’’برکس‘‘پانچ ملکی اتحاد ہے، جس میں برازیل، روس، انڈیا، چین اور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔ اس دفعہ اس گروپ کا سربراہ اجلاس بائیس سے چوبیس اگست تک ’’جوہانسبرگ ‘‘جنوبی افریقا میں ہو رہا ہے۔ اس اجلاس میں دیگر اہم امور کے علاوہ اس پر بھی غور ہوگا کہ اب مزید نئے ارکان اس اتحاد میں شامل کیے جانے چاہیں یا نہیں ۔ اطلاعات کے مطابق کئی نئے ممالک بھی اس اتحاد کا حصہ بننے کی خواہش کا اظہار کرچکے ہیں۔
برکس کی اصطلاح سب سے پہلے برطانیہ کے ایک ماہر معیشت، جم اونیل نے وضع کی تھی، بعد میں جم اونیل 16- 2015 میں برطانیہ کے وزیر تجارت بھی رہے، انہوں نے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون اور تھریسامے کی کابینہ میں اپنے فرائض انجام دیئے تھے ۔ لیکن برکس کی اصطلاح انہوں 2001 میں وضع کی تھی ۔ یاد رہے کہ ابتدا میں یہ حرف’’ BRIC ‘‘تھا ۔ جس میں جم اونیل نے برازیل، روس، انڈیا اور چین کو شامل کیا تھا۔
اُن کے خیال میں اکیسویں صدی کے نصف اول میں یہ چار ممالک مستقبل میں دنیا کی عظیم ترین معاشی قوت بن جائیں گے، غالباً ان چار ملکوں نےجم اونیل، کی پیشگوئی کا اشارہ سمجھ لیا، اس کے پانچ سال بعد برکس نام کا اتحاد قائم کر لیا۔ اس وقت بھارت کے وزیر اعظم من موہن سنگھ ، چین کے صدر ہو جن تاؤ، برازیل کے صدر لولا دی سیلوا اور روس کے صدر پوتن ہی تھے۔ 2010 میں جنوبی افریقا کو اس اتحاد میں شامل کیا گیا تو اس کے صدر جیکب زوما تھے ۔
2010 میں جو برکس وجود میں آیا اس کے دو ممالک یعنی برازیل اور روس کے صدور اب بھی وہ ہی ہیں ،فرق یہ ہے کہ برازیل کے صدر اس سال دوباره صدر منتخب ہوئے ہیں ،جب کہ روسی صدر پوتن ربع صدی سے مسلسل برسر اقتدار چلے آرہے ہیں ،کبھی صدر اور کبھی وزیراعظم کے عہدے پر ۔ اس وقت چین دنیا کا سب سے بڑا ملک تھا لیکن اب بھارت چین کو پیچھے چھوڑ کر ایک ارب پینتالیس کروڑ لوگوں کے ساتھ دنیا کی آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک ہے ، جب کہ چین ایک ارب چالیس کروڑ کے ساتھ دوسرا ۔ برازیل کی آبادی تقریباً بائیس کروڑ ہے اور روس کی چودہ کروڑ ،جب کہ جنوبی افریقہ صرف چھ کروڑ کا ملک ہے۔
اب اگر ان ممالک کی فی کس آمدنی پر نظر ڈالی جائے تو روس کا پہلا نمبر ہے،جس کی فی کس سالانہ آمدنی پندرہ ہزار ڈالر ہے، جب کہ چین دوسرے نمبر پر ہے اور اس کی فی کس سالانہ آمدنی تقریباً تیرہ ہزار ڈالر ہے۔ برازیل نو ہزار ڈالر اور جنوبی افریقا آٹھ ہزار ڈالر کے ساتھ تیسرے اور چوتھے درجے پر ہیں، جب کہ بھارت کا آخری درجہ ہے ،جس کی فی کس سالانہ آمدنی صرف چوبیس سو ڈالر کے لگ بھگ ہے، اس کا موازنہ اگر پاکستان سے کیا جائے تو اس کی آبادی تو چوبیس کروڑ ہے لیکن فی کس آمدنی پر صرف سولہ سو ڈالر دکھا سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ دنیا کی مجموعی آبادی اس وقت آٹھ ارب لوگوں پر مشتمل ہے، جس میں سے تین ارب تیس کروڑ لوگ ’’برکس ‘‘کے ممالک میں رہتے ہیں اور ان کی مجموعی قومی پیداوار 26 ٹرلین ڈالر ہیں ،جب کہ دنیا کی مجموعی پیداوار سو ٹرلین ڈالر کے برابر ہے ۔ (ایک ٹرلین میں ایک ہزار بلین ہوتے ہیں اور ایک بلین میں ایک ہزار ملین)اس طرح اردو میں ایک ٹرلین کو ایک کھرب یا ایک بلین کو ایک ارب کہنا غلط ہے ،کیوں کہ ایک ارب میں سو کروڑ ہوتے ہیں اور ایک کھرب میں سو ارب۔ معیشت کے موازنے کے لیے نکتہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔
