گزشتہ برس کے تمام ایّام اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی بےرحمانہ شہادت اور ان پر اسرائیلی قہر برسنےکی ہول ناک خبروں سے پُر رہے۔ یہ دردناک اور دل خراش داستان تو اکتوبر 2023 سےجاری تھی۔ لیکن 2024 کا آ غاز اور اختتام عالمی سیاست میں دو حیرت انگیز واقعات سے ہوا۔17جنوری کوایران کی سکیورٹی فورسز نے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے صوبہ بلوچستان کے ایک سرحدی گاؤں سبزکوہ میں رہائشی علاقے کو میزائل اور ڈرونز سے نشانہ بنایا۔
پاکستانی حکام کے مطابق جس علاقے کو نشانہ بنایا گیا وہ پنجگور شہر سے تقریباً 90 کلومیٹر دور اور ایران کی سرحد کے قریب واقع ہے۔ پاکستان کے دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ ایران کی جانب سے کی گئی فضائی حدود کی اس ’’غیر قانونی‘‘خلاف ورزی کے نتیجے میں دو بچے ہلاک اور تین لڑکیاں زخمی ہوئیں۔ پاکستان نے ایران کی جانب سے کی جانے والی اس کارروائی کی شدید مذمت کی اور کہا کہ پاکستان کی خود مختاری کی یہ خلاف ورزی مکمل طور پر ناقابل قبول ہے اور اس کے سنگین نتائج نکل سکتے ہیں۔
اس کارروائی پر پاکستان میں ایرانی ناظم الامور کو وزارت خارجہ میں بلایا گیا تاکہ پاکستان کی خود مختاری کی اس صریحاً خلاف ورزی کی شدید مذمت کی جائے۔ پاکستان نے کہا کہ اس غیر قانونی اقدام کے تمام تر نتائج کی ذمے داری پوری طرح سے ایران پر عائد ہو گی۔ پاکستان نے دونوں ممالک کی مشترکہ سرحد کے قریب حملے کی مذمت کی، ایران سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا اور تہران کے ایلچی کو اسلام آباد واپس آنے سے روک دیاتھا۔
ایران کا موقف تھاکہ اس نے پاکستان میں جیش العدل کے عسکریت پسندوں کے مبیّنہ مرکز پر حملہ کیا ،کیوںکہ یہ دہشت گرد گروہ مبیّنہ طور پر ایران میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوّث ہے۔ ایران کے وزیرِ خارجہ حسین امیر عبداللہیان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سرزمین پر ایران کا حملہ اسلامی جمہوریہ ایران، خصوصاً اس کے جنوب مشرقی صوبے سیستان-بلوچستان کے شہر راسک پر جیش العدل گروپ کے حالیہ مہلک حملوں کا جواب تھا۔
یاد رہے کہ 10 جنوری کو شہر کے ایک پولیس اسٹیشن پر حملے میں ایک پولیس اہل کار ہلاک ہو گیا تھا۔ یہ حملہ اس علاقے میں اسی طرح کے ایک حملے میں 11 پولیس اہل کاروں کی ہلاکت کے تقریباً ایک ماہ بعد ہوا تھا۔ دونوں حملوں کی ذمےداری ایک انتہا پسندگروہ، جیش العدل نے قبول کی تھی جو 2012 میں تشکیل دیا گیا تھا اور جسے ایران نے ’’دہشت گرد گروہ‘‘ کے طور پر بلیک لسٹ کیا ہوا ہے۔
پاک، ایران کشیدگی اور پاکستان کا جواب
ایران کی اس کارروائی کےتقریبا چوبیس گھنٹے بعد پاکستان کی فضائیہ نے بلوچ عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بناتے ہوئے علی الصباح ایران پر جوابی فضائی حملے کیے۔ بعض اطلاعات کے مطابق اس حملے میں کم ازکم سات افراد ہلاک ہوئے اور ہم سایہ ممالک کے درمیان تناؤ میں مزید اضافہ ہوگیا تھا۔
ایرانی ذرایع ابلاغ کے مطابق کئی میزائل پاکستان کی سرحد سے متصل صوبے سیستان-بلوچستان کے ایک گاؤں پر گرے جس میں تین خواتین اور چار بچے ہلاک ہوئے جو تمام غیر ایرانی تھے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق ’’ مرگ بر سرمچار‘‘ نامی آپریشن میں دہشت گردوں کو ڈرونز، راکٹوں، بارودی سرنگوں اور اسٹینڈ آف ہتھیاروں سے نشانہ بنایا گیا۔
