ارضِ فلسطین میں رقصِ ابلیس جاری ہےاور دنیا تماشائی ہے۔ساری دنیا کو جمہوریت،آزادیِ اظہار، رواداری ،امن اور شفّافیت وغیرہ کا درس دینے والی عالمی طاقتیں فلسطینیوں کا وحشیانہ اور منظم انداز میں ہونے والا قتلِ عام دیکھ رہی ہیں، لیکن اجلاسوں اور دوروں کے علاوہ انہوں نے کوئی ایک کام بھی ایسا نہیں کیا ہے جس سے اسرائیل چند لمحوں کے لیے بھی اس قتلِ عام سے رُک جاتا۔
شاید اسی لیے دنیا بھر میں بہت سے افراد اب یہ سوچنے پر مجبور ہوچکے ہیں کہ یہ طاقتیں دراصل خود اسرائیل کی پشتیبان اور محافظ ہیں اور آج بھی امن کے نام پر ان کی جو بھی کوششیں ہیں ان سے دراصل اسرائیل ہی کو فائدہ پہنچ رہا ہے ۔ کبھی اسے ویٹوپاور کےذ ریعے بچالیا جاتا ہے تو کبھی اسے اربوں ڈالرز کی امداد اور اسلحہ فورا پیش کردیا جاتا ہے۔
غزہ میں سنگین جنگی جرائم کے ارتکاب کی وجہ سے نیتن یاہو بین الاقوامی وارنٹ گرفتاری سے خوف زدہ ہوئے اور اسرائیل میں کھلبلی مچی تو امریکی حکام فوراً نیتن یاہو کی مدد کو پہنچے اور اس سے جنگ بندی کے امکان کو نقصان پہنچنے کی بات کرنے لگےجسے اسرائیل کبھی تسلیم ہی نہیں کرتا۔وارنٹ گرفتاری کے ضمن میں اسرائیلی نشریاتی ادارے نے کہا کہ اسرائیلی حکومت کوہیگ میں قائم بین الاقوامی عدالتِ انصاف کی جانب سے وزیر اعظم نیتن یاہو، وزیر دفاع یوآو گیلنٹ اور آرمی چیف آف اسٹاف ہرزی ہیلیوی کے غزہ کی جنگ کی وجہ سے گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنے کے امکان پرگہری تشویش ہے اور اس کےمتبادل آپشنز پرغورکا فیصلہ کیا گیاہے۔ براڈ کاسٹنگ کارپوریشن نے رپورٹ کیا کہ نیتن یاہو کے دفتر میں ان خدشات پر فوری اور سنجیدہ بحث ہوئی۔
حال ہی میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہونے کسی بھی صورت غزہ میں جنگ بندی تسلیم کرنے سے انکار کیاہے۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن سے تازہ ملاقات میں انہوں نے کہا کہ کوئی ایسا معاہدہ تسلیم نہیں جس میں جنگ کا خاتمہ شامل ہو۔ نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ حماس نے جنگ ختم کرنے پر اصرار کیا تو معاہدہ نہیں ہوگا اور رفح پر چڑھائی کردیں گے۔دوسری جانب اقوام متحدہ کے سربراہ نے خبردار کیا ہے کہ لاکھوں بے گھر فلسطینیوں کی پناہ گاہ رفح میں اسرائیلی آپریشن غزہ کی بربادی میں ناقابل برداشت اضافہ ہوگا۔
دوسری جانب امریکا اور اس کے اتحادی اس تشویش میں مبتلا ہیں کہ ہیگ میں قائم عالمی عدالت انصاف ممکنہ طور پر اسرائیلی حکام کے خلاف گرفتاری کے احکامات جاری کر سکتی ہے،وہ بھی ایسے موقع پر جب اسرائیل حماس کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے کےلیے مذاکرات کررہا ہے۔امریکی حکام کا کہنا ہے کہ عالمی عدالت انصاف کا یہ اقدام ممکنہ طور پر اس معاہدے کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
اس ضمن میں نئی پیش رفت میں اسرائیل کی جانب سے غزہ میں نسل کشی کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں جنوبی افریقا کی درخواست میں ترکیہ نے فریق بننے کا فیصلہ کیا ہے۔ یاد رہے کہ نیدر لینڈز کے شہر، دی ہیگ میں عالمی عدالت انصاف میں اسرائیل کے خلاف جنوری سے اب تک کئی سماعتیں ہوچکی ہیں۔ اب ترک وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ عالمی عدالت انصاف میں اسرائیل کے خلاف جنوبی افریقا کے کیس میں فریق بنیں گے۔
