• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دُنیا میں یُوں تو چند سپاٹ زیادہ خطرناک ہیں اور کہیں بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے مگر مشرقی یورپ میں یوکرین فی الوقت سب سے خطرناک اسپاٹ بنتا جا رہا ہے جہاں روس اور یوکرین آپس میں متصادم ہیں۔

گزشتہ سال فروری میں روس نے یوکرین پر حملہ کیا تھا تو روسی صدر سمیت کمانڈروں کا خیال تھا کہ یہ محض چند روزہ جنگ ہوگی اور پھر یوکرین سرنڈر کر جائے گا،مگر تمام سیاسی پنڈتوں اور جنگی ماہرین کے تجزیئے دھرے رہ گئے ۔ یوکرین کی جنگ نہ صرف ایک سال سے جاری ہے بلکہ روس کو اپنی پگڑی سنبھالنی مشکل نظر آ رہی ہے۔

ایک سال کے عرصے میں یوکرین کے مسئلے پر بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے۔ حال ہی میں ایک اہم اجلاس میں یہاں تک کہہ دیا گیا ہے کہ، یوکرین کی جنگ میں روس کو شکست اُٹھانا پڑے گی۔ میڈیا جائزوں کے مطابق روس کے سوا لاکھ سپاہی ہلاک، زخمی یا گمشدہ ہیں جبکہ یوکرین کے پچاس ہزار سے زائد ہلاک، زخمی یا گمشدہ ہیں، مگر تین لاکھ سے زائد یوکرینی باشندے نقل مکانی کر کے پولینڈ، ہنگری اور دیگر مقامات پر منتقل ہو چکے ہیں۔ یوکرین کی نصف سے زائد عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں جن میں اسپتالوں، اسکولوں اور سرکاری دفاتر کی عمارتیں شامل ہیں۔

حال ہی میں ہونے والی جی۔سیون کانفرنس میں زیادہ گفتگو یوکرین کے مسئلے پر ہوئی ۔ اس کانفرنس میں امریکی صدر جو بائیڈن نے خصوصی طور پر یوکرین کے صدر زیلنسکی کو مدعو کیا تھا جس میں صدر زیلنسکی نے تمام شرکا سے یوکرین کے لئے مدد مانگی۔ کانفرنس میں امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، ہالینڈ، جاپان اور ناروے شامل تھے۔ سب نے اپنے طور پر عسکری اورسول امداد کا اعلان کیا۔ اس طرح مذکورہ سات ممالک کی طرف سے یوکرین کو دو سو ارب ڈالر کی امداد مل گئی۔ یہاں تک بھی غنیمت ہے مگر امریکی صدر کا اعلان کہ وہ یوکرین کے پائلٹوں کو ایف سولہ طیارے اُڑانے کی تربیت فراہم کریں گے، یہاں پورا معاملہ بگڑ جاتا ہے۔ 

جب ایف سولہ، روس پر بمباری کریں گے تو جوابی کارروائی بھی شروع ہوگی اورعین ممکن ہے کہ جنگ ایک نیا خطرناک رُخ اختیار کر جائے ۔ یہ معاملہ کچھ ایسا رُخ اختیار کرتا جا رہا ہے جہاں مدعی سُست اور گواہ چست ہے۔ یوکرین کے نوے فیصد سے زائد باشندے جنگ و جدل سے تنگ آ چکے ہیں وہ چاہتے ہیں جنگ ختم ہو، امن قائم ہو مگر ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ یوکرین کا صدرمکمل طور پر نیٹو ممالک کے اشارے پر کام کر ر ہا ہے۔ صدر زیلنسکی کی تقریروں اور باڈی لینگویج سے یُوں لگتا ہے کہ وہ اندر سے بہت خوش ہیں۔

درحقیقت نیٹو ممالک اور امریکہ کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ نیٹو معاہدہ کو وسیع تر کیا جائے جو ملک یورپ میں ہے مگر نیٹو میں شامل نہیں ،وہ بھی رُکن بن جائے۔ مغربی قوتیں روس کے خلاف نیٹو کو زیادہ مستحکم دیکھنا چاہتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ امریکہ، برطانیہ، فرانس، یوکرین کو اب زیادہ مہلک ہتھیار فراہم کر رہے ہیں۔ ان کا مقصد روس میں تباہی پھیلانا اور جدید ہتھیاروں کی ٹیسٹنگ بھی کرنا ہے۔

