دُنیا کی چار سو چونسٹھ ٹریلین ڈالر مجموعی دولت دُنیا کے ایک سو پچانوے ممالک میں بٹی ہوئی ہے۔ پوری دُنیا کی اس دولت پر دُنیا کے ایک سو بارہ خاندانوں کا قبضہ ہے۔ دُنیا میں سب سے زیادہ اَرب پتی شخصیات امریکہ میں بستی ہیں۔ ان کی تعداد نو سو اَٹھتّر کے قریب ہے۔ چین میں ایک سو بیالیس خاندان، ہانگ کانگ میں ایک سو چودہ، سنگاپور میں پچاس، ممبئی میں اکتالیس، دوبئی میں اڑتیس، استنبول میں تینتیس، ماسکو میں پچھتّر، لندن میں ستّر خاندان، پیرس میں تینتیس، نیویارک میں ایک سو اڑتیس، سان فرانسسکو میں تریاسی، لاس اینجلز میں اِکاون، برازیل میں باون، افریقی ممالک میں چھیالیس، مشرق وسطیٰ میں بیالیس، ترکی میں تینتیس، متحدہ عرب امارات میں پینتالیس اور سعودی عرب میں اکہتّر خاندان دولت مند ہیں۔
دُنیا کی مجموعی آبادی سال 2022ء میں آٹھ ارب سے کچھ زائد ہے جو دُنیا کے ایک سو اٹھانّویں ممالک میں تقسیم ہے زیادہ آبادی والے ممالک چین، بھارت برازیل اور امریکہ ہیں۔
نیویارک سان فرانسسکو ، ٹوکیو، ہانگ کانگ، سنگاپور، پیرس، لندن، روم کی چکا چوند روشنیاں فلک بوس عمارتیں نئی نئی کاروں کا ہجوم بڑے کیسینو اور کلب دولت مند افراد کی ملکیت ہیں۔ دُنیا میں جرائم پیشہ افراد کے گینگ ہیں جو ناجائز دھندے سے بے حد دولت کماتے ہیں جس کو عام زبان میں بلیک منی کہا جاتا ہے۔ امریکہ کے ہر بڑے شہر میں جرائم پیشہ افراد نے منظم طور پر اپنی اپنی سنڈیکٹ قائم کر رکھی ہیں جس میں اغوا برائے تاوان، ناجائز جوئے خانہ، قحبہ خانے ہیں اور ان کے علاوہ یہ سنڈیکٹ کرائے کے قاتل بھی فراہم کرتی ہیں۔
ان زیرزمین کام کرنے والوں کی دولت کا اندازہ نہیں ہے۔ان کے ہاتھ بہت لمبے ہیں جو یورپ لاطینی امریکہ تک پھیلے ہوئے ہیں۔
بیسویں صدی کے اوائل میں سرمایہ داری نظام اپنے ڈھنگ سے کام کرتا تھا۔ وہ عالمی جنگوں کا دور تھا بعدازاں سرد جنگ کا دور شروع ہوا جو اُنیس سو نوّے کی دہائی تک جاری رہا پھر سابق سوویت یونین کے منتشر ہونے کے بعد دُنیا میں سرمایہ داری، اجارہ داری نظام میں تبدیل ہوگئی ہے۔ دُنیا اجارہ دار سرمایہ داروں کے رحم و کرم پر چل رہی ہے۔ اس کی بدولت دُنیا میں غربت، پسماندگی، جہالت، مہنگائی میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ دُنیا کےتیس لاکھ سے زائد افراد کو رات کا کھانا نصیب نہیں ہوتا۔ بڑے شہروں میں ہزاروں افراد فٹ پاتھ پر زندگی گزار رہے ہیں۔
لاکھوں غریب بچّے اسکولوں اور تعلیم سے محروم ہیں، ہزاروں افراد کو علاج معالجہ کی سہولت حاصل نہیں ہے۔ مغرب میں طبّی سہولیات بہت مہنگی ہیں، میڈیکل کا نظام پیچیدہ اور مہنگا ہے۔ ویلفیئر اسٹیٹ کے نظام پر بے روزگاری الائونس دے کر غریب بے روزگاروں کی ڈھارس بندھائی جاتی ہے۔ بیسویں صدی میں صنعتی کارخانوں اور زراعت میں جدید ٹیکنالوجی نے ہزاروں محنت کشوں کو بے روزگار کر دیا اب ستم یہ کہ مصنوعی ذہانت کے طفیل تیارہونے والے روبوٹ دُنیا میں بے روزگاری کا سیلاب لے آئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ایک روبوٹ بہت سے کام منٹوں میں نمٹا دیتا ہے۔