ترک وزیر خارجہ حاقان فیدان نے کہا کہ ترکیہ ہر حال میں فلسطینیوں کی حمایت جاری رکھے گا۔ یاد رہے کہ جنوبی افریقا کی درخواست پر عالمی عدالت انصاف نے جنوری میں اسرائیل کے خلاف عبوری فیصلہ دیا تھا۔ عالمی عدالت نے اسرائیل کو نسل کشی کے زمرے میں آنے والے تمام اقدامات سے باز رہنے کے لیے کہا تھا۔
لیکن حقیقت میں کیا ہوا؟ عالمی عدالت کی تنبیہ کے باوجود اسرائیل کی فوج وحشیانہ انداز میں ارضِ فلسطین کے باسیوں کا نہ صرف قتلِ عام کرتی رہی بلکہ انہیں زندہ بھی دفن کرتی رہی۔وہاں اجتماعی قبریں برآمد ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔ غزہ میں جومزید اجتماعی قبریں دریافت ہوئی ہیں ان میں فلسطینیوں کو زندہ دفن کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔ الشفا اور نصیر اسپتال میں اجتماعی قبروں سے ملنے والی میتوں کی تعداد 392ہوگئی، جن میں بزرگ شہری، خواتین اور بچے شامل ہیں۔ فلسطینی محکمہ شہری دفاع کے مطابق 10میتوں کے ہاتھ پیر بندھے ہوئے تھے، کچھ کے ساتھ میڈیکل ٹیوب بھی منسلک تھیں۔
ان میں سے بیش تر نہتے شہریوں کو سامنے کھڑا کر کے فائرنگ کرکے شہید کیا گیا، کئی کے جسموں پر تشدد کے نشانات واضح تھے، فلسطینی محکمہ شہری دفاع کے ایک رکن کے مطابق دس میتوں کے ہاتھ پیر بندھے ہوئے تھے اوردیگر کے ساتھ میڈیکل ٹیوب لگی ہوئی ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں زندہ دفن کیا گیا۔ ہمیں ان بیس میتوں کے فرانزک معائنے کی ضرورت ہے جنہیں ہمارے خیال میں زندہ دفن کیا گیا تھا۔
اسرائیل نے غزہ میں جو کچھ کیا ہے اس کا اندازہ ان دو خبروں سے لگایا جاسکتا ہے جوکسی اور نہیں بلکہ اقوامِ متحدہ کی جانب سے آئی ہیں۔اقوام متحدہ کی ایک ایجنسی کا کہنا ہے کہ جنگ سے تباہ حال غزہ کی تعمیرنو کا تخمینہ 30 بلین ڈالرز سے 40 بلین ڈالرز لگایا گیا ہے اور اس پیمانے پر کوشش کی ضرورت ہوگی جو دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا نے نہیں دیکھی تھی۔اقوام متحدہ کے اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل عبداللہ الدارداری کے بہ قول غزہ کی پٹی کی تعمیر نو کے لیے اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کا ابتدائی تخمینہ 30 بلین ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے اور یہ 40 بلین ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ تباہی کا پیمانہ بہت بڑا اور بے مثال ہے یہ ایک ایسا مشن ہے جس سے عالمی برادری کادوسری جنگ عظیم کے بعدسے واسطہ نہیں پڑا ہے۔یادرہے کہ اس سے اس سے قبل اقوام متحدہ کے ایک اہل کار نے اپنا اندازہ پیش کیا تھا کہ اسرائیل کی وحشیانہ کارروائیوں نے غزہ کی پٹی میں ایک اندازے کے مطابق 37 ملین ٹن ملبہ چھوڑا ہے۔
اقوام متحدہ کی مائن ایکشن سروس کے سینئر افسر پرہ لودھامر نے جنیوا میں بریفنگ میں بتایا کہ اگرچہ وسیع پیمانے پر شہری آبادی والے، گنجان آباد علاقے میں نہ پھٹنے والے ہتھیاروں کی صحیح تعداد کا تعین کرنا ناممکن تھا، لیکن یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ ملبے کو صاف کرنے میں 14 سال لگ سکتے ہیں۔
