• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سال 2023 کے شروع کے نو ماہ میں بہت سے اہم واقعات ہوئے لیکن اکتوبر میں اسرائیل کےفلسطین پر حملے نے باقی تمام واقعات کو غیر اہم بنا دیا، جو اسرائیل کی فلسطین پر بربریت سے وقوع پذیر ہوئے اور جنہوں نے پوری انسانیت کو ہلا کر رکھ دیا۔

اسرائیل کی فلسطین میں بربریت

ویسے تو اسرائیل کئی عشروں سے فلسطینیوں کے خلاف ظلم وستم کے پہاڑ توڑتا رہا ہے ۔ 2023 میں بھی اسرائیل کے یہودی آباد کاروں نے مسلسل فلسطینیوں کو نشانہ بنائے رکھا تھا ۔ نہتے فلسطینی عورتوں اور بچوں کو بھی نشانہ بنانا عام سی بات رہی۔ اس کے مقابلے میں اگر فلسطینی کوئی چھوٹی موٹی بھی کاروائی کرتےتو اسرائیلی ردعمل بہت سخت ہوتا۔ اسی پس منظر میں سات اکتوبر کو حماس نے ایک بڑی کارروائی کی ۔ حماس کے جنگجو اسرائیل کے مقبوضہ علاقوں میں بذریعہ سڑک اور فضائی راستوں سے اور بذریعہ ڈرون حملے کرنے میں کامیاب ہوئے۔ 

درجنوں جنگجو اسرائیل میں موجود ٹھکانوں کو نشانہ بنانے لگے ۔ سیکڑوں اسرائیلی ہلاک اور زخمی ہوئے اور ڈھائی سو کے قریب لوگوں کو حماس کے جنگجو قیدی بنانے میں کام یاب ہوئے۔ اس حملے نے پوری دنیا میں ایک حیرت انگیز ردعمل کا آغاز کیا جس میں تقریباً تمام بڑی طاقتوں نے اسرائیل سے ہم دردی کا اظہار کیا۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے بھرپور جوابی کارروائی کا عندیہ دیتے ہوئے غزہ کی پٹی کو تہس نہس کرنے کا اعلان کیا۔ اس کے بعد چند ہی دنوں میں مغربی اتحادیوں کی مکمل حمایت کے ساتھ اسرائیل نے غزہ پر بے رحمانہ بم باری کا آغاز کر دیا۔ 

اس پر اقوامِ متحدہ اور مسلم ممالک کی تنظیموں نے روایتی طریقے سے مذمتی بیانات دیئے لیکن اسرائیلی بربریت روکنے کا کوئی ٹھوس قدم نہیں اُٹھایا گیا۔ رفتہ رفتہ جب اسرائیل نے انتہائی بے رحمانہ طریقے سےاسپتالوں، عبادت گاہوں، اسکولوں اور گھروں کے ساتھ عمارات وغیرہ سب کو نشانہ بنانا شروع کیا تو عالمی پیمانے پر مظاہرے شروع ہوگئے جن میں لاکھوں افراد نے شرکت کی۔

2023 کے آخر تک لاکھوں فلسطینی بے گھر ہوچکے تھے ۔ غزہ میں موجود پینتیس میں سے پچیس اسپتال اسرائیلی بم باری کے نتیجے میں تباہ کیے جاچکے تھے۔ یہ قدم تو غالباً پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے دوران بھی نہیں اُٹھائے گئے کیوں کہ تمام جنگی قوانین کے مطابق اسپتالوں اور گھروں کو نشانہ بنانا جنگی جرائم میں شامل تھا۔ 

جنگ کے دوران بھی قانون کے مطابق فریقین ایک دوسرے کے جنگی اڈوں اور ٹھکانوں کو نشانہ بنا سکتے تھے ،خود حماس نے اپنے حملوں میں اسرائیل کے اندر عوام کو نشانہ بنایا اس لیے اسرائیل کو اپنے نام نہاد دفاع کے نام پر اتنی شدید کارروائی کا موقع مل گیا۔