سیستان میں کالعدم بی ایل اے اور بی ایل ایف کی پناہ گاہوں پر حملے میں متعدد دہشت گرد ہلاک ہوگئے۔ ضمنی نقصان سے بچنے کے لئے زیادہ سے زیادہ احتیاط برتی گئی۔ بلوچستان لبریشن آرمی اور بلوچستان لبریشن فرنٹ نامی دہشت گرد تنظیموں کے زیر استعمال ٹھکانوں کو انٹیلی جنس پر مبنی آپریشن میں کام یابی سے نشانہ بنایا گیا۔ نشانہ بنائے گئے ٹھکانے بدنام زمانہ دہشت گرد استعمال کر رہے تھے۔
ایران کی اس کارروائی پرپوری دنیا حیران تھی۔ اگرچہ ایران اور پاکستان کے درمیان ماضی میں بھی سرحد پر واقعات ہوتے رہے ہیں، لیکن میزائل داغنے جیسا انتہائی اقدام پہلی مرتبہ اٹھایا گیا تھا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایران کا یہ اقدام اپنے عوام کومطمئن کرنے کے لیے تھا جو اس کارروائی سےکچھ عرصہ قبل ہونے والے دہشت گردحملوں کے بعد حکومت پر تنقید کررہےتھے۔ تاہم بعد میں فریقین نے معاملےکو بڑھانے کے بجائے سلجھا لیا تھا۔
شام میں بشارالاسد کی حکومت کا خاتمہ
سال کی دوسری حیران کن خبر شام میں بشارالاسد کی حکومت کےخاتمے کی تھی۔ یکم دسمبر کو شام میں بشار الاسد کی حکومت کے مخالف باغیوں کے حملے کے بعد سکیورٹی فورسز حلب شہر سے نکل گئی تھیں اور شامی فوج نے تصدیق کی تھی کہ باغیوں کی بڑی تعداد ملک کے دوسرے بڑے شہر کے بڑے حصوں میں داخل ہوگئی ہے۔
اس سے قبل بشار الاسد نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ تمام دہشت گردوں اور ان کے حامیوں کا مقابلہ کیا جائے گا اور ملکی استحکام اور علاقائی سالمیت کا دفاع کریں گے۔ اسی روز شام کے شہر ادلب پر شامی صدر کے مخالف باغیوں کے قبضہ کے بعد روسی اور شامی فضائیہ نے باغیوں کے ٹھکانوں پر شدید بم باری کی تھی جس سے 4 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
شام میں صدر بشار الاسد اور حکومت مخالف گروپوں کے درمیان تنازع برسوں پرانا ہے۔ تاہم نومبر کے اواخر سے شروع ہونے والی کشیدگی کے دوران حکومت مخالف حیات تحریر الشام اور اس کے اتحادی دھڑوں نےسات دسمبر تک کسی بڑی مزاحمت کا سامنا کیے بغیر ادلب، حلب اور حماۃ شہر پر قبضہ کر لیا اور مقامی دھڑوں نے صوبہ درعا کے مزید علاقوں پر کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔
شام کے جنوبی شہر درعا میں ہی 2011 یں بشارالاسد حکومت کے خلاف بغاوت کا آغاز ہوا تھا۔ یہ ایک ہفتے میں شام کی سرکاری افواج کے ہاتھوں سے نکل جانے والا چوتھا شہرتھا۔
آٹھ دسمبر کو یہ خبر آگئی کہ شام کے معزول صدر بشار الاسد اور اُن کا خاندان روس پہنچ گیا ہے۔ تقریباً 14سال تک، شام کے معزول صدر بشار الاسد نے عرب اسپرنگ (عرب شورش) کے خلاف مزاحمت کی جس نے پورے خطے کے رہنماؤں کو بے دخل کر دیا تھا۔
روس اور ایران کی حمایت کے ذریعے بشارالاسد نے اپنے اقتدار کو برقرار رکھا۔ 2010 کے اواخر میں تیونس سے شروع ہونے والی جمہوریت نواز تحریک پورے خطے میں پھیل گئی، جس نے تیونس، لیبیا، مصر، یمن اور بالآخر سوڈان میں مطلق العنان حکم رانوں کا تختہ الٹ دیاتھا اوربالآخر دس دسمبر کو محمد البشیر کو شام کی عبوری حکومت کا نگران وزیر اعظم مقرر کردیا گیا تھا۔
کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ شامی فوج باغیوں سے لڑنے سے انکار کردے گی۔ باغیوں کا دمشق پر قبضہ سیاسی زلزلے سے کم نہیں تھا اور یہ شامی حکومت کے اتحادیوں کےلیے بھی بڑا دھچکا تھا۔ بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے سے مشرق وسطیٰ میں فوجی اور سیاسی توازن میں بڑی تبدیلی آنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
شام میں اسرائیل کی جانب سے بڑے پیمانے پر اور سرعت سے کی جانے والی کارروئیاں اسی تناظر میں دیکھی جارہی ہیں۔ دراصل شام میں خانہ جنگی کے آغاز سے ہی اسرائیل اس میں کافی متحرک طور پر شامل رہا ہے اور اس نے سنہ 2015 سے ان اہداف کے خلاف فضائی حملے شروع کیے جو شام اور لبنان دونوں میں ایران اور حزب اللہ سے منسلک سمجھے جاتے ہیں۔
اس سے قبل اسرائیل نے خفیہ طور پر ان گروہوں کی مدد اور حمایت کی تھی جو اسرائیل، شام سرحد پر شامی فوج کے خلاف لڑ رہے تھے۔ اسرائیلی میڈیا اور حکام کی جانب سے بعدازاں کیے جانے والے انکشاف کے مطابق اس اسرائیلی حمایت میں ان گروہوں کے لیے طبی امداد، خوراک، عسکری تربیت، اسلحہ کی فراہمی شامل تھی۔
شام میں حیات تحریر الشام کی زیر قیادت باغی جنگ جوؤں کی تیزی سے پیش قدمی اور حساس علاقوں پر ان کے قبضے نے اسرائیل کو شام کے حوالے سے اپنی سیاسی حکمت عملی کا از سر نو جائزہ لینے پر مجبور کیا۔
فلسطینیوں کے نوحے اور اسرائیل کی بڑھتی ہوئی وحشت
گزشتہ پورے سال اسرائیل، مقبوضہ فلسطینی علاقوں، شام اور لبنان میں بغیر کسی روک ٹوک کے فوجی کارروائیاں کرتا رہا۔ اگر یہ کہا جائے کہ گزشتہ برس اسرائیل کے لیے دنیا کاکوئی قانون اور ادارہ رکاوٹ نہیں تھا اور پورے سال اسرائیل کے وزیر اعظم شاید دنیا کے سب سے طاقتور سیاسی عہدے دار کے طور پر نظر آئے تو یہ بے جا نہ ہوگا۔
حتی کہ غزہ کے محکمۂ صحت کے ڈائریکٹر نے انکشاف کیا کہ اسرائیلی افواج انسانی جسم تحلیل کرنے والے ممنوع ہتھیار استعمال کر رہی ہیں جن سے لاشیں بخارات بن جاتی ہیں۔ لیکن کسی کے کان پر جوں نہ رینگی۔ واضح رہے کہ غزہ میں 7اکتوبر 2023ء سے جاری اسرائیلی مظالم کے نتیجے میں دسمبر کے پہلے ہفتے تک تقریباً 44 ہزار 429 فلسطینی شہید، 1 لاکھ 5 ہزار 250 افراد زخمی ہو چکے تھے۔
بیس دسمبر کو ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے کہا کہ غزہ کے اسپتالوں کا کھنڈرات میں تبدیل ہونا فلسطینی نسل کشی کے واضح آثار ہیں، اس کے باوجود غزہ جنگ بندی کے لیے بات چیت میں اختلافات برقرار ہیں۔ واضح رہے کہ یہ مذاکرات وقتا فوقتا ہوتے تو رہے، لیکن اٹھائیس دسمبر تک یہ نتیجہ خیز نہیں ہوسکے تھے۔ شاید یہ بھی اسرائیل کی ایک چال ہی ہے۔
اس سارے عرصے میں اسرائیل نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں تسلسل سے فوجی کارروائیاں جاری رکھیں اور وقتا فوقتا لبنان، شام، ایران اور یمن میں بھی کھلم کھلا کاروائیاں کیں۔
اس نے ایران میں حماس کے راہ نما اسماعیل ہنیہ اور غزہ میں یحی سنوار کو اورحزب اللہ کے راہ نماحسن نصراللہ کو لبنان کے دارالحکومت بیروت میں بہت ڈھٹائی سے شہید کیا ،لیکن کسی نے اس سے کوئی سوال نہیں کیا، ہاں چند مذمتی یا تشویش ظاہر کرنے والے بیانات ضرور آئے۔
اس دوران ایران نے بھی اسرائیل پر میزائیل اور ڈرونز سے حملے کیے ،حوثی باغیوں اور حزب اللہ نے بھی ایسا کیا ،لیکن اسرائیل پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا۔