اس نئی صورت حال نے انسانوں کی اہمیت بہت کم کر دی ہے اور بیروزگاری میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ دُنیا کے اجارہ دار سرمایہ دار مزید طاقتور اور دولت مند ہو رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر ہر جگہ روبوٹ کام کرنے لگیں گے تو دُنیا کی آبادی جو آج آٹھ ارب سے زائد ہے سال 2050ء تک تقریباً بارہ ارب تک پہنچ جائے گی اتنی بڑی آبادی کیا کام کرے گی۔ اب تو یہ تک کہا جاتا ہے کہ مستقبل قریب میں فوج کا کام بھی روبوٹس سنبھالیں گے اور دُشمن ملک سے جنگ کریں گے۔ گویا دُنیا پر ایک طرح سے روبوٹس کی اجارہ داریاں قائم ہو جائیں گی۔ یہ ہے اجارہ داروں کا سرمایہ داری نظام جو حرص، طمع اور خودغرض منافع خوری کے نشے میں نہ جانے دُنیا کو کس تباہی کی طرف دھکیل رہا ہے۔
انسان، انسانی فطرت اس کے احساسات، محسوسات اور جمالیات کا کوئی دُوسرا نعم البدل ہو ہی نہیں سکتا۔ستم ظریفی یہ کہ جدید ٹیکنالوجی جہاں زندگی میں سہولتیں، آسائشات اور جدّت پیدا کر رہی ہے تو دُوسری جانب غربت، بے روزگاری اور مہنگائی میں اضافہ کا سبب بن رہی ہے۔ اس کی وجہ سے پوری دُنیا میں کرپشن کا بازار گرم ہے خصوصی طور پر ترقّی پذیر ممالک میں کرپشن سماجی روایت اور معاشرہ کی ضرورت بن چکی ہے جس کی وجہ سے معاشروں میں مایوسی افراتفری اور بے راہ روی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ گداگری عام ہو رہی ہے، سفید پوشی اور وضع داری جیسی صفات کم ہوتی جا رہی ہیں۔
یہ فطری عمل ہے کہ معاشرے میں مایوسی اور بے یقینی کی کیفیات عام ہوں تو اعلیٰ صفات او روایات کمزور پڑ جاتی ہیں۔
اس کے علاوہ دُنیا میں سیاسی طور پر بھی بے یقینی اور مختلف خدشات بڑھتے جا رہے ہیں۔ دُنیا کی بڑی آبادی کو خدشہ ہے کہ جلد ہی دُنیا تیسری عالمی جنگ سے دوچار ہو جائے گی۔ خاص طور پر روس اوریوکرین کی جنگ سے مختلف ممالک کی نصف سے زائد آبادی ان خدشات سے حیران پریشان اور ہراساں ہے۔ یوکرین کے واقعات اور وہاں کی تباہی دیکھ کر مشرقی یورپی ریاستیں اور دیگر یورپی ممالک زیادہ ہراساں ہیں۔ اس غیرمناسب جنگ کی وجہ سے گندم اور دیگر اجناس کی فراہمی میں شدید کمی کی وجہ سے بیشتر افریقی اور عرب ممالک میں خوراک کی کمی محسوس کی جا رہی ہے۔ پسماندہ ممالک کے مسائل میں اضافہ اور غذائی قلّت کا سامنا ہے۔