2023 کے اواخر تک غزہ کےتقریباً دو تہائی مکانات اور عمارتیں تباہ کیے جا چکے تھے ۔ انسانی تاریخ میں بے گھر افراد کی اتنی بڑی تعداد اتنے مختصر عرصے یعنی صرف دو مہینے میں متاثر نہیں ہوئی ۔ گو کہ چوبیس نومبر کو جنگ میں پہلا چار روزہ وقفہ دیا گیا اور دونوں جانب سے درجنوں قیدی یا یرغمال کیے گئے افراد رہا کیے گئے اس کے باوجود جنگ کی تباہ کاری جاری رہی ۔ غزہ کے ساتھ اسرائیل نے لبنان کے جنوبی حصّے کو بھی نشانہ بنانا شروع کردیا، جہاں سے نقل مکانی شروع ہوگئی ۔ 2023 کے آخر تک لاکھوں فلسطینی کھلے آسمان تلے یا کچھ ناکافی خیموں کے اندر رہنے پر مجبور ہوگئے۔ یاد رہے کہ یہ مہینے وہاں پر شدید سردی کے ہوتے ہیں۔ 

ایسے میں اسرائیل نے مزید بربریت اور سفاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے غذا اور اجناس کے ذخائر پر بھی حملے کر کے انہیں تباہ کر دیا اور اب فلسطینی دانے دانے کو ترس رہے ہیں لیکن دنیا کی کیا مسلمان اور کیا غیر مسلم طاقتیں سب صرف زبانی جمع خرچ سے کام لیتی رہیں یا چندے اکٹھا کررہی ہیں جو شاید ہی فلسطین پہنچ پائیں ۔ یہی حال پانی کی فراہمی کا ہے،پانی کے ذخائر بھی تباہ کر دیے گئے ہیں ۔ دیگر ممالک صرف چند ٹرک یا جہاز میں امدادی سامان بھیج کر یہ تاثر دینے کی کوشش کر تے رہے کہ جیسے انہوں نے اپنی ذمہ داری پوری کردی ۔

2023 کے آخر تک تقریباً تین لاکھ گھر اور عمارتیں تباہ کیے جاچکے تھے ۔ ایک اور مایوس کن بات یہ ہوئی کہ عالمی میڈیا کے اداروں نے بدستور "اسرائیل کے حقِ دفاع" کی رٹ لگائی ہوئی ہے اور فلسطینیوں پر ٹوٹنے والے قہر کو خاطرخواہ کوریج نہیں دی جارہی ۔ دنیا بھر کے عوام تو بھرپور مظاہرے کررہے ہیں لیکن حکومتیں اسرائیل کے خلاف کوئی ٹھوس کاروائی نہیں کی،یہی سب سے تباہ کن بات ہے۔ صرف چند ممالک نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات توڑے یا اپنے سفیر عارضی طور پر بلائے ۔ سب سے زیادہ بے شرمی کا مظاہرہ امریکا اور برطانیہ نے کیا جو ہر حال میں اسرائیل کے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔

روس ۔ یوکرئن جنگ

2023 میں روس اور یوکرائن جنگ بھی جاری رہی ۔ گو کہ اسرائیل پر حماس کے حملے اور اس کے بعد غزہ پر اسرائیلی کارروائی کے نتیجے میں عالمی میڈیا کی توجہ تھوڑی ہٹ گئی لیکن بہرحال یورپ میں ہونے والی یہ لڑائی تقریباً دو سال سے جاری ہے۔

2023 کے آخر میں ایک اور تباہی یہ ہوئی کہ جنگ سے متاثرہ علاقوں میں شدید برفانی طوفان بھی آگیا جس سے نہ صرف یوکرائن کے آزاد علاقے بل کہ روس کے زیرِ قبضہ علاقے بھی متاثر ہوئے ۔ پندرہ سو سے زیادہ قصبے اور دیہات اس طوفان سے متاثر ہوئے اور دس انچ سے زیادہ برف باری میں دب گئے ۔ اس دوران روسی افواج نے اپنے حملے جاری رکھے ۔ نومبر کے اعداد وشمار کے مطابق اس جنگ میں ہونے والی اموات کی تعداد اور زخمیوں کی تعداد ملائی جائے تو روزانہ ہزار سے زیادہ لوگ ہلاک یا زخمی ہوئے۔

