حقیقت یہ ہے کہ اسلامی تاریخ اور تاریخ عالم میں، آٹھویں صدی تا تیرہویں صدی تک کو (مسلم تاریخ کے پانچ سو برس کے دور کو) سنہری دور کہا جاتا ہے، جس میں مسلمانوں نے بغداد، قرطبہ اور اندلس میں علوم قدیم یونانی روما اور ہند کے علوم کو عربی میں ترجم کرکے اس خطے میں بڑے بڑے کتب خانے اور مدارس قائم کئے، جن کو چنگیز خان نے اپنے دور جنگ و جدل اور تباہی کے دوران آگ لگا دی، جس کے باعث علمی خزانہ بڑی حد تک ضائع ہوگیا۔
بعدازاں چودھویں صدی تا سترہویں صدی تک مسلمانوں کے عربی میں تراجم شدہ علوم اور فنون کو یورپین نے لاطینی زبان میں ترجم کرکے اپنے کتب خانے قائم کئے، یہ لگ بھگ چار سو برس کا دور نشاۃ ثانیہ کہلایا۔ عربی سے لاطینی زبان میں ترجم کا عمل سب سے پہلے اٹلی سے ہوا،پھر پورے یورپ میں پھیل گیا، جس کے بعد یورپی ممالک نے ان علوم سے آگہی کے بعد تحقیق کرکے ان علوم کو آگے بڑھایا،جس سے دنیا میں ترقی اور ایک حد تک نئی روش کے باب کھلنے لگے ،جس میں تاریخ، جغرافیہ، طبی علوم ،الجبرا، جیومیٹری وغیرہ کے علاوہ فنون لطیفہ کے شعبے بھی شامل تھے۔
سترہویں تا بیسویں صدی کے تقریباً نصف تک یورپی ممالک برطانیہ، اسپین، فرانس، اٹلی، پرتگال وغیرہ نے دنیا میں اپنی اپنی نوآبادیات قائم کرنی شروع کیں تودنیا میں نوآبادیاتی لوٹ کھسوٹ، ظلم و جبر سے حاصل کردہ دولت اور ان ممالک کے قدرتی وسائل سے یورپی ایوانوں میں روشنیاں جگمگانے لگیں۔ یورپ میں ترقی اور خوشحالی کا ایک نیا دور شروع ہوا، جبکہ افریقی اور ایشیائی ممالک استحصال سے غربت، پسماندگی اور احساس محرومی کے اندھیروں میں بھٹکنے لگے۔
یورپی تاریخ دانوں کی تحقیق کے مطابق برطانوی تاجر اور حکومت نے صرف ہندوستان سے بیالیس ٹریلین ڈالرلوٹی تھی۔ اس دور میں افریقہ جو اپنے قدرتی وسائل کی وجہ سے دنیا کا امیر ترین براعظم تصور کیا جاتا تھا ،آج غربت اور احساس محرومی کا سب سے زیاد ہ شکار ہے۔ پرتگال کے جہاز رانوں اور تاجروں نے دنیا کے بڑے خطے دریافت کئے، جس میں شمالی امریکہ، جنوبی امریکہ، آسٹریلیا، جاپان اور نیوزی لینڈ شامل ہیں۔
فکر انگیز نکتہ یہ ہے کہ ہزاروں برسوں تک دنیا ان خطوں سے لاعلم رہی جبکہ یہ خطے بھی کرسٹوفر کولمبس کی تھوڑی سی غلطی سے دریافت ہوئے۔ کرسٹوفر ہندوستان دریافت کرنے نکلا تھا، مگر کیریبین جزائر جا پہنچا جو شمالی ا مریکہ کے ساحلوں کے قریب ہیں، اس مہم جوئی اور عظیم دریافت پر کرسٹوفر کولمبس کو پرتگال کی ملکہ نے شاہی اعزاز اور انعام و اکرام سے نوازا، مزید مہم جوئی اور علاقوں کی دریافت کے لئے کولمبس کو رقم فراہم کی۔
لیکن بتایا جاتا ہے کہ کرسٹوفرکولمبس کی موت کے وقت صرف اس کے چند قریبی دوست تھے ،جنہوں نے اس کی تدفین کی۔ تاریخ میں اکثر بڑے مصنفین، شاعروں، فنکاروں، مہم جو افراد کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ سقراط کو زہر پلا یا گیا تھا یا جلاوطنی پر مجبور کیا گیا تھا۔ اس پس منظر میں ہم آج نہ صرف زمین کو سمجھتے ہیں بلکہ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں کے شاعرانہ تصور کو حقیقت کا روپ دینے کی جدوجہد میں مصروف ہیں اور ترقی کی نئی نئی منزلوں کو چھو رہے ہیں۔
