• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا میں تبدیلیوں اور درجہ بندیوں کا عمل تیزتر

دنیا میں تبدیلیوں اور درجہ بندیوں کا عمل تیز ہوتا جا رہا ہے۔ امریکہ جس نے دوسری عالمی جنگ کے بعد سابق سویت یونین کے ساتھ سرد جنگ شروع کرکے دنیا میں خاصا غدر مچا یا، جنگیں شروع کیں ،مشرق وسطیٰ میں تیل کی نگرانی کے لئے اسرائیل کی ریاست قائم کی جس میں برطانیہ سے سارا کام لیا۔ سابق سویت یونین کے خوف سے یورپی ممالک امریکہ کے بغل بچہ بن کر رہ گئے، یوں بھی دو احمقانہ عالمی جنگیں لڑنے کے بعد یورپ کے کس بل ڈھیلے پڑ چکے تھے۔

ایسے میں یورپ کے پاس امریکہ کا دم چھلا بن کر رہنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا، ایسے میں لاکھوں یورپی، سینکڑوں سائنسدان، ماہرین، شاعر، ادیب، فنکار وغیرہ نے بھی امریکہ کو ترجیح دی۔ امریکی معاشرہ ان حالات میں مغرب میں زیادہ ترقی کرگیا۔ امریکہ کے پاس قدرتی وسائل بہت تھے پھر فن اور دانش کا یہ قابل ذکر فائدے اٹھاکر اس نےایک طرح سے عالمی اجارہ داری حاصل کرلی۔

امریکہ نے ابتدائی دور میں پانچ فوجی تصادم کئے۔ پہلےمقامی آبادیوں کا بہیمانہ قتل عام کیا ،پھر اسپین کے نو آباد کلبس سے تصادم ہوا، یہ کیوبا کا مسئلہ تھا پھر میکسیکو سے زبردست تصادم ہوا۔ اس کے بعد برطانیہ سے سیاسی تصادم ہوا، امریکہ نے برطانیہ سے علیحدگی اختیار کی ،پھر امریکہ نے گیارہ جنگیں لڑیں،جس میں امریکہ کے حریف جرمنی، آسٹریا، اٹلی، پہلی اور دوسری جنگ لڑی ۔ کوریا، ویت نام اور پھر عراق میں جنگ لڑی ،امریکہ کی جنگجو پالیسی کی وجہ سے لاکھوں فوجی اور شہری ہلاک ہوئے، زخمیوں کی تعدا د بہت زیادہ رہی۔ 

جرمنی اٹلی کی بری طرح شکست نے امریکہ کا حوصلہ بڑھایا اور دنیا میں اس کی گن بوٹ پالیسی نے دھاک بٹھا دی۔ ہیروشیما ناگا ساکی کے عظیم سانحہ کے بعد امریکہ دنیا کا چوہدری بن بیٹھا۔ ہر چند کہ سابق سویت یونین اس میں امریکہ سے کم نہ تھا۔ اس لئے ساٹھ کی دہائی میں کیوبا میں روسی میزائل نصب کرنے کے مسئلے پر دونوں طاقتوں کا بڑا تصادم اور ایٹمی جنگ ٹل گئی۔ روس کو پیچھے ہٹنا پڑا کیونکہ سرمایہ داری نظام اور آمریت پسندوں کی زیادہ تعداد آڑے آرہی تھی۔

انیس سونوے کے عشرے میں سابق سویت یونین کے منتشر ہونے کے بعد امریکہ تنہا سپر پاور کا کردار ادا کرتا آیا ہے، مگر اب دنیا نے پلٹنا ہے۔ تبدیلی کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ روس کے صدر ولادیمر پیوتن نے قطب شمالی میں فن لینڈ اور سوئیڈن کے قریب اپنے ایٹمی میزائل نصب کردیئے ہیں، یہ کام یوکرین کی طویل ہوتی جنگ کی وجہ سے ہو رہا ہے، جس پر یورپ امریکہ سب بوکھلائے ہوئے ہیں۔