2023 میں بھی نیٹو نے یوکرائن کے دفاع میں کسی براہ راست فوجی کارروائی سے گریز کیا بل کہ یوکرائن کو نیٹو میں شامل کرنے سے بھی انکاری رہا، اس کے بجائے فن لینڈ کو نیٹو میں شامل کرلیا گیا جو نیٹو کا اکتیسواں رکن بن گیا جس سے نیٹو کی روس کے ساتھ سرحدیں دگنی ہوگئیں ۔ نیٹو ممالک کے وزرائے خارجہ سارا سال یوکرائن اور اس کے آس پاس ممالک کے دورے کرتے اور یوکرائن کو دلاسے دیتے رہے کہ وہ روس کے خلاف یوکرائن کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن جس طرح کا رویہ مغربی ممالک نے اسرائیل کے ساتھ رکھا اور اس کے تمام جنگی جرائم پر خاموشی اختیار کی، اس سے اُن کا دوغلا پن واضح ہوگیا۔ 

یہ ممالک چاہتے ہیں کہ روس کی مذمت کی جائے لیکن اسرائیل کو کچھ نہ کہا جائے اور اس کے تاریخی جنگی جرائم سے صرفِ نظر کیا جائے ۔ نیٹو نے یوکرائن سے وعدہ کیا ہے کہ روس سے جنگ کے خاتمے کے بعد یوکرائن کو نیٹو کا رکن بنا لیا جائے گا ۔ اس اعلان کے بعد جنگ میں مزید طوالت کا امکان ہے کیوں کہ روس سے کہا جارہا ہے کہ اگر جنگ بند کی تو یوکرائن نیٹو کا رکن بن جائے گا۔ اس طرح امریکا اور یورپی یونین روس اور یوکرائن کو ایک طویل عرصے تک اس جنگ میں الجھائے رکھنا چاہتے ہیں ۔ اطلاعات کے مطابق روس نے چیچنیا کے مسلمان جنگ جو بھی اس جنگ میں جھونکے شروع کر دیے ہیں کیوں کہ کرائے کے گوریلے ویگنر گروپ کے سربراہ یفگینی پری گوژن مارے جا چکے ہیں۔

2023 کے آخر تک یوکرائن کا تقریباً بیس فی صد حصّہ روس کے قبضے میں تھا اور روس نے اعلان کیا ہے کہ وہ مزید علاقوں پر قبضے نہیں کرنا چاہتا اس کا مطلب یہ ہے کہ روس کے صدر پوتن اگلے سال کے صدارتی انتخاب میں اس کام یابی کو استعمال کرتے ہوئے ایک بار پھر صدر منتخب ہونے کی کوشش کریں گے، بظاہر اُن کے راستے میں کوئی رکاوٹ نظر نہیں آرہی۔ 

دوسری طرف یورپی یونین کے ممالک جیسے جرمنی اور فرانس اب تک اس جنگ میں یوکرائن کی بھرپور مدد کرتے آئے ہیں لیکن جنگ کے طویل ہونے سے ان ممالک کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا سوائے اس کے کہ مزید ہتھیار اس میں جھونکے جائیں ۔ جنگ کے نتیجے میں یوکرائن کے عوام شدید معاشی بد حالی کا شکار ہیں، برآمدات تقریباً رک چکی ہیں اور لاکھوں لوگ بے گھر ہوکر تارکین وطن بننے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

2023 کا ایک اہم واقعہ یہ تھا کہ نجی آرمی ویگنر گروپ نے بغاوت کی جس کو پوتن کی حامی افواج نے کچل دیا اور پھر ویگنر گروپ کے سربراہ ایک پراسرار فضائی حادثے میں مارے گئے۔