چھ دسمبر کو انسانی حقوق کی علم بردار تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک رپورٹ جاری کی جس میں اس نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اسرائیل اور اس کی فوج نے 1948 کے اقوام متحدہ کے حمایت یافتہ ’’نسل کشی کنونشن‘‘ کی خلاف ورزی کی ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے جس کنونشن کا حوالہ دیا ہے اس میں نسل کشی سے مرادکسی قوم، نسلی یا مذہبی گروپ کو مکمل یا جزوی طور پر تباہ کرنے کے ارادے سے کی جانے والی کارروائیاں ہیں۔ تاہم اس پر اسرائیل کا کہنا تھاکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ مکمل طور پر غلط اور جھوٹ پر مبنی ہے۔
اسرائیل نے انسانی حقوق کے نگراں ادارے کو افسوسناک اور جنونی تنظیم قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی تھی۔ ادہر امریکا نے، جو اسرائیل کو اسلحہ فراہم کرنے والا سب سے اہم ملک ہے، کہا کہ وہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے نتائج سے متفق نہیں ہے۔
یوکرین اور روس کی جنگ
یہ جنگ بھی سارا سال چلتی اور جانی اور مالی نقصانات کرتی رہی۔لیکن بیس دسمبر کو اس کے حل کا ایک موہوم سا اشارہ ملا، جب روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا کہ وہ نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ کسی بھی وقت ملاقات اور یوکرین کے ساتھ جنگ پر سمجھوتے کے لیے تیار ہیں۔
تاہم بین الاقوامی امور پر پر نظر رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ ابھی تمام فریقوں کی اعلٰی قیادتوں کو بھی اندازہ نہیں ہے کہ یہ معاملہ کہاں جا کر رکے گا۔
پندرہ نومبر کو اس جنگ کے ہزار دن مکمل ہوئے تو صورت حال یہ تھی کہ ملک میں اقوام متحدہ کے نمائندے اور امدادی رابطہ کار میتھائس شمالے نے جنیوا میں صحافیوں کو بتایا کہ اس جنگ میں یوکرین کے 12 ہزار سے زیادہ شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ روس کے حملوں میں شہری تنصیبات کو بھی بڑے پیمانے پر نقصان ہوا ہے جن میں 20 لاکھ سے زیادہ گھر اور 2,000 سے زیادہ طبی مراکز بھی شامل ہیں۔
ملک کی تقریباً 40 فی صد آبادی کو انسانی امداد کی ضرورت ہے۔ توانائی کے نظام پر متواتر حملوں کے باعث بجلی کی ترسیل، حرارت حاصل کرنے کے نظام اور پانی کی فراہمی میں بڑے پیمانے پر خلل آیا ہے جس کے باعث بلند رہائشی عمارتوں میں رہنے والوں کی مشکلات اور بھی بڑھ گئی ہیں۔
بنگلا دیش میں حسینہ واجد کی حکومت کا خاتمہ
بنگلا دیش میں ہفتوں سے جاری پر تشدد عوامی احتجاج کے نتیجے میں اگست کے پہلے ہفتے میں حسینہ واجد نے ملک چھوڑ دیا تھا۔ معزول وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے بھارت چلے جانے کے بعد نوبیل امن انعام یافتہ محمد یونس کو عبوری حکومت کا سربراہ منتخب کیا گیا تھا۔
پروفیسر محمد یونس نے عزم ظاہر کیا تھا کہ وہ جلد ملک میں حالات معمول پر لاکر اصلاحات کا سلسلہ شروع کریں گے اور عبوری حکومت اصلاحات کے ایک سلسلے کے بعد ملک کو نئے انتخابات کے لیے تیار کرے گی۔
ٹرمپ کی حیران کن جیت