اس میں اسرائیل کی بم باری سے تباہ ہونے والی عمارتوں کا ملبہ بھی شامل ہو گا جس نے تنگ، ساحلی انکلیو کو ایک بنجر زمین میں تبدیل کر دیا ہے جس میں زیادہ تر شہری بے گھر، بھوکے اور بیماری کے خطرے کا شکار ہیں۔ ان کا کہنا تھاکہ ہم جانتے ہیں کہ عام طور پر کم از کم دس فی صد لینڈ سروس گولہ بارود کی ناکامی کی شرح ہوتی ہے، جو فائر کیا جاتاہے اور وہ کام کرنے میں ناکام رہتاہے، لیکن ہم 100 ٹرکوں کے ساتھ 14 سال کے کام کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔
اسرائیلی افواج کی جانب سے 7 اکتوبر سے جاری بم باری نے غزہ کا پورا انفراسٹرکچر تباہ کردیا ہے۔ اس حوالے سے اقوام متحدہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ تباہ حال غزہ کی مکمل تعمیر نو میں 80 سال لگ سکتے ہیں۔ ادارے کے سیکریٹری جنرل ،کی جانب سے غزہ کی تباہی کو جنگ عظیم دوم کے بعد سب سے بڑی تباہی قرار دیا جا رہا ہے۔
ادہر تازہ پیش رفت میں ترکی کی وزارت ِتجارت نے غزہ پر اسرائیلی جارحیت ختم نہ ہونے پر اسرائیل سے ہر قسم کے تعلقات منقطع کرلیے ہیں۔خیال رہےکہ نو اپریل کو ترکی نے اسرائیل کی پچاس سے زائد مصنوعات پر پابندی عائد کردی تھی۔
اسرائیل کی وحشیانہ کارروائیوں کے خلاف امریکا میں پہلے مرحلے میں عوام نے احتجاج کیا اور 18اپریل کے بعد سے وہاں کے 40 مختلف کالجز یاجامعات میںاحتجاج کرنے والے طلبا کی گرفتاریوں کے کم از کم 50 واقعات ہوچکے ہیں۔جامعات میں خیمہ زن مظاہرین غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔امریکا کے صدر جو بائیڈن نے طلبا کے پرامن احتجاج کے حق کا دفاع کیا، لیکن ساتھ ہی انہوں نے ہنگامہ آرائی کی مذمت بھی کی۔ طلبا کے احتجاج سے نمٹنے کے لیے پولیس کو بلانے کے فیصلے پر جامعات کی انتظامیہ کو تنقید کا سامنا ہے۔
خبر رساں ادارے، 'ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ( تادمِ تحریر)امریکا کے تعلیمی اداروں میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے کرنے والے گرفتار طلباکی تعداد 2100 سے تجاوز کر گئی ہے۔ پولیس کی حالیہ کارروائیوں میں مظاہروں کے گڑھ نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی سے 100 گرفتاریاں ہوئیں۔ اسی طرح ریاست کیلی فورنیا کے شہر لاس اینجلس کی کیلی فورنیا یونیورسٹی میں پولیس نے جمعرات کو کارروائی کرتے ہوئے 210 افراد کو گرفتار کیا تھا۔
پولیس نے مظاہرین کو یونیورسٹی خالی کرنے کی ہدایت کی تھی۔ تاہم مظاہرین نے پولیس کی ہدایات کو نظر انداز کر دیا تھا۔واضح رہے کہ نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی امریکہ کی وہ پہلی درس گاہ ہے جہاں فلسطینیوں کے حق میں طالب علموں کے مظاہرے شروع ہوئےتھے اور اب یہ سلسلہ ملک کی بہت سی جامعات تک پھیل چکا ہے۔
امریکی جامعات میں خیمہ زن مظاہرین غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ طلبا کے مطالبات میں جامعات کے اسرائیل سے مالی تعلقات کا خاتمہ، مالی معاملات میں شفافیت اور احتجاج کرنے والے طلباو اساتذہ کے لیے عام معافی بھی شامل ہے۔