واقعہ یہ ہے کہ قطب شمالی اور اس کے قرب و جوار میں پھیلے ہوئے برفانی خطے روس کی سرحد کے ساتھ ہیں یا قریب ترین اور دنیا تمام ماہرین ارضیات کا دعویٰ ہے کہ یہ پورا بڑا خطہ تیل، قدرتی کوئلہ ، گیس، سونا، تانبا، یورنیم، میگافائیٹ اور دیگر قیمتی معدنیات سے بھرا پڑا ہے۔ اس خطے سے کسی نے بھی معدنیات نہیں نکالی بلکہ اس پر توجہ نہیں دی۔ مسئلہ یہ ہو رہا ہے کہ روس نے کھدائی کرنے کی دیوہیکل مشینیں اوزار اہم آلات اور ماہرین اس خطے میں روانہ کر دیئے ہیں۔ اس پر ستم یہ کہ صدر پیوتن نے تیل، قدرتی گیس اور گندم کے بڑے سودے طے کرنے شروع کردیئے ہیں۔

یورپی یونین امریکہ پر زور دے رہی ہے کہ روس پر سے پابندی ختم کرو اس کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ روس اس کا فائدہ اٹھا رہا ہے اس پر پابندیوں سے کوئی نقصان نہیں ہوا۔ جاپان، بھارت اور دیگر ممالک اس سے تیل، گیس اور گندم خرید رہے ہیں۔ بھارت کو روس نے رعایت بھی دی ہے۔ دوسری طرف جنوبی امریکہ کا ملک وینزویلا جس کے پاس تیل بہت ہے وہ بھی اپنا تیل دیگر ممالک کو فروخت کر رہا ہے۔ ایسے میں یورپی ممالک کوخسارہ اٹھانا پڑ رہا ہے۔

جرمنی اور فرانس نے امریکی پابندیوں کی پروا نہ کرتے ہوئے روس سے سودے بازی شروع کر دی ہے۔ فرانس اب امریکہ سے تیل لینے کے بجائے وینزویلا سے سودے کر رہا ہے۔ ادھر مشرق وسطیٰ میں بھی امریکہ کو بڑے معرکوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ابھی ایک بڑی خبر آئی ہے کہ الجزائر نے سولہ بلین ڈالر کے جدید ہتھیار خریدنے کا معاہدہ کر لیا ہے۔ دوسری طرف امریکہ اور سعودی عرب کے مابین بھی سیاسی اختلافات ابھر رہے ہیں، جبکہ امریکہ نے اپنے تیل اور گیس کی قیمت میں اضافہ کردیا ہے، جس پر یوری ممالک مزید ناراض ہیں۔

عالمی میڈیا میں کچھ حلقے اس صورتحال کو صدر بائیڈن کی ناکامی قراردے رہے ہیں۔ یہ خیال کسی حد تک غلط ہے، کیونکہ امریکی صدر بہت طاقتور کہلاتاہے،طاقت کا سوئچ پینٹاگون کے ہاتھ میں ہے ۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جوکہتے پھر رہے ہیں وہ محض کھوکھلے سیاسی بیانات ہیں ،جبکہ وہ حقائق سے آگاہ ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ مشرق اور مغرب کے درمیان فاصلے بڑھ رہے ہیں۔ مشرق کی صدی میں دنیا کی آبادی کا توازن مشرق کی طرف تھا اب مزید بڑھ رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اہم یہ کہ اس صدی میں روس کے قوی امکانات ہے کہ روسی سپر پاور بن کر ابھرے گا۔ آئندہ پچیس برسوں میں وہ بڑی معاشی طاقت بن جائے گا ، رہا دفاعی معاملہ اس میں وہ پہلے ہی بہت آگے ہے اب چین بھی اس کے ساتھ کھڑا ہے۔ بھارت بھی اپنے پر تول رہا ہے۔ 

ایسے میں پاکستان کو پھونک پھونک کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ماہرین کا دعویٰ ہے کہ 2035ء کے بعد دنیا یکسر بدل جائے گی روس دنیا میں پھر نئی سپرطاقت بن کر ابھرجائے گا۔ امریکہ کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ قطب شمالی کا پورا برفانی خطہ اب دنیا کا سب سے اہم خطہ بن کر سامنے آرہا ہے۔ 2035ء تک اس خطے میں تمام برف پگھل چکی ہوگی روس کا کام بہت آسان ہو جائے گا۔