واضح رہے کہ پرتگیزی جہازرانوں اور تاجروں سےقبل عرب جہازراں تاجر یمن اور عمان سے چین کی بندرگاہوں تک جاتے تھے اور تجارت کرتے، سب سے پہلے سمندری راستوں کے نقشے عرب جہازرانوں نے بنائے تھے ،یہ طلوع اسلام سے بہت پہلے کا دور تھا،بعد کے ادوار میں پرتگیزی ملاحوں جہازرانوں نے ان نقشوں کی مدد سے کئی دریافتوں کا سلسلہ دراز کیا، پہلے واسکوڈی گاما ہندوستان آیا تھا۔ اس دور میں تمام جہازراں بادبانی کشتیوں میں سفر کیا کرتے تھے اور بحر ہند پر چلنے والی مون سون ہوائوں کے ذریعے ہندوستان سے تجارت کرتے تھے، یہ زیادہ ترآج کے سری لنکا اور کیرالہ آگئے تھے۔ یہ دور محمد بن قاسم سے بہت پہلے کا دور تھا۔ ہندوستان ،چین وغیرہ میں لوبان اور مسالحہ جات عرب تاجروں نے متعارف کرائےتھے۔
اس طرح انسانی ترقی کے ادوار گزرے اور انسان وقت کے ساتھ ساتھ زینہ بہ زینہ اُوپر چڑھتا رہا۔ گزری بیسویں صدی بھی نئے انکشافات، زمین سے چاند اور خلاء کے سفر ،نئی ایجادات ، ساتھ ساتھ تنازعات اور جنگ و جدل میں گزری۔ اب اکیسویں صدی کا دور ہے، جس کی لگ بھگ ایک چوتھائی گزر رہی ہے۔ اس میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوچکی ہیں،مزید بڑی بڑی تبدیلیوں کے آثار بھی دکھائی دیتے ہیں۔
عام طور پر عالمی میڈیا اور بعض باخبر شخصیات اکیسویں صدی کو مشرق کی صدی قرار دیتے ہیں، ان کے تجزیہ اور تجربہ کی روشنی میں اکیسویں صدی میں جوں جوں مغرب کا کردارکم ہو رہا ہے، اسی تناسب سے مشرق کا پلہ بھاری ہو رہا ہے اور مشرق میں چین ہے جس کی بڑی طاقت معیشت ہے۔ روس ایک بڑی طاقت ہے، ماضی قریب میں سپر پاور رہی ہے۔ ہندوستان یا بھارت ہے جو ترقی پذیر ممالک میں نمایاں ہے، اس کی بھی چین کی طرح بڑی آبادی ہے ،اس کے پڑوس میں پاکستان ہے ،اس کی آبادی بھی چھٹے نمبر پر آتی ہے ،یہ چاروں ممالک ایٹمی طاقت بھی ہیں۔ جاپان ترقی یافتہ اور بڑی معیشت ہے ۔
بتایا جاتا ہے کہ جاپان بھی ایٹمی قوت بننے جا رہا ہے پھر انڈونیشیا، ملائشیا، ایران اور مشرق وسطیٰ کے تیل سے مالا مال ممالک اور ریاستیں ہیں۔ اس لحاظ سے مشرق اپنی ایک نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ ادھر مغرب میں امریکہ، کینیڈا اور یورپ ہے مغرب میں بھی چار ایٹمی طاقتیں ہیں۔
اکیسویں صدی کی شروعات میں ہی چین نے معاشی اور دفاعی اعتبار سے اپنی نمایاں جگہ بنالی ہے۔ اس طرح روس بھی بتدریج عالمی سیاست میں اُبھر رہا ہے۔ یوکرین میں جو ہوا اس سے مغرب زیادہ تلملایا ہوا ہے۔ روس نے یوکرین پر جو حملہ کیا یہ اس کی ضرورت تھی، اس میں یوکرین کے رہنمائوں کی نااہلی کا بھی دخل ہے اور مغرب کی کارستانیوں کا بھی دخل ہے،تاہم اگر مغرب اپنی اسی پالیسی پر گامزن رہا تو یوکرین بڑا ایشو بن سکتا ہے،اس میں زیادہ نقصان یورپ کا ہوگا۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ مشرق آہستہ آہستہ مغرب پر بھاری پڑتا جا رہا ہے، اس حوالے سےسال 2022ء میں دو اہم چیزیں سامنے آئی ہیں۔
