• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا بدل رہی ہے ۔ امریکہ دیوالیہ ہو رہا ہے چین نئی منزلیں طے کر رہا ہے۔ روس یوکرین میں پھنسا ہوا ہے۔ برطانیہ کی اکنامی برف کی ڈلی کی طرح پگھل رہی ہے۔ تیل پیدا کرنے والے ممالک اپنا لائحہ عمل بنا رہے ہیں۔ بھارت کی ترقی معکوس چین اور امریکہ کو کچھ پریشان کر رہی ہے۔ امریکہ کو خدشہ ہے کہ بھارت دوسرا چین نہ بن جائے۔ چین کو خطرہ ہے بھارت اس کا مدمقابل نہ بن جائے۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے کچھ عرصے پہلے کہا تھا کہ، ہمیں پاکستان عزیز ہے ہم اس کو ڈیفالٹ نہیں ہونے دیں گے، کچھ ایسے ہی خیالات بیجنگ میں بھی سنائی دیتے ہیں۔ 

یہ امریکی جنگجو لابی کا خیال ہے کہ بھارت پاکستان کی جنگ ہوئی تو پاکستان بھارت کو تباہ تو نہیں کر سکے گا مگر اس کے ہاتھ پیر ضرور توڑ دے گا۔ اس طرح بھارت کی ترقی بیس تیس سال پیچھے لوٹ جائے گی، یہی چین کا بھی نظریہ ہے،اندرون خانہ ایسا ہی سوچا جارہا ہے۔ یہ تمام تجزیہ کاروں کی قیاس آرائیاں ہیں۔ تاہم زمینی حقائق کچھ اور ہیں۔ سچ یہ ہے کہ جس تیزی سے حالات بدل رہے ہیں ایسے میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ پاکستان ہر چند فی الفور شدید مالی مشکلات سے گزر رہا ہے، مگر کسی کے ہاتھوں ہرگز نہیں کھیلے گا۔ پاکستان نےپون صدی میں بہت اُتار چڑھائو دیکھے ہیں۔ 

ملک کا سب سےبڑا مسلہ آبادی میں اضافہ اور بدعنوانی کا ہے، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے پاس ہرقیمتی معدنیات اور قدرتی ذرائع افرادی قوت موجود ہے، کمی صرف منصوبہ بندی کی ہے۔ درست منصوبہ بندی اورقانون کی بالادستی ہو تو سب کچھ ٹھیک ہو سکتا ہے۔ دنیاکے ایک سو پچاس ممالک ہم سے زیادہ خوشحال زندگی گزار رہے ہیں، جن کے پاس پاکستان کے نصف وسائل ہیں۔ دنیائے قدیم سے نیت کی اہمیت پر اصرار کیا جاتا رہا ہے۔ اگر نیت درست تو ہر کام ستھرا ہوتا ہے۔ معاف کیجئے ہماری نیت میں کھوٹ نہیں ہے۔ آدھا دودھ آدھا پانی سے اقوام متحدہ کے حالیہ جائزہ کے مطابق جنوبی ایشیا کے آٹھ ممالک میں سے پسماندہ ملک پاکستان ہے۔ 

تجزیہ کاروں کی قیاس آرائیاں کچھ، زمینی حقائق کچھ اور 

غور کیجئے قرارداد پاکستان 1940ء میں منظور ہوئی سات سال بعد پاکستان معرضِ وجود میں آیا، ان سات برسوں میں آل انڈیا مسلم لیگ کے رہنمائوں نے پاکستان کا روڈمیپ بنایا،نہ دستور ساز کمیٹی بنائی اور نہ امور مملکت کے لئے کوئی ضروری پالیسی وضع کی۔ کیا قیمتی سال ہم نے برباد نہیں کئے۔ پھر قیام پاکستان کے بعد سب وائسرائے یا نواب بن کر وقت گزارتے رہے۔ مسلم لیگی رہنمائوں کو ملک و قوم اور عوام کی کوئی فکر نہیں۔ دوسری جانب زمانہ نئی کروٹ لے رہا تھا۔ 