اس حوالے سے شدید خطرہ ہے کہ امریکہ یوکرین میں پروکسی وار کے بہانے کوئی مہم جوئی نہ کر بیٹھے روس اس وقت پوری طرح متحرک اور چوکس ہے۔ دنیا میں کچھ بھی ہو سکتا ہے اور جو بھی ہوگا بہت برا ہوگا ،کیونکہ دنیا تیل اور گیس پر زندہ ہے۔ اس کے لئے کوئی بھی کچھ بھی کر سکتا ہے۔ ماضی قریب میں امریکہ نے مشرق وسطیٰ میں تیل کے حصول کیلئے کیا کچھ نہیں کیا، حالانکہ دنیا میں تیل کے معاملے میں امریکہ دوسرا بڑا ملک ہے، مگر سابق صدر کلنٹن تک امریکہ کی پالیسی تھی کہ وہ اپنی سر زمین سے تیل اس وقت نکالے گاجب مشرق وسطیٰ کا تیل ختم ہو چکا ہوگا مگر سابق صدر باراک اوباما کا نظریہ مختلف تھا ان کاکہنا تھا قدرتی ماحولیات اور موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے آگے تیل کی مانگ کم ہو سکتی ہے۔ دنیا میں آلودگی میں اضافہ کی ایک وجہ تیل ہے ایسے میں امریکہ خسارے میں رہے گا، اس لیےامریکہ نے تیل کی پیداوار شروع کی۔ سابق صدر باراک اوباما کا فیصلہ درست تھا اور قدرتی موسمی تبدیلیوں کو حقیقی خطرہ تصورکرتے تھے۔

امریکہ کو مشرق وسطیٰ میں اپنی چوکی قائم کرنے کیلئے اسرائیل مل گیا تھا۔ مگر اب قطب شمالی میں امریکہ کو اسرائیل جیسی چوکی نہیں مل سکے گی،کیونکہ وہاں خود چوکی بن رہا ہے وہاں روس نے ضروری سامان ہتھیار ماہرین روانہ کرنا شروع کر دیے ہیں۔ امریکہ اور اس کے سیاسی اتحادیوں کو پریشانی لاحق ہو چکی ہے۔ روس کے ماہرین ارضیات کے مطابق قطب شمالی اور اس کے اطراف کے برفانی علاقوں میں ایک سو کے قریب قیمتی معدنیات کے بڑے ذخائر ہیں۔

قطب شمالی پر مسئلہ 2007ء میں زور پکڑا جب روس نےاس کے معدنیاتی ذخائر کی دریافت کے لئےایک سروے ٹیم روانہ کی۔ روس قطب شمالی کے بڑے حصے پر اپنا دعویٰ رکھتا ہے مگر امریکہ نے روس کے ہر دعویٰ کو مسترد کردیا۔ تاہم آرکیٹک علاقے سے جڑے یا قریبی ممالک نے ایک کونسل قائم کی،جس کے کینیڈا، ڈنمارک، آئس لینڈ، ناروے، سوئیڈن، روس اور امریکہ رکن ہیں۔ اصل میں برفانی علاقہ اور سرد ترین ہوائوں کے علاوہ ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ بڑے بڑے برفانی تودے آہستہ آہستہ حرکت بھی کرتے رہتے ہیں اس لئے اس خطے میں ورکنگ کنڈیشن انتہائی سخت ہیں دوسرے لفظوں میں جان جوکھوں میں ڈال کر کام کرنا پڑتا ہے۔ یہاں موسم گرما میں سورج چمکتا ہے، مگر گرمی نہیں محض روشنی ہوتی ہے اور چھ ماہ روشنی یا اجالا ہوتا ہے موسم سرما میں سورج غائب، اُجالا غائب بس گھپ اندھیرا چھایا رہتا ہے۔

روس نے اپنے ماہرین اور کام کرنے والوں کے لئے یہاں کے موسم کے لحاظ سے خاطر خواہ سہولتیں دی ہیں پھر بھی وہاں کام کرنا بڑی مہم جوئی ہے۔ اس خطے میں روس بڑی طاقت ہے اور اس نے اب قطبی خطہ میں موجود معدنیات حاصل کرنے کا نہ صرف مکمل پروگرام بنا لیا ہے، بلکہ اس پرعمل بھی شروع کردیا ہے، جس کی وجہ سے امریکہ اور اس کے اتحادی سخت ناراض ہیں اورخطے میں کشیدگی بڑھتی جارہی ہے۔