پہلی یہ کہ سعودی عرب نے اب امریکہ سے ڈکٹیشن لینا ترک کر دیا ہے، اس کے رویہ میں امریکہ کے حوالے سے سردمہری دکھائی دیتی ہے، روس اور چین نے حال ہی میں ایک اہم پوشیدہ اورکچھ برملا، معاشی سیاسی دفاعی حوالے سے اہم معاہدہ کر لیا ہے اور دونوں بڑی طاقتیں ایک دوسرے سے وسیع تعاون پر راضی ہو گئی ہیں۔ بھارت بہت سنبھل سنبھل کر قدم اٹھا رہا ہے۔ روس چین معاہدہ ،بھارت کے لئے ایک طرح سے باعث تشویش ہے۔ امریکہ کے لئے بھارت کی تشویش باعث اطمینان ہے۔ ایسے میں بھارت امریکہ کو چھوڑ نہیں سکتا، کیونکہ امریکہ کسی سے دوستی تو کر لیتا ہے، مگر اس کا ہمیشہ دوہرا معیار ہوتا ہے۔ اس لئے بھارت روس کا ساتھ نہیں چھوڑ رہا۔ اب بھارت اپنی جگہ بنانے کے لئے یا تو امریکی اور نیٹو کیمپ کا کاسہ لیس بن کر رہے یا پھر چین اور پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنائے، بھارت کو ان راستوں میں سے ایک کو لازمی چننا پڑے گا۔
آج کی دنیا میں ایٹمی طاقت پرگھمنڈ کرنا ،نادانی ہے ،کیونکہ جوہری بم دو دھاری تلوار ہے، جو دشمن کیلئے مہلک ہے تو اور ممالک کے لئے بھی خطرناک ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جاری اکیسویں صدی میں لگ بھگ بیس ممالک کے پاس انسانیت کو تباہ کرنے کا سامان ہے۔ ان تمام حقائق کے ساتھ ساتھ نئی صدی نے انسانیت کوکچھ اچھا بھی دیا ہے۔ مثلاً اکیسویں صدی میں عالمی معیشت کو فروغ ملا۔ تجارت میں اضافہ ہوا۔ ترقی پذیر ممالک میں صارفین کا اضافہ ہوا۔ ترقی پذیر دنیا میں جمہوری عمل کے لئے حمایت میں اضافہ ہوا۔ دنیا کی آدھی سے کچھ زائد آبادی انٹرنیٹ سے جڑ گئی۔ ڈی این اے پر زیادہ کام ہوا۔ انسانی تاریخ کے تمام ادوار کا دنیا کی چالیس سے زائد زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔
سائنسی تحقیق میں قابل ذکر پیش رفت ہوئی، خاص طور پر جینیاتی سائنس میں ترقی ہوئی ۔ ماضی کے مقابلے میں انسانی عمر میں اضافہ ہوا ،اب اوسط عمر ستر سال کے قریب یا اس سے بھی زائد ہوگی ہے۔ بیماریوں کے علاج میں نمایاں پیش رفت ہوئی،نئی نئی دوائیں تیار کی گئی ہیں، تاہم اس شعبہ میں مزید کام ہو رہا ہےاور تحقیق کی جارہی ہے۔ الٹراسائونڈ سسٹم نے مزید ترقی کرلی ہے۔ بیش ترممالک میں درس گاہوں اور تحقیقی مراکز کی تعمیر میں اضافہ ہوا۔
