• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا مختلف اعتبار سے تبدیلی کی طرف گامزن ہے،جیسا کہ گزشتہ دنوں دنیا نے دیکھاکہ مشرق وسطیٰ کے دوحریف ممالک نے آپس میں دوستی اور تعاون کا معاہدہ کرلیا۔ چین نے یہ معاہدہ کروا کر امریکہ کو بڑے مخمصے میں الجھا دیا ہے۔ اب مشرق وسطیٰ میں جہاں دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ کا سکہ چلتا تھا وہاں اچانک چین نے چھلانگ لگادی ہے اور خطے کے دوسرےحریف ممالک کو ایک میز پر لاکر دنیا کو خوشگوار حیرت میں مبتلا کر دیا ہے اس حوالے سے وائٹ ہائوس کی طرف سے وہاں کے نمائندے جان کربی نے ایک بیان میں کہاکہ امریکہ دو ممالک کے مابین کشیدگی کم کرنے کی ہرکوشش اور عمل کی حمایت کرتا ہے۔ 

ہمیں خوشی ہے کہ ایران سعودی عرب کے درمیان حالیہ معاہدہ کی رو سے سات سال سے ختم سفارتی تعلقات دوبارہ قائم اور دونوں ممالک میں سفارت خانے قائم ہو جائیں گے،جس سے خطے کی سیاست معیشت اور استحکام پر اس کے خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے، جبکہ امریکی وزارت دفاع کے نمائندے ،ولیم ہولرٹ نے اس معاہدہ کو امریکہ کے خلاف چین کی نمبرون دھمکی قرار دیا ہے۔ امریکی تھنک ٹینک گروپ سے وابستہ افراد نے کہاکہ خطے میں چینی صدر شی جن پنگ اپنا اثرورسوخ بڑھا رہے ہیں۔

گزشتہ دنوں چینی صدر شی جن نے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا جہاں ان کا بہت پرتپاک خیرمقدم کیا گیا تھا،جبکہ اس دورہ سے ایک ماہ قبل ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے ماہ جنوری میں بیجنگ کا دورہ کیا تھا۔ ان دو شخصیات کے دوروں کے نتیجے میں ایران اور سعودی عرب قریب آگئے ہیں۔ درحقیقت 2018ء میں واشنگٹن پوسٹ کے صحافی خوشگی، کے قتل کے بعد سے امریکہ اور سعودی عرب کے مابین ایک طرح کا کھنچائو پیدا ہو گیا تھا، چونکہ امریکہ نے اپنی خارجہ پالیسی میں انسانی حقوق، اظہار رائے کی آزادی اور جمہوریت کے نعروں کو اولیت دے رکھی ہے، ایسے میں ان ممالک میں جہاں وراثت، بادشاہت یا مطلق العنان حکومتوں کا راج ہے ان کے اور امریکہ کے تعلقات میں سردمہری عود کرآئی۔ اس سے قبل سابق امریکی صدر ٹرمپ نے ایران سے جوہری مسئلے پر ہونے والی بات چیت کویک طرفہ طور پر ختم کردیا تھا۔ 

اس دوران ایران کے ایک اہم جنرل اور ایران کے جوہری پروگرام کے نگران جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد ایران اور امریکہ کے مابین کشیدگی مزید بڑھ گئی اور مشرق وسطیٰ کے سیاسی حالات میں زیادہ تنائو پیدا ہو گیا۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہاکہ، یہ معاہدہ درحقیقت امریکہ کے منہ پر ایک تھپڑ کے مترادف ہے،جبکہ بعض امریکی اور یورپی سفارت کاروں کا خیال ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے معاہدہ سے کم از کم یمن میں جاری لاحاصل طویل خانہ جنگی اور حوثی باغیوں کے حملے بند ہو جائیں گے، مگر بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ ابھی تو معاہدہ کی سیاہی بھی نہیں سوکھی ہے لوگو ں نے اُمیدیں لگالیں کہ ایسا ہوگا، ویسا ہوگا،ابھی تو معاہدہ طے پایا ہے آگے آگے دیکھیں کیا ہوتا ہے ابھی مزید مرحلے طے ہونےہیں۔