نومبر کے مہینے میں امریکا میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ پھر جیت تو گئے، لیکن ملکی اور عالمی سطح پر بہت سے چیلنجز ان کے سامنے ہیں، سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اب وہ کیا کریں گے؟ کیا وہ اپنے ماضی اور شخصی کردارو عادات سے جان چھڑاکر نئی تاریخ رقم کرسکیں گے؟
ان کی جیت کے بعد کوئی سوال کررہا تھا کہ وہ کیسے اور کیوں جیتے، کوئی پوچھ رہا تھا کہ کیا وجہ ہے کہ ٹرمپ جیسے متنازع صدارتی امیدوار نے رائے دہندگان کو اپنی جانب راغب کرلیا، کہیں یہ استفسار کیا جارہا تھا کہ اب امریکا اور دنیا کا کیا ہوگا؟ کہیں اس اندیشے کا اظہار کیا جارہا تھا کہ اب دنیا بالکل بدل جائے گی۔ ہمارے جیسے ملکوں میں یہ سوال کیا جارہا ہے کہ وہ ہمارے اندرونی معاملات پر کس طرح اثر انداز ہوسکتے ہیں؟
سیاسیات کے ماہرین کے مطابق ٹرمپ کی قیادت میں امریکا کی داخلی اور خارجی پالیسیوں میں تبدیلیاں آسکتی ہیں، اور ان کے سخت گیر نظریات اور پالیسیوں کے اثرات دنیا بھر میں محسوس ہوں گے۔ ان کاپہلا دور ان کی سب سے پہلے امریکا کی پالیسیوں کی وجہ سے جانا جاتا ہے، جس کے تحت انہوں نے داخلی اور خارجی دونوں سطحوں پر امریکا کے مفادات کو ترجیح دی۔
انہوں نے امیگریشن، تجارتی معاہدوں، اور امریکی صنعتوں کی حمایت کے ضمن میں سخت فیصلے کیے تھے اور ان کا یہ رویہ اب بھی جاری رہنے کی توقع ہے۔ ان کی دوسری مرتبہ کام یابی کے بعد امریکا کی امیگریشن پالیسی میں مزید سختی آنے کی توقع ہے۔
جنوبی کوریا میں مارشل لا کا نفاذ اور اختتام
جنوبی کوریا کے صدر یون سوک یول نے چار دسمبر کو اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ملک میں مارشل لا نافذ کردیا تھا، تاہم انہوں نے 6 گھنٹوں کے اندر ہی اسے اٹھانے کا اعلان کر دیا۔ غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق 44 سال بعد آئین کے آرٹیکل 77 کے تحت صدر نے اختیار کا استعمال کرتے ہوئے مارشل لا نافذ کیا تھا۔
صدر یون سوک یول کی جانب سے مارشل لا کے اعلان نے قوم کو حیران کر دیا تھا، لیکن پارلیمنٹ کی مزاحمت کے بعد انہیں اپنا یہ فیصلہ واپس لینا پڑا۔ اس غیر متوقع اقدام کے خلاف سیول میں ہزاروں مظاہرین نے ان کی گرفتاری کا مطالبہ کیاتھا اور ان کے اور نائب صدر کے خلاف پارلیمان میں مواخذے کی تحریک جمع کرائی گئی تھی۔
صدر یون سک یول نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اپوزیشن کی ریاست مخالف سرگرمیوں کے باعث ملک میں مارشل لا نافذ کردیا گیاہے۔ تاہم اپوزیشن جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ نے مارشل لا کے نفاذ کو غیر آئینی قرار دیا۔
دوسری جانب خبررساں ایجنسی کی جانب سے بتایا گیا کہ پولیس نے جنوبی کوریا کی پارلیمنٹ کے داخلی راستے بند کردیے ہیں اور اراکین کو پارلیمنٹ میں داخلے سے روک دیا گیا، تاہم اراکین پولیس سے جھڑپوں کے بعد پولیس کا حصار توڑتے ہوئے پارلیمنٹ میں داخل ہوگئے تھے۔ بعد ازاں پارلیمنٹ کی جانب سے مارشل لا کے خلاف ووٹ دیے جانے پر صدر نے مارشل لا اٹھانے کا اعلان کردیا تھا۔
جنوبی کوریا کے صدر نے مواخذے کے لیے ہونے والی ووٹنگ سے پہلے ملک میں مارشل لگانے پر معافی مانگ لی تھی، لیکن انہوں نے مستعفی ہونے سے گریز کیا تھا۔ چودہ دسمبر کو جنوبی کوریا میں 6 گھنٹے مارشل لاء لگانے والے صدر یون سک یول کے خلاف مواخذے کی دوسری تحریک دو تہائی کی اکثریت سے کامیاب ہو گئی تھی۔ مواخذے کی دوسری تحریک کام یاب ہونے کے بعد صدر کو ان کے فرائض سے معطل کر دیا گیا تھا۔