اکثر عرب ممالک میں نوجوانوں نے جمہوریت اور بنیادی حقوق کے لیے زوردار احتجاج کیا ،جن کو عرب اسپرنگ سے موسوم کیاگیا۔ خلائی تحقیق میں خاص طور پر نمایاں اضافہ عمل میں آیا۔ امریکہ ،روس کی طرح چین اور بھارت نے بھی خلائی راکٹ اور چاند گاڑیاں چاند پر جانے کے لئے روانہ کیں ،چین نے چاند پر خلاء باز روانہ کئے، پرواز کامیاب رہی ،اب چین خلاء میں خلائی اسٹیشن تعمیر کر رہا ہے، جس پر کام شروع کردیا ہے۔ بھارت بھی دوڑ میں شامل ہو گیا اور خلاء میں چاند گاڑی روانہ کی، جس کا مقصد چاند گاڑی کا چاند پر اُترنا تھا، مگر چاند کے قریب بارہ کلو میٹر قبل خلائی گاڑی کا زمین سے رابطہ ختم ہو گیا ،گاڑی چاند کی سطح سے ٹکرا کرتباہ ہو گئی ،جس کی تصاویر ناسا نے جاری کیں۔ ترقی یافتہ ممالک کی فیشن انڈسٹری نے اکیسویں صدی میں نئے نئے ڈیزائن اور جدید ملبوسات متعارف کرائے۔ ٹیلی کمیونی کیشن میں بیش بہا ترقی کی۔
کھیلوں کی دنیا میں ترقی اور نئے ریکارڈ بنانے کا عمل جاری رہا۔ تاحال چھ فٹ بال کے ورلڈ کپ کے انعقاد ہوئے اورکرکٹ کے پانچ ورلڈ کپ کھیلے گئے، اس کے کئی ون ڈے اور ٹوئنٹی اوورز کھیلے گئے، یورپی ممالک کے دفاعی اتحاد نیٹو نے دعویٰ کیا کہ جلد مزید گیارہ ممالک نیٹو کے رکن بن جائیں گے۔ عالمی معیشت کساد بازاری اور دیگر مسائل کے باوجود ترقی کر رہی ہے۔ بیسویں صدی میں ترقی کی رفتار، بیالیس ٹریلین تھی اب اضافہ کے ساتھ چورانوں فیصد تک ہوگئی ہے۔
اکیسویں صدی میں انرجی سیکٹر نے نمایاں ترقی کی اور بجلی کی پیداوار اورکھپت میں نمایاں ترقی ہوئی،سیاحت میں اضافہ ہوا، فضائی کمپنیوں کو پندرہ فیصد زائد منافع ہوا ۔بتایا جاتا ہے کہ سیاحوں کی تعداد میں اٹھارہ فیصد اضافہ ہوا ،کیونکہ گزرے دو برسوں میں کووڈ کی وجہ سے سیاحت میں زبردست کمی درآئی تھی ،مگر سال 2022ء اسی شعبہ کے لئے بہت اچھا گزرا۔ اس طرح کئی حوالوں سے سال 2022ء اچھا گزرا۔
اب اگر تصویر کا دوسرا رُخ دیکھا جائے تو گلوبل وارمنگ اور موسمی حالات اور ماحولیات کی تباہیاں جاری رہیں۔ بارشوں، سیلابوں درجہ حرارت میں اضافہ برفباری، خشک سالی اور زلزلے برپا رہے۔ ہردن آبادی میں اضافہ ہمیشہ کی طرح ہوتا رہا اور اکیسویں صدی میں آبادی مزید بڑھ گئی،ہرچند کہ قدرتی ماحولیات کی تباہی کاریایوں میں نہ صرف اضافہ ہوا بلکہ قدرتی ماحول میں مزید بگاڑ پیدا ہو گیا۔ گجرات بھارت میں تباہ کن زلزلہ سے لگ بھگ بیس ہزار افراد ہلاک ہوگئے،کئی ارب روپیہ کا نقصان ہوا، ریلوے لائن سمیت کئی کارخانے اور عمارتیں تباہ ہوگئیں، ایک اسکول کی عمارت تباہ ہونے سے سات سو سے زائد بچے ہلاک ہوئے۔
اکیسویں صدی کی شروعات میں یہ پہلا تباہ کن زلزلہ تھا۔ یورپ میں گرمی کی شدت اور ہیٹ وے کی حرارت سے تقریبا ساٹھ ہزار سے زائد افراد ہلاک اور ستائیس ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ موسلادھار بارشوں کی وجہ سے پاکستان میں بڑا سیلاب آیا،جس سے تین کروڑ افراد متاثر ہوئے۔ بحر ہند میں زلزلہ اور سمندری طوفان سونامی سے دو لاکھ تیس ہزار افراد ہلاک اورکئی ہزار شہری زخمی ہوئے سینکڑوں عمارتیں تباہ ہوئیں سینکڑوں درخت گرگئے۔ انڈونیشیا میں ایک قیامت برپا ہوگی۔ جزیرہ ہیتی میں سمندری طوفان سے جو شمالی بحراوقیانوس میں برپا ہوا اس میں پورے جزیرے پر تباہی پھیل گئی اور لگ بھگ بیس ہزار سے زائد افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوگئے۔ ہیتی امریکہ سے قریب واقع ہے۔