2023 میں چین

2023 میں چین میں ہونے والا اہم واقعہ یہ تھا کہ صدر شی جن پنگ کو تیسری مرتبہ صدر منتخب کرلیا گیا۔ مارچ 2023 میں ہونے والے صدارتی انتخاب جو چودھویں قومی کانگریس میں منعقد ہوئے صدر شی نے اپنی حيثيت کو خاصا مستحکم کرلیا ۔ چین میں 1993 کے بعد سے پارٹی سیکرٹری اور صدر کے عہدے ایک ہی فرد کے پاس رہے ہیں ۔ گو کہ پارٹی نے دو مدت سے زیادہ کسی کے صدر رہنے پر پابندی لگا دی تھی ، اب صدر شی کی قیادت میں پارٹی نے یہ پابندی ہٹائی تو وہ تیسری مدت کے لیے صدر منتخب ہوگئے۔ 

مئی 2023 میں چین نے اعلان کیا کہ وہ 2030 تک چاند پر چینی خلا باز کو اتارنے کا ارادہ رکھتا ہے ۔ 2023 میں ہی چین نے بلیٹ روڈ منصوبوں دسویں سالگرہ بھی منائی۔ اسی سال چین نے روس کا دورہ بھی کیا اور روس کے ساتھ بہتر تعلقات میں مزید بہتری کی طرف قدم بڑھائے ۔ اس برس بھی روس اور یوکرائن کی جنگ کے باعث روس اور چین مزید قریب آئے اور باہمی تجارتی وسیاسی تعلقات میں پیش رفت ہوئی ۔ چین روس کے تیل کا بڑا خریدار بن چکا ہے اور یورپی منڈی میں روس کی رسائی محدود ہونے کے باعث چین کو بڑا فائدہ پہنچا ہے۔ 

چین کے امریکا سے تعلقات میں سرد مہری کا دور دورہ رہا ۔ اسی برس چین دنیا میں آبادی کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر آگیا جب کہ بھارت نے آبادی میں چین کو پیچھے چھوڑ دیا ۔ چین نے تائیوان کے مسئلے پر اپنا موقف برقرار رکھا اور امریکا کو تنبیہ کرتا رہا کہ وہ تائیوان کو جنگ کے ساز و سامان کی فراہمی بند کرے۔ اسرائیل کے فلسطین پر حملوں میں بھی چین نے اسرائیل کا ساتھ دینے سے انکار کیا اور مطالبہ کیا کہ فوری جنگ بندی کی جائے۔ مجموعی طور پر 2023 کا سال چین کے لیے سود مند ثابت ہوا، اس نے معاشی اور فوجی کے ساتھ سفارتی طور پر بھی مزید مضبوط کیا ہے۔

بھارت

2023 میں بھارت دنیا کا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک تو بن ہی گیا اسی کے ساتھ چاند پر اپنا مشن اتار کر بڑی کام یابی حاصل کی ۔ اس سے کچھ دن قبل ہی جاپانی مشن چاند پر اترنے میں ناکام ہوچکا تھا اس لیے بھارت کے لیے یہ بڑا مشکل لگ رہا تھا لیکن بھارت نے یہ مرحلہ سر کرلیا ۔ اسی برس بھارت نے ممبئی اور دہلی کے درمیان اپنی سب سے طویل 1400 کلومیٹر لمبی ایکسپریس وے کا بھی افتتاح کیا ، ساتھ ہی سورت میں دنیا کے سب سے بڑے کاروباری کمپلیکس کی تعمیر بھی مکمل کی جو دنیا کی سب سے بڑی ہیرا منڈی کی شکل میں سامنے آئی۔ 

یہ ہیرا منڈی لاھور کی ہیرا منڈی سے خاصی مختلف ہے اور یہاں ہیروں کے تجارت کے دفاتر اور دکانیں تعمیر کی گئی ہیں ۔ اس عمارت نے امریکا میں واقع پینٹاگون کی عمارت کو پیچھے چھوڑ دیا جو اس سے قبل دنیا کی سب سے بڑی عمارت تصور کی جاتی تھی ۔ اس کے ساتھ ہی وزیراعظم مودی نے نئی پارلیمان کی عمارت کا بھی افتتاح کیا جس پر حزبِ مخالف نے بائیکاٹ اور احتجاج کیا کہ اس کا افتتاح وزیراعظم کے بجائے صدر کو کرنا چاہیے تھا لیکن اس احتجاج کا مودی پر کوئی اثر نہ ہوا اور وہ خود ہی افتتاح کر بیٹھے۔ 