غربت، بے روزگاری، مہنگائی اور ناانصافی کی وجہ سے بیش تر افریقی مشرق وسطیٰ اور ایشیائی باشندوںکی بڑی تعداد امریکی ویزا اور ہجرت کے کوشاں ہیں جس میں میکسیکو، چین، بھارت، افغانستان، فلپائن، پاکستان، بنگلہ دیش، ایران، یمن، صومالیہ اور دیگر بیس سے زائد ممالک کے باشندوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔ گزشتہ برس امریکہ نے دو لاکھ پچاسی ہزار ویزے جاری کئے تھے۔ خاص طور پر شمالی افریقہ، جنوبی ایشیا اور مشرق بعید کے ممالک کے باشندے ہجرت پرمائل اور مجبور ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ سترھویں اور اٹھارہویں صدی میں یورپی نو آباد کاروں نے ایشیا، افریقہ اور جنوبی امریکہ میں جہاں جہاں اپنی نو آبادیات قائم کیں ان یورپی نو آبادکاروں میں برطانیہ، فرانس، اسپین، پرتگال، اٹلی اور ہالینڈ سرفہرست تھے۔ سب سے بڑا اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہندوستان تھا جس پر پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی نے سازشوں سے قبضہ جمایا پھر تاج برطانیہ نے ہندوستان کو اپنی نوآبادیات میں شامل کیا۔ تاج برطانیہ نےصرف ہندوستان سے پینتالیس ٹریلین ڈالر کا مال و متاع لوٹا۔ برطانوی نوآبادکاروں نے دُنیا میں لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ اس طرح فرانس، اسپین، پرتگال اور اٹلی وغیرہ نے بھی یہی وتیرہ اپنایا تھا۔ ایسے کل کے امیر ممالک غریب سے غریب تر ہوگئے۔ غربت اور پسماندگی کا سلسلہ وہاں سےشروع ہوا تھا جبکہ یورپی ممالک اس دور میں غربت اور پسماندگی میں بھٹک رہے تھے۔ ان کے ایوان جگمگا اُٹھے، غربت اِدھر آ گئی امارت اُدھر چلی گئی۔ یہ حقیقت سب پر آشکار ہے کہ امیر ترین براعظم افریقہ کو نوآبادکاروں نے مفلوک الحال اور غریب ترین خطّہ بنا دیا۔
ایسٹ انڈیا کمپنی نے جب ہندوستان میں قدم رکھا تو ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ لارڈ میکالے نے لکھا کہ ہندوستان سونے کی چڑیا ہے جو پانچ سو سے زائد ریاستوں میں تقسیم ہے یہاں کے راجے مہاراجے سونے چاندی کے برتنوں میں کھانا کھاتے ہیں۔ نوکر چاکروں کی بھرمار ہے۔ ان کی مہارانیاں اور ملکائیں سونے جواہرات سے لدی پھندی ہوتی ہیں۔ یہاں چار موسم ہوتے ہیں۔ تمام میوہ جات دستیا ب ہیں۔ ریاستوں کے مابین تنازعات میں بیش تر ریاستوں کے حکمران ہم سے مدد مانگتے ہیں، اپنوں سے دُشمنی نبھاتے ہیں۔ ہندوستان تضادات کا گھر ہے۔ ہمیں اور تاج برطانیہ کوا س جانب توجہ کی اشد ضرورت ہے۔ لارڈ میکالے کے اس خط نےبرطانیہ میں ہلچل مچا دی۔
برطانیہ میں کشمیری شالیں ڈھاکہ کی ململ چھینٹ کے کپڑے کی مانگ بہت بڑھ گئی۔ پنجاب اور سندھ سے اناج برطانیہ ایکسپورٹ کرنے کے لئے انگریز نے لاہور سے کراچی تک ریلوے لائن بچھا دی۔ کراچی کی بندرگاہ کو وسعت دی لاکھوں ٹن اناج برطانیہ بھجوایا۔ ہندوستان میں غلّہ کی قیمت میں اضافہ ہوگیا ایسے میں ہندوستان میں قلّت پیدا ہوگئی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے انگریز ہندوستانیوں کو کوڑے مار مار کر ان سے کام لیتے تھے۔ یہی کم و بیش صورت حال دیگر یورپی نوآبادیات کی تھی سب سے زیادہ ظلم و جبر افریقی عوام کے ساتھ کیا۔ ہزاروں افراد کو جن میں مرد و زَن بچّے سب ہی شامل تھے۔ انسانی اسمگلر انہیں شمالی امریکہ اور یورپ اسمگل کرتے رہے جن سے ٹیکساس میں کپاس کے کھیتوں میں کام لیا جاتا تھا۔