سوویت یونین ایک طرف اپنا پرچم بلند کر رہا تھا،دوسری طرف امریکہ کی جے جے ہو رہی تھی۔ بھارت غیر وابستہ تحریک کا سلسلہ شروع کرکے ان طاقتوں سے دور رہا۔ جو ہوا سو ہوا ان باتوں کو بار بار دہرایا جاتا رہا ہے مگر حیرت ہے ملک کی تیسری نسل جوان ہو کر خیر سے عمل میں شریک ہے،مگر پھر بھی کوئی نمایاں تبدیلی نظر نہیں آئی۔ جرمنی انجینئرنگ کی نمائش ہوئی، عقل دنگ رہ گئی، اس قدر ترقی جدت تنوع دیکھ کر دل بہت خوش ہوا ۔ سنا ہے کہ اسی طرح کی مختلف شعبوں کی نمائش ہوئیں، ایک سے ایک نئی چیز یں ،نیا ماڈل اور بہت کچھ۔ اب الیکٹرک کاروں کی لائن لگ چکی ہے، گویا زندگی نے ایک نئی کروٹ لی ہے۔ سب کچھ بدلا بدلا نظر آتا ہے۔ دوسرے معنوں میں جدیدیت کا ایک سیلاب اُمڈ آیا ہے۔ 

تنوع سے زندگی کے رنگ پھر گئے ہیں۔ امریکی تھنک ٹینک میں بھی یہ بحث ڈیڑھ سال سے جاری ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے عوام اور ترقی یافتہ عوام کے مابین ترقی اور تعلیم کا فرق تیزی سے بڑھتا جارہا ہے،کچھ دانشور اس فرق کو خطرناک تصور کرتے ہیں۔ اس لئے اس کے تدارک کے لئے امریکی حکومت کثیر رقم صرف کرنے پر راضی ہے، مگر ترقی پذیر ممالک کی بیشتر اشرافیہ بدعنوان اور خود غرض ہے، اس کا تدارک کرنا مشکل ہے۔ اب دنیا کے لئے ایک خطرہ بڑھتا جا رہا ہے کہ امریکہ بتدریج کمزور ہو رہا ہے ،ویسے وہ ہر محاذ پر شدید گڑبڑ پھیلانے کا ذریعہ بنا،مزید یہ کہ اس کےہتھیاروں کی فروخت میں اضافہ ہوا، اب بھی وہ یہی چاہتا ہے، جس کی اس کو اشد ضرورت ہے۔ 

اگر ایسا ہوتا ہےتو خاص طور پر جنوبی ایشیا ایک حد تک مشرق وسطیٰ اس کی گڑبڑ کی لپیٹ میں آئے گی۔ امریکہ کو دنیا میں کسی بھی جگہ اقلیتوں پر ظلم نظر آتے ہیں مگر چین میں مسلمانوں، بدھوں پرہونے والے مظالم نظرنہیں آتے۔ یہ ہے، امریکہ کی پالیسی انسانی حقوق کی۔ سرمایہ داری نظام کا اولین مقصد زیادہ سے زیادہ منافع کمانا ہوتا ہے۔ مثلاً امریکہ کے دو بڑے بینک دیوالیہ ہو کر بند ہو گئے،مگر سال 2023ء میں مزید ارب پتی خاندانوں میں اضافہ ہوا۔کچھ ایسا ہی چین کے ساتھ ہوا۔ اس سال چین کی معیشت میں بڑی گراوٹ آئی ہے، مگر ارب پتی خاندانوں میں چین پہلے نمبر پر ہے۔ غرض قومی خزانہ کا حال کچھ بھی ہو، ارب پتی خاندانوں کی تجوریاں بھر رہی ہیں۔

