جنگ تھم چکی ہے، الزامات اور بیانات کی گھن گرج جاری ہے یکم اپریل کو شامی دارالحکومت دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر ہونیوالے حملے میں پاسداران انقلاب کے سات اہلکار اور چھ شامی باشندے ہلاک ہوئے تھے گوکہ ایران نے اس حملے کی تمام تر ذمہ داری اسرائیل پر عائد کی تھی اور اس حملے کیخلاف شدید ردعمل دینے کی دھمکی بھی دی تھی جبکہ بین الاقوامی فضا بھی اسے اسرائیل کی جانب سے غیر اعلانیہ حملہ قرار دے رہی ہے، تاہم اسرائیل کی جانب سے ابھی تک اس حملے کی تصدیق نہیں کی گئی ہے لیکن اپنے موقف پر قائم اور پراعتماد ایران نے 300 ڈرونز اور میزائیلوں کے ذریعے اسرائیل پر حملہ کیا، تاہم اس حملے میں نہ تو کوئی نقصان ہوا اور نہ ہی انسانی ہلاکتیں ہوئیں۔
ایرانی فوج نے برملا اپنے موقف کا اعادہ کرتے ہوئے تصدیق کی کہ ایران نے اسرائیل پر یہ حملہ دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر ہونے والے اسرائیلی حملے کے جواب میں کیا تھا اور اس نے اپنے تمام اہداف حاصل کرلئے ہیں اور اب اسرائیل مسلسل ایران کے حملے کا جواب دینے کے عزم کو دہرا رہا ہے۔
اسرائیلی حکام نے ابھی تک اپنے لائحہ عمل کا باضابطہ اعلان نہیں کیا ہے جبکہ امریکی حکام کا بھی یہ کہنا ہے کہ اسرائیل نے تاحال امریکاکو اپنے آئندہ کے اقدام سے آگاہ نہیں کیا ہے، تاہم گمان اور امکان ہے کہ اسرائیل کا کوئی بھی اقدام محدود پیمانے پر ہوگا جیسے خطے میں ایرانی حمایت یافتہ گروہوں پر حملے یا ایران پر سائبر حملہ وغیرہ۔ تاہم امریکی کوششوں سے اگر اسرائیل جوابی کارروائی سے گریز کرتا ہے اور ایران کیخلاف کوئی جنگی اقدام نہیں کرتا تو وہ بین الاقوامی برادری میں اپنی ساکھ قائم کرسکتا ہے اور اپنے روایتی مخالفین کی شدت کو بھی کم کرسکتا ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان 1979 ءتک ایک اتحادی ملکوں کی حیثیت سے شاندار تعلقات تھے تاہم اس کے بعد جب ایران میں اسلامی انقلاب آیا تو دونوں ملکوں کے درمیان فاصلے بڑھنے لگے اور اسرائیل کی مخالفت ایران کی حکومت کا مستقل بیانیہ بن گیا اور اب نوبت اس انتہا تک پہنچ گئی ہے کہ ایران نے پہلی مرتبہ اسرائیل پر اعلانیہ حملہ کرکے عالمی طاقتوں کو بھی تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔
گوکہ اب جنگ تھم چکی ہے لیکن الزامات، دعوؤں، دھمکیوں اور بیانات کی گھن گرج جاری ہے۔ وضاحتوں اور تردیدوں کا مقابلہ بھی فریقین کے درمیان ہو رہا ہے جن میں اتنی شدت پیدا ہوتی جارہی ہے کہ کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ تھم جانے والی جنگ کب دوبارہ شروع ہو جائے جس کے بارے میں عسکری ماہرین اور صورتحال پر نگاہ رکھنے والے عالمی اداروں کو خدشہ ہے کہ اگر جنگ دوبارہ شروع ہوئی تو یہ صرف اسرائیل اور ایران تک محدود نہیں رہے گی بلکہ دونوں ملکوں کی حامی طاقتیں بھی آمنے سامنے آسکتی ہیں اور یہ جنگ خطے سے نکل کر عالمی جنگ بھی بن سکتی ہے لیکن شاید ایسا نہ ہو کیونکہ ایٹمی طاقتیں کبھی ایسا نہیں ہونے دیں گی۔