امریکی صدر جوبائیڈن آئندہ سال ڈیموکریٹک پارٹی کا صدارتی الیکشن لڑنا چاہتے ہیں جبکہ خود ان کی پارٹی میں ایک بڑی لابی ان کے حق میں نہیں ،کیونکہ وہ 80 سال کے معمر اور بیمار ہیں مگر پھر بھی وہ اپنے طور پر تیاری کر رہے ہیں اس لئے یوکرین کی جنگ ان کے آئندہ صدارتی انتخاب کے لئے بہت ضروری ہے۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ امریکی بڑے اسلحہ ساز اداروں کے مالکان کی ہمدردیاں بھی ان کو مل سکتی ہیں۔ 

دُوسری جانب ریپبلیکن پارٹی کے رہنما اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی میدان میں کودنے کے لئے تیار ہیں مگر لگتا ہے کہ وہ یوکرین کی جنگ کی حمایت نہیں کریں گے، کیونکہ جب وہ صدر تھے پہلے سرکاری دورے پر یورپ گئے تھے تو انہوں نے کہا تھا، نیٹو امریکہ کے لئے بوجھ نہ بنے اور اپنا خرچ خود برداشت کرے ،جس کی وجہ سے یورپی یونین میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لئے مخالف لابی موجود ہے۔ ایسے میں ٹرمپ کا جیتنا مشکل دکھائی دیتا ہےلکین تاحال دونوں امریکی جماعتوں نے کسی بھی اُمیدوار کا اعلان نہیں کیا ہے۔ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی غالباً امریکی نائب صدر کملا ہیرس کو اُمیدوار بنا سکتی ہے۔

دراصل امریکی الیکشن بظاہر عوام لڑتے ہیں، مگر درپردہ بااثر طاقتوں، لابیوں کا کھیل ہوتا ہے۔ طاقتور شخصیات وہ ہیں جو اسلحہ ساز اداروں کے مالک ہیں۔ بیش تر لوگوں کو یاد ہوگا کہ سابق امریکی صدر جان ایف کینیڈی کو گولی مار دی گئی تو چوبیس گھنٹوں میں نائب صدر لنڈن بی جانسن صدر بنا دئیے گئے، انہوں نے پہلا حکم نامہ جاری کیا تھا کہ امریکی افواج ویتنام میں جنگ کریں ،کیونکہ کینیڈی ویتنام میں جنگ کے مخالف تھے۔ امریکا نے ویتنام میں طویل جنگ لڑی جو 1974ء میں اختتام پذیر ہوئی۔ 

اس کا اصل مقصد تھا مشرق بعید میں کمیونسٹوں کو روکنا اور عوامی تحریکوں کا صفایا کرنا، چونکہ وہ سردجنگ کا دور تھا، امریکہ ہر جگہ آمروں کی حمایت کر رہا تھا۔ بیسویں صدی کے نصف عرصے میں ویتنام، کوریا، میانمار، چلی، برازیل، پیرو، ارجنٹینا وغیرہ میں تباہی مچا دی، ہر جگہ جمہوریت پسندوں کا صفایا کرا دیا گیا،مگر اب وہی امریکہ جمہوریت، اِنسانی حقوق، اظہارِ رائے کی آزادی کی ڈگڈی بجاتا پھر رہا ہے۔

مذکورہ تناظر میں یوکرین بڑا ہاٹ اسپاٹ بنتا جا رہا ہے۔ امریکہ کے ایف۔16 طیاروں کی آمد کے بعد فرانس اور دیگر ممالک بڑے پیمانے پر حساس خطرناک ہتھیار اور دفاعی امداد دے رہے ہیں۔مبصرین کا خیال ہے کہ امریکہ اور نیٹو ممالک جو کھیل یوکرین کو بکرا بنا کر کھیل رہے ہیں یہ انتہائی مخدوش اور حساس معاملہ ہے ،جس سے بڑی جنگ شروع ہو سکتی ہے اور یورپی ممالک کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ میڈیا کے مطابق روس اپنے بیش تر ہتھیار مشرقی یورپ میں بیلاروس میں جمع کر رہا ہے۔ اس تناظر میں بھی یوکرین دُنیا کا خطرناک ترین ہاٹ اسپاٹ بن چکا ہے۔