امریکہ اور ایران کے گہرے تعلقات کے بیچ دراڑ جب پڑی جب ایران کے شاہ رضا شاہ پہلوی کا تختہ الٹا گیا اور امام خمینی اور ان کے ساتھی علماء نے ایران میں حکومت قائم کی، اس حوالے سے ایران میں نوجوان فورس جس کو پاسداران کے نام سے پکارا جاتا تھا انہوں نے امریکی سفارت کاروں کو ایک عرصہ تک یرغمالی بناکر سفارت خانے پر قبضہ جما یاتھا۔ امام خمینی کی اصل قوت وہ ہزاروں پاسداران تھے جنہوں نے ایرانی انقلاب کو کامیاب بنایا اور ایرانی علماء گروپ کی حکومت قائم کی۔ 

کہا جاتا ہے کہ ایران اور عراق کی طویل جنگ میں سب سے زیادہ نقصان پاسداران نے اٹھایا اور یہ جنگ ایرانی افواج کے بجائے پاسداران کو آگے رکھ کر لڑی گئی تھی۔ معروف کہاوت ہے کہ انقلاب سب سے پہلے اپنے بچوں کو کھا جاتا ہے۔ اس کی شاید بڑی وجہ یہ ہے کہ انقلاب سے قبل رہنما اور حامی اشرافیہ جو وعدہ کرتی ہے وہ انقلاب کے بعد بھلا دیئے جاتے ہیں اور انقلاب کی روحانیت کی جگہ زمینی حقائق سامنے آجاتے ہیں۔ پاسداران ایران عراق جنگ میں کام آئے۔

امریکی پینٹاگون کے ایک ترجمان کا استدلال یہ ہے کہ بعض حلقے اس معاہدے کو بڑھا چڑھا کر پیش کررہے ہیں، حالانکہ سعودی عرب نے دو سال قبل امریکہ کو بتلا دیا تھا کہ ایران اور چین سے بات چل رہی ہے اس لئے امریکہ تمام حالات سے باخبر تھا۔ مگر بعض حلقوں کی رائے میں ایران سعودی عرب معاہدہ کروا کر چین جیو اکنامکس سے ایک قدم آگے جیوپالیٹکس کی طرف آگیا ہے۔ یہ مسئلہ امریکہ کے لئے مشکل نہیں ہے۔ 

چین مشرق وسطیٰ میں اپنا معاشی مفاد پورے کر سکتا ہے، مگر سیاسی طور پر وہ مزید پیش قدمی نہیں کر سکتا۔ ان حلقوں کا کہنا ہے کہ ایران اور سعودی عرب معاہدے سے بھی زیادہ اہم معاہدہ سعودی عرب، عمان اور امارات کا اسرائیل کے ساتھ معاہدہ ہے۔ غالباً ان حلقوں کی رائے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ چین میں کمیونسٹ پارٹی کی حکومت ہے جبکہ ایران اور سعودی عرب اپنے اپنے مذہبی مسلک اور عقائد میں زیادہ گہرائی رکھتے ہیں۔ وہ سوشواکنامکس تک جا سکتے ہیں مگر سوشو پالیٹکس کی طرف زیادہ پیش قدمی نہیں کر سکتے۔

امریکی ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکہ اور سعودی عرب کے مابین پرانے معاہدہ کے تحت امریکی فوجی دستے سعودی عرب میں تعینات ہیں اور وہ وہاں رہیں گے ،اس کے علاوہ امریکہ پیٹراٹک میزائل اور دیگر ہتھیار فراہم کرنے کا معاہدہ ہے، وہ سب کچھ امریکہ سعودیہ کو فراہم کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ امریکی رائے عامہ کا ایک بڑا حلقہ شام یمن اور لبنان میں جاری جنگوں سے بیزار ہو چکا ہے۔ 