سچ یہ ہے کہ روس نے یوکرین پرحملہ تو کردیا مگر امریکہ اور یورپ یوکرین کو جدید ہتھیاروں سمیت بڑی مالی امداد بھی فراہم کرنے جا رہے ہیں، جس کی وجہ سے یوکرین کی جنگ طویل ہوتی جارہی ہے۔ دوسرے یہ کہ روس کوتاحال بڑی کامیابی نہیں ملی ہے۔ صدر پیوتن کے لئے یہ صورتحال ناخوشگوار ہے اس لئے انہوں نے ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی دی۔

روس میں جب تک صدر ولادیمر پیوتن کی حکمرانی ہے قطب شمالی کے حوالے سے پالیسی میں کسی تبدیلی کی امید فضول ہے۔ صدر پیوتن کی شخصیت کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی دھن کے پکے، مستقل مزاج اور ریاستی معاملات میں سخت گیر رویہ رکھتے ہیں۔ عالمی حالات پر ان کی گہری نظر ہے۔ ان کے قریبی حلقوں کو یہ فکر ہے کہ اس صورتحال میں امریکہ کوئی مہم جوئی نہ کردے کہ حالات سب کے ہاتھوں سے نکل جائیں، کیونکہ وائٹ ہائوس کے حلقوں کا کہنا ہے کہ صدر جوبائیڈن کو سخت تشویش لاحق ہے کہ قطب شمالی کے حالات پر کسی طرح قابو پایا جائے، کیونکہ روسی صدر پیوتن شطرنج کے ماہر کھلاڑی بھی ہیں اس لئے وہ ہر چال پوری ہوش مندی سے چل رہے ہیں۔

امریکہ کو یہ بھی زوم ہے کہ 1827ء میں برطانوی جغرافیہ دان اور ماہرارضیات جنرل ایڈورڈ پیری کے بعد امریکی ماہرارضیات فریڈرک البرٹ نے شمالی خطے کا مکمل سروے کیا تھا اور پہلا آئس بریکر برطانیہ اور امریکہ نے قطب شمالی میں روانہ کیا تھا جو بڑے بڑے برفانی تودوں کو چیرتا ہوا آہستہ آہستہ آگے بڑھتا ہے ،اس طرح امریکی ماہرارضیات اور ماہرین قریب سوسال پہلے وہاں کام کرچکے ہیں، مگر 1907ء کے بعد سے روس نے وہاں قدم جمانے کی کوششیں شروع کردیں۔

بحراوقیانوس شمال تا جنوبی افریقہ تک پھیلا ہوا ہے ،جو چار براعظموں کے درمیان میں ہے ۔ اس کو دو حصوں میں دیکھا جاتا ہے شمالی بحراوقیانوس اور جنوبی بحراوقیانوس کہا جاتا ہے۔ جنوبی اوقیانوس جس کو براعظم انٹارٹیکا بھی کہا جاتا ہے وہاں آٹھ ممالک کے سائنس دانوں اور ماہرارضیات ایک عرصے سے تحقیقی کام کر رہے ہیں۔ جنوبی بحراوقیانوس کا یہ برفانی خطہ بھی گوگل وارمنگ کے اثرات سے محفوظ نہیں ہے۔ یہاں امریکہ برطانیہ، فرانس، جرمنی، بھارت، برازیل اور بلجیئم کے ماہرین کام کر رہے ہیں۔ جنوبی قطب علاقے کے بڑے بڑے برفانی تودے بہت آہستہ آہستہ حرکت کررہے ہیں۔

تاہم محققین ایک بڑے تودے پر کام کرتے ہیں، مگر قطب شمالی میں باقاعدہ کام کرنے کے لئے روس نے مستقل اسٹیشن کی تعمیر کا کام شروع کردیا ہے۔ اس طرح اس برفانی خطے میں روس کی برتری قائم ہو رہی ہے۔ یہ مسئلہ مغرب کے لئے بہت بڑا مسئلہ بنتا جا رہا ہے، مگر لگتا ہے جلد فرانس اور جرمنی، روس کے ساتھ تعاون کا بڑا معاہدہ کرلیں گے اور امریکی اثر سے قدر ے دور ہو جائیں گے۔ ویسے تو تمام یورپی ممالک امریکہ کی پالیسی سے خوش نہیں ہیں بلکہ صدر بائیڈن کی صحت اور ان کی سیاسی حکمت عملی سے ناخوش ہیں۔