جہاں تک روس پر لگائی گئی پابندیاں بے اَثر ثابت ہو رہی ہیں، وہیں روس کئی ممالک کو تیل اور گندم فروخت کر رہا ہے، روس کے پاس تیل اور قدرتی گیس وافر مقدار میں موجود ہیں۔ اس سے تیل خریدنے والوں میں بھارت، پاکستان دونوں ممالک شامل ہیں۔ دُنیا میں سب سے زیادہ تیل کے ذخائر وینزویلا، روس، امریکہ، سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کے پاس ہیں۔

یوکرین میں، عوامی سطح پر حالات بہت اَبتر ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ عالمی سروے کے مطابق، ایک سال میں 85 لاکھ سے زائد یوکرینی باشندے ملک چھوڑ کر اطراف کے ملکوں میں بے آسرا پڑے ہیں۔ ہر دُوسرا بچّہ ، بالغان اعصابی دباؤ کے مریض بن چکے ہیں۔ امریکی حکومت کی ایک سروے ٹیم کے مطابق یوکرین میں عوام اعصابی دبائو، دماغی دبائو، سماجی دبائو کا شکار ہیں۔ یوکرینی فوجیوں کی حالت عام شہریوں سے زیادہ خراب ہے۔ اس طرح کے حالات نے پورے معاشرہ کو شدید متاثر کر رکھا ہے۔

یوکرین روس کی جنگ کے حوالے سے چند اہم خفیہ دستاویزات گم ہو چکی ہیں، جس پر بائیڈن انتظامیہ بہت پریشان ہے۔ ان دستاویزات میں ظاہر ہے بہت سے حقائق پوشیدہ ہوں گے۔

یورپی یونین کے ایک اہم عہدیدار نے میڈیا کو اپنا نام پوشیدہ رکھنے پر بتایا ہے کہ 50 ایف۔16 طیارے پولینڈ میں اُتر چکے ہیں اور جلد ہی وہ اپنا مشن شروع کر دیں گے۔ اس حوالے سے کریملن کی طرف سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے،البتہ گزشتہ اختتامی ہفتہ کو، روسی صدر، ولادی میر پیوٹن نےپُرجوش انداز میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ، روس کو کوئی طاقت جھکا نہیں سکتی جو لوگ روس کی جنگ کے حوالے سےحکمت عملی پر بات کرتے اور کہتے ہیں روس شکست کھائے گا وہ احمقوں کی جنّت میں رہتے ہیں۔

روسی صدر کے صلاح کار نے اپنے بیان میں کہا کہ اگر تمام مغربی طاقتیں ایک سازش کے تحت یوکرین کو مہلک ہتھیار نہ فراہم کرتیں تو جنگ بہت پہلے ختم ہو جاتی،مگر اب بات بہت آگے جا چکی ہے۔ مغرب ایک کے بعد دُوسرا پتہ کھول رہا ہے۔ ہم اس انتظار میں ہیں کہ سارے پتے کھل جائیں تو بہت کچھ سامنے آجائے گا۔ دراصل امریکہ اور نیٹو ممالک مشن یوکرین نہیں وہ صرف ایک بکرا ہے اصل مقصد یہ ہے کہ روس کو تقسیم کر کے یہاں دو درجن ریاستیں بنائی جائیں۔

یوکرین کے صدر حال ہی میں دو سو ارب ڈالر کی امداد لے چکے ہیں پھر بھی انہوں نے درخواست سب کو ارسال کی ہے کہ یوکرین کو ہتھیار اور مالی امداد دی جائے۔ درحقیقت نیٹو ممالک اس عسکری تنظیم کو مزید وسیع دینا چاہتے ہیں۔ امریکہ کا بھی یہی مؤقف ہے۔ حالیہ اختتامی ہفتہ، روسی صدر نے روسی قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ، جو جاری جنگ میں روس کی جلد شکست کی باتیں کر رہے ہیں وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ روس نے بہت سی جنگیں دیکھی بھی ہیں اور لڑی بھی ہیں۔ دراصل مغربی یورپی ممالک کا دیرینہ خواب ہے کہ، روس ایک بہت بڑے رقبے والا ملک ہے، یہاں گڑبڑ پھیلا کر اس کو مختلف حصوں میں بانٹا جائے۔