ایران سے معاہدہ کی وجہ سے اُمید بندھی ہے کہ ان ملکوں میں امن قائم ہو جائے گا کیونکہ دنیا کے عوام کی اکثریت جنگ و جدل سے بیزار آچکی ہے۔ کوویڈ۔19نے دنیا کی معیشت اور معاشرت کو بہت زک پہنچایا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس طرح کے مزید مہلک وائرس دنیا میں پھیلنے کا خطرہ ہے۔ حال ہی میں چین میں کوویڈ پھر نئی شکل میں نمودار ہو اہے اور چینی حکومت اس پر قابو پانے کی پوری جدوجہد کررہی ہے، کچھ ایسا ہی پڑوسی ملک بھارت میں چل رہاہے۔ دوسرے لفظوں میں دنیا کو مختلف حوالوں سے سنگین مسائل کاسامنا ہے۔

اس کے علاوہ روس یوکرین جنگ کو ایک سال گزر چکاہے ۔ یورپی ممالک کو اس جنگ کی وجہ سے خاصے بھیانک مسائل کا سامنا ہے ،سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ ان ممالک کو قدرتی گیس ، تیل کی دستیابی میں مشکلات پیش آرہی ہیں ۔ دوسری طرف گندم فراہم کرنے والے دو ا ہم ممالک روس اور یوکرین اپنے اناج کی فراہمی میں جنگ کی وجہ سے مسائل کا شکار ہیں ، دنیا میں اناج کے بھائو بڑھ رہے ہیں اورمہنگائی نے عوام الناس کی زندگی اجیرن کردی ہے۔

پاکستان بھی ایسے ہی مشکلات کا سامنا کررہا ہے۔ علاو ہ ازیں قدرتی ماحولیات سب سے بڑا مسئلہ بن کر ابھر رہا ہے بلکہ تقریباً دنیا کو اپنی جکڑ میں لے چکا ہے۔چند روز قبل یورپ،بحراوقیانوس اورامریکہ ،کینیڈا کے شہروں میں زبردست طوفان آئے،برفباری ہوئی جس سے کئی ملکوں میں زندگی معطل ہو گئی۔ بارشوں اور سیلاب سے اربوں ڈالرکے نقصانات برداشت کرنے پڑے اس کے علاوہ سینکڑوں قیمتی جانیں ضائع ہو گئیں، یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اس صورتحال میں کہا جاتا ہے کہ ایران اور سعودی عرب جیسے ممالک کے مابین ایک دوستانہ معاہدہ کسی خوشگوار ہوا کے جھونکے کے مترادف ہے۔ مشرق وسطیٰ میں ایک طویل عرصے سے اسرائیل کی جارحانہ پالیسی کے سبب خطے میں تین جنگیں لڑی جاچکی ہیں۔ 

حالیہ ایران عرب معاہدہ کی وجہ سے اسرائیل زیادہ پریشان ہے اور اسرائیلی عوام کا بڑا طبقہ اس صورتحال کا ذمہ دار نتن یاہو کی ناکام خارجہ پالیسی کو ٹھہرا رہا ہے۔ تاہم ایک مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ اسرائیل نے سعودی عرب، سلطنت آف عمان، متحدہ عرب امارات اور بحرین سے خوشگوار تعلقات قائم کر لئے ہیں۔ ترکی اور مصر، اسرائیل کے قریب آرہے ہیں ایسے میں امید کی جا سکتی ہے کہ اسرائیل اپنی پالیسی میں مزید مثبت تبدیلیاں لاسکتا ہے ،چونکہ دنیاکے حالات جس رُخ جا رہے ہیں ایسے میں تبدیلیاں بہت ضروری ہیں۔

آج کی دنیا کا دوسرے ملکوں پرانحصار بڑھ رہا ہے۔ لچکدار پالیسی ہی کامیاب ہو سکتی ہے۔ مثلا ً کچھ عرصہ پہلے سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایران اور سعودی عرب ایک دوسرے سے ہاتھ ملا سکتے ہیں۔ چین بتدریج کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔

ایرانی میڈیا کے مطابق دو ماہ کے اندر دونوں ممالک میں سفارت خانے کھل جائیں گے۔ چونکہ ایران شیعہ مسلک کے حوالے سے ایک جامعہ پالیسی رکھتا ہے، جبکہ سعودی عرب سنی مسلک کے حوالے سے اپنی پرانی مذہبی روایات کا پابند ہے ،ایسے میں ہر دو جانب کے قدامت پسندوں کو فکر ہے کہ ،ان کا ملک چینی نظریاتی اثرات سے متاثر نہ ہوجائے۔ مذکورہ قدامت پسند حلقوں کی اس سوچ کو بیشتر لبرل حلقوں نے مسترد کرتے ہوئے بتایا کہ روس چین وغیرہ مذہبی روایات کے حامی نہیں ہیں۔