چین نے اس دور میں بارود ایجاد کر لیا تھا جس کا خوب خوب فائدہ یورپ نے اُٹھایا اور اپنی توپوں کے استعمال سے کئی علاقے فتح کر لئے۔ ہندوستان کے حکمرانوں نے ٹیکس اور لگان دینا شروع کر دیا۔ اس کا بوجھ بھی ہندوستان کے غریبوں پرڈالا گیا۔ درحقیقت پانچ سو سے زائد ریاستوں میں بٹا ہندوستان کہیں بھی انگریزوں کے خلاف ٹھہر نہ سکا اگر کسی حکمراں نے ٹکر لینے کی کوشش کی بھی تو وہاں میر جعفر اور میر صادق جیسے غدّار ان کے بہت کام آئے۔ یورپی ممالک میں غربت کے اسباب اور مسائل کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ترقّی پذیر ممالک کی اکثریت خوراک، پینے کے صاف پانی، بیروزگاری، تنازعات، آپس کے جھگڑے، انفرا اسٹرکچر کی کمی، خودغرض بدعنوان حکمراں، غیرمؤثر حکمرانی، خاندانی دولت و وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم، صحت عامہ کی سہولتوں کا فقدان، آبادیوں میں بتدریج اضافہ اور سیاسی عدم استحکام کی ایک طویل فہرست سامنے آتی ہے۔ کہا جاتا ہے دولت سے مزید دولت پیدا ہوتی ہے۔
روپیہ روپیہ کو کھینچتا ہے۔ امیر اور دولت مند شخصیات دن رات اپنی دولت میں اضافہ کی تگ و دو میں مصروف ہوتے ہیں، نئی نئی منصوبہ بندی کرتے ہیں، کھانے کے لئے بھی وقت کم دیتے ہیں کچھ سیر تفریح کر لیتے ہیں اور سوتے کم ہیں۔ اس کے لئے بھی زیادہ تر مسکن دونوں کے محتاج ہوتے ہیں، انہیں ہر وقت یہ خدشہ ہوتا ہے کہ ان کی منصوبہ بندی اور سرمایہ کاری کے راز چرا لئے نہ جائیں کیونکہ ان کو یہ شک درست یا غلط ہوتا ہے میرے ملازمین میں حریفوں کے جاسوس بھی کام کر رہے ہوں گے۔ یہ جاسوس میرے راز لیک کر سکتےہیں۔ انہیں بلیک میلنگ کا بھی خطرہ رہتا ہے۔ چونکہ امریکی قانون میں ٹیکس چرانے کو سب سے بڑا جرم قرار دیا گیا ہے اس سے تمام امیر لوگ بہت خوفزدہ ہوتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ اگر ایسا ہوا تو میرے وکلا کی فوج بھی مجھےنہیں بچا سکتی اور اگر ایسی کوئی کوتاہی یا جرم سرزد ہو جاتا ہے تو ان میں اکثر ملک سے فرار ہو جاتے ہیں یا خودکشی کر لیتے ہیں اس طرح کے بہت سے واقعات درج ہیں۔
امریکی ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ بیش تر دولت مند افراد کی تحلیل نفسی کے بعد معلوم ہوا کہ دولت مند افراد میں کہیں نہ کہیں یہ بات گھر کر جاتی ہے کہ دولت اور دولت کے لئے بعض غیرقانونی ذرائع استعمال کرنے ہوں گے۔ صاف گو پاکباز قانون کا احترام کرنے والااور اخلاقی سماجی اقدار کی پاسداری کرنے والا فرد دولت مند نہیں بن سکتا اگر بن گیا تو مزید دولت میں اضافہ کرنے کے لئے اس کو کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی طریقہ سے کچھ ناجائز اور غیرقانونی طریقہ کار اپنانے ہوں گے۔ اس کے بغیر وہ کبھی بھی دولت نہیں کما سکتا۔ امریکہ میں دولت کمانے پر کوئی پابندی نہیں ہے مگر ٹیکس نہ دینے پر کوئی چھوٹ نہیں ہے۔