فرانس میں وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کام یاب، وزیراعظم مستعفیٰ
چار دسمبر کو فرانس میں 1962 کے بعد پہلی بار وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کام یاب ہوگئی۔ تحریک کے حق میں 331 ووٹ آئے جب کہ کام یابی کے لیے 288 ووٹ درکا تھے۔ حکومت کا حزب مخالف سے اختلاف بجٹ پر بحث سے شروع ہوا تھا۔
انتہائی دائیں اور انتہائی بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ نے وزیر اعظم کے خلاف ووٹ دیا۔ عدم اعتماد کی تحریک کام یاب ہونے کے بعد وزیراعظم مچل برنیئر کو مجبورا استعفی دینا پڑا۔ بجٹ سے شروع ہونے والے تنازعے کے بعد ملک میں انتہائی دائیں اور انتہائی بائیں بازو کی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمنٹ نے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر عدم اعتماد کی تحریک کے حق میں فیصلہ دیا۔
فرانس پر یورپی یونین کی جانب سے اپنے بھاری قرضوں کو کم کرنے کے لیے دباؤ ہے۔ اس سال ملک کا خسارہ مجموعی قومی پیداوار کے 6 فیصد تک پہنچنے کا تخمینہ ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر فرانس کی حکومت نے سخت اقدامات نہ کیے تو اس کا خسارہ اگلے سال بڑھ کر 7 فیصد تک پہنچ سکتا ہے۔ سیاسی عدم استحکام کے نتیجے میں فرانس میں شرح سود میں اضافہ ہونے سے معشت پر دباؤ مزید بڑھ سکتا ہے۔
دوسری جانب صدر ایمانوئل میخواں نے کہا ہے کہ وہ 2027تک اپنی مدت پوری کریں گے۔ تاہم انہیں جولائی میں آئین ساز اسمبلی کے انتخابات کے بعد دوسری مرتبہ ایک وزیراعظم کا تقرر کرنے کی ضرورت ہے۔ بعد میں فرانس کے صدر میکرون نے فرانس کے نئے وزیر اعظم کے طور پر سینٹرسٹ فرانکوئس بیرو کو نیا وزیراعظم نامزد کردیا تھا۔ فرانکونس بیرو ایک سینئر سیاست دان اور فرانس کے معروف سیاست داں ہیں۔
پاکستان کی افغانستان میں فضائی کارروائی
26 دسمبر 2024 کو پاکستان نے افغان صوبے پکتیکا میں فضائی کارروائی کرکے درستی سے خوارج کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں اہم کمانڈرز سمیت 71 سے زائد خوارج ہلاک اور خودکش جیکٹ کی فیکٹری سمیت 4؍ اہم مراکز تباہ ہوگئے۔
پاکستانی حکام کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے ارگرد کی آبادی مکمل محفوظ رہی، افغان طالبان کو بہتر تعلقات کے لیے وعدے پورا کرنا ہوں گے۔
دوسری جانب افغان وزارت دفاع نے کہا کہ46سویلین مارے گئے، پاکستان کی کارروائی کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ اس کارروائی پر افغان وزارت خارجہ نے کابل میں پاکستانی ناظم الامور کو طلب کرکے احتجاجی مراسلہ حوالے کیا۔
پاکستان کے حکام کے مطابق اس کارروائی میں خوارج کے چار اہم مراکز تباہ کر دیے گئے، جن میں سے ایک خودکش جیکٹ بنانے والی فیکٹری اور ان کاعمر میڈیا سیل ھی شامل ہے۔
یاد رہے کہ یہ پہلی بار نہیں تھا کہ پاکستان نے سرحد پار کارروائیاں کی ہیں۔ ماضی میں بھی پاکستان نے افغانستان میں ڈرون حملے کرکے خوارج کو بھاری نقصان پہنچایا تھا۔
اس وقت افغان طالبان نے یقین دہانی کرائی تھی کہ افغانستان کی سرزمین سے پاکستان پر کوئی حملہ نہیں ہوگا۔ لیکن افسوس کہ افغان طالبان اپنے وعدے پورے کرنے میں ناکام رہے ہیں اور وہ قطر معاہدے سے بھی منحرف ہوگئے ہیں۔