یہ حیرت کی بات ہے کہ، برکس ممالک میں دنیا کی آبادی کے چالیس فی صد افراد رہتے ہیں مگر عالمی معیشت میں ان کا حصہ صرف ایک چوتھائی ہے اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں میں ان کی نمایندگی تو اور بھی کم ہے۔ مثلاً آئی اے ایف میں برکس ممالک صرف پندره فی صد رائے شماری کا حق رکھتے ہیں، پھر یہ ممالک ابھرتی ہوئی معیشوں کی اس طرح آواز نہ بن سکے جس کی توقع کی جا رہی تھی،نہ ہی ان کا قائم کردہ بینک جسے انہوں نے نیا ترقیاتی بینک کہا تھا اور جس کی بنیاد تقریباً دس سال قبل رکھی گئی تھی،لیکن کوئی بھر پور کردار ادا نہیں کر سکا ہے۔
مثلاً جب پاکستان یا بنگلا دیش اور سری لنکا جیسے ممالک معاشی بحران کا شکار ہوتے ہیں تو یہ بینک آئی ایم ایف یا عالمی بینک کی طرح مدد کرنے سے قاصر رہا ہے اور چین انفرادی طور پر تو پاکستان کی مدد کرتا رہا ہے لیکن اس نئے ترقیاتی بینک کے ذریعے کچھ نہیں کیا گیا ۔ غالباً اس کی ایک وجہ بھارت کا رویہ بھی ہوگا جو برکس کا دوسرا بڑا رکن ہے لیکن پاکستان سے اس کے تعلقات ہمیشہ کشیده رہے ہیں، گو کہ اب نئے ترقیاتی بینک میں مصر اور متحدہ عرب امارات بھی شامل ہوچکے ہیں لیکن وہ برکس کا حصہ نہیں ہیں البتہ رکن بننے کی کوشش کررہے ہیں۔
گذشتہ پندرہ برسوں میں عالمی بینک کے اعدادوشمار کے مطابق عالمی معیشت میں برکس ممالک کا حصہ دس فی صد بڑھا ہے اور اگلے دس سال میں یہ حصہ عالمی معیشت کا چالیس فی صد تک ہوسکتا ہے لیکن اس میں زیادہ کردار بھارت اور چین کا ہی نظر آرہا ہے، یہی دو ممالک عالمی معیشت میں فیصلہ کن کردار ادا کر سکتے ہیں۔ روس نے یوکرائن پر حملہ کر کے اپنے عالمی کردار کو شدید ٹھیس پہنچائی ہے اور برازیل کے صدر کو یورپ اور امریکا اچھی نظر سے نہیں دیکھتے، کیوں کہ وہ نسبتاً بائیں بازو کی عوام دوست سیاست کررہے ہیں ۔ چین، روس اور بھارت کوشش تو کررہے ہیں کہ کسی طرح امریکا اور یورپی یونین کی معاشی طاقت کو للکارنے کے لیے ڈالر اور یورو کے مقابلے میں کوئی مشترکہ کرنسی وجود میں لے آئیں لیکن اب تک یہ صرف اتنا کر پائے ہیں کہ باہمی تجارت کے لئے ایک دوسرے کی کرنسی استعمال کر سکیں۔
برکس کو مطلوبہ کام یابی حاصل نہ ہوسکنے کی ایک بڑی وجہ چین اور بھارت کی مخاصمت بھی ہے ۔ یہ دونوں رکن ممالک پڑوسی ہونے کے باوجود ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش میں رہتے ہیں خاص طور پر بھارت خود کو چین جیسی بڑی طاقت بنانے کے خواب دیکھ رہا ہے جو مستقبل قریب میں ممکن نہیں۔ چین جاپان سے لے کر جنوبی افریقا اور جنوبی امریکا تک اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہتا ہے اور اسے اس میں بڑی حد تک کام یابی بھی ہورہی ہے لیکن بھارت تو اپنے جنوبی ایشیا کے ہمسایوں سے ہی اچھے تعلقات نہیں رکھ پارہا اور کسی نہ کسی تنازع میں الجھا رہتا ہے، نہ ہی وہ کشمیر کے مسئلے کو خوش اسلوبی سے طے کرنے پر مائل ہے۔