یہاں یہ خیال بھی کیا جاتا ہے کہ کیا ایران اور اسرائیل خود بھی ایٹمی طاقتیں بن چکی ہیں، عالمی جریدوں کی رپورٹس کے مطابق یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اسرائیل کے پاس جوہری ہتھیار موجود ہیں لیکن اس نے دانستہ اس بارے میں ایک غیر واضح صورتحال پیدا کر رکھی ہے اور جان بوجھ کر ابہام کی سرکاری پالیسی اختیار کی ہوئی ہے۔
دوسری طرف ایران قطعیت کے ساتھ جوہری ہتیھاروں کی موجودگی سے انکار کرتا ہے اور وہ اس تاثر کو بھی الزام قرار دیتے ہوئے اس سے انکار ی ہے کہ وہ جوہری ریاست بننے کیلئے اپنے سویلین جوہری پروگرام کا استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اگر عالمی رپورٹوں کی موجودگی میں ایران اور اسرائیل کی فوجی صلاحیتوں کا جائزہ لیا جائے تو ایران جغرافیائی طور پر اسرائیل سے بہت بڑا ملک ہے اور اس کی آبادی 9 کروڑ سے زیادہ ہے جو اسرائیل سے 10 گنا زیادہ ہے۔ لیکن ایران کو اسرائیل پر یہ برتری صرف آبادی اور زمینی حجم تک ہے ایران نے میزائیلوں اور ڈرونز میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے اور اس کے پاس ہتھیاروں کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے۔
اسرائیل کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایران خطے میں اپنی ’’پراکسیسز‘‘ یعنی یمن میں حوثیوں اور لبنان میں حزب اللہ کو بھی بھاری مقدار میں ہتھیار سپلائی کر رہا ہے، تاہم اسرائیل کے مقابلے میں ایران کے پاس جدید دفاعی فضائی نظام اور لڑا طیاروں کی کمی ہے اور یہ تاثر بھی موجود ہے کہ ایران اس کمی کو پورا کرنے کیلئے روس یوکرائن کی جنگ میں مدد کے بدلے ایران کے ساتھ اس ضمن میں تعاون کر رہا ہے۔
اس کے برعکس اسرائیل کے پاس دنیا کی جدید ترین افواج میں سے ایک ہے۔ بین الاقوامی ادارے ملٹری بیلنس رپورٹ کے مطابق اسرائیل کے پاس جیٹ طیاروں کے لگ بھگ 14 سکوارڈرن ہیں جن میں ایف 16، ایف 15 اور جدید ترین ایف 35سٹیلتھ جٹ شامل ہیں پھر اسرائیل کو دشمن کے علاقے میں گھرائی تک حملے کرنے کا تجربہ بھی حاصل ہے۔
ایران اور اسرائیل کے تعلقات کا پس منظر
ایران اور اسرائیل کے تعلقات کا پس منظر ماضی میں بہت زیادہ خوشگوار رہا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ترکی کے بعد ایران وہ پہلا اسلامی ملک تھا جس نے اسرائیل کی یہودی ریاست کو تسلیم کیا تھا، اس وقت رضا شاہ پہلوی کی ایران میں بادشاہت تھی اور اسی مناسبت سے لوگ ان کے نام سے کم مانوس تھا انہیں شہنشاہ ایران کہا جاتا تھا۔ تہران اور یروشلم میں قربت کی حد اس نہج پر تھی کہ ایران کو مشرق وسطیٰ میں یہودی کمیونٹی کا دوسرا گھر قرار دیا جاتا تھا۔ 1948 ءمیں اپنے قیام کے ساتھ ہی اسرائیل کے ایران کے ساتھ تعلقات استوار ہوئے۔
ایران ترکیہ کے بعد دوسرا اسلامی ملک تھا جس نے یہودی ریاست کو تسلیم کیا۔ اُس وقت ایران پر محمد رضا پہلوی کی بادشاہت تھی اور ایران مشرق وسطیٰ میں سب سے بڑی یہودی کمیونٹی کا گھر تھا۔اپنے قیام کے وقت اسرائیل اپنی ضرورت کا 40 فیصد تیل ایران سے درآمد کرتا تھا اور اس کے بدلے اسلحہ، ٹیکنالوجی اور زرعی مصنوعات فروخت کرتا تھا۔
اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد نے شاہ ایران کی خفیہ پولیس ساواک کو تربیت دی تھی۔ 1979ء میں ایرانی انقلاب میں شاہ ایران کا تختہ اُلٹ دیا گیا تو ڈرامائی طور پر دونوں ملکوں کے تعلقات ختم ہو گئے۔ اسرائیل نے انقلاب کے بعد ایران کی اسلامی جمہوری ریاست کو تسلیم نہیں کیا۔
تاہم دونوں ملکوں کے درمیان غیررسمی تجارتی رابطے پائے جاتے ہیں۔ 1980 ءمیں فلسطین میں اسرائیل کے خلاف پہلی مسلح تنظیم اسلامک جہاد کا قیام عمل میں لایا گیا تو اس کے پیچھے بھی ایران تھا۔ ایران اور عراق کے درمیان 1980 سے 1988ء تک جاری رہنے والی جنگ کے دوران اسرائیل نے صدام حکومت کے خلاف تہران کو ڈیڑھ ہزار میزائل فراہم کیے تھے۔ اسرائیل یہ الزام عائد کرتا ہے کہ حزب اللہ نے دیگر ملکوں میں بھی اُس کے مفادات کے خلاف کارروائیاں کیں۔ ایران اور اسرائیل میں 2005 ءمیں اس وقت کشیدگی بڑھ گئی جب صدارتی انتخاب میں تہران میں احمد نژاد کی حکومت قائم ہوئی۔
احمد نژاد نے متعدد مواقع پر اسرائیل کے خاتمے کے بیانات دیے جبکہ ہولو کاسٹ کو ایک ’واہمہ‘ قرار دیا۔ اسی برس ایران نے اصفہان کے ایٹمی پلانٹ میں یورینیم کی افزودگی شروع کی۔ جب 2015ءمیں عالمی طاقتوں نے ایران کے ساتھ مذاکرت میں ایٹمی ہتھیاروں کے حوالے سے معاہدہ کیا تو اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اس کو ’تاریخی غلطی‘ قرار دیا تھا۔ 2018ء میں جب اُس وقت کے امریکی صدر نے ایران کے ساتھ معاہدے سے نکلنے کا اعلان کیا تو اسرائیلی وزیراعظم نے سب سے پہلے اس کو خوش آئند کہا۔
امریکہ کے معاہدے سے نکلنے کے بعد ایران نے ایٹمی پلانٹ میں یورینیم کی افزودگی دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا۔ باضابطہ طور پر شام کے ساتھ حالتِ جنگ میں رہنے والے اسرائیل نے دمشق میں جاری خانہ جنگی سے خود کو دور رکھا جو 2011 ءمیں شروع ہوئی۔ لیکن 2013 ءکے بعد سے اسرائیل شام کے خلاف برسرِپیکار ہے جب شامی صدر بشارالاسد کی حمایت میں ایران اور حزب اللہ کھل کر سامنے آئے۔ ستمبر 2020 ءمیں سعودی عرب کے اتحادیوں متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
امریکہ نے اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان رابطے کی کوشش کی لیکن غزہ جنگ کی وجہ سے یہ کوششیں پٹڑی سے اتر گئیں۔ گزشتہ چند مہینوں میں اسرائیل نے ایران پر بحری جہازوں پر حملوں کا الزام لگایا جبکہ ایران نے اسرائیل پر ٹارگٹڈ قتل اور نتنز میں یورینیم افزودگی کے پلانٹ کو سبوتاژ کرنے کا الزام عائد کیا۔
یکم اپریل 2024 ءکو دمشق میں ایرانی سفارتخانے سے ملحقہ عمارت پر اسرائیلی فضائی حملے میں ایک درجن سے زائد افراد مارے گئے جن میں پاسداران انقلاب کے دو سینیئر ارکان بھی شامل تھے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے خبردار کیا تھا کہ ایران ’اسرائیل پر ایک بڑا حملہ کرنے کی دھمکی دے رہا ہے۔‘ انہوں نے اسرائیل کے لیے اپنی ’آہنی حمایت‘ کا اعادہ بھی کیا۔