انہیں کوئی پریشانی لاحق نہیں۔ کارل مارکس نے اسی لئے کہا تھا کہ ،سرمایہ دارانہ نظام انسان دوست ہرگز نہیں، اس میں تبدیلی ضروری ہے۔ امریکی قانون کے مطابق فرد اپنی محنت، صلاحیت خواہش کے مطابق جس قدر چاہے دولت جمع کر سکتا ہے،مگر حکومت کو اس پر لاگو ٹیکس ادا کرنا لازمی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ایک جرائم پیشہ قاتل یا چور کوئی بھی بڑا جرم کرکے اپنے قانونی داؤ پیچ سے بچ سکتا ہے مگر کوئی فرد ٹیکس میں خردبرد کر کے کہیں نہیں بچ سکتا اس کو پاتال سے بھی ڈھونڈ کر سزا دی جائے گی۔ اس وقت جو امریکی دنیا کے کسی نہ کسی گوشے میں روپوش ہیں،انہیں ایف بی آئی اور تین خفیہ ادارے ڈھونڈ نہیں پائے ہیں۔ 

اس لئے امریکی ارب پتی پہلے ہی اپنی قانونی معاشی مشیروں کو خبردار کر دیتے ہیں جو بھی کرو اپنی ذمہ داری پر کرو، ورنہ حکومت سے پہلے ہم تمہیں ٹھکانے لگا دیں گے۔ وینزویلا کی ایک تیل کمپنی کے مالک نے ایک کروڑ ڈالر کی مالیت کا ہیروں کا ہار اپنی محبوبہ کو تحفہ میں دیا تھا،مگر اس کے وکیل نے آمدنی کے شوگوارے میں غلطی سے اندراج نہیں کیا۔ جب اسکروٹنی ہوئی اور یہ غلطی پکڑی گئی تو اس لاطینی نژاد امریکی ارب پتی نے اپنے ہی تیل کے کنوئیں میں چھلانگ لگا کر خودکشی کرلی ،تاوقتیکہ ایف بی آئی کی گرفت میں آتا۔ اس سے ظاہر ہے کہ امریکہ میں اولین اور ناقابل معافی گناہ ٹیکس چوری ہے۔ کہا جاتا ہے کہ امریکہ میں وائٹ ہاؤس کے بعد ، صدر امریکن اسٹیٹ بینک، نائب پینٹاگون اور سیکرٹری امور خارجہ سب سے طاقتور شخصیات ہیں۔ 

امریکی سیاست میں دو پارٹیوں، ری پبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹی کا غلبہ ہے باقی چھوٹی پارٹیاں بھی ہیں مگر ان کا اثر کوئی نہیں ہے۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ اگلے سال امریکہ میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اپنی پارٹی کی طرف سے پر تول رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حالیہ جائزوں اورسر ووں کے مطابق پہلے کے مقابلے میں سابق صدر ٹرمپ کی حمایت میں پانچ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس حوالے سے امریکی تجزیہ کاروں کا خیال ہے سابق صدر ٹرمپ بولڈ باتیں کر جاتے ہیں کئی جگہ سیاسی مصلحتوں کو نظرانداز کر جاتے ہیں۔ 

مثلاً انہوں نے یورپی یونین سے کہا، تم لوگ اپنی سیکورٹی کا بوجھ خود اٹھائو، امریکہ کب تک یہ بوجھ اٹھائے گا۔ امریکی عوام کے ایک بڑے حلقے نے ٹرمپ کی حمایت کی جبکہ یورپ میں ٹرمپ کے خلاف احتجاج ہوا۔ آئندہ برس امریکہ انتخابی سرگرمیوں کا سال رہے گا۔ اگر ری پبلکن پارٹی نے ٹرمپ کو ٹکٹ دیا تو امکان ہے کہ وہ کم مارجن سے جیت جائیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی نے صدر جوبائیڈن کو صدر بنا کر دیکھ لیا کہ وہ کمزور صدر ثابت ہوئے، اکثر بیمار رہے ان کی عمر بھی زیادہ ہے ،ہرچند کہ ٹرمپ بھی جوان نہیں مگر چابکدست اور منہ پھٹ ہیں۔ 