یہ غریب اور پسماندہ ملک ہے۔ اکیسویں صدی کے شروع برسوں میں کشمیر کے مقام باغ میں زبردست زلزلہ میں ستاسی ہزار افراد ہلاک، بیس ہزار سے زائد افراد شدید زخمی ہوئے، باغ کا پورا علاقہ جیسے اُلٹ گیا۔ اس کے مہیب اثرات مقبوضہ کشمیر پر بھی نمایاں ہوئے۔ اکیسویں صدی کے پہلے عشرے میں چین کے علاقے اوانگ میں شدید زلزلہ آیا جس میں اٹھاسی ہزار افراد ہلاک اور ساٹھ ہزار سے زائد افراد شدید زخمی ہوئے سات ہزار افراد لاپتہ ہوئے۔
اکیسویں صدی کے گزرے آخری برسوں میں آٹو میٹک مشینوں کی بہتات اور کمپیوٹر کے ایڈوانس پروگرامز کی وجہ سے امریکہ پورٹ آسٹریلیا میں کارخانوں کے ہزاروں مزدور بے روزگار ہوگئے۔ آٹو میٹک سسٹم کمپیوٹرائزیشن روبوٹس کی ترقی سے سرمایہ دار صنعتکار طبقے کو بہت فائدہ ہو رہا ہے ،مگر بے روزگاری بڑھتی جارہی ہے۔ دوسرے لفظوں میں خود کار آلات اور روبوٹس کی بدولت انسانی محنت اور صلاحیت کی اہمیت کم ہوتی جا رہی ہے۔ خود کار نظام محنت کشوں کو بیکار کرتا جا رہا ہے۔ سرمایہ دار کارخانہ دارکا منافع بڑھ رہا ہے پھر محنت کش اور باصلاحیت انسان کیا کرے گا۔
مستقبل قریب میں بے روزگاری کا مسئلہ مزید شدت اختیارکرتا دکھائی دیتا ہے، جبکہ آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے اور خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں جہاں بے روزگاری ،مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ اس تناسب سے جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عوامی مسائل بڑھ رہے ہیں۔ تنگ دستی ہزار برائیوں کی جڑ ہے۔
مشرق کے مسائل اپنے ہیں ،اس کی جڑیں گہری ہیں مگر مشرق نے دنیا کو بہت کچھ دیا بھی ہے، تمام قدیم مذاہب کا اور تہذیبوں کا گہوارہ بھی رہا ہے ،اس لئے مشرق کی ایک ناقابل فراموش تاریخ ہے۔ جدید دنیا کے جاری حالات اور مستقبل قریب کی متوقع صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ مشرق کی معیشت اور سیاست میں نمایاں تبدیلیاں رونما ہوتی نظر آرہی ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ دنیا تبدیل ہو رہی ہے،دنیا میں گزرے وقتوں کے مختلف ادوار میں تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں مگر ماضی میں تبدیلیاں دھیمے انداز سے رونما ہوتی تھیں۔
اکیسویں صدی کے بعد تبدیلی کا عمل تیز ہوتا دکھائی دیتا ہے اوّل قدرتی ماحولیات اور موسمی تغیرات کا اس میں بڑا دخل ہے، پھردوسرے بڑی طاقتوں کا مسئلہ ہے، ان کے مفادات اور تنازعات دنیا کا نقشہ تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ اس دور میں بھی ایساہی دکھائی دے رہا ہے کہ مشرق کا پلہ بھاری ہوتا دیکھ کر مغرب کی بے چینی اضطراب اور جھلاہٹ فطری امر ہے۔ مشرق کے چند تنازعات اس تمام خطے پر اپنے اثرات مرتب کرتے رہے ہیں۔ مشرقی ممالک میں اکثر مذہبی روایات زیادہ گہری ہیں۔