مغربی طاقتیں ایران پر دباؤ ڈالنے کے لیے اور اسرائیل پر حملہ کرنے کی جرأت کی پاداش میں اسے سزا ضرور دیں گی، جس کا دھمکی آمیز آغاز بھی ہوگیا ہے۔ امریکہ نے اسرائیل پر حملے کے بعد تہران کی ڈرونز پروڈکشن کو ہدف بنانے، اس کے خلاف نئی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے اور اسی تناظر میں امریکی صدر جوبائیڈن کا کہنا ہے کہ گروپ سیون کے راہنما تہران پر اقتصادی دباؤ بڑھانے کے لیے مل کر کام کرنے کے لیے پرعزم ہیں، جب کہ برطانیہ نے بھی واشنگٹن کے ساتھ مل کر ایران پر پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
برطانوی وزیراعظم رشی سونک کا کہنا تھا کہ ایرانی حکومت کا اسرائیل کے خلاف حملہ خطرناک اشتعال انگیزی تھی۔ یورپی راہنماؤں نے بھی ایران کے اسرائیل پر حملے پر مشرق وسطیٰ میں وسیع تر تنازعے کے بارے میں پیدا ہونے والے خدشات کے پیش نظر برسلز میں ہونے والے سربراہی اجلاس میں ایران پر پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پاکستان نے اس صورتحال میں اپنا متوازن سفارتی عمل برقرر رکھتے ہوئے جس انداز سے ایران کے ساتھ اپنی قلبی وابستگی کا اظہار کیا ہے ۔وہ کسی بھی اسلامی ملک سے کم نہیں اور دیگر اسلامی ممالک سے مطابقت بھی رکھتا ہے کیونکہ ایران پاکستان کے دیرینہ تعلقات نہ صرف مذہب کے مضبوط رشتے میں بندھے ہوئے ہیں بلکہ متعدد بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر دونوں ممالک موقف میں ہم آہنگی بھی رکھتے ہیں۔
گوکہ حکومتوں کے ردعمل میں ایک سفارتی احتیاط لازمی ہوتی ہے لیکن اسلامی دنیا کے دیگر ممالک کی طرح یا قدرے بڑھ کر پاکستان میں عوامی سطح پر ایران کیلئے نہ صرف دوستانہ بلکہ بردارانہ جذبات موجود ہیں۔ جس کا ادراک ایرانی قیادت کو بھی ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے خطے کے دیگر ممالک سے آگے نکل کر حکومت اور عوام کے جذبات کا اظہار اس لئے نہیں کیا کیونکہ اس طرزعمل سے پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی تھیں پھر تہران اس حقیقت سے پوری طرح باخبر ہے کہ اسلام آباد کسی بھی فیصلہ اور نتیجہ خیز صورتحال میں ہرصورت میں ایران کے ساتھ کھڑا ہوگا اور کوئی خوف، دباؤ یا ترغیب اسے اپنی یہ سوچ تبدیل کرنے پر مجبور یا آمادہ نہیں کرسکتی۔
یہی وجہ ہے کہ ایرانی صدر ڈاکٹر ابراہیم ریئسی نے اپنا دورہ پاکستان منسوخ نہیں کیا جبکہ موجودہ صورتحال میں دورہ پاکستان کے فیصلے پر نظرثانی کا جواز موجود تھا۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد انہوں نے اپنے غیر ملکی دورہ کیلئے پاکستان کی دعوت قبول کی تھی۔ پھر یہ بھی اہم پہلو ہے کہ پاکستان میں موجودہ حکومت کے قیام کے بعد ایرانی صدر ڈاکٹر ابراہیم ریئسی پاکستان کا دورہ کرنے والے پہلے غیر ملکی سربراہ ہوں گے۔