اس سلسلے میں بھارت امریکا پر زیادہ انحصار کر رہا ہے لیکن اس کے باوجود بھارت نے روس کے یوکرائن پر حملے کی مذمت نہیں کی، نہ ہی اس سے تجارت پر کوئی فرق پڑا ،بل کہ بھارت نے روس سے گزشتہ مہینوں میں بڑی مقدار میں سستا تیل درآمد کیا ہے۔ بھارت یہ اس لیے کررہا ہے کہ اس کے پاس روسی تیل صاف کرنے کے لیے اپنی ریفائنریاں بڑی تعداد میں موجود ہیں، جب کہ پاکستان میں کوئی بھی ریفائنری بڑی مقدار میں روسی تیل کو صاف کرنے سے قاصر ہے اس لیے پاکستان زیادہ صاف شدہ تیل درآمد کرتا ہے جب کہ بھارت خام تیل منگا کر اسے خود صاف کرنے کی بڑی صلاحیت پیدا کرچکا ہے۔
اسی لیے پاکستان کے مقابلے میں بھارت اور چین روس سے بڑی مقدار میں تیل برآمد کررہے ہیں ۔ تیسرا پہلو فوجی اتحاد کا بھی ہے ۔ برکس کے ممالک میں چین اور بھارت ایک دوسرے کے فوجی حریف ہیں اسی لیے بھارت ،امریکا اور آسٹریلیا کے ساتھ جنگی مشقیں کرتا ہے تو چین ،روس اور جنوبی افریقا اپنی مشترکہ جنگی مشقیں کرتے ہیں۔ روس کے علاوہ برکس کے ممالک نسبتاً بیچ کا راستہ اختیار کیے ہوئے ہیں کیوں کہ امریکا اور یورپی یونین کے ساتھ اُن کے دیرینہ سیاسی، معاشی اور فوجی روابط بھی رہے ہیں، جن کو وہ مکمل طور پر توڑنا نہیں چاہتے،جب کہ روس تو امریکا اور یورپی یونین سے تعلقات بالکل تباہ اور یوکرائن کی جنگ میں طویل عرصے کے لیے ملوث ہوچکا ہے۔
برکس میں شمولیت کے لیے ایران خاصی کوشش کر رہا ہے لیکن خود ایران کے تعلقات دنیا کے دیگر ممالک سے کچھ زیادہ اچھے نہیں رہے۔ اگر ایران کو برکس میں شامل کیا جاتا ہے تو روس اور چین کے بعد ایران کی شمولیت سے برکس کو ایک مغرب دشمن اتحاد کی صورت میں دیکھا جانے لگے گا ،جس کے لیے بھارت اور برازیل غالباً ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کریں گے۔ گو کہ حال ہی میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان چین نے ثالثی کا کردار ادا کر کے ماحول کو بہتر کیا ہے لیکن جب تک خود بھارت اور چین اپنے تنازعات حل نہیں کرتے برکس ایک بھرپور کردار ادا کرنے سے قاصر رہے گا البتہ اگر ایران اور سعودی عرب دونوں کو برکس میں شامل کیا جاتا ہے تو اس سے نا صرف اس خطے کی سیاست و معیشت بل کہ بین الاقوامی طور پر دوررس اور مثبت نتائج مرتب ہوسکتے ہیں۔
اس طرح BRICS مزید بڑھ کر BRIICSS بن سکتا ہے، جس میں ایک آئی ایران کا اور ایک ایس سعودی عرب کا بڑھایا جاسکتا ہے۔ ایران کی آبادی تقریباً نو کروڑ اور فی کس آمدنی چار ہزار ڈالر سالانہ ہے ،جب کہ سعودی عرب کی آبادی سوا تین کروڑ اور فی کس آمدنی تیس ہزار ڈالر سالانہ ہے ۔ اگر ایران اور سعودی عرب برکس میں شامل ہوجاتے ہیں تو برکس کی مجموعی آبادی تین ارب بیالیس کروڑ ہوجائے گی ،جو دنیا کی مجموعی آبادی کا تقریباً بیالیس فی صد ہوگا اور برکس میں سعودی عرب سب سے خوش حال اور امیر ملک کے طور پر شامل ہوگا۔ جنوبی امریکا سے ارجنٹائن اور کیوبا کے ساتھ وینزویلا بھی برکس میں شامل ہونا چاہتے ہیں لیکن کیوبا اور وینزویلا بھی ایران کی طرح بین الاقوامی طور پر امریکا اور یورپی یونین سے کشیدہ تعلقات کے حامل ہیں۔