چین میں بھارت، پاکستان ،مشرق وسطیٰ وغیرہ شامل ہیں،باقی خطے سماجی معاشرتی اور نظریاتی طور پر سیاست کرتے ہیں۔ جغرافیائی نظریہ ہے کہ سورج مشرق سے طلوع ہوتا ہے اور مغرب میں غروب ہوتا ہے ازل سے ایسا ہی ہے۔ اس کو شاعرانہ طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے کہ مشرق سے طلوع ہوتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ، لگتا ہے کہ اب واقعی یہ صدی مشرق کی صدی ہے۔
جاپان تا سعودی عرب نئی کروٹ لے رہا ہے۔ مشرق کو مغرب میں اب زیادہ کشتی نظر نہیں آرہی ہے دوسرے لفظوں میں مغرب کی باری ختم، اب مشرق کی باری ہے۔ کیا حقیقت نہیں کہ مشرق کوجن چار صدیوں تک زخم لگائےگئے، جس کے ذمہ دار یورپی ممالک تھے، جو اب تنزلی کی طرف جاتے دکھائی دیتے ہیں۔ یورپی ممالک آج کل سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل کا شکار ہیں ۔یورپ ایک بار پھر نسل پرستی کا شکار ہو رہا ہے اس کی وجہ ماضی میں یورپی قوتوں کا غرور اور نسلی تعصب رہا، مگر اب یورپی ممالک خود اپنے ملک میں پریشان ہیں، سفید فام تارکین وطن جو یورپی ممالک میں آباد ہیں، ان کی نئی نسل سفید فام باشندوں سے قطعی مرعوب نہیں ہے، وہ اپنے حقوق جانتی اور گوری نسل سے اپنا پورا حصہ طلب کرتی ہے۔
واضح رہے کہ یورپ نے دوبار احمقانہ عالمی جنگیں لڑکر جب خود کر بری طرح زخمی کرلیا تھا،تب ایشیائی اور افریقی ممالک کے باشندوں نے ان کے کارخانے چلائے، تباہ شدہ عمارتیں تعمیر کیں، سڑکیں بنائیں اور دیگر انفرااسٹرکچر کھڑا کیا۔ ان باشندوں کی دوسری اور تیسری نسل جو وہاں پیدا ہوئی ،پرورش اور تعلیم پائی وہ اپنا پورا قومی حق طلب کرتی ہے۔ گزرے وقتوں میں نوآبادیات میں گورے صاحب کی کرسی کو چارکہار رنگدار نسل کے اپنے کندھوں پر اٹھا کر لے جاتے تھے، اب رنگدار نسل والے صاحب بن کر گوری نسل کے کندھوں پر سوار ہو رہی ہے، گوری نسل پریشان ہے۔
روس نے یوکرین پر حملہ کرکے دوست اقدام کیا یا غلط کیا، اس کا جواب جو بھی ہو، مگر فی الفور امریکہ اور یورپ خاصے پریشان ہیں اور جنگ کو امریکہ طول دینے کے لئے یوکرین کو بڑے پیمانے پر ہتھیار اور مالی امداد فراہم کررہا ہے۔ امریکہ اس جنگ کو روس کو پریشان کرنے کے لئے طول دینا چاہتا ہے،جبکہ یورپی ممالک چاہتے ہیں کہ جنگ ختم ہو اور روس سے تیل اور قدرتی گیس کی فراہمی جاری ہو سکے۔ امریکہ نے روس پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اور یورپ کو امریکہ تیل فراہم کرنے کا عندیہ دے رہا ہے ،جبکہ روس کی گیس اور تیل کی پائپ لائنیں براہ راست تیل گیس فراہم کرتی رہی ہیں ،اس طرح روس برسوں سے یورپی ممالک کی چالیس تا پچاس ضرورت پوری کرتا رہا ہے۔ اب سردی کے موسم میں یورپ ٹھٹھر رہا ہے۔ فرانس کے معروف اخبار، لی نگارو، میں ایک کارٹون شائع کیا تھا، جس میں ایک بچہ اپنے باپ سے کہہ رہا ہے، مجھے بہت سردی لگ رہی ہے ہیٹر کھول دیں۔ باپ کہتا ہے ہماری گیس روس نے بند کردی ہے، ہیٹر نہیں چل سکتا۔ لڑکا کہتا ہے آپ روس سے کہیں کہ ہماری گیس کھول دے۔
