاقہ دون باس کہلاتا ہے جس میں دو انتظامی اکائیاں ہیں۔ دونستک اور لوہانسک ۔دون باس کا شمالی علاقہ لوہانسک کہلاتا ہے اور جنوبی علاقہ دونستک جس کے جنوبی سرے پر ماریو پل کی بندرگاہ ہے۔ چوں کہ ان علاقوں میں روسی اور یوکرائن ملی جلی آبادی ہے اس لیے روس کا مطالبہ ہے کہ ان علاقوں کو یوکرائن سے آزاد ہوکر اپنی حکومت بنانی چاہئے یا پھر روس کے ساتھ الحاق کرلینا چاہیے۔

یاد رہے 2014 میں یوکرائن کے دارلحکومت میں بڑے عوامی مظاہروں کے بعد اُس وقت یوکرائن کے صدر یانو کووچ کو بھاگنا پڑا تھا جو روس نواز سمجھے جاتے تھے۔ 1991 میں یوکرائن کی سوویت یونین سے آزادی کے بعد یانو کووچ یوکرائن کے چوتھے صدر تھے جو 2010 سے 2014 تک برسرِ اقتدار رہے۔ وہ خود دونستک کے روسی تھے اور یورپ سے زیادہ روس کے قریب تھے۔

اب تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ یوکرائن کے صدر زیلنسکی روس کے صدر پوٹن سے ملاقات پر راضی تو ہیں مگر پوٹن اس کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یوکرائن سے جنگ شروع ہونے کے بعد روس جلد فتح کو حقیقت میں بدل نہیں پایا۔ مغربی ممالک کے رہنما ایک کے بعد ایک یوکرائن کا دورہ کررہے ہیں۔ امریکی وزیرخارجہ اینٹنی بلنکن اور وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے کیو کا دورہ کیا ہے اور وہ جنگ شروع ہونے کے بعد یوکرائن کے دورے کرنے والے پہلے امریکی حکام ہیں۔

روسی افواج پر ایک الزام یہ لگایا جارہا ہے کہ وہ یوکرائن کے علاقوں پر قبضہ کرنے کے بعد وہاں کے لوگوں کو روسی علاقوں میں منتقل کررہے ہیں۔ اس طرح لاکھوں لوگ یوکرائن کے مشرقی علاقوں سے روس منتقل کیے جاچکے ہیں۔ یوکرائن کا ایک اور ساحلی شہر اور سب سے بڑی بندرگاہ، اودیسا بھی جو اب تک بچا ہوا تھا اب روسی گولہ باری کی زد میں آچکا ہے۔

ماریو پل میں لوہے کا کارخانہ آزوف استال یوکرائن کے بڑے کارخانوں میں شمار ہوتا ہے اب اس پر روسی فوج نے حملہ کرکے اسے تقریباً مکمل طور پر تباہ کردیا ہے۔ تقریباً نوے سال پُرانا یہ کارخانہ نازی جرمنی کے یوکرائن پر قبضے کے دوران بھی تباہ ہوچکا تھا پھر اسے دوبارہ بحال کیا گیا۔

اب جنگ کے دوران یہاں یوکرائن کے لوگوں اور فوجیوں نے اپنے ٹھکانے بنائے تھے جہاں سے وہ روسی افواج کی مزاحمت کررہے تھے۔ یعنی یہ ایک آخری دفاعی مورچہ تھا جو ثابت قدمی سے کھڑا رہا۔

اس سارے تنازع میں اقوام متحدہ کا کردار خاصا پراسرار ہے۔ چوں کہ روس سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان میں شامل ہے۔ ویٹو کا حق رکھتا ہے اس لیے وہاں سے کوئی بھی قرارداد روس کی مرضی کے بغیر منظور نہیں ہوسکتی۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے روس اور یوکرائن کے دورے سے قبل ترکی کا دورہ کرنا مناسب سمجھا اور ترک صدر طیب اردوان سے ملاقات کی۔ ترکی اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرنے کا خواہاں ہے۔ اور ثالثی کی کوششیں کرچکا ہے۔ اس نے امن مذاکرات کا انعقاد بھی کیا۔

ایک اور شہر جو اب روسی افواج کے نشانے پر ہے اس کا نام خارخیو ہے۔ یہ یوکرائن کے دارالحکومت کیو کے بعد دوسرا بڑا شہر ہے جس کی آبادی تقریباً پندرہ لاکھ ہے۔ کیو سے پہلے خارخیو ہی یوکرائن کا دارلحکومت تھا اور سوویت حکومت قائم ہونے کے بعد بھی 1934 تک یہ ہی دارالحکومت تھا جسے بعد میں کیو منتقل کردیا گیا۔