اطلاعات کے مطابق جامعات میں ہنگاموں سے نمٹنے والے ساز و سامان سے لیس پولیس نے مختلف کییمپسز میں ٹیکٹیکل گاڑیوں اور فلیش بینگ ڈیوائسز کا بعض اوقات استعمال بھی کیا اور مقبوضہ عمارتوں کو خالی کرالیا۔ نیویارک پولیس نے انکشاف کیا ہے کہ جمعرات کو کولمبیا یونیورسٹی کی عمارت کے اندر ایک افسر سے غلطی سے گولی بھی چلی۔حکام کے بہ قول گولی چلنے کا واقعہ کولمبیا کیمپس کے ہیملٹن ہال میں اس وقت پیش آیا جب پولیس افسر اپنی بندوق کے ساتھ لگی ٹارچ کو استعمال کرنے کی کوشش کر رہا تھا، لیکن اس کے بجائے اس سے گولی چل گئی جو دیوار پر لگے ایک فریم سے ٹکرائی۔
دوسری جانب اسرائیل نے ان مظاہروں کو یہود دشمنی قرار دیا ہے۔اسرائیل کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اسرائیل اپنے خلاف الزامات کو چھپانے کےلیے ان الزامات کو استعمال کرتا ہے۔احتجاج کے منتظمین میں کچھ یہودی طلبا بھی شامل ہیں جو احتجاج کو فلسطینیوں کے حقوق کے دفاع اور جنگ کے خلاف احتجاج کے لیے ایک پرامن تحریک قرار دیتے ہیں۔
امریکا کی مختلف جامعات میں طلبا کے احتجاج کے بعد حکومت پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔دوسری جانب انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے غزہ کی پٹی میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف امریکا کی جامعات میں طلبا کے احتجاجی مظاہروں کو طاقت سے کچلنے کی شدید مذمت کی ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ پرامن احتجاج کو طاقت سےکچلنا حیران کن اور ناقابل قبول ہے۔ہیومن رائٹس واچ کے مطابق فلسطین کی حمایت میں طلبا کے مظاہروں پر جامعات کے حکام کی جانب سے ردعمل انتہائی سخت تھا جنہوں نے مظاہرین سے طاقت سے نمٹااور شرکاء کو پرامن احتجاج کے حق سے محروم کر دیا۔
تنظیم نے ایک بیان میں کہا کہ فلسطین کے حامی مظاہروں پر یونیورسٹی کے بعض صدور کا ردعمل چونکا دینے والا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں سیکھنے اور بحث مباحثے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اور آنے والی نسل کو بنیادی آزادیوں کے احترام کے ماحول میں ان کےعقائد کا دفاع کرنے کی ترغیب دینی چاہیے۔ بنیادی آزادیوں کا احترام کرنے کے بجائے انہوں نے کولمبیا یونیورسٹی، یونیورسٹی آف ٹیکساس اور ایموری یونیورسٹی جیسے اداروں میں سخت اقدامات سےجواب دیا۔
کلاسوں کی بڑے پیمانے پر معطلی، یونیورسٹی کے ہاسٹل سے طلبا کو نکالنے، طلبا اور اساتذہ کے احتجاج کی کوریج کرنے والے صحافیوں کی گرفتاریاں قابل مذمت ہیں۔ اگرچہ آپ اس سے اتفاق نہیں کرتے اور اگر آپ سمجھتے ہیں کہ غزہ کی پٹی کی صورت حال احتجاج کے لائق نہیں ہے، تب بھی ان لوگوں کو اپنی رائے کا اظہار کرنے اور پرامن احتجاج کرنے کا حق حاصل ہے۔ ہم سب کو یہ حق حاصل ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم نے وضاحت کی کہ لوگوں کو اجتماعی طور پر پرامن احتجاج کرنے کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا، کیوں کہ مظاہرے ہر ایک کا بنیادی حق ہے۔ یاد رہے کہ امریکی پولیس نے 18 اپریل کو کئی امریکی جامعات کے کیمپسز میں شروع ہونے والے فلسطینیوں کے حامی مظاہروں میں 900 سے زائد افراد کو گرفتار کیا تھا۔