ہالینڈ، بیلجیم، جرمنی، فن لینڈ، سوئیڈن وغیرہ کو براہ راست پائپ لائن سے روس تیل اور قدرتی گیس فراہم کرتا ہے، مگر اب پابندی میں یورپ پریشان ہے۔ امریکہ کے لئے یورپی ممالک کی پریشانی دور کرنے کا کوئی ٹھوس منصوبہ نہیں ہے، وہ اپنی ضد پر قائم ہے اور یورپی ممالک پر زور دے رہا ہے کہ روس سے تیل، گیس نہ خریدیں۔ امریکہ دراصل اپنے محل ووقوع پر زیادہ بھروسہ کرتا ہے کہ وہ سب سے زیادہ فاصلے پر الگ تھلگ واقع ہے، مگر شمالی کوریا، امریکہ کے لئے گزشتہ تیس چالیس برسوں سے درد سر بنا ہوا ہے، ہر بار مذاکرات کی میز پر شمالی کوریا کے صدور نے چھ امریکی صدور کو ناک آئوٹ کردیا۔
اب شمالی کوریا شمالی کوریا کے صدر ،کم جونگ ان پر پانچ سات ماہ بعد بلاسٹک میزائل کا تجربہ کرتا ہے اور یہ دورمار بلاسٹک میزائل امریکہ کے قرب و جوار میں گرتا ہے، یہ حقیقتاً امریکہ کے لئے پریشانی ہے اور ہر امریکی صدر نے شمالی کوریا سے مذاکرات کرکے کسی سمجھوتے کی کوشیش کی ہیں اور ہر امریکی صدر پشیمان ہو کر نکلا۔ میز پر بات چیت میں شمالی کوریا نے ہر امریکی صدر کو مات دی ہے۔ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شمالی کوریا کا دورہ کیا اور مذاکرات کی دعوت تھی۔ صدرٹرمپ، قدر ے جذبات رہنما تصور کئے جاتے تھے۔ میڈیا اس معاملہ میں خاصی دلچسپی لے رہا تھا،مگرجب دیکھا کہ مذاکرات جلد ختم ہوگئے اور ٹرمپ واپس امریکہ روانہ ہوگئے،ان کو بھی مذاکرات میں خاصی خجالت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
مغرب کے پاس جدید ہتھیار ہیں مگر مغرب کی افرادی قوت خاص طور پر امریکی جنگ و جدل کے حق میں نہیں۔ وہ امن چاہتے ہیں ،زندگی اپنے ڈھنگ سے گزارنا چاہتے ہیں ۔امریکہ کی سرزمین پر ہر قسم کی تفریحات موجود ہیں۔ رات کو ہر کلب، ہر بار، ہرکھیلوں کا اسٹیڈیم یا میوزیکل کنسرٹ ہال عوام سے بھرا نظرآتا ہے ۔امریکی تفریحات کے شوقین ہیں، جبکہ امریکی پالیسی اس کے برعکس ہے امریکہ کے کھلونوں کی فیکٹریاں ہتھیاروں اور فوجی ٹائپ کھلونے زیادہ بناتی ہیں۔
بچوں کو جنگی اور ماردھاڑ والے کارٹون زیادہ دکھائے جاتے ہیں۔ تاکہ ان کا ذہن اسی طرح بنایا جائے۔ مغربی خواتین کام کرتی ہیں، فیشن کی زیادہ دلدادہ ہیں، ان خواتین کی اکثریت امریکی کی گن بوٹ پالیسی سے اختلاف رکھتی ہے۔ امریکی رہنماؤں کو اس کی پوری آگہی ہے کہ امریکی شہری اب جنگ و جدل سے بیزاری ظاہر کرنے لگے ہیں، ایسے میں امریکہ اپنے دفاع میں جدید سے جدید ہتھیار استعمال کرنے پر توجہ دیتا ہے اور یہ کام وہ ایک طویل عرصے سے کر رہا ہے۔ امریکہ کا موٹو یہی ہے کہ جدید ہتھیار تیارکرو، ان کی فروخت سے معیشت کوسہارا دو اور اپنا دفاع بھی مضبوط بنائو، مگر اب بدلتی دنیا میں زیادہ عرصہ امریکہ اپنی پالیسی پر قائم نہیں رہ سکے گا۔ اس کے بڑے حریف ،روس اور چین کسی حد تک شمالی کوریا جدید ہتھیاروں کی دوڑ میں امریکہ سے زیادہ پیچھے نہیں ہیں۔