ان تمام کام یابیوں کے باوجود بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں عروج پر رہیں ۔ کشمیر میں بھارتی افواج کے مظالم جاری رہے اور بھارت نے اس پر کوئی بھی لچک دکھانے سے گریز کیا ۔ ہر روز کشمیریوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا، انہیں دہشت گردی میں ملوث قرار دے کر گولیوں اور تشدد کا شکار کیا گیا۔ 

بھارت کے شمال مشرقی ریاستوں میں بھی مظالم جاری رہے اور منی پور وغیرہ میں مسیحی اقلیت کو نشانہ بنا کر اُن کی بستیوں کو آگ لگائی جاتی رہی ۔ اسی طرح خواتین پر تشدد کے واقعات بھی ہوتے رہے۔ اظہارِ رائے کی آزادی میں بھی بھارت خاصا نیچے چلا گیا، کیوں کہ حکم ران بھارتیا جنتا پارٹی اور اس کے حواری زعفرانی گروہ جو ہندو انتہا پسندی کے علَم بردار ہیں اخبارات اور میڈیا کو زور زبردستی زیر کرنے کی کوشش میں ہیں۔ اس طرح بھارت میں اگلے انتخابات خاصے یک طرفہ ہوتے نظر آرہے ہیں۔

امریکہ

2023 میں امریکا ایک طرف تو اپنے عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کے لیے روس اور چین کے خلاف اپنی پرانی حکومت عملی پر عمل پیرا رہا، دوسری طرف اس نے اسرائیل کی سفاکیوں سے مکمل چشم پوشی اختیار کیے رکھی اور تمام بربریت کے باوجود اسرائیل کی نہ صرف کھل کر حمایت کی بل کہ اس کی مالی اور فوجی امداد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ اسی طرح برطانیہ اور آسٹریلیا کے ساتھ مل کر " AURUS" نام کا اتحاد بھی بنایا جو کہ چین کو روکنے کے لیے اقدامات اور آب دوزوں کے ایک بڑے بیڑے کو تعینات کرے گا تاکہ چین کی آبی نقل و حرکت پر نظر رکھی جاسکے اور وقتِ ضرورت چین کو دھمکانے کے لیے استعمال کی جا سکے۔ 

امریکا کی جنوبی سرحد پر میکسیکو کے ساتھ معاملات الجھے رہے ،کیوں کہ بڑی تعداد میں امریکا ہجرت کرنے کے خواہش مند لوگ جنوبی امریکا کے مختلف ممالک سے ہزاروں میل کے فاصلے طے کر کے سرحد پر جمع ہوجاتےاور مختلف راستوں اور طریقوں سے امریکا میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ گو کہ صدر بائیڈن نے سابق صدر ٹرمپ کی مہاجر مخالفت کی مذمت کی تھی لیکن اب وہ بھی شدید کارروائی کر رہے ہیں، تاکہ تارکینِ وطن کو امریکا آنے سے روکا جاسکے۔ 

امریکا نے 2023 میں مصنوعی ذہانت کے میدان میں خاصی ترقی کی اور اب آرٹی فیشل انٹیلی جنس یا IA کے ذریعے وہ کچھ ممکن ہے جو اس سے قبل ممکن نہیں تھا یعنی اب کمپیوٹر آپ کو ہر طرح کے مضامین، ناول، کہانیاں بل کہ شاعری تک کر کے دے سکتا ہے۔ اسی طرح ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کے لیے ایسی فلمیں بنائی جا سکتی ہیں بل کہ بنائی جارہی ہیں جن میں کسی بھی مرد یا عورت کی شکل استعمال کر کے انہیں جو چاہے وہ کرتا دکھایا جاسکتا ہے ۔ امریکا نے 2023 میں عالمی بینک کی سربراہی کے لیے ایک بھارتی نژاد سکھ اجے پال سنگھ بنگا کا انتخاب کیا۔ یاد رہے کہ آئی ایم ایف کے سربراہ کا انتخاب یورپی یونین جب کہ عالمی بینک کے سربراہ کا انتخاب امریکا کرتا ہے۔