اس تمام منظر میں عوام کہاں کھڑے ہیں ان کی قسمت میں دُکھ، مسائل، ناانصافی اور غیرمساویانہ سلوک کیوں ہے۔ اس قدیم ترین کا گیانی پنڈت راہب ٭٭٭ کر غریبوں کو مطمئن کرنے اور دلاسہ دینے کی کوشش کرتے تھے ان معاملات میں انسان کا کوئی دخل نہیں بلکہ ہر فرد پیدا ہوتا ہے تو اپنی قسمت بھی ساتھ لاتا ہے۔ شاید ہمارے بزرگوں نے کچھ بُرا کیا ہوگا یہ اس کی سزا ہی ہے۔
یہ بھی قابل غور بات ہے کہ قدیم دور یا ماضی قریب میں انسانوں کی عمومی عمر تیس اور چالیس سال کے اندر ہوتی تھی دو فیصد لوگ پچاس ساٹھ تک زندگی گزارتے تھے۔ 98 فیصد لوگ پچاس سے کم عمر میں دُنیا سے چلے جاتے تھے۔ غذا میں ملاوٹ کا شائبہ تک نہ تھا۔ زیادہ تر لوگ پیدل سفر کرتے تھے، امیرلوگ البتہ پالکیوں میں جایا کرتے یا گھوڑوں پر سفر کرتے تھے۔ آج کے دور کے انسانوں کی عمر کا اوسط زیادہ ہے جبکہ پیدل چلنا دُور کی بات ہے کاروں، موٹرسائیکلوں کا استعمال عام ہے۔
غذا خالص نہیں ہے۔ ہوا جس میں سانس لیتے ہیں اس میں آلودگی رَچی بسی ہے، پھر بھی اوسط عمر میں اضافہ ہوا ہے۔ اس ضمن میں ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ صرف جدید ادویات اور میڈیکل سائنس کی ترقّی کا نتیجہ ہے۔ اس کے علاوہ افراد میں صحت کے حوالے سے آگہی بھی دستیا ب ہے۔ میڈیا خبریں اور صحت کے حوالے سے مضامین شائع کرتا ہے۔ یہ بھی عمر میں اضافہ میں معاون ثابت ہو رہے ہیں۔ پرانے وقتوں میں افراد کسی چیز سے پرہیز نہیں کرتے تھے ان کی سب سے بڑی اور خراب عادت تھی کہ وہ پرہیز کرنے سے پرہیز کرتے تھے۔ آج کے دور میں چونکہ میڈیکل سائنس نے خاصی ترقّی کی ہے جس کی وجہ سے عوام میں صحت کے اور بیماریوں کے حوالے سے خاصی آگہی میسر آئی ہے۔
مگر مسئلہ وہی ہے غربت ان تمام معاملات میں آڑے آتی ہے۔ طبّی علاج، ڈاکٹروں کی فیس، دوائیں مہنگی ہیں ہر فرد یہ اخراجات برداشت نہیں کر سکتا۔ غریبوں کے ہاتھ سے طبّی علاج بھی نکل رہا ہے۔بھارت، برازیل، چلی، یورو گوئے، ایکواڈور وغیرہ میں عام آدمی نجی طور پر علاج کے حوالے سے سوچ بھی نہیں سکتا۔ سرکاری اسپتال میں وہ عدم توجہ کا شکار ہوتا ہے اور دوائیں نایاب ہیں ایسے میں غریب کہاں علاج کرائے؟
مغربی ممالک نے ویلفیئر اسٹیٹ کا نظریہ دیا جس میں ہر بے روزگار شہری کو کچھ رقم گزارہ الائونس کے نام سے دی جاتی ہے۔ بعض ممالک نے تعلیم ہائی اسکول فری مفت کر دی، صحت عامہ کو بھی ویلفیئر اسٹیٹ کے طور پر چلایا جاتا ہے مگر سرکاری اسپتالوں سے عوام مطمئن نہیں۔ پرائیویٹ ڈاکٹروں کی فیس مہنگی ہے وہاں ڈاکٹر علاج سے زیادہ ٹیسٹ کراتا ہے۔ نسخہ میں بیماری لکھ دے گا آپ اس نسخہ کو لے کر کیمسٹ کی دُکان پر جائیں وہ دوائیں تجویز کرتا ہے اس طرح علاج مہنگا بھی ہوتا ہے اور وقت بہت لیتا ہے۔