دوسری جنگ عظیم کے شروع میں 1940 میں تقریباً چار ہزار پولش جنگی قیدیوں کو خارخیو شہر کے مضافات میں گولیاں مار کر قتل کردیا گیا تھا۔ یہ قتل اس بڑے قتل عام کا حصہ تھا جسے کاتن کا قتل عام کہا جاتا ہے۔اس دوران میں صرف دو مہینے میں بائیس ہزار سے زیادہ پولینڈ کے فوجی اور دیگر جنگی قیدی ہلاک کردیے گئے تھے۔ سوویت یونین کا کہنا تھا کہ لوگ جرمنی فوج نے مارے تھے جب کہ جرمنی کا موقف تھا کہ سوویت افواج اس قتل عام کی ذمہ دار تھیں۔ بالآخر 1990 میں سوویت یونین نے اعتراف کرلیا تھا۔

اس وقت خارخیو شہر پر قبضے کے لیے بھی جنگ جاری ہے شہر کے وسط میں تمام سرکاری اور رہائشی عمارتیں حملوں کی زد میں ہیں۔ چوں کہ یہ شہر روس اور یوکرائن کی سرحد سے صرف تیس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے روسی افواج اس پر فوری قبضے کی توقع کررہی تھیں۔ یاد رہے کہ یہ شہر بھی اکثریتی روسی بولنے والوں کا ہے لیکن پھر بھی یہاں مزاحمت جاری ہے جس کا مطلب ہے کہ تمام روسی بولنے والے یوکرائنی روسی افواج کی حمایت نہیں کررہے نہ ہی روس سے الحاق کے خواہاں ہیں۔

یوکرائن کی طرف سے جو تین اشخاص اپنے عوام اور افواج کے حوصلے بڑھا رہے ہیں ان میں اول تو خود صدر زیلنسکی ہیں جو تین سال قبل چالیس برس کی عمر یوکرائن کے صدر منتخب ہوئے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ 1991 میں یوکرائن کی آزادی کے بعد پہلے صدر کراؤ چک تھے جن کا سابقہ تعلق کمیونسٹ پارٹی تھا لیکن پھر بھی آزاد حیثیت میں تین سال صدر رہے۔ 

لیوند كو چما تھے جو آزاد حیثیت میں گیارہ برس یوکرائن کے صدر رہے یعنی 1994 سے 2005 تک۔ تیسرے صدر یش چین کو تھے جو 2005 سے 2010 تک اپنے عہدے پر رہے۔ اس کے بعد پچھلے بارہ سال میں یوکرائن میں چار صدر برسرِ اقتدار رہ چکے ہیں۔ جن میں موجودہ صدر زیلنسکی ایک سابقہ مزاحیہ اداکار ہیں جنہیں ملک چلانے کا کوئی تجربہ نہیں تھا لیکن چوں کہ عوام نے انہیں شفاف انتخاب میں منتخب کیا اس لیے اب وہ پچھلے تین سال سے صدر ہیں۔

یوکرائن کے وزیراعظم اس وقت پنتالیس سالہ ڈینس شمیہل ہیں جو پچھلے دو سال سے وزیراعظم ہیں۔ یوکرائن کے وزیرخارجہ بھی صرف چالیس برس کے دیمیٹرو کولیبا ہیں جو پچھلے دو سال سے اپنے عہدے پر فائز ہیں۔ اس طرح یوکرائن کی اعلی قیادت اس وقت تمام نسبتاً جوان رہنماؤں پر مشتمل ہے اور یہ سب روس سے زیادہ یورپ اور امریکا کے قریب جانے کے خواہش مند ہیں اسی لیے انہوں نے یورپی یونین اور نیٹو کی رکنیت حاصل کرنے کی کوششیں تیز کیں تو یہ بات روس کو پسند نہیں آئی۔

اب یہ جنگ طویل ہوتی جارہی ہے اور اس میں ممکن ہے کہ روس یوکرائن کے مشرقی علاقوں پر اپنا قبضہ مستحکم کرلے لیکن پورے یوکرائن پر قبضہ خاصا مشکل معلوم ہوتا ہے پھر یوکرائن کے عوام میں روس کے لیے جو نفرتیں پیدا ہوگئی ہیں انہیں آنے والی نسلیں بھی بھکتیں گی۔

روسی صدر پوتن مکمل طور پر ایک آمر کی طرح حکومت کررہے ہیں اُن کے اقتدار کو تیس برس ہوچکے ہیں اور ابھی بھی اپنا عہدہ چھوڑنے یاشفاف انتخابات کرانے پر راضی نہیں ہیں۔ جب کوئی رہنماء اس طرح کا آمر بن جائے تو وہ ملک کو جنگ میں جھونک دیتا ہے۔ جس کا خمیازہ عوام اور پڑوسی ممالک کے ساتھ خود اس ملک کو بھی بھگتنا پڑتا ہے جہاں وہ قابض ہوتے ہیں۔