امریکی حالیہ وسط مدتی انتخابات میں ری پبلکن پارٹی نے زیادہ کامیابی حاصل کرلی ہے،جس سے امریکہ میں سیاسی رجحان کا انداہ لگایا جا سکتا ہے کہ عین ممکن ہے کہ امریکہ کا آئندہ صدر ری پبلکن پارٹی کا ہوگا،مگر اس تبدیلی کا امریکی خارجہ پالیسی پر زیادہ اثرنہیں ہوگا کیونکہ خارجی پالیسی کا مسئلہ پینٹاگون ہے، وہ طے کرے گا کہ کہاں تبدیلی لانا ہے۔

درحقیقت پینٹاگون بہت بڑی پانچ طرفہ بلڈنگ واشنگٹن میں واقع ہے جہاں امریکی بری، بحری اور فضائیہ کے مرکزی دفاتر واقع ہیں۔ جہاں تیس ہزار سے زائد کا کام کرتا ہے۔ اس کے علاوہ امریکی دفاعی خفیہ اداروں کے دفاتر بھی اس عمارت میں واقع ہیں۔ یہ بلڈنگ 1962ء کے بعد تعمیر کی گئی۔اس کی طرز تعمیر کے حوالے سے پینٹاگون کہا جاتاہے۔ 2001ء ستمبر میں اس عمارت پر طیارہ گرایا گیا تھا جس میں دوسو کے قریب ملازمین ہلاک ہوگئے تھے۔

پینٹاگون ایک طرح سے امریکہ کی دفاعی روح ہے۔ اس دیوہیکل عمارت کے نیچے خفیہ جدید تہہ خانے بنے ہوئے ہیں۔ یہاں سے قطب شمالی پر نظر رکھی جاتی ہے۔ امریکی ایٹمی آبدوزیں بھی اس خطے میں گاہے بہ گاہے نگرانی کرتی رہتی ہیں۔ اس حوالے سے بھی یہ خطہ بہت اہم اور خطرناک ہے، ان تمام حقائق کے باوجود روس اپنی کارروائی کر رہا ہے۔

قطب شمالی میں جو قدرتی وسائل اور قیمتی معدنیات کے ذخائر ہیں اس بارے میں تمام جائز وں اور رپورٹوں سےخطے کے تمام ممالک میں پانی آرہا ہے، مگر روسی صدر پیوتن اپنے مشن پر ڈٹے ہوئے ہیں،جبکہ دلچسپ اور حیرت انگیز سچائی یہ ہے کہ روس کے بڑے برفانی خطہ سائبریا میں قیمتی معدنیا ت کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے، جس پر آج تک کام نہیں ہوا۔ ماہرین ارضیات کا دعویٰ ہے کہ سائبریا کے خطے میں جو 13ملین مربع کلو میٹر کے علاقہ پر پھیلا ہواہے جہاں تیل، گیس اور جپسم ،نکل زنک، سیسہ ،چاندی، سونا اور جست و دیگر قیمتی معدنیات کے بڑے بڑے ذخائر ہیں۔ 

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر روس صرف سائبریا کے خطے سے معدنیات نکالے تو وہ بلاشبہ دنیا کی سب سے بڑی اور مستحکم معاشی قوت بن سکتا ہے۔ یوں لگتا ہے پہلے روس کے قریبی خطوں کی معدنیات حاصل کرلے اس لئے اس وقت روس کی ساری توجہ قطب شمالی کے خطے کی طرف ہے۔ ایسے میں ظاہر ہے قطب شمالی کے قریبی ممالک کو گہری تشویش ہوگی جن میں امریکہ، برطانیہ سرفہرست ہیں جبکہ چین اس کا حامی اور معاون ہے مگر مغربی ممالک پریشان اور ناراض ہیں مغرب کی پریشانی اور غصہ بجا ہے مگر دنیاکا پرانا اصول ہے،جس میں دم ہے وہ سب پرحاوی آنے کی کوشش کرے گا۔ ہاتھی کے منہ سے گنا کون چھین سکتا ہے۔ اس حوالے سے امریکی رائے عامہ صدر جوبائیڈن پر تنقید کر رہی ہے۔ کچھ عرصہ قبل امریکی نائب صدر کملاہیرس یورپی ممالک کا دورہ کر چکی ہیں اور اس مسئلے پر مذاکرات ہوئے ہیں۔