ایک بات غور طلب ہے کہ امریکہ وسیع جمہوری معاشرہ ہے ،ہر شعبہ میں جمہوری سیاسی انتظامی عمل فعال ہے،مگر پھر بھی امریکی عوام خاص کر نوجوان طبقہ سیاسی امور میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ سماجی کھیلوں، موسیقی، سیاحت دیگر تفریحی معاملات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے مگر سیاست کے میدان میں کوئی کوئی دکھائی دیتا ہے۔ ایسے میں امریکہ کی سیاست معمر شخصیات پر استوار ہے۔ تازہ صورت حال میں سیاست میں نوجوانوں کی شمو لیت بہت ضروری ہے، مگران کو سیاست سے صرف واجبی سی دلچسپی ہے ۔ دنیا کے بیشتر اہم ممالک کی سیاست پر معمر شخصیات کا اثر ہے ۔ اس رحجان کے بارے میں خیال ہے کہ سائنس ٹیکنالوجی اور تنوع بہت کچھ بدل دیں گے۔ 

روایتی سیاست اور پرانی اجارہ داری جلد ختم ہوتی نظرآتی ہیں،خاص طور پر، روسی صدر کی پیولیٹ بیورو ان تبدیلی کی خواہاں ہیں مگر چین کے صدر شی جن پنگ ان کو ان کے منصب پر بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔ روس اور چین کے حالیہ معاہدہ کے بعد ان دونوں ممالک کے تعلقات اور مستحکم ہو گئے ہیں۔ اہم ممالک میں تاحال بزرگ سیاستدانوں کا قبضہ ہے۔ ایسے کہا جاتا ہے کہ کچھ بڑا ہونےوالا ہے۔ بھارت، روس ،چین ،امریکہ اور چند ایک ان کے گماشتہ ممالک کے نقشے تبدیل ہو سکتے ہیں۔ یہ کب ہوگا کوئی نہیں جانتا مگر یہ طے ہے کہ جاری حالات میں کہ شمال اور جنوب کے مابین جو فرق ہے اس کو مزید بڑھاوا دینےکاخیال ہے۔ خاص طور پر مغرب بھارت کی جاری ترقی کو اپنے لئے آئندہ کا خطرہ قرار دیتا ہے۔ 

بھارت امریکہ دوست ہیں، ان میں اندر اندر بہت کچھ پک رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صدیوں کی نسلی تفاوت گورے کالے کا فرق دنیا سے ختم نہیں ہوا جیساکہ عرض کیا ترقی تنوع جدیدیت نے بہت کچھ بدلاہے مگر رنگ ونسل اور زبان و مذہب کے فرق بہت گہرے ہیں۔ مغرب نے بمشکل چین کو قبول کیا یہ مغرب کی ہی غلطی تھی کہ چین ہاتھی بن کر سامنے آیا۔ دوسرا چین،بھارت کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ امریکہ اور مغرب کو ایک خدشہ یہ ہے کہ اگر چین اور بھارت کی دوستی ہو جاتی ہے جس میں روسی مصالحتی کردار ادا کر سکتا ہے تو پھر طاقت کا توازن مشرق کی طرف ہو سکتا ہے امریکہ تنہا ہو سکتا ہے۔ 

یورپی یونین کا حال ویسے ہی پتلا ہے۔ یوکرین کی جنگ اگر پھیل گئی تو یورپ ڈھیر ہو جائے گا ،تاہم جرمنی اور فرانس، روس سے دوستی تعاون اور امن کے مسئلے پر بات کرتے رہے ہیں۔ جرمنی اور فرانس میں یورپی یونین کا سہارا ہے۔ برطانیہ اپنی انا کی وجہ سے نسلی فرق کی وجہ سے کوئی کردار ادا کرنے سے قاصر رہا۔ صنعت کار اور تاجر طبقے کی اولین خواہش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ منافع کمایا جائے اس حوالے سے یہ طبقہ قومی اور انسانی مفادات کو ہمیشہ نظر انداز کر دیتا ہے۔ ایسے میں قومی مفاد کو شدید نقصان اٹھانے پڑتے ہیں۔ منافع خوری کا نشہ کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی طے شدہ دام سے زیادہ دام میں اشیاء فروخت کرنا وغیرہ، اس طبقے کو منافع کے حصول میں کچھ بھی کرنے پر مائل کر دیتا ہے۔ چند برس قبل بھی ایک خوردنی تیل کے بڑے تاجر نے موبل آئل کی ملاوٹ کرکے کئی سو ا فراد کو ہلاک کردیا تھا۔ 