2023 میں امریکا میں ایوانِ نمائندگان کے اسپیکر کا انتخاب بھی مسئلہ بنا رہا جب منصب پر موجود اسپیکر کو عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے ہٹا دیا گیا، پھر خاصی کوشش کے بعد نئے اسپیکر کا چناؤ عمل میں آیا۔

انڈونیشیا

انڈونیشیا آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا مسلم ملک ہے ۔ اس کی آبادی ستائیس کروڑ ہے یعنی پاکستان سے صرف دو کروڑ زیادہ ہے، تقریباً بارہ سو ارب کی معیشت ہے جب کہ پاکستان کی معیشت بمشکل تین ساڑھے تین کروڑ ڈالر کے گرد گھومتی ہے۔

2023 میں انڈونیشیا میں صدارتی انتخابات کا شور رہا جو فروری 2024 میں ہونے ہیں ۔ اس برس تین بڑے صدارتی امیدوار سامنے آئے ہیں جن میں وزیر دفاع سوبیانتو (SUBIANTO)، جکارتہ کے سابق گورنر باسویدان (BASWEDAN) اور وسطی جاوا کے سابق گورنر پرانووو (ORANONO) شامل ہیں۔ موجودہ صدر جوکو ویدودو (JOKO WIDODO) دو بار صدر رہنے کے بعد تیسری مرتبہ یہ انتخاب نہیں لڑ سکتے ۔ 2023 میں انڈونیشیا کی معاشی ترقی زرا سست رہی جس کی شرح پانچ فی صد سے ذرا زیادہ تھی۔ 2023 میں ووٹ کے لیے اہل افراد کی تعداد بیس کروڑ سے بڑھ گئی جو اگلے انتخاب میں ووٹ دیں گے ۔ 2023 کے اواخر میں انڈونیشیا اس لیے بھی خبروں میں رہا کہ غزہ میں انڈونیشیا کا بنایا ہوا ہسپتال اسرائیلی بم باری کا نشانہ بنا اور اسرائیلی فوج نے انڈونیشیا کے طبی عملے کو وہاں سے زبردستی بے دخل کر دیا تاکہ وہ زخمی فلسطینیوں کو طبی امداد نہ دے سکیں۔

بنگلہ دیش

2023 میں بنگلہ دیش مسلسل سیاسی بحران کا شکار رہا ،کیوں کہ وہاں کی وزیراعظم حسینہ واجد نے حزب مخالف کو مسلسل کچلنے کا عزم کیا ہوا تھا ۔ اس کے نتیجے میں معاشی زوال کے اثرات بھی نظر آنے لگے ہیں ۔ بنگلاديش میں بھی پاکستان کی طرح ایک محدود طبقے کی حکومت ہے ، اس کے خلاف بنگلاديش کی حزب مخالف نے تحریک شروع کر رکھی ہے ۔ 2023 میں بار بار ہڑتالیں اور جلسے جلوس ہوتے رہے جن کو حسینہ واجد کی عوامی لیگ کی حکومت نے سختی سے دبانے کی کوشش کی۔ 

ان سب کے نتیجے میں مہنگائی خاصی بڑھی۔ اب حزب مخالف مطالبہ کررہی ہے کہ نگراں حکومتوں کا نظام جو عوامی لیگ نے ختم کر دیا تھا دوبارہ بحال کیا جائے کیوں کہ عوامی لیگ کی حکومت کے تحت شفاف انتخابات ہونا ممکن نظر نہیں آرہے ۔ عوامی لیگ جو 2009 سے برسر اقتدار میں ہے اور 2014 اور 2018 کے انتخابات جیت چکی ہے اب 2024 میں بھی فتح حاصل کرنا چاہتی ہے۔ دھاندلی کے خدشات بڑھتے رہے ہیں اور حسینہ واجد دنیا کی سب سے طویل عرصے حکومت کرنے والی وزیراعظم بن چکی ہیں اب ان کو ہٹانا ناممکن نہیں مگر مشکل بہت ہے۔