یہ درست ہے ،مگر ایران اور سعودی عرب اپنے اپنے عقائد اور مذہبی روایات کا جس قدر احترام کرتے ہیں اس کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ روسی یا چینی نظریات ان دونوں مسلم ممالک کے مذہبی عقائد کاکچھ نہیں بگاڑ سکتے اور نہ یہ دونوں بڑی طاقتیں اس امرکو اچھی طرح جانتی ہیں، البتہ امریکہ مذہبی روایات رکھتا ہے۔ ہرچند کہ امریکی سماج جمہوری روایات لبرل ازم اور اوپن سوسائٹی کا حامل ہے البتہ موجودہ صدرجوبائیڈن اور ان کی ڈیموکریٹک پارٹی دنیا میں انسانی حقوق جمہوری حقوق، اظہار رائے کی آزادی پر زور دیتی ہے، مگر مذکورہ دونوں اسلامی ممالک کے سماج میں ان نظریات کی ایک حد تک جگہ ہے پوی طرح نہیں، البتہ ایران اور عرب معاشی حوالے سے سب سے معیشت اور تجارت کے شعبوں میں تعاون کرنے اور جدید ٹیکنالوجی سے مستفید ہونے کیلئے ہمہ وقت تیار ہیں۔ 

سعودی عرب کے ولی عہد نے اس کی ابتدا کردی ہے اور وہ اپنے ملک میں مذہبی روایات اور عقائد کی تکمیل کے ساتھ ساتھ اپنے سماج کو نئے دور کے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کاوشیں شروع کر چکے ہیں۔ مثلاً خواتین کو اسلامی طور پر پردہ کرتے ہوئے ڈرائیونگ کی اجازت ،اپنے گھریلو اورذاتی امور ازخود پورے کرنے کی آزادی دیدی ہے۔ دوسرے لفظوں میں اسلامی نظریاتی اور مذہبی روایتی دائرہ کار میں رہتے ہوئے خواتین اب سب کام کر سکتی ہیں۔ 

دوسرا پہلو اس معاہدہ کا یہ ہے کہ دونوں ممالک اپنے سیاسی اورسماجی رویوں میں قدرے لچک ضرور پیدا کرسکتے ہیں اور اپنے اپنے مسلک پر پوری طرح کاربند بھی ہو سکتے ہیں۔ عقائد کے حوالے سے دونوں جانب گہری خلیج حائل ہے اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ کسی بڑی تبدیلی کی امید نہیں کی جاسکتی ،مزید یہ کہ ہر دوجانب مغربی افکار کو من و عن قبول کرنے کے کوئی آثار دُور دُور تک نظر نہیں آتے،البتہ دونوں ممالک عصر ی تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے اور اپنے اپنے معاشروں میں جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنے کی کوششیں ضرور کر سکتے ہیں۔

بیشتر امریکی سفارتی ماہرین کا خیال ہے اس معاہدہ کے بعد توقع کی جارہی ہے کہ امریکہ اور چین کے مابین مسابقت میں مزید اضافہ ہوگا۔ سیاسی معاملات میں عالمی سطح پر جس طرح بتدریج اپنا کردار بڑھا رہا ہے،اس سے تو یہی محسوس ہوتا ہے مگر بعض دانشوروں کا خیال ہے کہ تجارتی طور پر چین بے شک دنیا کی منڈیوں میں اپنی جگہ بنا چکا ہے اس لئے کہ وہ ہر چیز کو دو تین معیارات کے مطابق تیار کرتا ہے، ایک معیار امریکہ اور یورپی صارفین کے لئے دوسرامشرق وسطیٰ اور مشرق بعید کے ممالک کے لئے ہے، جبکہ تیسرامزید ارزاں سامان افریقہ اور لاطینی امریکہ کے لئے ہوتا ہے۔ اس طرح چین تجارتی طور پر بڑی سپر پاور بن چکا ہے۔ سیاسی میدان کے مختلف تقاضے ہیں اس پر پورا اترنا شاید تجارت کی طرح آسان نہ ہوگا چونکہ چین کی کمیونسٹ پارٹی بہت بڑی ہے اور اس کا پولیٹ بیورو جو حکومت چلاتا اور پالیسیاں وضع کرتا ہے وہ خالص کمیونسٹ نظریات کے مطابق کرتا ہے، کہا جاتا ہے کہ یہ چینی کمیونزم ہے۔