اس طرح کے درجنوں واقعات میڈیا میں عام ہیں۔ جوں جوں آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے، غذائی قلت بڑھتی جا رہی ہے، خاص طور پر شمال جنوبی افریقی ممالک میں ہزاروں بچے کم خوراکی کی وجہ سےہلاک ہو جاتے ہیں۔ روس اور یوکرین کی جنگ کی وجہ سے دنیا میں اناج کی ترسیل شدید متاثر ہوئی ہے۔ افریقہ کا سب صحارا کاخطہ سب سے زیادہ متاثر ہے۔ دنیا کو اعلیٰ نسل اور پست نسل کی نسلی جنگ نے بہت زیادہ نقصان پہنچایا،خاص طور پر دنیا کا سب سے امیر ترین قدرتی وسائل سے مالامال خطہ افریقہ کو گوری نسل والوں نے کنگال کر دیا،پسماندہ کردیا،وسائل لوٹ کر لے گئے،پھر ہندوستان سے ایسٹ انڈیا کمپنی اور تاج برطانیہ 44ٹریلین ڈالر نقد اس کے علاو ہ کروڑوں کا قیمتی سامان لوٹ کرلے گئے۔

ڈھاکہ کی ململ بنانے والے کاریگروں کی انگلیاں کاٹ دی گئیں۔ اگر سولہویں تا بیسویں صدی یورپی آباد کاروں کو مظالم کاحساب کیا جائے تو اس کے کئی والیوم بن سکتے ہیں۔ درحقیقت ہندوئوں اور مسلمانوں کی فکری پسماندگی تعصب نے ان بدبختوں کو لوٹ مار قتل و غارت گری کا موقع فراہم کیا۔ واضح رہے کہ جس طرح مغرب بتدریج زوال پذیر ہے اس کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ جنگ و جدل کا بازار گرم کردے اس حوالے سے ایک بڑا ہاٹ پوائنٹ یوکرین چل رہا ہے دوسرا ہاٹ پوائنٹ تائیوان اور تیسرا ہاٹ پوائنٹ کشمیر ہے۔ اگر یوکرین کی جنگ طول پکڑ گئی تو سب سے زیادہ نقصان یورپ کو ہوگا۔

حال ہی میں جاپان میں جی۔7 ممالک کی دو روزہ کانفرنس ہوئی جس میں امریکی جوبائیڈن نے یوکرین کے صدر زیلنسکی کو بھی مدعو کیا۔ اس کانفرنس میں امریکہ کے اشارے پر روس کی شدید مذمت کی گئی اور امریکی صدر نے اعلان کیا کہ امریکہ یوکرین کے پائلٹس کو ایف۔16طیارے اُڑانے کی تربیت دے گا۔ امریکہ کے صدر کا یوکرین کے صدر نے پرجوش خیر مقدم کیا مگر کانفرنس میں موجود غیر جانبدار مبصرین کا خیال تھا کہ یہ ایک خطرناک اقدام ہوگا۔ ایف۔16 کا یوکرین میں استعمال جنگ کو مزید طوالت دینا خطرناک موڑ تک لے جانا ہے۔

زیلنسکی نے جاپانی وزیراعظم سے طویل ملاقات کی اور مالی امداد کی درخواست کی جس کی امریکہ حمایت کررہا ہے۔ اس دو روزہ کانفرنس میں امریکی صدر کے حوالے سے زیادہ خبریں آتی رہیں۔ جاپان کے صدر نے دنیا کو ایٹمی اسلحہ سے پاک قرار دینے پر زور دیا۔ صدر بائیڈن نے بھی کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا۔ غیر جانبدار مبصرین کاکہنا ہے کہ یہ محض کانفرنس تک ہوتا ہے، تقریریں ہوتی ہیں۔ 