صدر پیوٹن نے کہا کہ یورپی یونین کو روسی تیل اور قدرتی گیس نہ ملے تو یہ سردی میں ٹھٹھر جائیں گے،امریکہ کچھ نہیں دے گا۔ تیل اور قدرتی گیس روس دے سکتا ہے۔ اس تمام گڑبڑ اور جعلی پروپیگنڈہ کا مقصد ہے کہ، روس کے تیل اور گیس کو کسی طرح ہتھیایا جائے۔ حال ہی میں کریملن پر ڈرون حملہ کیا گیا تاکہ روسی صدر کو راستے سے ہٹاکر وہاں ایک کٹھ پتلی حکومت قائم کی جائے۔

مسئلہ یہ ہے کہ روسی معیشت کا انحصار تیل کی آمدنی پر ہے۔ جب مارکیٹ میں تیل سستا ہو جاتا ہے تو روس کو نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔ دوسری طرف روس پر معاشی پابندیاں عائد ہیں۔ اس طرح مغربی ممالک روس کو زچ کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ اس منصوبہ کو آگے بڑھانے کیلئے برطانیہ نے یوکرین کو لزنگ رینج میزائل اور فرانس نے آٹھ لڑاکا طیارہ دینے کا اعلان کیا ہے۔

غرض یہ کہ مغرب جنگ کو طویل کرنا چاہتا ہے۔اس نے ویت نام سے افغانستان تک یہی کچھ کیا ہے۔ بعض خفیہ جائزوں میں یہ اشارہ دیا جا رہا ہے کہ امریکہ بہت جلد افغانستان کی طرف آنے والا ہے۔ افغانستان کے قدرتی وسائل اور قیمتی معدنیات پر امریکہ چین اور یورپی یونین کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔

یورپی یونین میں ماضی قریب کی سیاست اور معیشت کی باقیات کو جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ ان ملکوں میں برطانیہ، فرانس، اسپین، اٹلی، پرتگال سرفہرست ہیں۔ روس اور چین اپنے ملکوں میں ڈھیلی ڈھالی جمہوریت کچھ اظہار رائے کی آزادی سے روشناس کرا دے تو یورپی پروپیگنڈہ جلد ہی دم توڑ جائے گا۔ حقیقی آزادی اور انسانی حقوق دنیا میں کہیں نہیں ہیں۔ ہر جگہ دوہرا معیار کا سکہ چلتا ہے۔ امریکہ کی دوہری سیاست سب پر عیاں ہے۔

امریکہ میں چت بھی میری پٹ بھی میری کا سکہ چلتا ہے۔ تاہم یوکرین کے صدر زیلنسکی بھی چاہتے ہیں جنگ تادیر جاری رہے تاکہ ان کی اہمیت جو ،فی الفور مل رہی ہے، پیسہ مل رہا ہے، یہ سلسلہ جاری رہے۔ زیلنسکی کو اندازہ نہیں کہ امریکہ انہیں ابھی گلے لگارہا ہے، مگر کل جب معاملہ نمٹ جائے گا،وہ انہیں ٹشو پیپر کی طرح پھینک دے گا۔ عالمی سیاست عالمی اجارہ داروں پر چلتی ہے،جہاں زیلنسکی جیسے بہت آئے اور پھر معدوم ہوگئے۔ یوکرین کو اس نوجوان رہنما نے اپنی ضد میں کھنڈر بنوا دیا۔