ترقّی پذیر ملکوں میں ظاہر ہے مفت علاج کے نام پر علاج کم، مسئلے زیادہ ہوتے ہیں۔ ایسے میں ڈاکٹروں کےبھی مسائل ہیں۔ آبادی بڑھ رہی ہے مسائل بڑھ رہے ہیں۔
بڑے شہروں میں سلم آباد ہیں ہم انہیں کچی آبادیوں سے تعبیر کرتے ہیں کہا جاتا ہے لیاری سمیت کراچی میں دو ہزار سے زائد کچی آبادیاں ہیں۔ امیرزادوں نے ان کچی آبادیوں کو اپنی آبادیوں کے قریب محض اس لئے برداشت کیا ہے کہ یہاں انہیں گھریلو ملازمین میسر آ جاتے ہیں۔ ڈرائیور، چوکیدار، صفائی والی ماسیاں وغیرہ۔ عالیشان بڑے بنگلوں کی آبادی کے قریب کچی آبادی محض اس لئے قابل برداشت ہیں۔ جبکہ مغرب میں گھریلو خواتین صبح تا شام اپنے گھر کی صفائی اور کھانا پکانے اور بچّوں کی نگہداشت کرتی ہیں۔ وہاں بہت امیر لوگ گھریلو ملازمین کا خرچ برداشت کر پاتے ہیں۔ ایک جائزے کے مطابق پاکستان کے بڑے شہروں میں غریب کچی آبادیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ ان کچی آبادیوں کو متعلقہ ادارے غیرقانونی ٭٭٭ دیتے ہیں اور انہیں کسی بھی وقت خالی کرایا جا سکتا ہے۔ وہاں کے لوگ کسی شہری سہولت کے حقدار تصوّر نہیں کئے جا سکتے۔
مثلاً پانی، بجلی، قدرتی گیس، سڑکیں وغیرہ۔ مگر پاکستان میں معذرت کے ساتھ قانونی کام مہینوں یا برسوں میں مکمل ہوتا ہے جبکہ آبادیوں کو سنہری دستانے استعمال کرنے والوں نے انہیں تمام سہولتوں سے نواز رکھا ہے۔ غرض یہ کہ کچی آبادیاں بسائی جاتی ہیں اور تمام غیرقانونی طور پر سہولتیں دی جاتی ہیں اور موٹی موٹی رقمیں وصول کی جاتی ہیں۔ اس میں زیادہ تر لینڈ مافیاز شامل ہیں۔ اس لئے کراچی میں جگہ جگہ غریب کچی آبادیاں نظر آتی ہیں۔ بھارت کے شہر ممبئی میں سلم ایریا سب سے بڑا ہے اگر کوئی اجنبی اس سلم ایریا میں داخل ہو جاتا ہے تو اس کو نکلنے کا رستہ تلاش کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔
اس طرح کے سلم ایریاز بھارت میں بڑے شہروں کلکتہ، نئی دہلی اور مدراس میں بھی ہیں۔ اسی طرح بینکاک، منیلا میں بھی کچی آبادیاں ہیں غرض دُنیا کے ہر بڑے شہروں کے ساتھ کچی آبادیوں ٭٭ سلم ایریاز دا غ داغ اُجالے کی طرح پھیلی ہوئی ہیں جبکہ بھارت میں زیادہ ہے خاص طور پر ممبئی کا سلم ایریا سب سے بڑا ہے جو دھاروی سلم کہلاتا ہے جہاں سوا دو کلومیٹر رقبہ پر بارہ لاکھ افراد رہتے ہیں جبکہ ممبئی کو بھارت کا ہائی رائز خوبصورت بلڈنگوں کا شہر کہا جاتا ہے ایک طرف حسین عمارتیں دُوسری جانب بارہ لاکھ سے زائد باشندے جھونپڑ پٹی میں کیڑوں مکوڑوں کی طرح آباد ہیں۔