حالیہ معاہدہ کے حوالے سے ماہرین کے نزدیک اہم سوال یہ ہے کہ نئے حالات کے مطابق ایران کے مجوزہ جوہری پروگرام کاکیا ہوگا۔ کیا ایران یورنیم کی افزودگی کے عمل کو جاری رکھے گا،کیونکہ ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف عرب ریاستوں کے علاوہ امریکہ بھی مخالف رہا ہے۔ لیکن بعض باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ ایران چین کی مدد سے جوہری بم تیار کر چکا ہے اور مزید جوہری ہتھیار تیارکرنے کے انتہائی خفیہ پروگرام کے حوالے سے پیش رفت جاری ہے اور اب ایران معاہدہ کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایران سے معاہدہ کر کے دوستی کر لی جائے گی۔ 

ایسا ہو سکتا ہے کیونکہ عالمی سیاسی حالات میں ہر چیز ممکن ہے۔ گزشتہ برسوں میں ایک خفیہ رپورٹ نے دنیا کو پریشان کر دیا تھا ،جس میں بتایا گیا تھا کہ سابق سوویت یونین کے منتشر ہونے کے بعد جو افراتفری اور لوٹ مار ہوئی تھی ان حالات میں دنیا کے بڑے اسمگلر گروہوں نے روس کے مختلف معاہدوں میں قائم خفیہ مقامی مراکز سے جوہری ہتھیار، میزائل، جدید راکٹ اور دیگر حساس ہتھیار چراکر عالمی منڈی میں فروخت کر دیئے تھے۔ اس حوالے سے کچھ ملکوں کے نام بھی سامنے آئے تھے مگر اس پر میڈیا کو خاموش کرادیا گیا تھا۔

اقوام متحدہ کی جوہری ہتھیاروں کے پھیلائو روکنے والی ایجنسی نے اس حوالے سےگہری تشویش ظاہرکی تھی۔ اس نازک دور میں اقوام متحدہ کے دو سیکرٹری جنرل کو تشویشناک صورتحال کا سامنا رہا ،ایک بطرس نمالی اور دوسرے کوفی عنان ،جبکہ نوے کی دہائی کے ابتدائی دور ہی میں امریکہ سپر پاور بن کر ابھرا۔ دوسرے سابق سوویت یونین کے حساس ہتھیاروں کا پھیلائو۔ ایسے میں اسرائیل، برطانیہ، فرانس اور ہالینڈ کے نام سامنے بھی آئے تھے،مگر اس کی تاحال کوئی تصدیق سامنے نہیں آئی ہے۔

دوسرا اہم سوال جو ماہرین کے لئے قابل غور ہے وہ یہ کہ اب اس خطے میں اسرائیل کا کیا کردار ہوگا۔؟

یہ بات سب پر عیاں ہے کہ اسرائیل کا اصل سرپرست برطانیہ تھا بعدازاں امریکہ بھی اس کا سرپرست بن گیا ،کیونکہ امریکہ میں یہودی آبادی اسرائیل کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ مشرق وسطیٰ کے خطے میں یکے بعد دیگر ریاستوں میں تیل دریافت ہونا شروع ہوا تو امریکی آئل کمپنی کے برٹش پٹرولیم سے تمام علاقے خرید لئے تھے ،چند ایک جگہ آرامکو نے بی پی کو اپنا شریک کار بنا لیا تھا وہ دنیا میں سرد جنگ کے عروج کا دور تھا ایسے میں خطے میں تیل پیدا کرنے والی ریاستوں کی سیکورٹی کے لئے اسرائیل کو ایک اہم دفاعی چوکی یا مرکز کے طور پر قائم کیا گیا تھا۔ اب چونکہ دنیا سردجنگ سے آزاد ہو چکی ہے اور طاقت کے مراکز بھی تبدیل ہو رہے ہیں ایسے میں اسرائیل کی پہلی جیسی پوزیشن نہیں رہی ہے۔