بتایا جاتا ہے کہ کریملن پر ڈرون حملہ کیا گیا تا کہ روسی صدر کو راستے سے ہٹا کر وہاں ایک کٹھ پتلی حکومت قائم کی جائے۔ مسئلہ یہ ہے کہ روسی معیشت کا انحصار تیل کی آمدنی پر ہے۔ جب مارکیٹ میں تیل سستا ہو جاتا ہے تو روس کو نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔ دُوسری طرف روس پر معاشی پابندیاں عائد ہیں اس طرح مغربی ممالک روس کو زِچ کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ اس منصوبہ کو آگے بڑھانے کے لئے برطانیہ نے یوکرین کو لانگ رینج میزائل اور فرانس نے آٹھ لڑاکا طیارے دینے کا اعلان کیا ہے۔ غرض یہ کہ مغرب جنگ کو طول دینا چاہتا ہے، اس نے ویتنام سے افغانستان تک یہی کچھ کیا ہے۔

بعض خفیہ جائزوں میں یہ اشارہ دیا جا رہا ہے کہ امریکہ بہت جلد افغانستان کی طرف آنے والا ہے۔ افغانستان کے قدرتی وسائل، قیمتی معدنیات پر امریکہ چین اور یورپی یونین کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔ ایک سروے کے مطابق افغانستان میں لوہا، کوئلہ، سونا، تانبا، سنگ مرمر تمام اہم قدرتی وسائل اور معدنیات وافر مقدار میں ہیں۔ جن پر مغرب کی نظریں جمی ہوئی ہیں۔ اس تمام صورت حال میں ایک بڑی طاقت چین جو کہ فی الفور روس کا حمایتی ہے خاموش تماشائی ہے۔ اس حوالے سے مغربی سفارتکار مبصرین کا خیال ہے کہ چین کے اپنے عزائم ہیں، اس کے مفادات الگ ہیں، وہ کسی کا دوست نہیں جبکہ روس چین نے معاہدہ بھی کیا ہے مگر چین کا اپنا کھیل ہے۔ 

اس کا پہلا مقصد تائیوان کو چین میں ضم کرنا ہے، اس کے بعد صورت حال جیسی ہو، چین اپنی پالیسی وضع کرے گا۔ ایک لمحہ کے لئے سوچا جائے یورپی یونین کے اٹھارہ ممالک اور روس بکھر کر پندرہ بیس ریاستوں میں بٹ جاتا ہے تو یورپ کا کیا نقشہ بنے گا۔ روس کا رقبہ ہزاروں مربع کلومیٹر پر مشتمل ہے۔ فی الفور سائبیریا کے برفانی علاقہ کے نیچے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے آدھی دُنیا کا خزانہ موجود ہے، مگر اس خطّے میں کان کنی پر اخراجات بہت آ رہے ہیں۔ اتفاق سے قطب شمالی کا وہ علاقہ جو روس کے نقشے میں شامل ہے، وہاں بھی قیمتی معدنیات کے ذخائر موجود ہیں اس لئے بھی یورپی ممالک اور امریکہ ادھر نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔ 

اگر ایسی صورت حال بنتی ہے تو خطّے میں صرف چین بڑی طاقت رہ جائے گا، مغرب میں امریکہ موجود ہوگا۔ یہاں بھارت جو بڑھتی ہوئی معیشت کا ایک اہم ملک ہے اس کا مسئلہ پرانا ہے، ادھر چین ادھر امریکہ۔ یہ مخمصہ رہے گا کہ میں کدھر جاؤں ادھر جاؤں یا ادھر جائوں۔ یہ طے ہے کہ مشرق میں چین بڑی سپر طاقت اور مغرب میں امریکہ سپر پاور کا کردار ادا کریں گے۔ چین کے عزائم کچھ اور ہیں، بھارت چین سے ٹکر نہیں لے سکتا۔ ہرچندکہ بھارت کے سابق جرنلز دیگر مبصرین دعویٰ کرتے ہیں کہ بھارت ساٹھ کی دہائی میں نہیں بلکہ اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں ہے۔ 

مزید برآں چین نے خلاء میں اپنی کمند ڈال دی ہے، حال ہی میں چین کے تین خلاباز خلائی تحقیق کے لئے خلاء میں گئے ہیں، جہاں وہ خلائی اسٹیشن تعمیر کر رہے ہیں۔ دُوسرے لفظوں میں اب چین خلائی تنصیبات میں بھی ماہر ہوگیا ہے۔ چین کے دو ممالک یار ہیں ایک شمالی کوریا جو ہر ماہ ،امریکہ کے قریب سمندر میں میزائل کا تجربہ کرتا رہتا ہے دُوسرا یار پاکستان ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ دونوں ممالک معاشی طور پر تباہ حال ہیں۔ مذکورہ خیالی خاکہ کہ اگر درجن بھر سے زائد حصوں میں تقسیم ہو جائے تو کیا ہو سکتا ہے،مگر روس ایک سپر طاقت کے طور پر موجود ہے۔ 