امریکہ میں صدر پر سب سےزیادہ تنقید سابق صدر ٹرمپ کر رہے ہیں۔ ان کی تنقید بجا مگران کی سیاسی قوت نہیں ہے۔ ری پبلکن پارٹی ٹرمپ کو سیاستدان سے زیادہ کاروباری اور سرمایہ کار تسلیم کرتی ہے۔ تاہم امریکی میڈیا میں بھی صدرجوبائیڈن پر تنقید ہو رہی ہے کہ روس نے شمالی خطے میں کام شروع کردیا ہے، ایسے میں امریکہ کیا کر رہا ہے۔

بعض مبصرین کا خیال ہے کہ امریکہ اور برطانیہ وغیرہ جنوبی خطے میں انٹارٹیکا پر زیادہ توجہ مرکوز کر سکتے ہیں کیونکہ وہاں بھی وہی معدنیات کے ذخائر ہیں جو قطب شمالی میں ہیں، مگر قطب شمالی پر چھ ممالک کا پہلے سے دعویٰ ہے، جن میں ارجنٹینا ،چلی اور آسٹریلیا نیوزی لینڈ کا دعویٰ ہے کہ قطب جنوبی انٹارٹیکا ان کا علاقہ ہے۔ ارجنٹینا اورآسٹریلیا ویسے انٹارٹیکا کے قدرے قریب واقع ہیں، جو بحراوقیانوس جنوبی میں واقع ہے۔ اس کے علاوہ اس خطے میں کچھ اور اہم ممالک اپنے اپنے تحقیقی مراکز میں کام کر رہے ہیں۔ اگر قطبین پر بھی اجارہ داریاں، دعویٰے اورکشیدگیاں بڑھنے لگیں تو دنیا مزید گھمبیر مسائل سے دوچار ہو جائے گی۔ معدنیات حاصل کرنے کا چکر کسی بڑے سانحہ کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔

جاری حالات میں دنیا میں مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بعض ممالک کے مابین پرانے تنازعات پھر سے سر اٹھا رہے ہیں۔ مثلاً حال ہی میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی پیدا ہورہی ہے۔ ایران نے سعودیہ پر حملہ کرنے کی دھمکی بھی دیدی، تب سعودی عرب نے بھی ریڈ الرٹ جاری کردی اور فوجوں کو چوکنا کر دیا ہے۔ المیے میں حالیہ امریکہ سعودی عرب کے درمیان جو سردمہری بڑھ رہی تھی کم ہو رہی ہے۔ ایران ان حالات میں روسں کی طرف دیکھ رہا ہے، چین خاموش ہے، جبکہ ایران کے چین کے ساتھ بہت سے معاہدے ہیں، جن میں کچھ خفیہ معاہدے بھی ہیں۔

قطع نظراس سے بڑا مسئلہ یہ ہے اگر مشرق وسطیٰ میں کوئی بڑی گڑبڑ رونما ہوتی ہے تو دنیا میں تیل کا بحران سراٹھا سکتا ہے۔

اس صورتحال میں جبکہ دنیا میں مالی مسائل میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ قدرتی ماحول موسمی تبدیلیاں کووڈ۔19کی بدولت دنیا بھر میں مہنگائی بیروزگاری بڑھ رہی ہے، آبادی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہےاور خشک سالی کی وجہ پیداوار میں کمی ہوتی جا رہی ہے،نیزپینے کا صاف پانی بھی کم ہورہا ہے۔ اناج کم، پیداوار خشک سالی اور سیلاب کی وجہ سے خوراک مہنگی ہو چکی، غربت پسماندگی بیروزگاری وبائی امراض حکومتوں کی غیر مؤثر حکمرانی ناانصافی طبی سہولیات کے فقدان نے انسانی آبادیوں کے مسائل کو دوچند کر دیا ہے۔ بھارت میں بھوک کی وجہ سے مختلف دہی علاقوں میں چھبیس سو افراد خودکشی کرچکے ہیں۔ گزشتہ سال بھی پیش تر افراد فاقوں سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان تمام المناک حوالوں سے دنیا مسائل کا جنگل بنتی جا رہی ہے۔