واضح رہے کہ دنیا میں یہودیوں کی مجموعی آبادی سوا کروڑ سے کچھ زائد ہے جبکہ ان میں سے ستر لاکھ کے قریب یہودی باشندے اسرائیل میں آباد ہیں، اس کے بعد بیس لاکھ کے قریب امریکہ میں ،باقی پوری دنیا میں قابل غور نکتہ یہ ہے کہ دنیا میں قلیل تعداد میں یہودی آبادی کے باوجود یہ دنیا میں اتنا زیادہ اثرو رسوخ کیوں رکھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ برسوں میں یا ماضی قریب میں یہودیوں نے یہ نکتہ سمجھ لیا تھا کہ جدید دنیا میں زندگی گزارنے ترقی کرنے اور اپنی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے تعلیم و تحقیق اور جدید علوم میں زیادہ سے زیادہ مہارت اورصلاحیت حاصل کرو، یہی وجہ ہے کہ آج کی دنیا کی تین چوتھائی ایجادات اور انکشافات میں ان کا دخل ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آج یہودی تعداد میں اس قدر کم ہونے کے باوجود تقریباً تمام شعبوں میں نمایاں ہیں۔ اسرائیل نے چند برس قبل اپنے ملک میں پانی کی قلت کو دور کرنے کیلئے سمندر کے پانی کو قابل استعمال بنانےاور مختلف پلانٹ تعمیر کرنے کے علاوہ ایک ایسی جھیل بھی تعمیر کی ہے، جس میں رات کو گرنے والی شبنم جمع ہوتی ہے، گویا قطرہ قطرہ دریا بن جاتا ہے۔ بیش تر عرب ریاستوں نے خفیہ طور پر یہودی ماہرین کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں، ان ماہرین نے صحرائوں کو سرسبزو شاداب کھیتوں اور باغات میں تبدیل کر دیا ہے۔ اس میں عمان اردن لبنان کی مثالیں سامنے ہیں۔ 

اسرائیلی تھنک ٹینک یقینا ایران سعودی معاہدہ سے بھی فوائد حاصل کریں گے اور خطے میں اسرائیل اپنا کردارادا کرتا رہے گا۔ اس معاہدہ کے حوالے سے بعض ایکسپرٹس کا خیال ہے کہ چین اس کے ذریعہ اپنے لئے تیل کی فراہمی کو یقینی اور ارزاں بنانے کے لئے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات ،کویت وغیرہ سے بآسانی تیل کی پائپ لائن براستہ ایران، پاکستان اپنی سرحد تک کاشغر لے جا سکتا ہے اس میں اس کو کہیں رکاوٹ نہیں ہو سکتی ،اس طرح تیل کی ترسیل میں بحری راستوں کے ذریعہ وقت اور قیمت دونوں زیادہ مہنگے پڑتے ہیں۔ اگرچین اس روٹ کو اپنے لئے تیل کی فراہمی کیلئے استعمال کرتا ہے تو اس کا بڑا فائدہ چین کو ہوگا،توقع کی جارہی ہے کہ ایسا ہونا عین ممکن ہے۔ اس پائپ لائن کے طور پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ اس ضمن میں پاکستان بھی فوائد حاصل کر سکتا ہے، بشرطیکہ رہنما قومی مفاد کو اولیت دیں۔

اس حوالے سے پاکستان سیاسی اور اتنظامی حلقوں کو اس حقیقت کو ضرور ملحوظ نظررکھنا چاہئے کہ دنیا میں بہت کچھ بدل رہا ہے،یہ تبدیلی اور ترقی کا عمل مزید ہوتا جائے گا، ہر چند کہ اس کرہ ارض کو قدرتی آفات،انسانی طمع اور خود غرضی سے بہت سے سنگین مسائل کا سامنا ہے مگر ایک انہونی بات ہمارے خطے میں ہوئی ہے جس کی امید کسی کو نہیں تھی۔ ایرن اور عربیہ ندی کے دونوں کنارے مل جائیں گے۔