ایسے میں نئی صورت حال میں جبکہ امریکہ نے ایف۔16 طیاروں کو میدان میں اُتار دیا ہے تو روس اپنی طاقت مشرقی یورپ میں دوست ملکوں میں میزائل نصب کر رہا ہے ،اس صورت حال میں یورپی یونین اور مشرقی یورپی ملکوں کو سنجیدگی سے سوچنا چاہئے کہ جنگ کو مزید طول دینے میں ان کا فائدہ ہے یا گھاٹے کا سودا ہے۔ جنگ جہاں بھی ہو صرف اور صرف بربادی پھیلاتی ہے۔ یورپی یونین میں ماحولیات کی سربراہ ایلن اسمتھ کہتی ہیں کہ سال 2023ء کی پہلی سہ ماہی کی جائزہ رپورٹ میں قدرتی ماحولیات اور موسمی تغیرات کے حوالے سے جو رپورٹ مرتب ہوئی ہے وہ سب کی آنکھیں کھول دینے کے لئےکافی ہے۔ 

سچ تو یہ ہے کہ دُنیا عمومی حالت میں ایک اور جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتی، پھر بھی یہ مہم جو باز نہ آئے تو مان لیں کہ اختتام جنگ کسی کو کچھ حاصل نہ ہوگا۔ سیاسی پنڈت اندازے لگاتے رہے ہیں کہ دُنیا کے ہاٹ اسپاٹس میں یوکرین، تائیوان، کشمیر اور فلسطین کے مسئلے پر جنگ شروع ہوتی ہے تو کیا نقصان ہوگا یا کسی کو کیا فائدہ ہوگا۔ دُنیا اس وقت بہت سے حساس مسائل میں اُلجھتی جا رہی ہے۔ آبادی میں تیزی سے اضافہ، خوراک کی پیداوار اور پینے کے صاف پانی میں کمی، تعلیم، صحت عامہ و دیگر مسائل مثلاً بے روزگاری، مہنگائی، علاقائی تنازعات و غیرہ۔

مسائل زیادہ وسائل کم ہو رہے ہیں۔ امریکہ کی عموماً یہی پالیسی رہی ہے کہ دُنیا میں کہیں نہ کہیں جنگ ہوتی رہے تا کہ امریکہ اور اس کے حواریوں کا لوٹ مار کا سلسلہ جاری رہے۔ واضح رہے کہ اَسّی کی دہائی میں عراق، کویت جنگ کے دوران امریکی صدر جارج بش اور برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر نے ملینز آف ڈالر عراقی حکومت سے وصول کئے ،کیونکہ صدر صدام حسین ان کی آنکھوں میں کھٹک رہا تھا ،اسی طرح معمر قذافی کے ساتھ جو کیا وہ ان کے نام بڑا دھبہ ہے۔ اس طرح دُوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ اور اس کے حواریوں نے بے شمار داغ لگائے، انسانیت کو بار بار تار کیا ہے۔ 

دُنیا میں تعلیم، تحقیق، روزگار، بھوک، غربت اور پسماندگی کے خاتمے میں کام کر کے نام کما سکتا تھا، مگر امریکہ نے دُوسرے راستے کا انتخاب کر کے دُنیا کے مسائل میں بے تحاشا اضافہ کیا۔ یوکرین جدید دور کا بڑا ٹیسٹ چیک ہے۔ اس حوالے سے کوئی بڑی خبر آ سکتی ہے کیونکہ امریکہ نے جمہوریت، انسانی حقوق، اظہار رائے کی آزادی کے عنوان سے انسانیت کو بار بار داغ لگائے ہیں۔ عام خیال یہ ہے کہ دُنیا بدل رہی ہے۔ امریکہ زیادہ عرصہ اپنی من مانی ہٹ دھرمی پوری نہیں کرسکے گا۔