کچھ مختلف سلم ایریاز امریکہ میں بھی ہیں مین ہٹن کا علاقہ دُنیا کی شاندار بلندترین خوشنما عمارتوں سے سجا ہے جبکہ نیویارک شہر کی دوسری بڑی بستی بروکلین ایک بڑا سلم ایریا ہے جہاں سیاہ فام امریکی آباد ہیں۔ دُنیا میں جتنے بڑے شہر ہیں وہاں سلم ایریاز قائم ہیں جہاں غربت پسماندگی احساس محرومی عام ہے۔ دُوسرے لفظوں میں امارت روشنی ہے، خوشبو ہے، قوس قزاح کے رنگوں سے رنگی ہے جبکہ غربت پسماندگی، مصائب، دُکھ، مایوسی، اندھیروں، بھوک اور بیماری کی داستان ہے۔
قدیم تاریخ اور قرونِ وسطیٰ میں امیرترین لوگوں میں تیرہویں صدی میں دُنیا کا ظالم ترین فاتح جنگجو چنگیز خان کو دُنیا کا امیرترین شخص بتایا جاتاہے جس کی دولت ایک ٹریلین ڈالر کے قریب تھی اس کے پاس تین ہزار اعلیٰ نسل کے گھوڑے تھے بے شمار قیمتی ہیرے جواہرات اور کئی من سونا تھا اس نے بہت سی سونے کی کانوں پر قبضہ جمایا ہوا تھا۔ اس دور کے اہم تجارتی مراکز لوٹ لیتے تھے۔ اہم تجارتی گزرگاہیں اس کے قبضہ میں تھیں جن کولوٹ لیا کرتا تھا۔ مگر دولت خرچ نہیں اپنا مقبرہ نہیں بنوایا آج بھی اس کی قبر کا کوئی نشان نہیں ملتا۔
گیارہویں صدی میں چین کا بادشاہ زہوزی اس کے پاس ٭٭٭ اس کی دولت کہا جاتا ہے تیس ٹریلین ڈالر کے مساوی تھی۔ منگولوں نے اس سے بہت کچھ لوٹ لیا۔ سترھویں صدی میں ہندوستان کے شہنشاہ اکبر اعظم کے پاس اکیس ٹریلین کے مساوی دولت قیمتی ہیرے جواہرات تھے۔ سونا چاندی کے ڈھیر تھے۔ شہنشاہ اکبر نے عیش و عشرت کی زندگی بسر کی۔ انعام و اکرام میں بہت دولت لٹائی۔ مگر اس کے دور میں غریبوں کی تعداد بہت زیادہ تھی جو اپنی نان شبینہ کو محتاج تھے۔ مانسا موسا تیرھویں صدی میں افریقہ بلکہ دُنیا کا امیر ترین بادشاہ گزرا ایک ٹریلین ڈالر کے مساوی دولت کا مالک تھا جس کی ایک سو سے زیادہ بیویاں تھیں۔ شاہ سلیمان نو سو ستر قبل مسیح میں چار ٹریلین ڈالرکے مساوی دولت کے مالک تھے۔
جبکہ جدید دور میں آدھی سے زائد دُنیا کی آبادی بھوک افلاس صحت اور ایسے دیگر مسائل کا شکار ہے۔ امریکہ کے ارب پتی شخصیات کی دولت کچھ اس طرح ہے۔ راک فیلر چھتیس ارب ڈالر، عثمان علی خان نظام حیدرآباد دکن 25 ارب ڈالر، ہنری فورڈ اکیس بلین ڈالر، مرحوم معمر قذافی لیبیا بیس ارب ڈالر، ڈونالڈ ٹرمپ سابق امریکی صدر چار ارب ڈالر۔ آج کل دُنیا کا امیر ترین شخص برناڈ آرنلٹ ہے جس کی دولت دو سو انیس ارب ڈالر ہے جبکہ غربت کا یہ عالم ہے کہ دُنیا کے ہر بڑے شہر کے ساتھ مضافات میں قائم سلم علاقوں میں لاکھوں افراد بھوک افلاس کے مارے ہوئے رہتے ہیں۔ کراچی میں بہت سی کچی آبادیاں ہیں جہاں کوئی سہولت میسر نہیں ہے۔ لوکل گورنمنٹ کے اختیارات محدود ہیں ۔ کراچی کو سالانہ اربوں روپیہ موصول ہوتا ہے جو ناقص منصوبہ بندی، کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے۔ امیر مزید امیر ہو رہا ہے اور غریب مزید غریب ہو رہا ہے۔