وسطی ایشیا سے قزاقستان کو شامل کیا جاسکتا ہے اور افریقا سے ایتھوپیا کو بھی لیکن اس سب کا فیصلہ برکس کے موجود رکن ممالک متفقہ طور پر ہی کرسکتے ہیں ۔ البتہ رکنیت میں اضافے کے علاوہ برکس کو دیگر مسائل کا بھی سامنا ہے جس میں ماحولیاتی تبدیلی بڑی اہم ہے۔ ماحولیاتی طور پر بھارت اور چین بڑے مسائل کا شکار ہیں جہاں انتہائی موسمیاتی حالات نے غیر متوقع بارشوں اور سیلاب کے سلسلے شروع کر رکھے ہیں، صرف اس برس ہونے والی بارشوں اور سیلاب سے ہونے والی تباہی نے بھارت اور چین دونوں کو بُری طرح متاثر کیا ہے ۔ برکس ممالک کی باہمی تجارت بھی خاطرخواہ دیکھنے میں نہیں آئی، جس کے باعث برکس کے رکن ممالک دیگر ترقی پذیر ممالک سے تجارت بھی اتنی نہ بڑھا سکے جس کی توقع تھی۔
عالمی تجارت میں اب بھی امریکا اور یورپی یونین بالا دستی رکھتے ہیں اس لیے برکس ممالک کا تجارتی انحصار بھی ان پر بہت زیادہ ہے ۔ بین الاقوامی سرمایہ کاری بھی امریکا اور یورپی یونین ہی بڑے پیمانے پر کرتے ہیں ، گو کہ چین نے اس صدی میں اپنا سرمایہ کاری کا حصہ بہت بڑھایا ہے لیکن بھارت، برازیل اور روس جیسے ممالک دیگر ممالک میں سرمایہ کاری اتنے بڑے پیمانے پر نہیں کرپاتے ،بل کہ خود دیگر ممالک سے سرمایہ کاری کے متمنی رہتے ہیں۔
اب چوں کہ روس میں مغربی سرمایہ کاری ختم ہو چکی ہے، اس لیے چین کی روس میں سرمایہ کاری بڑھ رہی ہے اور یہی دونوں ملک بھارت سے زیادہ ایک دوسرے کے قریب آتے جارہے ہیں ۔ یہ بات واضح ہے کہ اکیسویں صدی کا عالمی سیاسی و معاشی نظام اب بڑی تبدیلیوں سے گزر رہا ہے پچھلے دس پندرہ سال میں بھارت اور چین بڑی معاشی طاقتوں کے طور پر ابھرے ہیں اور اب وی یک قطبی نظام جس میں امریکا بالا دست تھا اپنی بنیادوں سے ہل رہا ہے۔ ایسے میں بھارت امریکا کو ایک سہارا فراہم کررہا ہے لیکن اگر بھارت اور چین اپنے تعلقات بہتر کر لیتے ہیں تو برکس کے لیے امریکا کو للکارنا آسان ہوگا۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ برکس کے حالیہ اجلاس میں جنوبی افریقا نے درجنوں ممالک کے سربراہوں کو مدعو کیا ہے لیکن خود روس کے صدر اس اجلاس سے دور ہیں کیوں کہ عالمی عدالت نے پوتن پر جنگی جرائم کی پاداش میں گرفتاری کا حکم دے رکھا ہے، جس کا روس کی حکومت انکار کرتی ہے۔ چوں کہ جنوبی افریقا بھی عالمی عدالت کا رکن ہے اس لیے پوتن خطرہ محسوس کررہے ہیں، گو کہ جنوبی افریقا اس کے باوجود غالباً پوتن کو گرفتار نہ کرتا لیکن پھر بھی روسی صدر نے احتیاط سے کام لیا۔ روسی وزیر خارجہ روس کی نمایندگی کررہے ہیں، جب کہ پوتن ایک پردے پر نمودار ہوکر اس اجلاس سےخطاب کریں گے ۔ 22 سے 24 اگست تک ہونے والا یہ برکس اجلاس ایک اہم اجلاس ثابت ہوگا۔