دنیا اس حقیقت سے بھی آگاہ ہے کہ قدرتی ماحول بگاڑنے اورآلودگی میں اضافہ کرنے میں امریکہ سرفہرست ہے۔ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی ادارہ کا دعویٰ ہے کہ ،دنیا کی آلودگی میں امریکہ کا پچیس فیصد حصہ ہے، باقی پوری دنیا ہے۔ امریکہ ہر قیمت پر یورپی ممالک اور نیٹو کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتا ہے ،جبکہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک کاروباری شخصیت تھی، نیٹو ممالک کو کہا تھا کہ ،اس معاہدہ کا خرچہ یورپ پورا کرے،امریکہ اس کا بوجھ اٹھانے کے لئے راضی نہیں ہے۔ اس پر امریکی ہتھیار پسند لابی نے ٹرمپ کے خلاف خو ب پروپیگنڈہ کیا تھا۔
مغرب کا ایک اہم ستون نیٹو معاہدہ ہے، جبکہ یورپی یونین کا اہم ستون امریکہ ہے، اب جبکہ یورپی یونین مسائل میں گھرتا جا رہاہے اور دوسری طرف روس اپنا پاور شو کر رہا ہے تو یورپ کو آگے حالات کے بارے میں کوئی حتمی پالیسی وضع کرنا پڑ سکتی ہے۔ یورپ زیادہ عرصہ امریکہ پر تکیہ نہیں کر سکتا،مگر برطانیہ جو اب بھی اپنے ملک کو ماضی کی طرح اہم اور طاقتور سمجھتا ہے وہ یوکرین مسئلے پر ظاہر ہے امریکہ کا طرفدار اور روس سے شاکی ہے، ایسے میں برطانیہ اپنی اہمیت میں اضافے کے لئے روس سے مزید مخالفت بڑھا رہا ہے اور یوکرین کی ہر طرح مدد کرنے کا عندیہ بھی دے رہا ہے۔
حال ہی میں اکنامک فورم نے اپنی رپورٹ میں مشرق کی بڑی طاقتوں سمیت پاکستان اور بھارت کا بھی زکرکیا ہے۔ اکنامک فورم رپورٹ کے مطابق، 2050 تک روس چین اور بھارت ٹکڑوں میں بٹ جائیںگے اور پاکستان میں مزید معاشی بحران آئیں گے۔رپورٹ میں مغربی ملکوں کے بارے میں کوئی بات نہیں کہی گئی ہے۔ تاہم اب سائنسی ترقی کا دور ہے آئندہ بیس تیس برسوں میں دنیا میں بہت بڑی بڑی تبدیلیاں رونما ہونے کی توقع کی جا رہی ہے۔
مغرب تعلیم تحقیق پر زیادہ توجہ مرکوز کر رہا ہے اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ دنیا کے لئے،اکیسویں صدی گزری صدی سے زیادہ اہم ہو گی، ایسے میں پاکستان کو مؤثر حکمرانی اور اپنی معاشی پالیسی کو بہتر بنانے کی کوششیں تیز کردینا چاہئے۔ اس وقت ہمیں قومی ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔ دھرنے جلوس جلسوں کا وقت نہیں ہے۔ جمہوری اداروں کو مستحکم بنانا ہوگا۔ سیاسی ہنگاموں، جذباتی نعروں سے پرہیز کرنا ہوگا، ان حالات میں پاکستان کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو سنجیدگی سے اپنے اطراف کے بارے میں سوچنا ہوگا۔ یہ نئی صدی کا پیغام ہے۔