گزشتہ چند برسوں میں سری لنکا میں جو کچھ ہوا ،ترقی پذیر ممالک کے حکمران طبقات کو سبق سیکھنا چاہئے پورا ملک بدعنوانی کی وجہ سے تباہ تاراج ہو چکا ہے۔ زیادہ تر ترقی پذیر ممالک میں حکمران اور بالائی طبقہ بدعنوانیوں میں لتھڑ چکا ہے۔ ان ممالک میں غیر مؤثر حکمرانی اورکرپشن اس قدر عام ہے کہ ایمانداری، دیانتداری جیسے لفظ محض لغت تک محدود ہو چکے ہیں۔

بدعنوانی اور لوٹ کھسوٹ میں بعض انسان اس درجہ گرچکے ہیں کہ قبرستانوں سے تازہ میتوں کو نکال کر فروخت کر دیتے ہیں۔ اس دنیا میں ایسے معاشرے بھی پنپ رہے ہیں مگر خود غرضی ،مایوسی اور بے حسی کا یہ عالم کہ زبانیں گنگ ہیں۔

عوام انصاف کے دروازے کھٹکھٹانے سے بھی خائف ہیں کہ وہاں شکایت کنندہ کو بھی مجرم نامزد کر دیا جاتا ہے اور اگر مانگ پوری کردی جائے تو چھوڑ دیا جاتا ہے ایسے میں عوام کس سے منصفی چاہیں۔

ڈنمارک سائنس ریسرچ سینٹر نے ایک جامع رپورٹ تیارکرکے اقوام متحدہ کو ارسال کی اور یہی رپورٹ سی او پی 27کومصر، اٹلی جس پر کوپ۔27 کے سربراہی اجلاس میں بحث ہوی ۔مذکورہ ریسرچ سینٹر نے بتایا کہ دنیا کے اہم اور خطرناک مسائل کیا ہیں، جن کا سدباب ہم اور جدید ٹیکنالوجی کرسکتی ہے مسائل یہ ہیں۔

* دنیا میں مسلح تصادم روکیں۔

* جنگلات اور جنگلی و سمندری حیاتیات کا تحفظ کریں۔

* پینے کا پانی صاف اور آبادی میں اضافہ کی روک تھام کریں۔

* آمدنی میں اضافہ کریں۔

* تعلیم اور صحت عامہ کی سہولیات عام کریں۔

* بھوک اور افلاس کم کریں۔

* تارکین وطن کی روک تھام کریں۔

* مؤثر حکمرانی قائم کریں۔

* بدعنوانی کرپشن سے چھٹکارہ پائیں وغیرہ وغیرہ۔

امریکہ روس، برطانیہ، فرانس اور جرمنی جاری گلوبل صورتحال کا حل ایک میز پر بیٹھ کر بہتر بنا سکتے اور مسائل کا حل تلاش کرسکتے ہیں لیکن تمام مسائل اور تنازعات کاحل مذاکرات میں ہے۔ دنیا کے تمام ہوش مند مذاکرات ہی کو دنیا کے تنازعات جھگڑوں اور مسائل کا حل قراردیتے ہیں۔

جنگ وجدل نے دنیا کو صرف تباہی بربادی کے کچھ نہیں دیا۔ معروف دانشور ویل ڈورن کہتا ہے ،دنیا میں ہر دور میں جنگ وجدل کا راج رہا ہر طرف آگ دھواں اور خون بہتا رہا۔ انسانیت نے سو دکھ جھیلے ہیں ایسے میں امن کی فاختہ کیسے آئے۔ دنیا نے صرف چند سودن امن دیکھا، ورنہ ہر دن دنیا کے کسی نہ کسی گوشے سے جنگ کی آگ کا دھواں اٹھتا رہا۔ مگر آج کی دنیا کو قدرتی آفات اور موسمی تبدیلیوں نے گھیر رکھا ہے اگرکسی گوشے میں جنگ بھڑکتی ہے تو اس کے نتیجے میں کیا کچھ ہو سکتا ہے۔ ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