بعدازاں نیا ایٹمی تجربہ گزشتہ پچاس سال سے سالٹ معاہدہ کا چرچا رہا مگر اس کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلا۔ خبریں آرہی ہیں چین ایک انتہائی خوفناک ہتھیار تیار کر رہا ہے،جس کے حوالے سے تمام معلومات صیغہ راز میں رکھی جا رہی ہیں۔ سوئیڈن کے مبصر ڈارک بوگوٹ کا کہنا تھا کہ، ستم ظریفی یہ ہے کہ بڑی طاقتیں ہتھیاروں پر ہتھیار تیار کرکے ڈھیر لگا رہے ہیں، ساتھ ہی امن کے ترانے بھی گاتے ہیں ،حالانکہ ہتھیاروں کی تیاری اور فروخت ان کا کاروبارہے بھلا یہ کیسے روک سکتے ہیں۔

بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ حالیہ جی۔7کانفرنس میں امریکہ یوکرین نے روس کے حوالے سے جو رویہ رکھا اس کاجلد ہی نتیجہ برآمد ہوگا۔ اہم یہ ہے کہ ایف۔16 کے پائلٹوں کی تربیت یوکرین کو مہنگی نہ پڑ جائے۔ مغربی قوتیں یوکرین کو بکرا بنا رہے ہیں۔ خیال ہے کہ اس لڑائی میں بکرا ہی نہ غائب ہو جائے۔

خطرہ ہے کہ، دنیا کے بدلتے حالات میں جاری صورت حال میں کہیں کوئی بڑا دھماکہ نہ ہو جائے جنگ امریکہ کے فائدے میں نہیں مگر دنیا کی عمومی حالت اس قابل نہیں کہ ایک جنگ برداشت کرسکے۔

ایک خبر یہ ہے کہ یورپی ممالک نے بھارت کے سامان کا بائیکاٹ کردیا،جس پر بھارت نے سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔ تنازعہ یہ ہے کہ بھارت روس سے ٹنوں کچا تیل خرید رہا ہے اور اس کو اپنی ریفائنریز میں صاف کرکے یورپی ملکوں کو فروخت کر رہا ہے اس مسئلے پر بھارت اور یورپی ممالک کی زبردست ٹھن گئی ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ ،جے شنکر کا کہنا ہے کہ کچا تیل بہت سے مراحل کے بعد صاف کیا جاتا ہے جس پر خرچا بھی بہت آتاہے۔ یہ محض یورپی اقوام کی ہٹ دھرمی کے سوا کچھ نہیں، اس مسئلے میں کوئی قباحت نہیں ہے، محض روس اور بھارت پر دباؤ کے سوا کچھ نہیں۔

حالیہ جی سیون کانفرنس میں ایف ۔16طیاروں کے پائلٹوں کی تربیت کرکے جس طرح امریکہ یوکرین کی ایئر فورس کو جدید لڑاکا فورس بنا رہا ہے اس کے حوالے سے بھی بڑے خدشات پائے جاتے ہیں۔ جنگ طول پکڑ گئی اور روس کو اس سے نقصان اٹھانا پڑا تو صدر پیوٹن ایٹمی آپشن پر ضرور غور کریں گے، ایسے میں یوکرین کے پاس کیا جواب ہو گا۔ فرانس کے معروف دانشور ،پیری دوتساں کا کہنا ہے کہ ہمیشہ امریکہ خوفناک فیصلہ کرکے اپنے ہتھیاروں کی صنعت کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچاتا ہے۔ درحقیقت امریکی وار انڈسٹری اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے جدید ہتھیاروں کو استعمال کرکے ان کی کارکردگی جانچ رہی ہے۔

دانشوروں کاکہنا ہے کہ اس وقت دنیا بیشتر خوفناک مسائل کا سامنا ہے۔ ماحولیات، قدرتی آفات، آبادی میں اضافہ، ایٹمی ہتھیاروں میں پھیلاؤ، پینے کے صاف پانی میں کمی، خشک سالی، گلوبل وارمنگ، مہنگائی، بےروزگاری، وبائی امراض، ان حالات میں بجائے اس جھلستی دنیا کے مصائب کم کرنے کے اضافہ کی کوشش قابل افسوس ہیں۔ حالیہ جی۔7کے اثرات جلد ہی نمایاں ہوں گے اور روس کی طرف سے سخت جواب کی توقع ہے۔